"فضل الحق" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 21:
ہمارے جن قائدین نے جدوجہد آزادی میں پوری قوت اور جذبے سے ملک و قوم کی رہنمائی کی‘ ان رہنماﺅں میں شیر بنگال مولوی ابوالقاسم فضل الحق قابل ذکر ہیں جو بانی¿ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کے قریبی رفیق تھے اور جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں نمایاں اور قابلِ رشک کردار ادا کیا۔ آپ نے 23مارچ 1940ءکو لاہور میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں تاریخی قرارداد لاہور پیش کرکے تاریخ میں ایک منفرد اعزاز حاصل کیا۔
 
شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق 26اکتوبر 1873ءکو بنگال کے ضلع باریسال کے مشہور قاضی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد وکیل تھے اور ان کا شمار ممتاز قانون دانوں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو قرآن پاک‘ اسلامیات اور عربی و فارسی کے مضامین میں خصوصی طور پر تعلیم دلائی۔ مولوی اے کے فضل الحق کا تعلیمی ریکارڈ ہمیشہ شاندار رہا۔ آپ نے 1894ءمیں کلکتہ پریذیڈنسی کالج سے بی اے کیا۔ بعدازاں کلکتہ یونیورسٹی سے لاءکی ڈگری حاصل کرکے کلکتہ ہائی کورٹ میں پریکٹس شروع کردی۔ آپ کا شمار غیر منقسم بنگال اور بعد میں پاکستان کے ممتاز قانون دانوں میں کیاجاتا رہا ہے۔ وکالت شروع کرنے کے بعد آپ صوبائی سیاست میں بھی حصہ لیتے رہے۔ 1904ءمیں جب نواب سلیم اللہ خان نے ڈھاکہ میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ اجلاس منعقد کیا تو اس کے انتظام و انصرام کرنے والے جذبہ¿ حب الوطنی سے سرشار نوجوانوں میں مولوی فضل الحق پیش پیش تھے۔ اسی اجلاس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کے لیے ایک اعلیٰ منصوبہ تیار کرلیا گیا اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو چار رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی‘ مولوی اے کے فضل الحق اس میں بھی شامل تھے۔ آپ نے کچھ عرصہ سرکاری ملازمت بھی کی مگر چند سال بعد ملازمت چھوڑ کر سیاست میں بھرپور حصہ لینے لگے اور 1912ءمیں بنگال کی قانون ساز اسمبلی کے انتخاب میں ایک بااثر اور متعصب ہندو کمار مندرناتھ کو زبردست شکست دے کر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اسی سال آپ بنگال مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے جبکہ نواب سلیم اللہ خان اس کے صدر تھے۔ 1914ءمیں آپ کی صدارت میں ڈھاکہ میں پریذیڈنسی مسلم لیگ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں انگریز حکومت کی جانب سے [[تقسیم بنگال]] کی تنسیخ کے فیصلے کی سخت مذمت کی گئی اور مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں میں متناسب نمائندگی دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ شیر بنگال نے 1914ءمیں لکھنو میں قائداعظمؒ کی صدارت میں منعقد ہونے والی [[گول میز کانفرنس]] میں شرکت کی اور وہاں برملاکہا کہ مسلمانوں کے بارے میں یہ تصور غلط ہے کہ وہ امور مملکت چلانے کے اہل نہیں ہیں حالانکہ ہندوستان سمیت دنیا کے مختلف علاقوں میں یہ قوم حکمرانی کرتی رہی ہے۔انہو ں نے اس موقع پر کہا کہ ”بہتر یہ ہے کہ ہندوستان کے مشترکہ مفادات کا تحفظ کیا جائے“۔ آپ 1935ءسے 1937ءتک ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے رکن رہے۔ 1935ءمیں میونسپل کارپوریشن کے رکن اور پھر کلکتہ کے میئر چنے گئے۔ 1935ءکے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت 1937ءمیں ہونے والے انتخابات کے نتیجہ میں منتخب حکومتیں قائم ہونے پر آپ بنگال کے وزیراعلیٰ مقرر ہوئے اور 1942ءتک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس دوران آپ نے ہر شعبے میں مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کیں اور ان کے مفادات کا تحفظ کیا۔ آپ کے چھ سالہ دور حکومت کو مسلمانوں کی ترقی کا بہترین دور کہا جاسکتا ہے۔ 23فروری 1940ءکو انہوں نے ڈھاکہ میں ایک اجلاس منعقد کیا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے آپ کی کاوشوں سے ہندوستان کے دوسرے صوبوں میں جہاں کانگرسی وزارتیں قائم تھیں ان میں تعصب کی آگ بھڑک اُٹھی۔ ہندو کسی طرح بھی یہ برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ مسلمان ترقی کریں۔ انہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم شروع کردیا جس کے نتیجہ میں ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ ان حالات میں شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق نے اعلان کیا کہ اب مسلمان متعصب ہندوﺅں کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے۔
 
23 مارچ 1940ءکو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں علیحدہ مملکت کے حصول کا مطالبہ پیش کیا جائے گا۔ منٹو پارک لاہور میں منعقد ہونے والے اس تاریخی اجلاس میں لاکھوں افراد پورے برصغیر سے شریک ہوئے۔ اجلاس کی صدارت [[بابائے قوم]] حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کی اور اس میں شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق نے تاریخی قرار داد لاہور پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کی اکثریت والا شمال مشرقی حصہ جس میں بنگال اور آسام شامل ہیں اور شمال مغربی حصہ جس میں پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان اور کشمیر کے علاقے ہیں‘ ان سب پر مشتمل آزاد مملکت قائم ہونی چاہیے۔ شیر بنگال نے قرارداد پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ پورے برصغیر میں مسلمان بکھرے ہوئے ہیں۔ اب ہمارا فرض ہے کہ جہاں جہاں مسلمان بکھرے ہوئے ہیں‘ ان کو ایک کیا جائے۔ برصغیر کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے زعماءنے شیر بنگال کی تائید کی اور بعد میں قائداعظمؒ نے اپنے خطاب میں اس بات کو کنفرم کرتے ہوئے کہا کہ آج سے یہ متعین ہوگیا ہے کہ”ہماری منزل ایک ہے۔ ہم ایک قوم ہیں اور ہمیں بسنے کے لیے ایک خطہ کی ضرورت ہے“۔ برصغیر کے مسلمانوں کی یکجہتی اور مقصد سے سچی لگن کے باعث قرارداد لاہور کی منظوری کے صرف سات سال بعد بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زیر قیادت ہمیں پاکستان مل گیا۔ قیام پاکستان کے بعد شیر بنگال نے دیگر رہنماﺅں کے ہمراہ نئی اسلامی مملکت کو مضبوط بنانے کے لیے ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔
 
مولوی اے کے فضل الحق کا انتقال 27اپریل 1962ءکو 89سال کی عمر میں ہوا اور انہیں ڈھاکہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ اس سال ہم قرارداد لاہور (1940ئ) کی پلاٹینم جوبلی تقریبات منا کر بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ، شیر بنگال اور دیگر زعماءکو خراج تحسین پیش کرینگے۔ اس موقع پر ہمیں ان رہنماﺅں کی خدمات اور تعلیمات کو نصاب تعلیم کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ طالبعلم نظریہ¿ پاکستان کی روح سے روشناس ہوں اور اس احساسِ اپنائیت اور رشتے کو زندہ کیا جاسکے جس نے تحریک پاکستان میں کومیلا سے کراچی تک برصغیر کے مسلمانوں کو یکجا کردیا تھا۔ ہمیں [[ذرائع ابلاغ]] کے ذریعے انگریز کی عیاری‘ ہندو کی اصول شکنی‘ دوست نمادشمنوں اور قدیم نظریاتی دشمنوں کے کردار سے نئی نسل کو آگاہ کرنا چاہیے تاکہ ہم اس مقصد کو حاصل کرسکیں جس کے لیے ہمارے رہنماﺅں نے ایثار اور ہمت کی قابل قدر اور لائق تقلید مثالیں قائم کی ہیں۔
== مزید دیکھیے ==
* [[قرارداد پاکستان|قرارداد لاہور]]
سطر 69:
[[زمرہ:مشرقی پاکستان کے گورنر]]
[[زمرہ:ہندوستانی سیاستدان]]
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]