"خواجہ ابو احمد ابدال" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Maqsoodshah01 (تبادلۂ خیال) کی ترامیم واپس ؛ حیدر کی گذشتہ تدوین کی جانب۔
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 4:
﴿وفات:355 ھ)<br />
آپ حسنی حسینی سادات عظام میں سے تھے اور حضرت خواجہ [[ابو اسحق شامی]] قدس سرہ کے خلیفۂ اکبر تھے۔آپ {{رح مذ}} کا لقب قدوۃ الدین تھا۔ آپ {{رح مذ}} جمال ظاہری و باطنی کے پیکر تھے۔ آپ {{رح مذ}} فرمانروائے فرغانہ کے بیٹے تھے آپ {{رح مذ}} کا نسب چند واسطوں سے حضرت حسن مثنیٰ علیہ السلام سے ملتا ہے۔
 
== نسب نامہ ==
آپ کا نسب نامہ یوں ہے:<br />
ابو احمد {{رح مذ}} ابدال بن سلطان فرغانہ سید ابراہیم {{رح مذ}} بن سید یحییٰ بن سید حسن بن سید مجدالمعالی المعروف بہ ابوالمعالی بن سید ناصر الدین بن سید عبدالسلام بن سید حسن مثنیٰ بن سید اما م حسن علیہ السلام مجتبیٰ بن امام المتقین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم۔<br />
 
=== سیرت و کردار ===
آپ {{رح مذ}} بڑے عابد و زاہد تھے۔ پیرو مرشد نے آپ کو بیعت کرنے کے بعد ایک خلوت کدے میں مجاہدے پر لگا دیا تھا۔ چنانچہ آپ سات دن بعد کھانا تناول فرماتے لیکن تین لقموں سے زیادہ کبھی نہ کھاتے اور چالیس دنوں بعد حاجات بشری کے لیے باہر نکلتے۔ آٹھ سال کی محنت شاقہ کے بعد خرقہ خلافت مرحمت ہوا۔ <br />
 
آپ کی کرامات کی شہرت مشرق و مغرب میں پھیلی تو علما کو آپ سے حسد ہونے لگا۔ آپ کی مجلس سماع کے خلاف فتویٰ بازی ہونے لگی اور علماء نے ایک محضر نامہ تیار کرکے حاکم وقت امیر نصیر کو پیش کیا۔ امیر نے ملک بھر کے علماء کی مجلس بلائی جس میں کئی ہزار علماء جمع ہوئے خواجہ ابو احمد ابدال کو بھی اس مجلس میں پیش کیا گیا آپ کے ساتھ ایک خادم محمد خدا بندہ بھی تھا جس کو قرآن حکیم میں سے سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص کے علاوہ کچھ بھی یاد نہ تھا۔ جب آپ اپنے خادم کے ہمراہ امیر نصیر کی بلائی ہوئی مجلس علماء میں پہنچے تو علماء جو پہلے سے یہ طے کیے بیٹھے تھے کہ خواجہ ابو احمد آئیں گے تو علماء میں سے کوئی بھی نہ تو ان کا استقبال کرے گا اور نہ ہی انکی عزت افزائی کی جائے گی، بے ساختہ و بے ارادہ آپ کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے‘ استقبال کر کے مجلس میں ایک بلند و نمایاں مسند پر بٹھایا اور مسئلہ سماع پر گفتگو شروع کر دی۔ جب علماء اپنا نکتہ نظر بیان کر چکے تو آپ {{رح مذ}} نے اپنے خادم محمد خدابندہ کو اشارہ فرمایا کہ ان علمائے کرام کے اعتراضات کے جوابات دو وہ خادم ان پڑھ اور جاہل تھا لیکن ایک نگاہ کرم سے اس پر علم کے دروازے کھلتے چلے گئے اور وہ نہایت فصیح و بلیغ انداز میں قرآن و حدیث سے علمائے کرام کے اعتراضات کا جواب دینے لگا اور بزرگان سلف کے طریقہ کو بھی بیان کرنے لگا۔ علمائے کرام اس خادم کے جوابات سن کر دنگ رہ گئے اور بعض تو شرمندگی سے سرجھکائے بیٹھے رہے۔حضرت ابو احمد ششم ماہ رمضان 260ہجری کو پیدا ہوئے اور یکم ماہ جمادی الثانی355 کو انتقال فرمایا۔
=== کرامات ===
آپ کی کرامات کی شہرت مشرق و مغرب میں پھیلی تو علما کو آپ سے حسد ہونے لگا۔ آپ کی مجلس سماع کے خلاف فتویٰ بازی ہونے لگی اور علماء نے ایک محضر نامہ تیار کرکے حاکم وقت امیر نصیر کو پیش کیا۔ امیر نے ملک بھر کے علماء کی مجلس بلائی جس میں کئی ہزار علماء جمع ہوئے خواجہ ابو احمد ابدال کو بھی اس مجلس میں پیش کیا گیا آپ کے ساتھ ایک خادم محمد خدا بندہ بھی تھا جس کو قرآن حکیم میں سے سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص کے علاوہ کچھ بھی یاد نہ تھا۔ جب آپ اپنے خادم کے ہمراہ امیر نصیر کی بلائی ہوئی مجلس علماء میں پہنچے تو علماء جو پہلے سے یہ طے کیے بیٹھے تھے کہ خواجہ ابو احمد آئیں گے تو علماء میں سے کوئی بھی نہ تو ان کا استقبال کرے گا اور نہ ہی انکی عزت افزائی کی جائے گی، بے ساختہ و بے ارادہ آپ کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے‘ استقبال کر کے مجلس میں ایک بلند و نمایاں مسند پر بٹھایا اور مسئلہ سماع پر گفتگو شروع کر دی۔ جب علماء اپنا نکتہ نظر بیان کر چکے تو آپ {{رح مذ}} نے اپنے خادم محمد خدابندہ کو اشارہ فرمایا کہ ان علمائے کرام کے اعتراضات کے جوابات دو وہ خادم ان پڑھ اور جاہل تھا لیکن ایک نگاہ کرم سے اس پر علم کے دروازے کھلتے چلے گئے اور وہ نہایت فصیح و بلیغ انداز میں قرآن و حدیث سے علمائے کرام کے اعتراضات کا جواب دینے لگا اور بزرگان سلف کے طریقہ کو بھی بیان کرنے لگا۔ علمائے کرام اس خادم کے جوابات سن کر دنگ رہ گئے اور بعض تو شرمندگی سے سرجھکائے بیٹھے رہے۔حضرت ابو احمد ششم ماہ رمضان 260ہجری کو پیدا ہوئے اور یکم ماہ جمادی الثانی355 کو انتقال فرمایا۔رہے۔
=== وفات ===
یکم ماہ جمادی الثانی355 کو انتقال فرمایا۔
 
== حوالہ جات ==