"دار العلوم دیوبند" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 64:
== علی گڑھ سے اختلاف ==
 
دیوبند کے بیشتر علما کو [[علی گڑھ]] کے نظام تعلیم اور سیاسی فلسفے سے اختلاف رہا ہے کیونکہ علی گڑھ مغربی علوم اور انگریز۔ مسلم اتحاد کا علمبرار [[مکتب فکر]] تھا۔ ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ علمائے دیوبند کا اختلاف صرف طرز تعلیم سے تھا نا کہ جدید تعلیم سے۔ علمائے دیوبند جدید تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے انہوں نے علی گڑھ کے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو دور نہیں کیا بلکہ ان کی طرف دستِ شفقت بڑھاکر انھیں اپنا ترجمان اور اپنی سوچ وفکر اورامنگوں کا وارث بنالیا؛ شیخ الہند رحمہ اللہ عمر کے آخری حصہ میں آپ انتہائی ضعف وبیماری کے باوجود [[علی گڑھ مسلم یونیورسٹی]] گئے؛ تاکہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنے درد وفکر میں شریک کرکے انھیں انگریز کے خلاف کھڑا کریں۔ آپ کے ضعف ونقاہت کا یہ عالم تھا کہ آپ دیوبند سے پالکی میں لیٹ کر روانہ ہوئے، نقاہت کی وجہ سے خطبہٴ صدارت نہیں پڑھ سکتے تھے جو مولانا شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ نے پڑھا جس میں آپ نے فرمایا:میں نے اس پیرانہ سالی اور علالت ونقاہت کی حالت میں آپ کی اس دعوت پر؛ اس لیے لبیک کہا کہ اپنی ایک گمشدہ متاع کو یہاں پانے کا امیدوار ہوں۔“ پھر فرمایا: ’اے نونہالانِ وطن! جب میں نے دیکھا کہ میرے اس درد کے غم خوار جس میں میری ہڈیاں پگھلی جا رہی ہیں، مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور اسکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں تو میں نے اور میرے چند احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا اور اس طرح ہم نے ہندوستان کے دو تاریخی مقاموں دیوبند اور علی گڑھ کا رشتہ جوڑا۔۔ اسی خطبہٴ صدارت میں آپ نے فرمایا:آپ میں جو حضرات محقق اور باخبر ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ میرے بزرگوں نے کسی بھی وقت کسی اجنبی زبان سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم وفنون حاصل کرنے پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا! ہاں بے شک یہ کہا کہ انگریزی تعلیم کا آخری اثر یہی ہے جو عموماً دیکھا گیا کہ لوگ نصرانیت (مغربیت) کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں یا ملحدانہ گستاخیوں سے اپنے مذہب یا مذہب والوں کا مذاق اڑاتے یا حکومتِ وقت کی پرستش کرنے لگتے ہیں، ایسی تعلیم پانے سے ایک مسلمان کے لیے جاہل رہنا اچھا ہے۔
آپ کے بے قرار دل سے نکلی صدا نے جدید طبقہ کے دل کو مسخر کر لیا؛ یہاں سے [[مولانا محمد علی جوہر]] جیسے ہیرے نکلے، چنانچہ جب آپ نے ترکِ موالات یعنی برطانوی حکومت سے ہر طرح کا تعاون ختم کرنے کی اپیل کی تو یونیورسٹی کے بہت سے طلبہ نے یونیورسٹی سے رشتہ توڑ لیا۔ یہ واقعہ 29/اکتوبر 1920ء کا ہے، اس طرح دہلی میں [[جامعہ ملیہ اسلامیہ]] مسلمانوں کی دوسری بڑی یونیورسٹی شیخ الہند کی بدولت وجود میں آئی۔ غرض شیخ الہند نے مالٹا سے واپسی پر برصغیر کی ملت اسلامیہ کو دو بنیادی پالیسیاں عطا کیں (1) ڈائیلاگ (2) جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو قریب کرکے انھیں اپنا ترجمان بنانا، اگر ہم ڈائیلاگ کی راہ پر ہوتے تو آج عالم گیریت کے دور میں اقوامِ عالم سے ڈائیلاگ کے ذریعہ قرآن کے مطابق انسانی مسائل کا حل پیش کر رہے ہوتے، اسی طرح جدید تعلیم یافتہ طبقہ عالمی حالات کو جتنا سمجھتا ہے قدیم طبقہ نہیں اور جدید طبقہ کے پاس وہ زبان واسلوب ہے جسے اقوام عالم سمجھتی ہیں، صرف اس کے پاس قرآن وسنت کی صحیح رہنمائی نہیں ہے، اگر یہ دونوں چیزیں جمع ہوجائیں تو ملتِ اسلامیہ کی کشتی موجودہ حالات کے بھنور سے نکل سکتی ہے،
 
سطر 71:
 
== تحریک ریشمی رومال ==
یہاں سن  1915 سے 1920 تک چلنے والی تحریک ریشمی رومال کا ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ یہ تحریک دیوبندی مکتب فکرکے کام کرنے کے طریقے کی بخوبی عکاسی کرتی ہے۔ سید احمد اور شاہ اسماعیل دہلوی کی طرز پر ایک پسماندہ ریاست کے قیام کی یہ تحریک اس وقت شروع کی گئی جب [[جنگ عظیم]] اول میں انگریز کمزور پڑتے دکھائی دیے۔ دیوبندی علما نے عوام سے رابطہ کرنے اور سیاسی عمل کی بجائے افغانستان میں امیر عبد الرحمن کے بیٹے [[امیر حبیب اللہ خان]] کو ساتھ ملا کر دیوبندی قبائل کے ایک لشکر کے ذریعے  حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔  مولانا محمود حسن نے ایک نو مسلم  مولانا عبید اللہ سندھی کو افغانستان بھیجا۔ آپس میں رابطہ رکھنے کے لیے ریشمی رومال پر کڑھائی کر کے پیغامات لکھے جاتے اور قاصد وہ ریشمی رومال منزل مقصود تک لے جاتے۔  دیوبندی علما کی توقعات کے برعکس امیر [[حبیب اللہ خان]] اپنے باپ سے بہت مختلف تھا۔ وہ فسطائی سوچ کو حقیقت کے منافی اور  معاشرے کے لیے تباہ کن  سمجھتا تھا۔ اس نے ہزارہ قبائل کی نسل کشی کا سلسلہ بھی روک دیا تھا۔  وہ جانتا تھا کہ یہ علما انگریزوں کی سائنسی علوم اورقانون کی نظر میں شہریوں کی  برابری کے اصول پر قائم جدید ریاست کا سامنا نہیں کر سکتے۔  اس تحریک کو پہلی ناکامی تو اس وقت ہوئی جب امیر حبیب اللہ خان نے مولانا سندھی سے مطالبہ کیا  کہ وہ ہندوؤں اور سکھوں  کے ساتھ مل  کر چلیں، چنانچہ مولانا سندھی ،  راجا مہندر سنگھ   کی تحریک میں شامل ہو گئے  اور ہندوستان میں کانگریس سے بھی  رابطہ قائم کیا۔  افغانستان میں قیام اور دوسرے مذاھب کے سیاسی کارکنوں  سے ارتباط اور  بعد میں روس کے سفر اور کمیونزم کے مطالعے کی وجہ سے مولانا عبید اللہ سندھی کی سوچ میں بہت تبدیلی آئ اور وہ علما دیوبند کے روایتی فرقہ پرستانہ اور تنگ نظر طرز فکر سے دور ہو گئے۔ ادھر پختون عوام  میں ابھی سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی ریاست کی یاد تازہ تھی۔ انہوں نے دوبارہ اسلام کے نام پر بیوقوف بننے سے انکار کر دیا اور ان علما کو [[افرادی قوت]] کی قلت کا سامنا ہونے لگا۔  پختون عوام تحریک ریشمی رومال کی بجائے خان عبد الغفار خان کی تحریک [[خدائی خدمتگار]] میں شامل ہو رہے تھے۔ شیخ چلی کی داستان سے شباہت رکھنے والی تحریک  ریشمی رومال کا خاتمہ جلد ہی انگریزوں کے ہاتھوں مولانا محمود حسن اور دیگر کی گرفتاری کی شکل میں ہو گیا۔
 
== دیوبند اور کانگریس ==
سطر 82:
 
== تبلیغی جماعت ==
مولانا محمد الیاس کاندھلوی کی قائم کردہ ایک تبلیغی تحریک ہے جو [[1926ء]] میں مسیحی مشنریوں سے متاثر ہو کر قائم کی گئی۔ یہ [[برصغیر|برصغیر پاک و ہند]]<nowiki/>کے علاوہ دیگر کئی ممالک میں بھی سرگرم ہے۔کسی بھی جگہ کے دورے میں اپنے قیام کے دوران یہ افراد گروہ کی شکل میں علاقے کا دورہ کرتے اور عام افراد خصوصاً دکان دار حضرات کو دین سیکھنے کی دعوت دیتے ہوئے مسجد میں مدعو کیا کرتے ہیں۔ اس عمل کو جماعت کی اصطلاح میں 'گشت' کہا جاتا ہے۔اس تحریک نے بریلوی مکتب فکر کی بڑی تعداد کو دیوبندی مکتب فکر کی طرف راغب کیا ہے۔حال ہی میں [[تحریک طالبان پاکستان]] نے اس تحریک کے جاسوسی اور اسلحے کی منتقلی کے نیٹ ورک کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا جسکی وجہ سے پاکستانی فوج کے مراکز میں [[تبلیغی جماعت]] کی سرگرمیوں پرپابندی لگا دی گئی۔
 
== دیوبند اور علامہ اقبال ==
سطر 128:
== دیوبند اور قرارداد پاکستان ==
 
آل انڈیا نیشنل کانگریس کے ہمنوا علمائے دیوبند کی اکثریت نے کانگریسی مسلمانوں اور مسلم نیشنلسٹ پارٹی کی طرح [[قرارداد پاکستان]] کی حمایت نہیں کی۔ ان کا خیال تھا کہ [[تقسیم ہند]] سے ہندوستان کی فطرت وحدت ختم ہو جائے گی۔ وہ ہندوستان کے اس روایتی معاشرے جو انگریز کی آمد سے قبل موجود تھا کو بحال کرنے کے حق میں تھے ان کا موقف تھا کہ ہندوستان سے انگریز کے جانے کے بعد بھی ہندو اور مسلمان دونوں ایک ہی ملک میں موجود اور آباد رہ سکتے تھے۔ حسین احمد مدنی اور مدرسہ دیوبند سے فارغ التحصیل اور دیوبند کے دوسرے بڑے علما کی اکثریت نے قرارداد پاکستان کی مخالفت کی۔ صرف اشرف علی تھانوی جو 1944ء میں وفات پا گئے اور شبیر احمد عثمانی جنہوں نے 1946ء میں [[تحریک پاکستان]] کی حمایت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کے متوازی سیاسی جماعت "جمیعت علماء اسلام" قائم کر کے قائد اعظم کے جدید ریاست کے تصور کے بجاۓ پاکستان کو [[سید احمد شہید]] اور شاہ اسماعیل دہلوی کی مذہبی ریاست بنانے کی کوشش شروع کی۔
 
== دیوبند اور قائد اعظم ==
 
جنگ عظیم دوم  کی وجہ سے کمزور ہونے والے انگریزوں کے ہندوستان سے جانے  اور   مسلم لیگ کی تحریک کے نتیجے میں  ہندوستان کے شمال مغرب  میں ایک مسلمان ریاست کے ممکنہ قیام کی آہٹ پا کر علما دیوبند میں سے کچھ نے اس وجہ سے قیام پاکستان کی مخالفت کی کہ اس تحریک کی [[اعلیٰ تعلیم]] یافتہ قیادت اور جدید ریاست کے قیام سے اختلاف رکھتے تھے۔ البتہ کچھ دیگر سخت گیر علما نے قیام پاکستان کو ناگزیر سمجھتے ہوئے وادی سندھ  کی طرف ہجرت  شروع کی اور دوبارہ سے   سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی  طرزکی ریاست کے قیام کی کوششیں شروع کر دیں۔ قائد اعظم لکھنؤ تشریف لے گئے تو کسی نے اعتراض کیا کہ علما ایک مغرب زدہ آزاد خیال شخص کے پیچھے کیوں چل رہے ہیں؟ مولانا شبیر احمد عثمانی نے چالاکی سے جواب دیا ’ چند سال پہلے میں حج کے لیے بمبئی سے روانہ ہوا۔ جہازایک ہندو کمپنی کا تھا، جہاز کا کپتان انگریز تھا اور جہاز کا دیگر عملہ ہندو، یہودی اور عیسائی افراد پر مشتمل تھا۔ میں نے سوچا کہ اس مقدس سفر کے یہ وسائل ہیں؟ جب عرب کا ساحل قریب آیا ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار ایک عرب جہاز کی طرف آیا۔ اس (عرب) نے جہاز کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کو اپنی رہنمائی میں سمندری پہاڑیوں، اتھلی آبی گذرگاہوں سے بچاتے ہوئے ساحل پر لنگر انداز کر دیا۔ بالکل ہم یہی کر رہے ہیں۔ ابھی تحریک جاری ہے، جدوجہد کا دور ہے، اس وقت جس قیادت کی ضرورت ہے وہ قائد اعظم میں موجود ہے۔ منزل تک پہنچانے کے لیے ان سے بہتر کوئی متبادل قیادت نہیں۔ منزل کے قریب ہم اپنا فرض ادا کریں گے<ref>عبید الرحمن، ’یاد ہے سب ذرا ذرا ‘، صفحہ 49، طبع کراچی</ref>۔ 1944ء میں لاہور کے نواحی قصبے امرتسر میں "تنظیم اہل سنت"  کے نام سے ایک شیعہ مخالف دیوبندی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 26اکتوبر 1946ءکو مولانا [[شبیر احمد]] عثمانی نے جمعیت علمائے اسلام کے نام سے تیسری دیوبندی جماعت قائم کی جو مسلم لیگ کے متوازی [[سیاسی جماعت]] تھی۔یہ اس بات کا واضح اظہار تھا کہ دیوبندی علماء مسلم لیگ اور قائد اعظم کے تصور پاکستان سے اختلاف رکھتے تھے۔ جب قائد اعظم نے 11 اگست 1947ء کی تقریر میں ریاست کی نظر میں سب شہریوں کوبلا تفریق مذہب مساوی قرار دیا تو 1 ستمبر 1947ء کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے اخبارات میں ایک بیان جاری کیا جس کا ایک ایک لفظ قائد اعظم کی اس تقریر کی مخالفت پر مبنی تھا<ref>میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ قائد اعظم کی یہ فتح مبین (قیام پاکستان) مسلمانوں کے ضبط و نظم کی مرہوں احسان ہے۔ مسلمانوں کی افتاد طبع مذہبی واقع ہوئی ہے اور دو قوموں کے نظریے کی بنیاد بھی مذہب ہے۔ اگر علمائے دین اس میں نہ آتے اور تحریک کو مذہبی رنگ نہ دیتے تو قائد اعظم یا کوئی اور لیڈر خواہ وہ کیسی قابلیت و تدبر کا مالک ہی کیوں نہ ہوتا یا سیاسی جماعت مسلم لیگ مسلمانوں کے خون میں حدت پیدا نہیں کر سکتی تھی۔ تاہم علمائے دین اور مسلمان لیڈروں کی مشترکہ جہد و سعی سے مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور ایک نصب العین پر متفق ہو گئے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تمام مساعی پاکستان کے دستور اساسی کی ترتیب پر صرف کریں اور اسلام کے عالمگیر اور فطری اصولوں کو سامنے رکھیں کیونکہ موجودہ مرض کا یہی ایک علاج ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو مغربی جمہوریت اپنی تمام برائیوں کے ساتھ چھا جائے گی اور اسلام کی بین الاقوامیت کی جگہ تباہ کن قوم پرستی چھا جائے گی" مولانا شبیر احمد عثمانی، 1 ستمبر 1947ء</ref>۔ پاکستان کے قیام سے پہلے ہی دیوبندی علما نے شیعوں کی نماز جنازہ پڑھنے کو حرام قرار دے رکھا تھا اور مولانا شبیر احمد عثمانی بھی شیعوں کے لیے یہی سوچ رکھتے تھے<ref>http://www.farooqia.com/ur/lib/1434/11/p40.php</ref>- لہٰذا قائد اعظم کی پہلی نماز جنازہ گورنر ہاؤس میں ان کے اپنے مسلک کے مطابق پڑھی گئی<ref>آپ کا پہلا جنازہ گورنر ہاؤس میں شیعہ طریقے پر ہوا، آپ کیجائداد بھی محترمہ فاطمہ جناح کو شیعہ طریقے پر منتقل کی گئی، تفصیل اس کتاب میں: Khalid Ahmed, "Sectarian War: Pakistan's Sunni-Shia Violence and its links to the Middle East"، Oxford University Press, 2011.</ref> مگر جب عوام میں نماز جنازہ پڑھانے کی باری آئ تو حکومت نے مولانا شبیر احمد عثمانی کو طلب کیا تاکہ بعد میں جنازہ پڑھنے والوں کے خلاف کوئی فتنہ کھڑا نہ ہوسکے۔ اسکے باوجود "فتاویٰ مفتی محمود" میں شیعہ حضرات کا جنازہ نہ پڑھنے کے فتووں ذیل میں قائد اعظم کے شیعہ ہونے کی وجہ سے علامہ شبیر احمد عثمانی کی طرف سے ان کا جنازہ پڑھنے کو گناہ قرار دیا گیا ہے<ref>فتاویٰ مفتی محمود، جلد سوم، کتاب الجنائز، صفحہ 67</ref>۔ جب علامہ شبیر احمد عثمانی سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی تو انہوں نے اپنے فتووں سے رجوع کرنے کی بجائے ایک خواب سنا کر سوال کو ٹال دیا<ref>ایک روایت کے مطابق ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ”قائد اعظم کا جب انتقال ہوا تو میں نے رات رسول اکرم ﷺ کی زیارت کی۔ رسول قائد اعظم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں کہ یہ میرا مجاہد ہے۔“</ref>۔ دوسری طرف دیوبندی جماعت " تنظیم اہلسنت" سے تعلق رکھنے والے علما مولانا نور الحسن بخاری، مولانا دوست محمد قریشی، مولانا عبد الستارتونسوی دیوبندی وغیرہ نے پاکستان بھر میں شیعہ مخالف جلسے کیے اور لوگوں کو فسادات کے لیے اکسایا۔ لہٰذا قیام پاکستان سے بعد  ہی شیعوں پر قاتلانہ حملے شروع ہو گئے<ref>Andreas Rieck, "The Shias of Pakistan: An Assertive and Beleaguered Minority"، Oxford University Press, (2015)۔</ref>۔
 
ظاہر ہے کہ قائد اعظم کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی علامہ اقبال کی مانند ان کی مذہبی تربیت ہوئی تھی۔ وہ ایک کھرے اور سچے مسلمان تھے اور اسلام کی تعلیمات میں یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے طور پر اسلامی نظام، سیرت نبوی اور قرآن حکیم کا گہرا مطالعہ کیا تھا جس کے حوالے سے ان کی تقاریر میں جا بجا ملتے ہیں۔ وہ قرآن حکیم پر غور و فکر کرتے تھے اور اس کی گواہی نہ صرف منیر احمد منیر کی کتاب ”دی گریٹ لیڈر“ کے عینی شاہدین دیتے ہیں بلکہ جنرل [[محمد اکبر]] کی کتاب ”میری آخری منزل“ سے بھی ملتی ہے۔ گنتی کے مطابق قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101دفعہ اور قیام پاکستان کے بعد چودہ دفعہ اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کے آئینی ڈھانچے اور نظام کی بنیاد اسلامی اصوبوں پر رکھی جائے گی اور انہوں نے یہ بات تو کئی بار کہی کہ ”قرآن مجید“ ہمارا راہنما ہے۔ حتیٰ کہ سٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریر میں بھی اسلامی اصولوں کی بنیاد پر اقتصادی نظام تشکیل دینے کی آرزو کا اظہار کیا۔ مجموعی طور پر قائد اعظم پاکستان کو اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے، مذہبی ریاست ہرگز نہیں کیونکہ اسلام میں تھیوکریسی کا کوئی تصور موجود نہیں۔