"دار العلوم دیوبند" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← ئے، علما، ہو سکے، کی بجائے، اور، اس ک\1، جس کی، دار العلوم
سطر 50:
دار العلوم دیوبند نے اب تک سینکڑوں مفسر، محدث، مجاہدین ادیب اور تلامذہ پیدا کیے ہیں جن میں مولانا محمود الحسن اور شبیر احمد عثمانی کے علاوہ [[مولانا اشرف علی تھانوی]]، [[عبیداللہ سندھی|مولانا عبید اللہ سندھی]]، [[مولانا حسین احمد مدنی]] اور [[انور شاہ کشمیری|سید انور شاہ کاشمیری]] وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ انہی ہستیوں نے جنوبی ایشیا اور جنوبی ایشیا سے باہر اسلام کی شمع کو روشن رکھنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ شمع سے شمع روشن کرنے کی یہ روایت اور سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
 
== فضلائے دارالعلومدار العلوم ==
[[محمودالحسن|شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی]]، مولانا سید احمد حسن امربھی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری،مفتی عزیز الرحمن عثمانی، حکیم الامت مجددالملت مولانا [[اشرف علی]] تھانوی، محدث کبیر علامہ انورشاہ کشمیری، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا اصغر حسین دیوبندی، محدث وقت مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا اعزاز علی امروہی، مفتی [[مہدی حسن]] شاہجہاں پوری، مولانا [[محمد الیاس]] کاندھلوی، علامہ ابراہیم کاندھلوی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا فخرالدین احمد مراد آبادی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا مناظر احسن گیلانی، مصلح الامت مولانا شاہ وصی اللہ فتحپوری، مولانا ڈاکٹر سیدعبدالعلی حسنی(ناظم ندوة العلماء لکھنؤ)،حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب دیوبندی، [[مفتی محمد شفیع]] عثمانی(مفتی اعظم پاکستان)، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا بدر عالم میرٹھی، مولانا عبد الحفیظ بلیاوی(مصنف مصباح اللغات)، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا شریف محی الدین اکرمی بھٹکلی(سابق قاضی شہر بھٹکل)، مفتی عتیق الرحمن عثمانی، [[مولانا حبیب الرحمن]] اعظمی، مولانا محمد میاں دیوبندی، مولانا محمدمنظور نعمانی، فقیہ الامت [[مفتی محمود]] حسن گنگوہی، محدث وقت مولانا یوسف بنوری، مولانا مسیح اللہ جلال آبادی، مولانا سید منت اللہ رحمانی، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی(ناظم ندوة العلماء لکھنؤ)، مولانا احتشام الحق تھانوی، مفتی محمود صاحب(سابق [[وزیر اعلیٰ پنجاب]] پاکستان)، مولانا ارشاد احمد قاسمی(مبلغ دار العلوم دیوبند)، مولانا محمد سالم قاسمی، مولانا سید اسعد مدنی، مولانا انظرشاہ کشمیری، مولانا [[محمد عمر]] پالن پوری، مولانا وحید الزماں کیرانوی، مولانا سید شوکت علی نظیر صاحب (امام وخطیب [[جامع مسجد]] ممبئی،و سرپرست اعلیٰ جامعہ حسینیہ عربیہ شری وردھن،کوکن) مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، مولانا ب رہان الدین سنبھلی، مولانا سید ارشد مدنی، مولانا حکیم محمد عبد اللہ مغیثی(مہتمم جامعہ اسلامیہ عربیہ گلزاریہ حسینیہ اجراڑہ میرٹھ)، مولانا اسرار الحق قاسمی(نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل)، مولانا اشرف علی باقوی قاسمی(مہتمم دار العلوم سبیل الرشاد بنگلور، وامیر شریعت کرناٹک، مولانا سید ولی رحمانی، مولانا عبد العلیم قاسمی بھٹکلی(مدیر نقش نوایت، ونائب ناظم جامعہ اسلامیہ بھٹکل)، [[مفتی سعید احمد پالن پوری]] (شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند) مولانا محمد شفیع قاسمی بھٹکلی(ناظم ادارہ رضیۃ الابرار بھٹکل،وسابق مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل)، مولانا آمان اللہ صاحب (متہمم جامعہ حسینیہ عربیہ شری وردھن،کوکن)، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا مسعود احمد ہاشمی(بانی ومہتمم مدرسہ [[احیاء العلوم]] شیموگہ)، مولانا سید محمود مدنی وغیرہم
 
سطر 74:
 
== دیوبند اور کانگریس ==
علمائے دیوبند کے ایک طبقہ مولانا حسین احمد مدنی،مدنی اور مسلک [[اہل حدیث]] کےمولانا [[ابو الکلام آزاد]] رحمہ اللہ کو مسلم لیگ سے بھی سیاسی اختلاف کی، انکاموقف یہ تھا کہ انگریز کے زیر سایہ ہونے والی تقسیم کم ازکم مسلمانوں کے لیے کبھی فاعدہ مند نہیں ہوسکتی۔ مسلک دیوبند کے اکابر میں سے مفتی کفایت ﷲ دہلوی صاحب کے مطابق قائد شیعہ ہونے کی وجہ سے صرف نام کے مسلمان تھے<ref>کتاب " کفایت المفتی"، جلد نہم، کتاب السیاسیات، فتاویٰ نمبر: 539، 538، 554، 555۔</ref>- لیکن پاکستان بننے کے بعد ان میں سے کسی نے بھی پاکستان کی مخالفت نہیں کی۔ مولانا مدنی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ " پاکستان کے قیام کے بعد اب اس کا حکم مسجد کا سا ہے، اس کے بنانے میں اختلاف ہوسکتا ہے، بننے کے بعد اس کی تقدیس فرض ہے" مسلک اہل حدیث کے مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ "پاکستان وجود میں آگیا ہے تو اب اسے باقی رکھنا چاہیے، اس کا بگڑ جانا سارے [[عالم اسلام]] کے لیے شکست کے برابر ہوگا"۔
(بحث ونظر نوائے وقت۔ 23 مارچ 1973ء)
 
سطر 82:
 
== تبلیغی جماعت ==
مولانا محمد الیاس کاندھلوی کی قائم کردہ ایک تبلیغی تحریک ہے جو [[1926ء]] میں مسیحی مشنریوں سے متاثر ہو کر قائم کی گئی۔ یہ [[برصغیر|برصغیر پاک و ہند]]<nowiki/>کے علاوہ دیگر کئی ممالک میں بھی سرگرم ہے۔کسی بھی جگہ کے دورے میں اپنے قیام کے دوران یہ افراد گروہ کی شکل میں علاقے کا دورہ کرتے اور عام افراد خصوصاً دکان دار حضرات کو دین سیکھنے کی دعوت دیتے ہوئے مسجد میں مدعو کیا کرتے ہیں۔ اس عمل کو جماعت کی اصطلاح میں 'گشت' کہا جاتا ہے۔اس تحریک نے بریلوی مکتب فکر کی بڑی تعداد کو دیوبندی مکتب فکر کی طرف راغب کیا ہے۔حال ہی میں [[تحریک طالبان پاکستان]] نے اس تحریک کے جاسوسی اور اسلحے کی منتقلی کے نیٹ ورک کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا جسکیجس کی وجہ سے پاکستانی فوج کے مراکز میں [[تبلیغی جماعت]] کی سرگرمیوں پرپابندی لگا دی گئی۔
 
== دیوبند اور علامہ اقبال ==
سطر 128:
== دیوبند اور قرارداد پاکستان ==
 
آل انڈیا نیشنل کانگریس کے ہمنوا علمائے دیوبند کی اکثریت نے کانگریسی مسلمانوں اور مسلم نیشنلسٹ پارٹی کی طرح [[قرارداد پاکستان]] کی حمایت نہیں کی۔ ان کا خیال تھا کہ [[تقسیم ہند]] سے ہندوستان کی فطرت وحدت ختم ہو جائے گی۔ وہ ہندوستان کے اس روایتی معاشرے جو انگریز کی آمد سے قبل موجود تھا کو بحال کرنے کے حق میں تھے ان کا موقف تھا کہ ہندوستان سے انگریز کے جانے کے بعد بھی ہندو اور مسلمان دونوں ایک ہی ملک میں موجود اور آباد رہ سکتے تھے۔ حسین احمد مدنی اور مدرسہ دیوبند سے فارغ التحصیل اور دیوبند کے دوسرے بڑے علما کی اکثریت نے قرارداد پاکستان کی مخالفت کی۔ صرف اشرف علی تھانوی جو 1944ء میں وفات پا گئے اور شبیر احمد عثمانی جنہوں نے 1946ء میں [[تحریک پاکستان]] کی حمایت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کے متوازی سیاسی جماعت "جمیعت علماءعلما اسلام" قائم کر کے قائد اعظم کے جدید ریاست کے تصور کےکی بجاۓبجائے پاکستان کو [[سید احمد شہید]] اور شاہ اسماعیل دہلوی کی مذہبی ریاست بنانے کی کوشش شروع کی۔
 
== دیوبند اور قائد اعظم ==
 
جنگ عظیم دوم  کی وجہ سے کمزور ہونے والے انگریزوں کے ہندوستان سے جانے  اور   مسلم لیگ کی تحریک کے نتیجے میں  ہندوستان کے شمال مغرب  میں ایک مسلمان ریاست کے ممکنہ قیام کی آہٹ پا کر علما دیوبند میں سے کچھ نے اس وجہ سے قیام پاکستان کی مخالفت کی کہ اس تحریک کی [[اعلیٰ تعلیم]] یافتہ قیادت اور جدید ریاست کے قیام سے اختلاف رکھتے تھے۔ البتہ کچھ دیگر سخت گیر علما نے قیام پاکستان کو ناگزیر سمجھتے ہوئے وادی سندھ  کی طرف ہجرت  شروع کی اور دوبارہ سے   سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی  طرزکی ریاست کے قیام کی کوششیں شروع کر دیں۔ قائد اعظم لکھنؤ تشریف لے گئے تو کسی نے اعتراض کیا کہ علما ایک مغرب زدہ آزاد خیال شخص کے پیچھے کیوں چل رہے ہیں؟ مولانا شبیر احمد عثمانی نے چالاکی سے جواب دیا ’ چند سال پہلے میں حج کے لیے بمبئی سے روانہ ہوا۔ جہازایک ہندو کمپنی کا تھا، جہاز کا کپتان انگریز تھا اور جہاز کا دیگر عملہ ہندو، یہودی اور عیسائی افراد پر مشتمل تھا۔ میں نے سوچا کہ اس مقدس سفر کے یہ وسائل ہیں؟ جب عرب کا ساحل قریب آیا ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار ایک عرب جہاز کی طرف آیا۔ اس (عرب) نے جہاز کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کو اپنی رہنمائی میں سمندری پہاڑیوں، اتھلی آبی گذرگاہوں سے بچاتے ہوئے ساحل پر لنگر انداز کر دیا۔ بالکل ہم یہی کر رہے ہیں۔ ابھی تحریک جاری ہے، جدوجہد کا دور ہے، اس وقت جس قیادت کی ضرورت ہے وہ قائد اعظم میں موجود ہے۔ منزل تک پہنچانے کے لیے ان سے بہتر کوئی متبادل قیادت نہیں۔ منزل کے قریب ہم اپنا فرض ادا کریں گے<ref>عبید الرحمن، ’یاد ہے سب ذرا ذرا ‘، صفحہ 49، طبع کراچی</ref>۔ 1944ء میں لاہور کے نواحی قصبے امرتسر میں "تنظیم اہل سنت"  کے نام سے ایک شیعہ مخالف دیوبندی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 26اکتوبر 1946ءکو مولانا [[شبیر احمد]] عثمانی نے جمعیت علمائے اسلام کے نام سے تیسری دیوبندی جماعت قائم کی جو مسلم لیگ کے متوازی [[سیاسی جماعت]] تھی۔یہ اس بات کا واضح اظہار تھا کہ دیوبندی علماءعلما مسلم لیگ اور قائد اعظم کے تصور پاکستان سے اختلاف رکھتے تھے۔ جب قائد اعظم نے 11 اگست 1947ء کی تقریر میں ریاست کی نظر میں سب شہریوں کوبلا تفریق مذہب مساوی قرار دیا تو 1 ستمبر 1947ء کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے اخبارات میں ایک بیان جاری کیا جس کا ایک ایک لفظ قائد اعظم کی اس تقریر کی مخالفت پر مبنی تھا<ref>میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ قائد اعظم کی یہ فتح مبین (قیام پاکستان) مسلمانوں کے ضبط و نظم کی مرہوں احسان ہے۔ مسلمانوں کی افتاد طبع مذہبی واقع ہوئی ہے اور دو قوموں کے نظریے کی بنیاد بھی مذہب ہے۔ اگر علمائے دین اس میں نہ آتے اور تحریک کو مذہبی رنگ نہ دیتے تو قائد اعظم یا کوئی اور لیڈر خواہ وہ کیسی قابلیت و تدبر کا مالک ہی کیوں نہ ہوتا یا سیاسی جماعت مسلم لیگ مسلمانوں کے خون میں حدت پیدا نہیں کر سکتی تھی۔ تاہم علمائے دین اور مسلمان لیڈروں کی مشترکہ جہد و سعی سے مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور ایک نصب العین پر متفق ہو گئے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تمام مساعی پاکستان کے دستور اساسی کی ترتیب پر صرف کریں اور اسلام کے عالمگیر اور فطری اصولوں کو سامنے رکھیں کیونکہ موجودہ مرض کا یہی ایک علاج ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو مغربی جمہوریت اپنی تمام برائیوں کے ساتھ چھا جائے گی اور اسلام کی بین الاقوامیت کی جگہ تباہ کن قوم پرستی چھا جائے گی" مولانا شبیر احمد عثمانی، 1 ستمبر 1947ء</ref>۔ پاکستان کے قیام سے پہلے ہی دیوبندی علما نے شیعوں کی نماز جنازہ پڑھنے کو حرام قرار دے رکھا تھا اور مولانا شبیر احمد عثمانی بھی شیعوں کے لیے یہی سوچ رکھتے تھے<ref>http://www.farooqia.com/ur/lib/1434/11/p40.php</ref>- لہٰذا قائد اعظم کی پہلی نماز جنازہ گورنر ہاؤس میں ان کے اپنے مسلک کے مطابق پڑھی گئی<ref>آپ کا پہلا جنازہ گورنر ہاؤس میں شیعہ طریقے پر ہوا، آپ کیجائداد بھی محترمہ فاطمہ جناح کو شیعہ طریقے پر منتقل کی گئی، تفصیل اس کتاب میں: Khalid Ahmed, "Sectarian War: Pakistan's Sunni-Shia Violence and its links to the Middle East"، Oxford University Press, 2011.</ref> مگر جب عوام میں نماز جنازہ پڑھانے کی باری آئ تو حکومت نے مولانا شبیر احمد عثمانی کو طلب کیا تاکہ بعد میں جنازہ پڑھنے والوں کے خلاف کوئی فتنہ کھڑا نہ ہوسکے۔ہو اسکےسکے۔ اس کے باوجود "فتاویٰ مفتی محمود" میں شیعہ حضرات کا جنازہ نہ پڑھنے کے فتووں ذیل میں قائد اعظم کے شیعہ ہونے کی وجہ سے علامہ شبیر احمد عثمانی کی طرف سے ان کا جنازہ پڑھنے کو گناہ قرار دیا گیا ہے<ref>فتاویٰ مفتی محمود، جلد سوم، کتاب الجنائز، صفحہ 67</ref>۔ جب علامہ شبیر احمد عثمانی سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی تو انہوں نے اپنے فتووں سے رجوع کرنے کی بجائے ایک خواب سنا کر سوال کو ٹال دیا<ref>ایک روایت کے مطابق ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ”قائد اعظم کا جب انتقال ہوا تو میں نے رات رسول اکرم ﷺ کی زیارت کی۔ رسول قائد اعظم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں کہ یہ میرا مجاہد ہے۔“</ref>۔ دوسری طرف دیوبندی جماعت " تنظیم اہلسنت" سے تعلق رکھنے والے علما مولانا نور الحسن بخاری، مولانا دوست محمد قریشی، مولانا عبد الستارتونسوی دیوبندی وغیرہ نے پاکستان بھر میں شیعہ مخالف جلسے کیے اور لوگوں کو فسادات کے لیے اکسایا۔ لہٰذا قیام پاکستان سے بعد  ہی شیعوں پر قاتلانہ حملے شروع ہو گئے<ref>Andreas Rieck, "The Shias of Pakistan: An Assertive and Beleaguered Minority"، Oxford University Press, (2015)۔</ref>۔
 
ظاہر ہے کہ قائد اعظم کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی علامہ اقبال کی مانند ان کی مذہبی تربیت ہوئی تھی۔ وہ ایک کھرے اور سچے مسلمان تھے اور اسلام کی تعلیمات میں یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے طور پر اسلامی نظام، سیرت نبوی اور قرآن حکیم کا گہرا مطالعہ کیا تھا جس کے حوالے سے ان کی تقاریر میں جا بجا ملتے ہیں۔ وہ قرآن حکیم پر غور و فکر کرتے تھے اور اس کی گواہی نہ صرف منیر احمد منیر کی کتاب ”دی گریٹ لیڈر“ کے عینی شاہدین دیتے ہیں بلکہ جنرل [[محمد اکبر]] کی کتاب ”میری آخری منزل“ سے بھی ملتی ہے۔ گنتی کے مطابق قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101دفعہ اور قیام پاکستان کے بعد چودہ دفعہ اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کے آئینی ڈھانچے اور نظام کی بنیاد اسلامی اصوبوں پر رکھی جائے گی اور انہوں نے یہ بات تو کئی بار کہی کہ ”قرآن مجید“ ہمارا راہنما ہے۔ حتیٰ کہ سٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریر میں بھی اسلامی اصولوں کی بنیاد پر اقتصادی نظام تشکیل دینے کی آرزو کا اظہار کیا۔ مجموعی طور پر قائد اعظم پاکستان کو اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے، مذہبی ریاست ہرگز نہیں کیونکہ اسلام میں تھیوکریسی کا کوئی تصور موجود نہیں۔