"سورہ النجم" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی بذریعہ خوب
م خودکار: ویکائی > ابن مسعود، راست رو
سطر 29:
== زمانہ نزول ==
 
[[صحیح بخاری|بخاری]]، [[صحیح مسلم|مسلم]]، [[سنن ابی داؤد|ابو داؤد]] اور [[سنن نسائی|نسائی]] میں حضرت [[عبد اللہ بن مسعود]] کی روایت ہے کہ ''اول سورۃ انزلت فیھا سجدۃ النجم'' (پہلی سورت جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی النجم ہے)۔ اس حدیث کے جو اجزاء [[اسود بن یزید]]، [[ابو اسحاق]] اور [[زہیر بن معاویہ]] کی روایات میں حضرت ابو مسعود سے منقول ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن مجید کی وہ پہلی سورت ہے جسے [[رسول اللہ {{درود}}]] نے [[قریش]] کے ایک مجمع عام میں (اور ابن مردویہ کی روایت کے مطابق [[خانہ کعبہ|حرم]] میں) سنایا تھا۔ مجمع میں [[کافر]] اور [[مسلمان]] سب موجود تھے۔ آخر میں جب آپ نے آیت سجدہ پڑھ کر سجدہ فرمایا تو تمام حاضرین آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے اور مشرکین کے وہ بڑے بڑے سردار تک، جو مخالفت میں پیش پیش تھے، سجدہ کیے بغیر نہ رہ سکے۔ [[ابن مسعود]] رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کفار میں صرف ایک شخص [[امیہ بن خلف]] کو دیکھا اس نے سجدہ کرنے کی بجائے کچھ مٹی اٹھا کر پیشانی سے لگا لی اور کہا کہ میرے لیے بس یہی کافی ہے۔ بعد میں میری آنکھوں نے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل ہوا۔
 
اس واقعے کے دوسرے عینی شاہد حضرت [[مطلب بن ابی وداعہ]] ہیں جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے۔ نسائی اور [[مسند احمد]] میں ان کا اپنا بیان یہ نقل ہوا ہے کہ جب حضور {{درود}} نے سورہ نجم پڑھ کر سجدہ فرمایا اور سب حاضرین آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے تو میں نے سجدہ نہ کیا اور اسی کی تلافی اب میں اس طرح کرتا ہوں کہ اس سورت کی تلاوت کے وقت سجدہ کبھی نہیں چھوڑتا۔
سطر 52:
 
* اولاً سامعین کو سمجھایا گیا ہے کہ جس دین کی تم پیروی کر رہے ہو اس کی بنیاد محض گمان اور من مانے مفروضات پر قائم ہے۔ تم نے [[لات]] اور [[منات]] اور [[عزٰی]] جیسی چند دیویوں کو معبود بنا رکھا ہے، حالانکہ الوہیت میں برائے نام بھی ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ تم نے [[ایمان بالملائکہ|فرشتوں]] کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے رکھا ہے، حالانکہ خود اپنے لیے تم بیٹی کو عار سمجھتے ہو۔ تم نے اپنے نزدیک یہ فرض کر لیا ہے کہ تمہارے یہ معبود اللہ تعالٰی سے تمہارے کام بنوا سکتے ہیں، حالانکہ تمام ملائکہ، مقربین مل کر بھی اللہ سے اپنی کوئی بات نہیں منوا سکتے۔ اس طرح کے عقائد جو تم نے اختیار کر رکھے ہیں، ان میں سے کوئی عقیدہ بھی کسی علم اور دلیل پر مبنی نہیں ہے، بلکہ کچھ خواہشات ہیں جن کی خاطر تم بعض اوہام کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہو۔ یہ ایک بہت بڑی بنیادی غلطی ہے جس میں تم لوگ مبتلا ہو۔ دین وہی صحیح ہے جو حقیقت کے مطابق ہو اور حقیقت لوگوں کی خواہشات کی تابع نہیں ہوا کرتی کہ جسے وہ حقیقت سمجھ بیٹھیں وہی حقیقت ہو جائے۔ اس سے مطابقت کے لیے قیاس و گمان کام نہیں دیتا، بلکہ اس کے لیے علم درکار ہے، وہ علم تمہارے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو تم اس سے منہ موڑتے ہو اور الٹا اس شخص کو گمراہ ٹھیراتے ہو جو تمہیں صحیح بات بتا رہا ہے۔ اس غلطی میں تمہارے مبتلا ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ تمہیں آخرت کی کوئی فکر نہیں ہے،بس دنیا ہی تمہاری مطلوب بنی ہوئی ہے۔ اس لیے نہ تمہیں علم حقیقت کی کوئی طلب ہے، نہ اس بات کی کوئی پروا کہ جن عقائد کی تم پیروی کر رہے ہو وہ حق کے مطابق ہیں یا نہیں۔
* ثانیاً لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ ہی ساری کائنات کا مالک و مختار ہے۔ [[راست رو]] وہ ہے جو اس کے راستے پر ہو اور گمراہ وہ جو اس کی راہ سے ہٹا ہوا ہو۔ گمراہ کی گمراہی اور راست رو کی راست روی اس سے چھپی ہوئي نہیں ہے۔ ہر ایک کے عمل کو وہ جانتا ہے اور اس کے ہاں لازماً برائی کا بدلہ برا اور بھلائی کا بدلہ بھلا مل کر رہنا ہے۔ اصل فیصلہ اس پر نہیں ہونا کہ تم اپنے زعم میں اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو اور اپنی زبان سے اپنی پاکیزگی کے کتنے لمبے چوڑے دعوے کرتے ہو، بلکہ فیصلہ اس پر ہونا ہے کہ خدا کے علم میں تم متقی ہو یا نہیں۔ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو تو اس کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ چھوٹے چھوٹے قصوروں سے وہ درگزر فرمائے گا۔
* ثالثاً دین حق کے وہ چند بنیادی امور لوگوں کے سامنے پیش کیے گئے ہیں جو قرآں مجید کے نزول سے صدہا برس پہلے حضرت ابراہیم اور حضرت موسٰی علیہم السلام کے صحیفوں میں بیان ہو چکے تھے، تاکہ لوگ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نیا اور نرالا دین لے آئے ہیں، بلکہ ان کو معلوم ہو جائے کہ یہ وہ اصولی حقائق ہیں جو ہمیشہ سے خدا کے نبی بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ اس کے ساتھ انہی صحیفوں سے یہ بات بھی نقل کر دی گئی ہے کہ عاد اور ثمود اور قوم نوح اور قوم لوط کی تباہی اتفاقی حوادث کا نتیجہ نہ تھی بلکہ اللہ تعالٰی نے اسی ظلم و طغیان کی پاداش میں ان کو ہلاک کیا تھا جس سے باز آنے پر کفار مکہ کسی طرح آمادہ نہیں ہو رہے ہیں۔
 
سطر 66:
 
[[زمرہ:سورتیں]]
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]