"عبد اللہ بن عباس" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ ناوبکس > سانچہ:صحابہ (بدرخواست صارف:BukhariSaeed)
م خودکار: خودکار درستی املا ← ہوئے
سطر 141:
=== ابن عباس کا عمرو بن عاص کو جواب خط ===
معاویہ نے عمر و عاص سے کہا:علی کے بعد سب سے مشہور و معروف شخیتت ابن عباس کی ہے اگر وہ کوئی بات کہے تو علیؑ اس کی مخالفت نہیں کریں گے، جتنی جلدی ہو کوئی تدبیرکروکیونکہ یہ جنگ ہم لوگوں کو ختم کردیگی، ہم ہرگز عراق نہیں پہنچ سکتے مگر یہ کہ شام کے لوگ نابود ہوجائیں ۔
عمر و عاص نے کہا:ابن عباس دھوکا نہیں کھا سکتے اگر اس کو دھوکا دے دیا تو علیؑ کو بھی دھوکا دے سکتے ہو، معاویہ کے بے حد اصرار پر عمر و عاص نے ابن عباس کو خط لکھا اور خط کے آخر میں کچھ شعر بھی لکھے، جب عمروعاص نے اپنا خط او ر اپنا کہے ہوےہوئے شعر معاویہ کو دکھائے تو معاویہ نے کہا ''لاٰ أریٰ کتابک علیٰ رقّةِ شعرِک'' یعنی تیراخط تیرے شعر کے پائے کا نہیں ہے! دھوکا بازوں کے سردار نے اس خط اور اشعار میں ابن عباس اور ان کے خاندان کی تعریف اور مالک اشتر کی برائی کی تھی اور آخر میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر جنگ ختم ہو گئی تو ابن عباس شوریٰ کے ایک ممبر ہوگے جس کے ذریعے سے امیر اور خلیفہ معین ہوگا، جب یہ خط ابن عباس کو ملا تو انہوں نے امام علیہ السلام کودکھایا اس وقت امام نے فرمایا۔ خدا وند عالم عاص کے بیٹے کو موت دے، کیسا دھوکا دینے والا خط ہے جتنی جلدی ہو اس کاجواب لکھو اور اس کے شعر کے جواب کے لیے اپنے بھائی سے شعر لکھواؤ کیونکہ وہ شعر کہنے میں ماہ رہے۔
* ابن عباس نے خط کے جواب میں لکھا: میں نے عربوں کے درمیان میں تجھ جیسا بے حیا نہیں دیکھا، اپنے دین کو بہت کم قیمت میں بیچ دیا اور دنیا کو گناہگاروں کی طرح بہت بڑاسمجھا اور ریاکاری کے ذریعے تقویٰ نمایاں کرتا ہے، اگر تو چاہتا ہے کہ خدا کو راضی کرے ،تو سب سے پہلے مصر کی حکومت کی ہوس اپنے دل سے نکال دے اور اپنے گھر واپس چلاجا۔
علی اور معاویہ ایک جیسے نہیں ہیں ،معاویہ نے ناحق جنگ شروع کی ہے اور اب خونریزی کا اسراف کر رہا ہے ،اور عراق اور شام کے لوگ برابر نہیں ہیں،عراقیوں نے بہترین مخلوق کی بیعت کی ہے اور شامیوں نے بدترین مخلوق کی بیعت کی ہے ،تو اور میں بھی اس سلسلے میں برابر نہيں ہيں، میں نے خدا کی مرضی چاہی ہے اور تو نے مصر کی حکومت اور پھر ان اشعار کو جو ان کے بھائی فضل نے عمروعاص کے اشعار کے وزن پر کہے تھے اس خط میں لکھا: