"حسین احمد مدنی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی
سطر 15:
{{دیوبندی}}
 
شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، آپ مولانا محمود الحسن کے جانشین تھے۔ [[19 شوال]] [[1296ھ]] بمطابق [[1879ء]] بمقام بانگڑ میو ضلع [[اناؤ ضلع|اناؤں]]، [[اتر پردیش]]، [[ہندوستان]] میں پیدا ہوئے۔
== تعارف ==
پورا نام شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین احمد مدنی، آپ مولانا محمود الحسن کے جانشین تھے۔
 
=== ولادت ===
[[19 شوال]] [[1296ھ]] بمطابق [[1879ء]] بمقام بانگڑ میو ضلع [[اناؤ ضلع|اناؤں]]، [[اتر پردیش]]، [[ہندوستان]] میں پیدا ہوئے۔
 
=== شجرہ نسب ===
سطر 26 ⟵ 22:
حسین احمد بن سید حبیب اللہ بن سید پیر علی بن سید جہانگیر بخش بن شاہ انور اشرف بن شاہ مدن الیٰ شاہ نور الحق۔
 
شاہ نور الحق، سید احمد توختہ تمثال رسول کی اولاد میں سے تھے اور وہ سید محمد مدنی المعروف بہ سید ناصر ترمذی کی اولاد سے تھے اور وہ سید حسین اصغر بن حضرت امام زین العابدین ابن شہید کربلا حضرت حسین بن علی کی اولاد سے تھے۔<ref>تاریخ آئینہ اودھ صفحہ 64</ref>
 
=== خاندان ===
سطر 35 ⟵ 31:
* سیدہ نسیم زہرہ  (ڈیڑھ سال کی عمر میں فوت ہوئی)
* سیدہ ریاض فاطمہ (24 سال کی عمر میں مدینہ میں فوت ہوئیں)
 
=== القابات ===
* شیخ العرب و العجم
* اسیر مالٹا
* مجاہد تحریک ریشمی رومال
 
== ابتدائی تعلیم ==
سطر 121 ⟵ 112:
 
=== عرب کے چند ممتاز شاگرد ===
آپکےآپ کے شاگردوں میں بہت سے تعلیم و تدریس [[قاضی|قضا]] اور انتظامی محکموں کے بڑے بڑے مناصب پر فائز ہوئے۔ چند ممتاز تلامذہ کے نام یہ ہیں:
* عبد الحفیظ کردی جو مدینہ منورہ میں محکمہ کبریٰ (ہائی کمانڈ) کے رکن تھے۔
* احمد بساطی جو مدینہ طیبہ میں نائب [[قاضی]] رہے۔
سطر 128 ⟵ 119:
 
=== درس حدیث کے لیے تکالیف کا تحمل ===
شدید گرمیں دوپہر 12 بجے کا زمانہ ہو چھتری پیش کی جائے تو لینے سے انکار کر دیتے۔ بارش کے زمانہ میں راستہ کیچڑ آلود ہوتا لیکن حضرت دارالحدیث کی جانب محو سفر ہوتے۔ ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں چھتری ہوتی۔ کپڑے کیچڑ آلود ہوتے تو سواری پیش کی جاتی تو انکار کردیتے۔ شاگرد تانگے والے کو لے آتے بار بار اصرار کرنے پر ایک دفعہ کہنے لگے کہ کیچڑ سے ہم پیدا ہوئے، اگر اسمیں جا ملیں تو کیا ڈر ہے۔ ایک مرتبہ طلبہ کے اصرار پر تیار ہو گئے۔ دوسرے دن کہیں دور جانا تھا تو تانگہ والا حاضر ہوا تو اس کے تانگہ پر اسوقت سوار ہو گئے جبکہ یہ شرط تسلیم کرالی کہ وہ درس گاہ تک لے جانے کے لیے آئندہ کبھی نہ آئے گا۔<ref name=":0" />
 
== اہلیہ کی تدفین سے فراغت کے بعد درس بخاری ==
حکیم ضیاء الدین نبیان کرتے ہین کہ حضرت کی اہلیہ کا انتقال ہوا فراغت تدفین کے کچھ دیر بعد حضرت نے دارالحدیث کا رخ کیا۔ مجمع میں ہل چل مچ گئی تمام عمائدین نے سمجھایا کہ صدمہ بالکل تازہ ہے اور اس سے دل و دماغ کا متاثر ہونا قدرتی امر ہے۔ مگر حضرت نے دارالحدیث میں پہنچ کر بخاری شریف کا درس شروع کر دیا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی نے دوبارہ جاکر سمجھانے کی کوشش کی تو جواب دیا کہ:
 
اللہ کے ذکر سے بڑھ کر اطمینان قلب اور کس چیز سے حاصل ہو سکتا ہے؟۔<ref>شیخ الاسلام صفحہ نمبر 78</ref>
 
== کثرت درودشریف اوردیوبندی ==
درس بخاری شریف میں ارشاد فرمایا کہ:
{{اقتباس|اہل بدعت دیوبندیوں کو کافر اور دشمن رسول سمجھتے ہیں، حالانکہ جتنا درود دیوبندی پڑھتے ہیں کوئی دوسرا نہیں پڑھتا۔ مثلا اس دارالحدیث میں تقریباً دو ڈھائی سو طلبہ شریک درس ہیں اور صبح سے شام تک یہاں درس حدیث ہوتا ہے اور ہر حدیث میں دو تین جگہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی آت ہے، جس پر حاضرین درود شریف پڑھتے ہیں اگر تمام اوقات کے درود شریف کو شمار کر لیا جائے تو تعداد حیرت انگیز حد تک پہنچ جائے گی اور یہی سلسلہ تقریباً بارہ مہینے جاری رہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہندو ستان کے تمام خطوں سے ذایدہ یہاں درود شریف پڑھا جاتا ہے۔}}
 
== مالٹا میں قید ==
محمود الحسن کو [[شریف مکہ]] حسین بن علی نے گرفتار کر کے انگریز کے حوالہ کیا تو ان کے ہمراہ چار [[طالب علم|شاگرد]] بھی تھے جن میں حسین احمد مدنی بھی تھے۔ محمود الحسن نے کہا انگریزی گرنمنٹ نے مجھ کو تو مجرم سمجھا ہے، تم تو بے قصور ہو اپنی رہائی کی کوششیں کرو تو چاروں نے جواب دیا حضرت جان تو چلی جائے گی مگر آپکی خدمت سے جدا نہیں ہونگے۔
 
=== ایام اسیری میں صدمات ===
حسین احمد مدنی جب مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے تو پورا خاندان اور بسا بسایا گھر چھوڑ کر گئے نکلے تھے۔ سفر صرف دو چار دنوں کا تھا مگر تقدیر میں طویل لکھا تھا۔ گرفتار ہوئے مصر کیجانب روانگی ہوئی، سزا ہوئی۔ پھانسی کی خبریں گرم ہوئیں۔ مالٹا کی قید پیش آئی۔ استاد کی قربت اور انکی پدرانہ شفقت نے ہر مشکل آسان اور قابل برداشت بنادی تھی۔ قیدو بند کی سختیاں صبر و شکر کیساتھ جھیل رہے تھے۔
 
ایک دن کئی ہفتوں کی رکی ہوئی ڈاک پہنچی تو ہر خط مین کسی نہ کسی فرد خاندان کی موت کی خبر ملتی۔ اس طرح ایک ہی وقت میں باپ، جواں سال بچی، ہونہار بیٹے، جانثار بیوی، بیمار والدہ اور دو بھائیوں سمیت سات افراد خاندان کی جانکاہ خبر ملی۔ موت بر حق ہے مگر جن حالات میں حسین احمد مدنی کو یہ اطلاعات موصول ہوئیں انہیں برداشت کرنا پہاڑ کے برابر کلیجا چاہیے تھا۔<ref>شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒایکمدنیایک تاریخی و سوانحی مطالعہ، از فرید الوحید</ref>
 
سیّد حسین احمد مدنی نے مالٹا کی قید کے دوران میں 10 ماہ میں [[قرآن|قرآن مجید]] یاد کرکے محمود الحسن کو تراویح کے بعد نوافل میں سنایا کرتے تھے۔ اس طرح نصف جمادی اولا سے یاد کرنا شروع کیا اور [[ربیع الاول]] میں پورا یاد کر کے محمود الحسن کو اگلے رمضان میں سنادیا۔ اس دوران میں والد کی وفات اور دیگر کنبہ کی موت کی خبر نے بہت گہرا صدمہ و دکھ پہنچایا۔<ref name=":0" />
=== جیل میں قرآن حفظ کرنا ===
سیّد حسین احمد مدنی نے مالٹا کی قید کے دوران میں 10 ماہ میں [[قرآن|قرآن مجید]] یاد کرکے محمود الحسن کو تراویح کے بعد نوافل میں سنایا کرتے تھے۔ اس طرح نصف جمادی اولا سے یاد کرنا شروع کیا اور [[ربیع الاول]] میں پورا یاد کر کے محمود الحسن کو اگلے رمضان میں سنادیا۔ اس دوران میں والد کی وفات اور دیگر کنبہ کی موت کی خبر نے بہت گہرا صدمہ و دکھ پہنچایا۔<ref name=":0"/>
 
جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد ٹوٹلکل ساڑھے تین سال جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد حضرت شیخ الہند اور ان کے تمام ساتھیوں کو جن میں حسین احمد مدنی بھی شامل تھے آخر کار رہائی مل گئی۔ جب گھر سے چلے تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک چھوڑ کر گئے تھے مگر رہائی کے بعد جب اپنے علاقہ پہنچے تو سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ خاندان کے افراد کی اموات اور 40 یا 42 برس کی عمر تھی۔ صدمے پہ صدمہ خاندان تھا نہ گھر۔<ref>چراغ محمد، از مولانا زید الحسینی</ref><br />
=== جیل سے رہائی ===
جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد ٹوٹل ساڑھے تین سال جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد حضرت شیخ الہند اور ان کے تمام ساتھیوں کو جن میں حسین احمد مدنی بھی شامل تھے آخر کار رہائی مل گئی۔ جب گھر سے چلے تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک چھوڑ کر گئے تھے مگر رہائی کے بعد جب اپنے علاقہ پہنچے تو سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ خاندان کے افراد کی اموات اور 40 یا 42 برس کی عمر تھی۔ صدمے پہ صدمہ خاندان تھا نہ گھر۔<ref>چراغ محمد، از مولانا زید الحسینی</ref><br/>
== سیرت و اخلاق ==
ڈاکٹر عبد الرّحمان شاجہان پوری فرماتے ہیں کہ:
{{اقتباس|علم عمل کی دنیا میں عظیم الشان شخصیات کے ناموں کے ساتھ مختلف خصائل و کمالات کی تصویریں ذہن کے پردے پر نمایاں ہوتی ہیں، لیکن مولانا محمود الحسن سیّد حسین احمد مدنی کا نام زبان پر آتا ہے تو ایک کامل درجے کی اسلامی زندگی اپنے ذہن و فکر ، علم اور اخلاق و سیرت کے تمام خصائل و کمالات اور محاسن و مھامد کے ساتھ تصویر میں ابھرتی اور ذہن کے پردوں پر نقش ہوجاتی ہے۔اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ اسلامی زندگی کیا ہوتی ہے؟ تو میں پورے یقین اور قلب کے کامل اطمینان کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ حسین احمد مدنی کی زندگی کو دیکھ لیجئے، اگر چہ یہ ایک قطعی اور آخری جواب ہے ، لیکن میں جانتا ہون کہ اس جواب کو عملی جواب تسلیم نہیں کیا جائے گا اور ان حضرات کا قلب اس جواب سے مطمئن نہیں ہو سکتا جنہوں نے اپنی دور افتادگی و عدم مطالعہ کی وجہ سے یا قریب ہوکر بھی اپنی غفلت کی وجہ سے ،یا اس وجہ سے کہ کسی خاص ذوق و مسلک کے شغف و انہماک ، یا بعض تعصبات نے انکی نظروں کے آگے پردے ڈال دیئے تھے اور وہ حسین احمد مدنی کے فکر کی رفعتوں ، سیرت کی دل ربائیوں اور علم و عمل کی جامعیت کبریٰ کو محسوس نہ کرسکے تھے اور انکے مقام کی بلندیوں کا اندازہ نہ لگا سکے تھے۔<ref>ایک سیاسی مطالعہ ، از ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری</ref>}}
 
=== یتیموں کی سرپرستی اور صلہ رحمی ===
مولانا فرید الوحیدی ؒ خود راوی ہیں کہ حضرت مدنیؒ یتیموں اور بیواؤن کی عموما امداد فرماتے تھے۔ ایسے افراد میری نظر میں ہیں جنہیں بے روزگاری کے دور میں مستقل امداد دیتے رہے۔ ان میں مسلم اور غیر مسلم کی قید نہ تھی۔ جو لوگ مفلوک الحال ہوتے انکی امداد باضابطہ طور پر فرماتے۔ عید کے مواقع پر اگر آبائی وطن ہوتے تو خود رشتہ داروں کے ہاں عید سے پہلے جاتے اور عیدی تقسیم فرماتے۔
 
مولانا مدنیؒ اپنے یتیم بھتیجے کی شادی کے لیے 25،000 پچیس ہزار روپے جیب کی مالیت سے عالی شن گھر تعمیر کروایا۔ بھتیجے کی وفات کے بعد انکی اولاد کا کہنا ہے کہ گرفتاری و قید تک ہمیں احساس بھی نہ ہونے دیا کہ ہم یتیم ہیں۔ غرض یہ کہ اس دور نفسا نفسی میں حقیقی پوتوں کے ساتھ پرخلوص مہرو محبت عنقا ہے۔ بھتیجے اور اس کی اولاد کے ساتھ غیر معمولی مہرو محبت کے برتاؤ کی مثال بھی شاید مشکل سے نظر آئے۔<ref name=":0">شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ، از مولانا عبد القیوم حقانی</ref>
سطر 163 ⟵ 147:
=== مستحقین کی خبر گیری ===
مولانا نجم الدین اصلاحیؒ تحریر کرتے ہیں:
{{اقتباس|حضرت مدنی جب تک زندہ رہے سخاوت کا دریا بہتا رہا اور فیاضی کا سمندر موجزن رہا۔ حضرت کا محبوب مشغلہ ہی یہی تھا کہ دولت کو اللہ کے راستہ مین لتایا جائے اور نادار لوگوں کی ضروریوت پوری کی جائیں۔
* طلبا کی ایک جماعت ایسی بھی تھی جس کی آپ مدد کیا کرتے تھے۔ میرے ہی کمرے میں ایک صاحب رہتے ےتھے جنہیں اصولا مدرسہ سے کھانا نہیں ملتا تھا میں نے ایک دن پوچھ لیا تا کہا کہ حضرت مدنی انتظام فرما دیتے ہیں۔
* ایک مرتبہ حضرت کی خدنت میں حاضر تھا دیگر حاضرین کی کافی تعداد تھی۔ عرضیاں پیش کی جارہی تھیں ایک طالب علم کی عرضی کو غور سے پڑھا پھر اسکے بعد دریافت کیا کہ تمہارے گھر تک سفر کا کرایہ کتنا ہے۔ اس نے کہا 15 روپے۔ پوچھا تمہارے پاس کتنے ہیں یا بالکل نہیں ہیں؟ اس نے جواب دیا 7 روپے، پھر حضرت نے جیب سے اسے 8 روپے عنایت کیئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سال بھر میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔<ref>شیخ الالسلام صفحہ نمبر 232</ref>
}}
 
=== میرے گھر کی بات کسی سے نہ کہنا ===
مولانا عبد الحق مدنی کا بیان ہے:
{{اقتباس|مدینہ منورہ والے سید حسین احمد مدنی کی اتنی عزت کرتے تھے کہ دوسرے کسی عالم کو یہ امتیاز حاصل نہ تھا لیکن حضرت مدنی رمضان شریف میں روزہ پر روزہ رکھتے اور کسی کو خبر نہ ہوتی۔ چنانچہ میں نے افطار کا پروگرام رکھا۔ کھانا لے آیا اصرار پر حضرت نے تھوڑا سا کھایا۔ میں سمجتا رہا کہ حضرت کے گھر سے بھی کھانا آئے گا مگر افطاری تو کجا سحر کو بھی نہ آیا۔ حضرت کے پاس چند کھجوریں تھیں جن سے روزہ افطار اور سحر کرلیا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا آنجناب کے گھر سے نہ افطار میں کھانا آیا اور نہ سحر کے لیے کوئی خبر آئی؟
 
حضرت مدنی نے بات ٹالنے کی بہت کوشش کی اور گفتگو کا رخ ادھر ادھر پھیرنا چاہا لیکن میرا صرار برھتا ہی گیا۔ فرمایا عبدالحق! جناب [[محمد صلی اللہ علیہ وسلم|رسول اللہ ﷺ]] کی سنت تو کبھی پوری ہونی چاہیے۔ اسکے بعد انتہائی بزرگانہ انداز میں فرمایا کہ میرے گھر کی بات کسی سے نہ کہنا: (بار بار آدھ پاؤ مسور کی دال پکا کر سب گھر والوں نے تھوڑی تھوڑی پی کر یا تربوز کے چھلکے سڑک پر سے اٹھا کر دھو کر شب میں پکا کر اس کا پانی پی کر گذرکیا)
}}
 
سطر 179 ⟵ 163:
 
== بیرونی روابط ==
* [http://ahnafmedia.com/audio-bayans/itemlist/category/44-maulana-husain-ahmad-madani سید حسین احمد مدنی کا بیان آڈیو میں]
 
== حوالہ جات ==