"سید احمد خان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← راجا
م خودکار: خودکار درستی املا ← گئے
سطر 49:
[[1864ء]] میں [[غازی پور]] میں [[علی گڑھ کی سائنسی سوسائٹی|سائنسی سوسائٹی]] قائم کی۔ [[علی گڑھ]] گئے تو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نکالا۔ [[انگلستان]] سے واپسی پر [[1870ء]] میں رسالہ [[تہذیب الاخلاق]] جاری کیا۔ اس میں [[مضامین سرسید]] نے مسلمانان ہند کے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا اورادب میں [[علی گڑھ تحریک]] کی بنیاد پڑی۔ سرسید کا کارنامہ علی گڑھ کالج ہے۔ [[1887ء]] میں ستر سال کی عمر میں پینش لے لی اوراپنے کالج کی ترقی اور ملکی مفاد کے لیے وقف کریا۔
 
[[1859]] ء میں وہ اپنے بیٹے [[سید محمود]] کے ساتھ [[انگلستان]] گیےگئے تو وہاں انھیں دو مشہور رسالوں (Tatler) اور (Spectator) کے مطالعے کا موقع ملا۔ یہ دونوں رسالے اخلاق اور مزاح کے خوبصورت امتزاج سے اصلاح معاشرہ کے علم بردار تھے۔ آپ نے مسلمانوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ ظرافت اور خوش طبعی فطری طور پر شخصیت کا حصہ تھی۔<ref name="Story of Pakistan, Sir Syed">{{cite web|title=Sir Syed Ahmad Khan|url=http://storyofpakistan.com/sir-syed-ahmad-khan/|work=Nazaria-e-Pakistan|publisher=Story of Pakistan, Sir Syed|accessdate=27 March 2014|display-authors=etal}}</ref>
 
'''سرسید احمد خاں''' [[برصغیر]] میں مسلم نشاتِ ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔<ref name="academia.edu"/><ref name="Muslim World 2004"/> انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انھیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی آپ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔ " سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اس وقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز اُن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ اُن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ اُنکی جائدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان " سائیس ،خانساماں، خدمتگار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے۔ … سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے۔۔۔۔ اور انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُنکو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جِدوجُہد کرتے رہے۔"<ref>نویدِ فکر، سبط حسن</ref>