"تحریک طالبان پاکستان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
م خودکار: خودکار درستی املا ← مکتب فکر، دیے، ئے، علما، جو، دہلوی، کی بجائے، اس ک\1، راجا، کے لیے، دہشت گرد
سطر 42:
*[[آپریشن ضرب عضب]]
}}
'''تحریک طالبان پاکستان''' یا کالعدم تحریک طالبان دیوبندی [[مکتب فکر]] سے تعلق رکھنے والےان مسلح گروہوں کا اکٹھ ہے جنہوں نے افغانستان پر امریکی حملے کے بعد دیوبندی مفتی نظام الدین شامزئی صاحب کے فتوے پر عمل کرتے ہوۓہوئے پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھاۓاٹھائے<ref name=":0">مفتی نظام الدین شامزئی  صاحب کا پاکستانی تاریخ کا رخ موڑنے والا فتویٰ حسب ذیل ہے:۔ أ‌.       تمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہو گیا ہے کیونکہ موجودہ صورت حال میں صرف افغانستان کے آس پاس کے مسلمان امارتِ اسلامی افغانستان کا دفاع نہیں کرسکتے ہیں اور یہودیوں اورامریکہ کا اصل ہدف امارتِ اسلامی افغانستان کو ختم کرنا ہے دارالاسلام کی حفاظت اس صورت میں تمام مسلمانوں کا شرعی فرض ہے۔ ب‌.     جو مسلمان چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو اور کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے وابستہ ہو وہ اگر اس صلیبی جنگ میں افغانستان کےمسلمانوں یا امارتِ اسلامی افغانستان کی اسلامی حکو مت کے خلاف استعمال ہوگا وہ مسلمان نہیں رہے گا۔ ت‌.     الله تعالی کے احکام کے خلاف کوئی بھی مسلمان حکمران اگر حکم دیں اور اپنے ماتحت لوگوں کو اسلامی حکومت ختم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہے ،تو ماتحت لوگوں کے لیے اس طرح کے غیر شرعی احکام مانناجائز نہیں ہے، بلکہ ان احکام کی خلاف ورزی ضروری ہوگی ۔ ث‌.    اسلامی ممالک کے جتنے حکمران اس صلیبی جنگ میں امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں اور اپنی زمین ،وسائل اور معلومات ان کو فراہم کر رہے ہیں، وہ مسلمانوں پر حکمرانی کے حق سے محروم ہو چکے ہیں، تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ ان حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کر دیں، چاہےاسکے لیے جو بھی طریقہ استعمال کیاجائے ۔ ج‌.      افغانستان کے مسلمان مجاہدین کے ساتھ جانی ومالی اور ہر قسم کی ممکن مدد مسلمانوں پر فرض ہے، لہذا جو مسلمان وہاں جا کر ان کےشانہ بشانہ لڑ سکتے ہیں وہ وہاں جا کر شرکت کر لیں اور جو مسلمان مالی تعاون کرسکتے ہیں وہ مالی تعاون فرمائیں الله تعالی مصیبت کی اس گھڑی میں مسلمانوں کاحامی و ناصر ہو۔ اس فتویٰ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کرکے دوسرے مسلمانوں تک پہنچائیں فقط و سلام مفتی نظام الدین شامزئی <nowiki>https://sadaehaqq.wordpress.com/2013/11/14/%D9%85%D9%81%D8%AA%DB%8C-%D8%B4%D8%A7%D9%85%D8%B2%D8%A6%DB%8C-%D8%B1%D8%AD%D9%85%DB%81-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D9%81%D8%AA%D9%88%DB%8C%D9%B0-%D8%AC%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D9%86%D8%A7/</nowiki></ref> ۔ان گروہوں کوہمیشہ دیوبندی مکتب فکر کے جید مفتیان کرام کی پشت پناہی حاصل رہی ہے - چنانچہ 2004 میں ان کے خلاف جب پاکستانی فوج نے آپریشن شروع کیا تو جامعہ حقانیہ [[اکوڑہ خٹک]] ، جامعہ اشرافیہ لاہور ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اوردیگر دیوبندی مکتب فکر کے مراکز کی طرف سے اس آپریشن کے خلاف شدید نوعیت کا فتویٰ جاری ہوا<ref>https://umarmedia.xyz/%D9%81%D8%AA%D8%A7%D9%88%DB%8C/</ref>-
ان میں اختلافات بھی موجود ہیں تاہم تحریک طالبان پاکستان کے راہنماوں نے
افغان طالبان کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے اور متعدد حلقوں کی اپیل کے باوجود [[ملا عمر]] نے انکی مذمت یا ان سے لاتعلقی کرنے سے انکار کر دیاہے- ان کی کاروائیوں کا دائرہ کار پاکستان سے لے کر افعانستان تک پھیلا ہوا ہے۔ پاکستانی خفیہ اداروں کی ایک رپورٹ کے مطابق ان کو 34 تنظیموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
سطر 48:
 
== طالبان کا تاریخی پس منظر ==
وادئ سندھ میں مذہبی شدت پسندی کے اسباب کو اس کے ماضی سے کاٹ کر نہیں سمجھا جا سکتا -وادئ سندھ میں دہشتگردیدہشت گردی کے ارتقا کو مختلف مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے-
 
=== سید احمد بریلوی سے دار العلوم دیوبند تک ===
وادئ سندھ میں مذہب کی شدت پسندانہ تفسیر کی بنیاد پر ریاست کے قیام کی سب سے پہلی کوشش سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی نے کی <ref>ڈاکٹر مبارک علی، "المیہ تاریخ، حصہ اول، باب 11جہاد تحریک" تاریخ پبلیکیشنز لاہور 2012</ref>۔ یہ دونوں  حج کے  دوران [[محمد بن عبدالوہاب]] کی تحریک توحید والعدل ،جوکہ،جو وہابیت کے نام سے معروف تھی ، سے متاثر ہوئے  اور حجاز کے سفر سے واپس آتے ہوئے شیخ محمد بن عبدالوہاب کے دروس کی کتاب،  <nowiki>''کتاب التوحید'' ،ساتھ لیکر آئے ۔اس کتاب کے تصور خدا کو ان صاحبان  نے اپنی کتابوں  ''تقویۃ الایمان  '' اور''صراط مستقیم''</nowiki>   میں پیش کیا ۔  1818ء سے 1821ء کے دوران سید احمد بریلوی نے شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کے عقائد کی تبدیلی کی مہم چلائی، وہاں زیادہ کامیابی نہ ملی تو 1826ء میں وہ سخت گیر مذہبی حکومت بنانے کیلئےکے لیے پختون علاقوں میں آ گئے۔ان دو حضرات کا کردار اس خطے کی مذہبی تاریخ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جس کا اثر آج بھی بھارت کے صوبوں اترپردیش،اور ہریانہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پختون اور مہاجر اکثریت والے علاقوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ انگریزوں نے مسلمانوں میں پائی جانے والی محرومیوں کو سکھوں کے خلاف استعمال کر نے کے لیے سید احمد بریلوی اورشاہ اسماعیل دہلوی کو اپنے زیر انتظام علاقوں میں لشکر سازی کی مکمل آزادی دی <ref>شاہ اسماعیل دہلوی کے الفاظ میں: "انگریزوں سے  جہاد کرنا کسی طرح واجب نہیں ایک تو ان کی رعیت ہیں دوسرے ہمارے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ ذرا بھی دست اندازی نہیں کرتے۔ ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح کی آزادی ہے بلکہ ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں"۔
 
مرزا حیرت دہلوی ،"حیات طیبہ"‘ مطبوعہ مکتبتہ الاسلام‘ ص 260</ref>۔ 1831 ء میں سید احمد بریلوی اور ان کے ساتھیوں کی طالبانی  حکومت سے اکتائے ہوئے مسلمانوں اور سکھوں کے اشتراک عمل کے نتیجے میں بالاکوٹ کے مقام پر ان کے قتل<ref>مقالات سرسید حصہ نہم 145-146</ref> کے بعد ان حضرات کی تحریک کا دوبارہ ظہور 30 مئی 1867ء میں [[دار العلوم دیوبند]] کے قیام کی شکل میں ہوا۔دیوبندی مکتبہمکتب فکر میں شاہ اسماعیل دھلویدہلوی اور سید احمد بریلوی کے خیالات کو اپنانے اور ان کی طرفداری کرنے کا رجحان شروع سے موجود تھا ۔ ان  حضرات کے نظریات کے ساتھ وابستگی  دار العلوم دیوبند کے بانی مولانا  رشید احمد گنگوہی اور مولانا قاسم نانوتوی کی تحریروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔بعد میں دار العلوم دیوبند میں مولانا عبید الله سندھی ،مفتی محمود حسن اور مولانا [[حسین احمد مدنی]] جیسے نسبتا اعتدال پسند علماءعلما پیدا ہوۓہوئے مگر انکا برداشت اور صلح آمیز رویہ صرف دیگر مذاہب کیلئےکے لیے تھا اور مسلمانوں کے باقی فرقوں کیلئےکے لیے انکا رویہ اس مکتب فکر کے بانیوں جیسا ہی رہا-
 
=== امیر عبد الرحمن خان کی ریاست ===
سطر 59:
 
=== تحریک ریشمی رومال ===
یہاں سن  1915 سے 1920 تک چلنے والی تحریک ریشمی رومال کا ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ یہ تحریک دیوبندی مکتب فکرکے کام کرنے کے طریقے کی بخوبی عکاسی کرتی ہے۔ سید احمد اور شاہ اسماعیل دہلوی کی طرز پر ایک پسماندہ ریاست کے قیام کی یہ تحریک اس وقت شروع کی گئی جب [[جنگ عظیم]] اول میں انگریز کمزور پڑتے دکھائی دئیے۔دیے۔ دیوبندی علماءعلما نے عوام سے رابطہ کرنے اور سیاسی عمل کےکی بجاۓبجائے افغانستان میں امیر عبد الرحمن کے بیٹے امیر حبیب الله خان کو ساتھ ملا کر دیوبندی قبائل کے ایک لشکر کے ذریعے  حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔  مولانا محمود حسن نے ایک نو مسلم  مولانا عبید الله سندھی کو افغانستان بھیجا۔ آپس میں رابطہ رکھنے کیلئےکے لیے ریشمی رومال پر کڑھائی کر کے پیغامات لکھے جاتے اور قاصد وہ ریشمی رومال منزل مقصود تک لے جاتے۔  دیوبندی علماءعلما کی توقعات کے برعکس امیر حبیب الله خان اپنے باپ سے بہت مختلف تھا۔ وہ فسطائی سوچ کو حقیقت کے منافی اور  معاشرے کیلئےکے لیے تباہ کن  سمجھتا تھا۔ اس نے ہزارہ قبائل کی نسل کشی کا سلسلہ بھی روک دیا تھا۔  وہ جانتا تھا کہ یہ علماءعلما مکڑی کی طرح خیالی جالے تو بن سکتے ہیں مگر انگریزوں کی سائنسی علوم اورقانون کی نظر میں شہریوں کی  برابری کے اصول پر قائم جدید ریاست کا سامنا نہیں کر سکتے۔  اس تحریک کو پہلی ناکامی تو اس وقت ہوئی جب امیر حبیب الله خان نے مولانا سندھی سے مطالبہ کیا  کہ وہ ہندوؤں اور سکھوں  کے ساتھ مل  کر چلیں، چنانچہ مولانا سندھی ،  راجہراجا مہندر سنگھ   کی تحریک میں شامل ہو گئے  اور ہندوستان میں کانگریس سے بھی  رابطہ قائم کیا۔  افغانستان میں قیام اور دوسرے مذاھب کے سیاسی کارکنوں  سے ارتباط اور  بعد میں روس کے سفر اور کمیونزم کے مطالعے کی وجہ سے مولانا عبید الله سندھی کی سوچ میں بہت تبدیلی آئ اور وہ علماءعلما دیوبند کے روایتی فرقہ پرستانہ اور تنگ نظر طرز فکر سے دور ہو گئے۔ ادھر پختون عوام  میں ابھی سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی ریاست کی یاد تازہ تھی۔ انہوں نے دوبارہ اسلام کے نام پر بیوقوف بننے سے انکار کر دیا اور ان علماءعلما کو [[افرادی قوت]] کی قلت کا سامنا ہونے لگا۔  پختون عوام تحریک ریشمی رومال کےکی بجاۓبجائے خان عبد الغفار خان کی تحریک [[خدائی خدمتگار]] میں شامل ہو رہے تھے۔ شیخ چلی کی داستان سے شباہت رکھنے والی تحریک  ریشمی رومال کا خاتمہ جلد ہی انگریزوں کے ہاتھوں مولانا محمود حسن اور دیگر کی گرفتاری کی شکل میں ہو گیا۔
 
=== پاکستان کا رخ بدلنے کی کوشش ===
سطر 67:
 
=== جہاد کشمیر ===
سیداحمد بریلوی کے فکری ورثاء یعنی دیوبندی تنظیموں کو پاکستانی قیادت کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کرنے اور پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں ایک غیر سرکاری مسلح قوت کے طور پر جگہ بنانے کا موقع 1948ءکے کشمیر جہاد کے دوران ملا - البتہ پاکستان کو اسکیاس کی بھاری قیمت چکانا پڑی کیونکہ جن دیوبندی قبائل کے لشکر پر انحصار کر کے کشمیر پر حملہ کیا گیا انہوں نے پیشہ وارانہ فوج کی طرح پیش قدمی کےکی بجاۓبجائے بارہ مولہ کے مقام پر ہندوؤں کی لڑکیوں کو لونڈی بنانا اور ان کے گھر کے سامان کو لوٹنا شروع کیا -اس دوران ہندوستان کو سرینگر میں پیراشوٹ کی مدد سے فوج اتارنے اور ائیرپورٹ پر قبضہ کرنے کا موقع مل گیا جس نے ان قبائل کو پیچھے دھکیل کر وادئ سندھ کے دریاؤں کی شہ رگ پرقبضہ کر لیا - دیوبندی قبائل کو جنگی مقاصد کیلئےکے لیے استعمال کرنے کا فطری نتیجہ پاکستان میں شیعہ کشی کی پہلی واردات، یعنی 1950 ء میں وادئ کرم پر دیوبندی قبائل کے حملے کی صورت میں نکلا ، جو 1948ء میں جہاد کشمیر کے نام پر اسلحہ اور [[مال غنیمت]] سمیٹ کر طاقتور ہو گئے تھے۔ 1956ء میں وادئ کرم دوبارہ انہی قبائل کے حملوں کا نشانہ بنی<ref name=":1" />۔اس کے بعد پاکستان میں فرقہ وارنہ قتل و غارت کا سلسلہ چل نکلا-پاکستان کی ابتدائی تاریخ میں 1963ء کا سال سب سے زیادہ خونریز ثابت ہوا۔3 جون 1963ء کو بھاٹی دروازہ لاہور میں عزاداری کے جلوس پر  پتھروں اور چاقوؤں سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دو عزادار قتل اور سو کے قریب زخمی ہوئے۔ نارووال، چنیوٹ اور کوئٹہ میں بھی عزاداروں پر حملے ہوئے ۔  اس سال دہشت گردی کی بدترین واردات سندھ کے ضلعے خیر پور کے گاؤں ٹھیری میں پیش آئ جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 120 عزاداروں کو کلہاڑیوں اور تلواروں کی مدد سے ذبح کیا گیا<ref>http://sharaabtoon.blogspot.com/2013/06/the-most-unfortunate-incident-theri.html</ref>۔
 
=== پشتونستان تحریک ===
افغانستان نے 1973ء میں پشتونستان کے نام پر پاکستان  کے پختونون کو استعمال کر کے ملک توڑنے کی سازش بنائی  جس کے جواب میں پاکستان نے افغان حکومت کے مخالف اخوان کو مدد دینا شروع کی تھی۔ اس طرح "افغان  مجاہدین"  کے ساتھ پاکستانی حکومت کے تعلقات 1974 ء میں ہی استوار ہو گئے۔ پاکستان کے پختونوں نے انگریزوں کے دور میں ہی وادئ سندھ کو سنگلاخ افغانستان پر ترجیح دی تھی اور پنجاب ،سندھ اور بلوچستان  کے ساتھ اپنے معاشی اور تاریخی تعلق کی وجہ سے ہی قیام پاکستان کے بعد ہونے والے ریفرنڈم میں پاکستان سے الحاق کیا تھا۔اسی گہرے تعلق کی بدولت پاکستان کے پختون عوام میں افغانستان  کی حمایت سے چلنے والی اس تحریک کو خاطر خواہ حمایت نہ مل سکی ۔جمعہ خان صوفی نے اپنی کتاب "'''فریب ناتمام'''" میں ان سب واقعات  اور افغانستان کی پسماندگی کی تفصیل لکھی ہے۔
 
=== افغانستان میں عدم استحکام اورپاکستان میں دہشتگردیدہشت گردی میں شدت ===
یوں تو قیام پاکستان کے بعد ہی دیوبندی مسلک کی تنظیموں نے پاکستان میں دہشتگردیدہشت گردی کا آغاز کر دیا تھا<ref name=":1" /> لیکن ان واقعات میں شدت اس وقت آئ جب27 اپریل 1978ء کو افغانستان میں انقلاب ثور آیا اور اس سے اگلے سال  کمیونسٹ حکومت نے روس کو مداخلت کی دعوت دی۔ اس اقدام کے نتیجے میں افغانستان غیر مستحکم ہو گیا۔ جب کوئی ریاست ٹوٹتی ہے تو وہ ڈاکووں اور دہشت گردوں کے لیے جنت بن جاتی ہے۔ پختون قبائل میں پہلے ہی امیر عبد الرحمن خان کے زمانے سے شیعہ اور بریلوی مخالف جذبات پائے جاتے تھے۔  اگلے سال فروری 1979ء میں ایران میں انقلاب آیا جس نے شیعہ مسلک کو ایک مسلمان مسلک کے طور پر متعارف کرایا۔ ایران کی مذہبی قیادت نےانقلاب کی کامیابی کے بعد سب سے پہلے ایران سے باہر جس شخصیت سے رابطہ کیا وہ جماعت اسلامی کے علیل رہنما مولانا مودودی تھے <ref>20جنوری 1979ء کو آیت الله خمینی کے دو نمائندوں نے مولانا مودودی سے ملاقات کی۔ وہ ان کا خصوصی خط لے کر آئے تھے۔ جناب رفیق ڈوگر (صحافی) نے ملاقات سے پہلے اور ملاقات کی تمام تر تفصیلات اپنی کتاب ’’مولانا مودودی سے ملاقاتیں" میں درج کی ہیں۔ ارشاد احمد حقانی نے بھی مولانا مودودی اور آیت الله خمینی کے روابط کا ذکر کیا ہے۔</ref>۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد پاکستان کا انقلابی حکومت کو سب سے پہلے تسلیم کرنا بھی مولانا مودودی کی کوشش سےممکن ہوا- پاکستان میں جماعت اسلامی کی طرف سے کھلے عام آیت الله خمینی کی حمایت نے بعض دیوبندی حلقوں میں تشویش کی لہر پیدا کی۔ افغانستان میں جاری جنگ کے ضمن میں جنگی تربیت، مالی وسائل اور پناہ گاہیں ملنے کے نتیجے میں پاکستان میں شیعہ ثقافت کو ختم کرنے کی سوچ رکھنے والی  تنظیم [[اہل سنت]] اب [[سپاہ صحابہ]] کی شکل میں زیادہ متحرک ہو گئی۔ گزشتہ سو سال میں اردو زبان میں لکھا گیا نفرت انگیز لٹریچر کافی مقدار میں پھیل چکا تھا۔ تحریر و تقریر کے ذریعے شیعہ مسلک کو کافر قرار دینے کی مہم اب جہاد افغانستان کے ضمن میں ملنے والے فنڈز کی بدولت زیادہ تیز ہو گئی اور اس کے ساتھ ساتھ شیعہ کشی بھی بڑھنے لگی۔ پاکستان کے کونے کونے میں دیوبندی مدارس کھلنے لگے۔ ایک اندازے کے مطابق  آج کل ان مدارس میں طلبہ کی تعداد پندرہ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اسی زمانے میں پاکستان کے در و دیوار پر کافر کافر شیعہ کافر کے نعرے درج ہو گئے۔جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں کوئٹہ، کراچی، پاراچنار اور گلگت  میں شیعوں پر بڑے    حملے ہوئے۔1981 ء  میں کرم ایجنسی کے سارے  دیوبندی قبائل نے افغان مہاجرین کیساتھ ملکر  پاراچنار کے راستے پر موجود قصبہ "صدہ "میں شیعہ آبادی پر ہلہ بول دیا  اور شیعوں کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا جو آج تک آباد نہیں ہو سکے۔ کیونکہ اس وقت تک انگریز وں کے زمانے  میں تشکیل دی گئی  کرم ملیشیا وادئ کرم میں موجودتھی  لہذا جنگ صدہ تک ہی محدود رہی اور ایجنسی کے دیگر علاقوں تک پھیلنے  نہ دی گئی۔1983 ء   میں کراچی میں شیعہ آبادیوں پر حملے ہوئے جن میں ساٹھ افراد شہید کر دیے گئے۔5 جولائی 1985ء کو کوئٹہ میں تکفیری دہشت گردوں نے اپنے دو پولیس والے سہولت کاروں کے ہمراہ پولیس کی وردیاں پہن کر  شیعوں کے احتجاجی جلوس پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 25 شیعہ قتل ہو ئے۔ البتہ چونکہ یہ دو بدو مقابلے کی کوشش تھی، لہذا  11 دہشت گرد جوابی کارروائی میں ہلاک ہو گئے۔ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق ہلاک شدگان میں سے دو کی شناخت پولیس اہلکاروں کے طور پر ہوئی ، باقی 9 جعلی وردیاں پہن کر آ ئے تھے۔ 24 جولائی 1987 ء کوپاراچنار میں شیعہ آبادیوں پر [[افغان مجاہدین]] کا حملہ شیعوں کی بھرپور تیاری کی وجہ سے ناکام ہو گیا۔ اسی کی دہائی میں پاکستان بھر میں سات سو کے لگ بھگ شیعہ قتل ہوئے، جن میں سے 400کے قریب لوگ 1988ء میں گلگت کی غیر مسلح شیعہ آبادیوں پر حملے کے نتیجے میں قتل ہوئے۔
 
== تحریک طالبان کے ابتدائی سال ==