"سید احمد خان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← گئے
سطر 265:
[[1859ء]] میں [[مراد آباد]] کے مقام پر ایک مدرسہ قائم کیا گیا جہاں [[فارسی]] کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس مدرسے میں [[انگریزی]] بھی پڑھائی جاتی تھی۔ [[1863ء]] میں [[غازی پور]] میں سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی گئی جس کا مقصد انگریزی علوم کو اردو اور فارسی میں ترجمہ کرنا تھا تاکہ ہندوستانی عوام جدید علوم سے استفادہ کرسکیں۔ [[1866ء]] میں سائنٹیفک سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک اخبارجاری کیا گیا جسے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کہا جاتا ہے یہ اخبار اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع کیا جاتا تھا۔ اس اخبار کے ذریعے [[انگریزوں]] کو مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا جاتا تھا۔
 
[[1869ء]] میں آپ کے بیٹے سید محمود کو حکومت کی طرف سے [[اعلیٰ تعلیم]] کے لیے [[انگلستان]] بھیجا گیا۔ آپ بھی [[1869ء]] میں اپنے بیٹے کے ہمراہ [[انگلستان]] چلے گئے۔ وہاں جا کر آپ نے [[جامعہ اوکسفرڈ|آکسفورڈ]] اور کیمبرج یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم کا مشاہدہ کیا۔ آپ ان یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم سے بہت متاثر ہوئے اور یہ ارادہ کیا کہ [[ہندوستان]] جا کر ان یونیورسٹیوں کی طرز کا ایک کالج قائم کریں گے۔
 
آپ [[انگلستان]] سے [[1870ء]] میں واپس آئے اور [[ہندوستان]] میں انجمن ترقی مسلمانان ہند کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ [[1870ء]] میں آپ نے [[تہذیب الاخلاق|رسالہ تہذیب الاخلاق]] لکھا جس میں آپ نے مسلمانوں کے ان معاشرتی پہلووٕں کی نشان دہی کی جن کی اصلاح کرنا مقصود تھی اور مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے ان پہلووٕں کی فوری اصلاح کریں۔
سطر 280:
[[محمڈن ایجوکیشن کانفرنس|محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس]] کا سالانہ جلسہ مختلف شہروں میں ہوتا تھا۔ جہاں مقامی مسلمانوں سے مل کر تعلیمی ترقی کے اقدامات پر غور کیا جاتا تھا اور مسلمانوں کے تجارتی، تعلیمی، صنعتی اور زراعتی مسائل پر غور کیا جاتا تھا۔<ref>[http://www.pakstudy.com/index.php?topic=11958.0 محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس]</ref>
 
[[آل انڈیا مسلم لیگ]] کا قیام بھی [[1906ء]] میں [[محمڈن ایجوکیشن کانفرنس|محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس]] کے سالانہ اجلاس کے موقع پر [[ڈھاکہ]] کے مقام پر عمل میں آیا۔ [[محمڈن ایجوکیشن کانفرنس|محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس]] کے سالانہ اجلاس کے موقع پر برصغیر کے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے [[ڈھاکہ]] کے نواب سلیم اللہ خاں کی دعوت پر ایک خصوصی اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی سیاسی راہنمائی کے لیے ایک [[سیاسی جماعت]] تشکیل دی جائے۔ یاد رہے کہ سرسید نے مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن بیسویں صدی کے آغاز سے کچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے کہ مسلمان ایک سیاسی پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت محسوس کرنے لگے۔[[ڈھاکہ]] اجلاس کی صدارت نواب وقار الملک نے کی۔ ن[[محسن الملک|نواب محسن الملک]]، [[محمد علی جوہر|مولانامحمد علی جوہر]]، [[مولانا ظفر علی خاں]]، [[اجمل خاں|حکیم اجمل خاں]] اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اکابرین اجلاس میں موجود تھے۔ [[مسلم لیگ]] کا پہلا صدر [[آغا خان سوم|سر آغا خان]] کو چنا گیا۔ مرکزی دفتر [[علی گڑھ]] میں قائم ہوا۔ تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں۔ [[برطانیہ]] میں [[لندن]] برانچ کا صدر [[سید امیر علی]] کو بنایا گیا۔
 
== اردو ہندی تنازع ==
{{اصل مضمون|اردو ہندی تنازع}}
[[جنگ آزادی ہند 1857ء|1857 ءکی جنگ آزادی]] کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں میں بڑھتے ہوئے اختلافات کے پیش نظر سر سید احمد خاں نے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ سیاسی بیداری اور عام ہوتے ہوئے شعور کے نتیجہ میں دونوں قوموں کا اکٹھا رہنا مشکل ہے۔ [[مولانا حالی]] نے [[حیات جاوید]] میں سرسید کے حوالے سے بھی ان خدشات کا اظہار کیا ہے ان کے خیال میں سرسید احمد نے [[1867ء]] میں ہی اردو ہندی تنازع کے پیش نظر مسلمانوں اور ہندوؤں کے علاحدہ ہوجانے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ انہوں نے اس کا ذکر ایک برطانوی افسر سے کیا تھا کہ دونوں قوموں میں لسانی خلیج وسیع ترہوتی جا رہی ہے۔ اور ایک متحدہ قومیت کے طور پر ان کے مل کے رہنے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ اور آگے چل کر مسلمانوں ار ہندوؤں کی راہیں جدا ہوجائیں گی۔<ref>{{حوالہ کتاب | نام = حیات جاوید| مصنف = الطاف حسین حالی| مصنف ربط = الطاف حسین حالی| صفحہ = 267| صفحات = | باب = | ناشر = | جلد = | مقام اشاعت = کانپور| تاریخ اشاعت = | سال اشاعت = 1901}}</ref>
 
[[اردو]] زبان کی ترقی و ترویج کا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور بہ زبان جلد ہی ترقی کی منزلیں طے کرتی ہوئی [[ہندوستان]] کے مسلمانوں کی زبان بن گئی۔[[اردو]] کئی زبانوں کے امتزاج سے معرض وجود میں آئی تھی۔ اس لیے اسے لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی ترقی میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو ادیبوں نے بھی بہت کام کیا ہے سرسید احمد خان نے بھی اردو کی ترویج و ترقی میں نمایاں کام کیا لیکن چونکہ ہندو فطری طور پر اس چیز سے نفرت کرتا تھا جس سے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور ثقافت وابستہ ہو لہٰذا ہندووٕں نے اردو زبان کی مخالفت شروع کر دی۔
سطر 338:
[[اردو]] زبان پر سرسید کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے [[مولوی عبدالحق]] کہتا ہے:
 
”اس نے زبان (اردو) کو پستی سے نکالا، اندازِبیان میں سادگی کے ساتھ قوت پیدا کی، سنجیدہ مضامین کا ڈول ڈالا، سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی، جدید علوم و فنون کے ترجمے انگریزی سے کروائے، خود کتابیں لکھیں اور دوسروں سے لکھوائیں۔ اخبار جاری کرکے اپنے انداز تحریر، بے لاگ تنقید اور روشن صحافت کا مرتبہ بڑھایا ”تہذیب الاخلاق “ کے ذریعے [[اردو ادب]] میں انقلاب پیدا کیا۔“<br/>
 
سرسید کے زمانے تک اردو کا سرمایہ صرف قصے کہانیاں، داستانوں، تذکروں، سوانح عمریوں اور مکاتیب کی شکل میں موجود تھا۔ سرسید تک پہنچتے پہنچتے اردو نثر کم از کم دو کروٹیں لے چکی تھی جس سے پرانی نثر نگاری میں خاصی تبدیلی آچکی تھی۔ خصوصاً [[غالب کے خطوط]] نثر پر کافی حد تک اثر انداز ہوئے اور اُن کی بدولت نثر میں مسجع و مقفٰی عبارت کی جگہ سادگی اور مدعا نگاری کو اختیار کیا گیا لیکن اس سلسلے کو صرف اور صرف سرسید نے آگے بڑھایا اور اردو نثر کو اس کا مقام دلایا۔ سرسید نے برطانوی ایما پر فارسی اور عربی کو اردو کے ذریعہ بے دخل کروا دیا تاکہ مسلمانان ہند اپنے ہزار سالہ علمی مواد اور خطے میں موجود دیگر مسلمانوں سے ربط کا واحد ذریعہ کھو بیٹھیں اور کوئی منظم شورش برطانوی نظام کے خلاف اٹھ کھڑی نہ ہو۔ ایسی تدابیر سے مسلمان سرکاری نوکریوں تک دین ایمان خراب کروا کر پہنچ ضرور جاتے تھے مگر آزادی کی نعمت مزید دور ہوتی جاتی تھی۔
 
=== جدید اردو نثر کے بانی ===
سطر 346:
بقول [[شبلی نعمانی|مولانا شبلی نعمانی]]،<br/>
”اردو انشاءپردازی کا جو آج انداز ہے اُس کے جد امجد اور امام سرسید تھے“<br/>
سرسید احمد خان، ”اردو نثر “ کے بانی نہ سہی، البتہ ”جدید اُردو نثر“ کا بانی ضرور ہے۔ اس سے پہلے پائی جانی والی نثر میں [[فارسی زبان]] کی حد سے زیادہ آمیزش ہے۔ کسی نے فارسی تراکیب سے نثر کو مزین کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی نے قافیہ بندی کے زور پر نثر کو شاعری سے قریب ترلانے کی جدوجہد کی ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں اردو نثر تکلف اور تصنع کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ سرسید احمد خان پہلے ادیب ہے جس نے اردو نثر کی خوبصورتی پر توجہ دینے کی بجائے مطلب نویسی پر زور دیا ہے۔ اس کی نثر نویسی کا مقصد اپنی علمیت کا رعب جتانا نہیں۔ بلکہ اپنے خیالات و نظریات کو عوام تک پہنچانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا۔ نہایت آسان نثر میں لکھا، تاکہ اسے عوام لوگ سمجھ سکیں اور یوں غالب کی تتبع میں اس نے جدید نثر کی ابتداءکی۔
 
=== رہنمائے قوم ===
سطر 649:
[[زمرہ:وکٹوریہ عہد کی شخصیات]]
[[زمرہ:ہندوستانی نائٹ]]
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]