"ذوالفقار علی دیوبندی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی بذریعہ خوب
م خودکار: خودکار درستی املا ← ذو الفقار
سطر 7:
{{اقتباس|وہ دہلی کالج کے طالب تھے ، چند سال کے لیے بریلی کالج میں پروفیسر ہوگیے ، 1857ء میں میرٹھ میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس تھے ، مسٹر ٹیلر ان سے واقف تھے ، ان کا بیان ہے کہ ذوالفقار علی ذہین اور طباع ہونے کے علاوہ فارسی اور مغربی علوم سے بھی واقف تھے ، انھوں نے اردو میں تسہیل الھساب کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ، جو بریلی میں 1852ء میں چھپی ہے ۔}}<ref>تاریخ دار العلوم دیوبند جلد 1 صفحہ 124</ref>
==تحریک قیام دار العلوم==
1857ھ کی جنگ نے پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا ، خصوصا دہلی و صوبہ [[اتر پردیش]] کی جہاں سے یہ جنگ شروع اور ختم ہوئی ، اس کے سبب دہلی جو علوم کا مرکز تھا یکسر تباہ ہو گیا ، جو لوگ دوسرے مقامات پر ملازمت پر تھے ، چھوڑ چھاڑ کر اپنے وطن کو لوٹنے لگے ، دیوبند محمد قاسم نانوتوی کی سسرال بھی ہوتی تھی ، اس لیے ان کا یہاں آنا جانا کثرت سے تھا ، دیوبند کے [[سید محمد عابد دیوبندی]] (حاجی عابد حسین) ، [[فضل الرحمن عثمانی دیوبندی]] ذوالفقارذو الفقار علی دیوبندی سے نانوتوی کا مودت و محبت کا رشتہ قائم تھا ، ان حضرات کا وقت علم کے احیاء اور امت کی حالت پر غور و حل تلاش کرنے میں صرف ہونے لگا ، یہ بات دہرائی جانے لگی کہ دہلی کے بجایے اب دیوبند کو علم ، اصلاح ، اجتماعیت کا مرکز بنایا جایے ۔
سابقہ طرز یہ ہوا کرتا تھا کہ شاہی خزانوں سے علما کی خدمت کی جاتی تھی ، ان کے وطائف مقرر ہوتے تھے ، لیکن انگریز کے دور میں یہ ممکن نہ تھا ، بلکہ وہ تو ہندوستان و مسلمانوں کی دشمنی پر آمادہ تھے یا اوقاف ہوا کرتے تھے جس سے ضروریات کی تکمیل ہو ، مگر اس وقت اتنی گنجائش نہ تھی کہ اس کی بھی کوئی شکل ہو سکے ، ادھر قیام مرکز کا داعیہ بھی شدید تھا ، اس لیے اب ضرورت کہ سابقہ طرز بھروسا کرنے کے بجایے کوئی دوسرا طریقہ اختیار کیا جایے ، نانوتوی کے [[اصول ہشت گانہ]] سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اکابر کے سامنے وہ طریقہ عوامی چندہ کا تھا ، جس میں نہ حکومت کی مالی امداد شامل ہو اور نہ جاگیر داروں کی ، تاکہ سرکاری اثرات سے یہ تعلیم بالکل آزاد رہے ۔<ref>تاریخ دار العلوم دیوبند جلد 1 صفحہ 146</ref>
==چندے کی تحریک==
سطر 14:
==قیام دار العلوم کے وقت بانیان کی عمریں==
یہ بات تعجب خیز ہے کہ قیام دار العلوم دیوبند کے وقت بانیین کوئی بوڑھے اور عمر دراز نہ تھے ، بلکہ سن کا تعلق اس دور سے تھا جسے دور شباب کہا جاتا ہے ، نوجوانوں کے لیے یہ مثال بڑی ہی سبق آموز ہے ، اس سے بزرگی بعقل است نہ بسال کی جہاں تصدیق ہوتی ہے ، وہیں اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ مردان کار کسی بڑے کام کا آغاز کرنے کے لیے اپنے کہنہ سال اور معمر ہونے کا انتظار نہیں کیا کرتے ، ہمت بلند ماہ و سال کے حساب کی پابند نہیں ہوتی ، انھوں نے اس کام کی تکمیل کا فیصلہ کر لیا اور اس کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں وقف کر دیں ۔
دار العلوم کے اکابر ستہ کی اس جماعت مقدسہ میں سب سے زیادہ معمر ذوالفقارذو الفقار علی دیوبندی (عمر بوقت قیام 45) تھے ، ان کے علاوہ کسی کی عمر 35 سے زیادہ نہ تھی ، یہ نقشہ ان لوگوں کو چونکا دینے والا ہے جو بانیین دار العلوم دیوبند کی نسبت یہ تصور رکھتے ہیں کہ وہ سب بزرگ کہن سال اور عمر رسیدہ ہوں گے ۔ تفصیل کے لیے ذیل کا نقشہ ملاحظہ ہو :
#ذوالفقارذو الفقار علی دیوبندی ( ولادت : 1237 ) ( بوقت قیام دار العلوم ذیقعدہ 1282ھ : 45 سال )
#[[فضل الرحمن عثمانی دیوبندی]] ( ولادت : 1247ھ ) (بوقت قیام دار العلوم : 35 سال )
#[[محمد قاسم نانوتوی]] ( ولادت : 1248ھ ) (بوقت قیام دار العلوم : 34 سال )