"فتح مکہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م خودکار: ویکائی > مسجد الحرام
سطر 28:
 
== جنگ ==
جنگ تو ہوئی نہیں مگر احوال کچھ یوں ہے کہ مر الظہران کے مقام پر حضور {{درود}} نے تاکید کی کہ لشکر کو بکھیر دیا جائے اور آگ جلائی جائے تاکہ قریشِ مکہ یہ سمجھیں کہ لشکر بہت بڑا ہے اور بری طرح ڈر جائیں اور اس طرح شاید بغیر خونریزی کے مکہ فتح ہو جائے۔ یہ تدبیر کارگر رہی۔ مشرکین کے سردار [[ابو سفیان بن حرب|ابوسفیان]] نے دور سے لشکر کو دیکھا۔ ایک شخص نے کہا کہ یہ شاید بنو خزاعہ کے لوگ ہیں جو بدلہ لینے آئے ہیں مگر اس نے کہا کہ اتنا بڑا لشکر اور اتنی آگ بنو خزاعہ کے بس کی بات نہیں۔ اس کے بعد ابوسفیان حضور {{درود}} سے امان پانے کے لیے لشکرِ اسلام کی طرف حضور {{درود}} کے چچا عباس کی پناہ میں چل پڑا۔ کچھ مسلمانوں نے اسے مارنا چاہا مگر چونکہ [[عباس بن عبدالمطلب]] نے پناہ دے رکھی تھی اس لیے باز آئے۔ رات کو قید میں رکھ کر صبح ابوسفیان کو حضور {{درود}} کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ حضور {{درود}} نے ابو سفیان کو دیکھا تو فرمایا 'کیا ابھی اس کا وقت نہیں آیا کہ تو یہ سمجھے کہ ایک خدا کے علاوہ اور کوئی خدا نہیں ہے؟' ابوسفیان نے کہا کہ اگر خدائے واحد کے علاوہ کوئی خدا ہوتا تو ہماری مدد کرتا۔ یہ دیکھ کر کہ اس نے ایک خدا کو تسلیم کیا ہے، حضور {{درود}} نے پوچھا کہ 'کیا اس کا وقت نہیں آیا کہ تم جانو کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں؟' اس پر ابوسفیان نے کہا کہ 'مجھے آپ کی رسالت میں تردد ہے' اس پر ان کو پناہ دینے والے عباس بن عبد المطلب سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ اے ابوسفیان اگر تو اسلام نہ لایا تو تمہاری جان کی کوئی ضمانت نہیں۔ اس پر ابوسفیان نے اسلام قبول کر لیا۔ مگر حضور {{درود}} نے اسے رہا نہ کیا بلکہ ایک جگہ رکھ کر مسلمانوں کے دستوں کو اس کے سامنے گزارا۔ وہ بہت مرعوب ہوا اور عباس بن عبد المطلب کو کہنے لگا کہ 'اے عباس تمہارے بھتیجے نے تو زبردست سلطنت حاصل کر لی ہے'۔ حضرت عباس بن عبد المطلب نے کہا کہ 'اے ابوسفیان یہ سلطنت نہیں بلکہ نبوت ہے جو خدا کی عطا کردہ ہے'۔ اس کے بعد حضرت عباس بن عبد المطلب نے حضور {{درود}} کو کہا کہ 'اے اللہ کے رسول۔ ابوسفیان ایسا شخص ہے جو ریاست کو دوست رکھتا ہے اسے اسی وقت کوئی مقام عطا کریں' اس پر حضرت محمد {{درود}} نے فرمایا کہ 'ابوسفیان لوگوں کو اطمینان دلا سکتا ہے کہ جو کوئی اس کی پناہ میں آجائے گا امان پائے گا۔ جو شخص اپنے ہتھیار رکھ کر اس کے گھر میں چلا جائے اور دروازہ بند کر لے یا [[مسجد الحرام]] میں پناہ لے لے وہ سپاہِ اسلام سے محفوظ رہے گا'۔<ref>السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام جلد 4 صفحہ 45-46</ref> اس کے بعد ابوسفیان کو رہا کر دیا گیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے مکہ جا کر اسلامی لشکر کی عظمت بتا کر ان لوگوں کو خوب ڈرایا۔
<br/>
حضرت محمد {{درود}} نے لشکر کو چار دستوں میں تقسیم کیا اور مختلف سمتوں سے شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا اور تاکید کی کہ جو تم سے لڑے اس کے علاوہ اور کسی سے جنگ نہ کرنا۔۔<ref>المغازی (واقدی) جلد 2 صفحہ 825</ref> چاروں طرف سے شہر گھر گیا اور مشرکین کے پاس ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ رہا۔ صرف ایک چھوٹے گروہ نے لڑائی کی جس میں صفوان بن امیہ بن ابی خلف اور عکرمہ بن ابی جہل شامل تھے۔ ان کا ٹکراؤ حضرت خالد بن ولید {{رض مذ}} کی قیادت کردہ دستے سے ہوا۔ مشرکین کے 28 افراد انتہائی ذلت سے مارے گئے۔<ref>السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام جلد 4 صفحہ 49</ref> لشکر اسلام انتہائی فاتحانہ طریقہ سے شہرِ مکہ میں داخل ہوا جہاں سے آٹھ سال پہلے حضور {{درود}} کو ہجرت کرنا پڑی تھی۔ کچھ آرام کے بعد حضور {{درود}} مجاہدین کے ہمراہ کعبہ کہ طرف روانہ ہوئے۔ کعبہ پر نظر پڑتے گھوڑے پر سواری کی ہی حالت میں [[حجرِ اسود]] کو بوسہ دیا۔ آپ {{درود}} تکبیر بلند کرتے تھے اور لشکرِ اسلام آپ {{درود}} کے جواب میں تکبیر بلند کرتے تھے۔
سطر 53:
[[زمرہ:غزوات]]
[[زمرہ:ابتدائی مسلم فتوحات]]
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]