"محمد باقر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ زمرہ جات +ترتیب (14.9 core): + زمرہ:چودہ معصوم
سطر 44:
}}
 
'''حضرت محمد باقر'''، حضرت [[علی ابن حسین|زین العابدین]] کے فرزند اور [[اہل تشیع]] کے پانچویں امام ہیں۔
آپ کا نام اپنے جد بزرگوار حضرت رسول [[خدا کے نام]] پر محمد تھا اور باقر لقب۔ اسی وجہ سے امام محمد باقر علیہ السّلام کے نام سے مشہور ہوئے۔
:::'''بارہ اماموں میں سے یہ آپ ہی کو خصوصیت تھی کہ آپ کا سلسلہ نسب ماں اور باپ دونوں طرف حضرت [[محمد|رسول خدا]] تک پہنچتا ہے۔ دادا آپ کے سید الشہداء حضرت امام [[حسین]] علیہ السّلام تھے جو حضرت رسول خدا محمد مصطفے ٰ کے چھوٹے نواسے تھے اور والدہ آپ کی ام عبد اللہ فاطمہ علیہ السّلام حضرت امام [[حسن]] علیہ السّلام کی صاحبزادی تھیں جو حضرت رسول کے بڑے نواسے تھے۔ '''
سطر 80:
 
حضرت علیہ السّلام کے زمانہ میں علوم اہلبیت علیہ السّلام کے تحفظ کااہتمام اور حضرت کے شاگردوں نے ان افادیات سے جو انہیں حضرت امام محمدباقر علیہ السّلام سے حاصل ہوئے۔ مختلف علوم وفنون اور مذہب کے شعبوں میں کتب تصنیف کیں ذیل میں حضرت کے کچھ شاگردوں کا ذکر ہے اور ان کی تصانیف کانام درج کیا جاتا ہے . جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ امام محمدباقر علیہ السّلام سے اسلامی دنیا میں علم ومذہب نے کتنی ترقی کی۔
* ابان ابن تغلب : یہ علم قرآت اور لغت کے امام مانے گئے ہیں- سب سے پہلے کتاب غریب القرآن یعنی
قرآن مجید کے مشکل الفاظ کی تشریح انہوں نے تحریر کی تھی اور 141ھ میں وفات پائی۔
* ابو جعفر محمد بن حسن ابن ابی سارہ رو اسی علم قرآت، نحو اور تفسیر کے مشہور عالم تھے۔ کتاب الفصیل معانی القرآن وغیرہ پانچ کتب کے مصنف ہیں۔101ھ میں وفات پائی۔* عبد اللّٰہ ابن میمون اسود القداح: ان کی تصانیف سے ایک کتاب مبعث بنی، رسالت مآب {{درود}} کی سیرت اور تاریخ زندگی میں اور ایک کتاب حالاتِ جنت و نار میں تھی- ~0105ئھ میں وفات پائی۔* عطیہ ابن سعید عوفی۔ پانچ جلدوں میں [[تفسیر قرآن]] لکھی۔111ھ میں وفات پائی- * اسماعیل ابن عبد الرحمان الدی الکبیر- یہ مشہور مفسر قرآن ہیں- جن کے حوالے تمام اسلامی مفسرین نے سدی کے نام سے دیے ہیں 127ھ میں وفات پائی-* جابر بن یزید جعفی، انہوں نے امام محمد باقر سے پچاس ہزارحدیثیں سن کر یاد کیں اور ایک روایت میں ستر ہزار کی تعداد بتائی گئی ہے- اس کاذکر [[صحاح ستہ]] میں سے [[صحیح مسلم]] میں موجود ہے- تفسیر، فقہ اور حدیث میں کئی کتب تصنیف کیں۔128ھ میں وفات پائی-* عمار بن معاویہ وہنی: فقہ میں ایک کتاب تصنیف کی۔ 132ھ میں وفات پائی۔* سالم بن ابی حفصہ ابو یونس کوفی: فقہ میں ایک کتاب لکھی وفات 137ھ میں پائی-* عبد المومن ابن قاسم ابو عبد اللّٰہ انصاری: یہ بھی فقہ میں ایک کتاب کے مصنف ہیں۔147ھ میں وفات پائی-* ابوحمزہ ثمالی: تفسیر قرآن میں ایک کتاب لکھی، اس کے علاوہ کتاب النوادر اور کتاب الزمد بھی ان کی تصانیف میں سے ہیں- 150ھ میں وفات پائی-* زرارہ ابن اعین: بڑے بزرگ مرتبہ شیعہ عالم تھے ان کی علم کلام اور فقہ اور حدیث میں بہت سی کتب ہیں- وفات150ھ* محمد بن مسلم: یہ بھی بڑے بلند پایہ بزرگ تھے- امام محمد باقر سے تیس ہزار حدیثیں سنیں بہت سی کتب کے مصنف ہیں جن میں سے ایک کتاب تھی۔ چہار صد مسئلہ اور ابواب حلال و حرام- وفات 150ھ* یحییٰ بن قاسم ابو بصیر اسدی جلیل المرتبہ بزرگ تھے۔ کتاب مناسک حج کتاب یوم دلیلہ تصنیف کی۔150ھ میں وفات پائی۔* اسحٰق قمی: فقہ میں ایک کتاب کے مصنف ہیں-* اسماعیل بن جابر خثعمی کوفی: احادیث کی کئی کتب تصنیف کیں اور ایک کتاب فقہ میں تصنیف کی-* اسمعیٰل بن عبد الخالق:بلند مرتبہ فقیہہ تھے- ان کی تصنیف سے بھی ایک کتاب تھی-* بروالا سکاف الازدی: فقہ میں ایک کتاب لکھی-* حارث بن مغیرہ: یہ بھی مسائل فقہ میں ابک کتاب کے مصنف ہیں-* حذیفہ بن منصور خزاعی: ان کی بھی ایک کتاب فقہ میں تھی-* حسن بن السری الکاتب: ایک کتاب تصنیف کی-* حسین بن ثور ابن ابی فاختہ: کتاب النوادر تحریر کی-* حسین بن حما عبد ی کوفی: ایک کتاب کے مصنف ہیں-* حسین بن مصعب بجلی: ان کی بھی ایک کتاب تھی-* حماد بن ابی طلحہ: ایک کتاب تحریر کی-* حمزہ بن حمران بن اعین: زرارہ کے بھتیجے تھے اور ایک کتاب کے مصنف تھے۔
یہ چند نام ہیں ان کثیر علمائ و فقہا و محدثین میں سے جنہوں نے امام محمد باقر علیہ السّلام سے علوم اہل بیت علیہ السّلام کو حاصل کر کے کتب کی صورت میں محفوظ کیا- یہ اور پھر اس کے بعد امام جعفر صادق کے دور میں جو سینکڑوں کتب تصنیف ہوئیں یہی وہ سرمایہ تھا جس سے بعد میں کافی۔ من لا یحضرہ، تہذیب اور استبصار ایسے بڑے حدیث کے خزانے جمع ہو سکے جن پر شیعیت کا آسمان دورہ کرتا رہا ہے۔
 
== اخلاق و اوصاف ==
 
آپ کے اخلاق وہ تھے کہ دشمن بھی قائل تھے چنانچہ ایک شخص اہل شام میں سے مدینہ میں قیام رکھتا تھا اور اکثر امام محمد باقر کے پاس آ کر بیٹھا کرتا تھا- اس کا بیان تھا کہ مجھے اس گھرانے سے ہرگز کوئی خلوص و محبت نہیں مگر آپ کے اخلاق کی کشش اور فصاحت وہ ہے جس کی وجہ سے میں آپ کے پاس آنے اور بیٹھنے پر مجبور ہوں-
 
== امورِ سلطنت میں مشورہ ==
 
سلطنتِ اسلامیہ حقیقت میں ان اہل بیت رسول کا حق تھی مگر دنیا والوں نے مادی اقتدار کے آگے سر جھکایا اور ان حضرات کو گوشہ نشینی اختیار کرنا پڑی- عام افراد انسانی کی ذہنیت کے مطابق اس صورت میں اگرچہ حکومتِ وقت کسی وقت ان حضرات کی امداد کی ضرورت محسوس کرتی تو صاف طور پر انکار میں جواب دیا جا سکتا تھا مگر ان حضرات کے پیش نظر اعلی ظرفی کا وہ معیار تھا جس تک عام لوگ پہنچے ہوئے نہیں ہوتے- جس طرح امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب نے سخت موقعوں پر حکومت وقت کو مشورے دینے سے گریز نہیں کیا اسی طرح اس سلسلہ کے تمام حضرات علیہ السّلام نے اپنے اپنے زمانہ کے بادشاہوں کے ساتھ یہی طرزِ عمل اختیار کیا- چنانچہ حضرت امام محمد باقر کے زمانہ میں بھی ایسی صورت پیش آئی- واقعہ یہ تھا کہ حکومتِ اسلام کی طرف سے اس وقت تک کوئی خاص سکہ نہیں بنایا گیا تھا- بلکہ روی سلطنت کے سکے اسلامی سلطنت میں بھی رائج تھے- ولید بن عبد الملک کے زمانہ میں سلطنت شام اور سلطان روم کے درمیان اختلافات پیدا ہو گیا- [[رومی سلطنت]] نے یہ ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے سکوں پر پیغمبر اسلام کی شان کے خلاف کچھ الفاظ درج کرا دے گی اس پر مسلمانوں میں بڑی بے چینی پیدا ہو گئی- ولید نے ایک بہت بڑا جلسہ مشاورت کے ليے منعقد کیا جس میں عالم السلام کے ممتاز افراد شریک تھے- اس جلسہ میں امام محمد باقر بھی شریک ہوئے اور آپ نے یہ رائے دی کہ مسلمان کو خود اپنا سکہ ڈھالنا چاہیے جس میں ایک طرف لاالٰہ الااللّٰہ اور دوسری طرف محمد رسول اللّٰہ نقش ہو- امام علیہ السّلام کی اس تجویز کے سامنے سر تسلیم خم کیا گیا اور [[اسلامی سکہ]] اس طور پر تیار کیا گیا-
 
=== سلطنت بنی امیہ کی طرف سے مزاحمت ===
 
باوجودیکہ امام محمد باقر معاملاتِ ملکی میں کوئی دخل نہ دیتے تھے اور دخل دیا بھی تو سلطنت کی خواہش پر وقارِ اسلامی کے برقرار رکھنے کے ليے- مگر آپ کی خاموش زندگی اور خالص علمی اور روحانی مرجعیت بھی سلطنت وقت کو گوارا نہ تھی چنانچہ ہشام بن عبد الملک نے مدینہ کے حاکم کو خط لکھا کہ امام باقر کو ان کے فرزند امام جعفر صادق کے ہمراہ دمشق بھیج دیا جائے- اس کو منظور یہ تھا کہ حضرت کی عزت و وقار کو اپنے خیال میں دھچکا پہنچائے چنانچہ جب یہ حضرات علیہ السّلام دمشق پہنچے تو تین دن تک ہشام نے ملاقات کا موقع نہیں دیا- چوتھے دن دربار میں بلا بھیجا- ایک ایسے موقع پر کہ جب وہ تخت شاہی پر بیٹھا تھا اور لشکر داہنے اور بائیں ہتھیار لگائے صف بستہ کھڑا تھا اور وسط دربار میں ایک نشانہ تیراندازی کا مقرر کیا گیا تھا اور رؤسائ سلطنت اس کے سامنے شرط باندھ کر تیر لگاتے تھے امام کے پہنچنے پر انتہائی جراَت اور جسارت کے ساتھ اس نے خواہش کی کہ آپ بھی ان لوگوں کے ہمراہ تیر کا نشانہ لگائیں- ہر چند حضرت علیہ السّلام نے معذرت فرمائی مگر اس نے قبول نہ کیا- وہ سمجھتا تھا کہ آل محمد طویل مدت سے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں- ان کو جنگ کے فنون سے کیا واسطہ اور اس طرح منظور یہ تھا کہ لوگوں کو ہنسنے کا موقع ملے- مگر وہ یہ نہ جانتا تھا کہ ان میں سے ہر ایک فرد کے بازو میں علی علیہ السّلام کی قوت اور دل میں امام حسین علیہ السّلام کی طاقت موجود ہے- وہ حکم الٰہی اور فرض کا احساس ہے جس کی وجہ سے یہ حضرات ایک سکون اور سکوت کا مجسمہ نظر آتے ہیں- یہی ہوا کہ جب مجبور ہو کر حضرت نے تیر و کمان ہاتھ میں لیا اور چند تیرپے در پے ایک ہی نشانے پر بالکل ایک ہی نقطہ پر لگائے تو مجمع تعجب اور حیرت میں غرق ہو گیا اور ہر طرف سے تعریفیں ہونے لگیں- ہشام کو اپنے طرزِ عمل پر پشیمان ہونا پڑا- اس کے بعد اس کو یہ احساس ہوا کہ امام کا دمشق میں قیام کہیں عام خلقت کے دل میں اہل بیت علیہ السّلام کی عظمت قائم کر دینے کا سبب نہ ہو- اس لیے اس نے آپ کو واپس مدینہ جانے کی اجازت دے دی مگر دل میں حضرت علیہ السّلام کے ساتھ عداوت میں اور اضافہ ہو گیا۔
 
== ازواج ==
# '''[[ام فروة]]''' بنت [[القاسم بن محمد بن أبي بكر|القاسم]] بن [[محمد بن أبي بكر|محمد]] بن [[أبو بكر|أبي بكر]] بن أبي قحافة عثمان بن عامر بن عمرو بن كعب بن سعد بن '''[[بنو تيم|تيم]]''' بن [[مرة بن كعب|مرة]] بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن '''[[قريش]]''' بن '''[[كنانة]]''' بن خزيمة بن مدركة بن إلياس بن '''[[مضر]]''' بن [[نزار بن معد]] بن '''[[عدنان]]'''۔<ref>[[علي موسى الكعبي]]- [http://lib.eshia.ir/27726/1/68 الإمام أبو جعفر الباقر عليه السلام سيرة وتاريخ- مجلد 1، صفحة 68]</ref>
# '''أم حكيم''' بنت أسيد بن المغيرة بن الأخنس بن شريق الثقفية۔<ref>[[بهاء الدين الإربلي]]، [http://lib.eshia.ir/16052/2/343 كشف الغمة، مجلد 2، صفحة 343]</ref><ref>
سطر 103:
</ref>
 
== اولاد ==
# جعفر الصادق
# [[عبد اللہ دقدق بن باقر|عبد الله]]
سطر 114:
== وفات ==
 
سلطنتِ شام کو جتنا امام محمد باقر کی جلالت اور بزرگی کا اندازہ زیادہ ہوتا گیا اتنا ہی آپ کا وجود ان کے ليے ناقابل برداشت محسوس ہوتا رہا- آخر آپ کو اس خاموش زہر کے حربے سے جو اکثر سلطنت بنی امیہ کی طرف سے کام میں لایا جاتا رہا تھا شہید کرنے کی تدبیر کر لی گئی- وہ ایک زین کا تحفہ تھا جس میں خاص تدبیروں سے زہر پوشیدہ کیا گیا تھا اور جب حضرت اس زین پر سوار ہوئے تو زہر جسم میں سرایت کر گیا۔ چند روز کرب و تکلیف میں بستر بیمار پر گزرے اور آخرت سات ذی الحجہ 114ھ کو 57برس کی عمر میں وفات پائی۔
 
آپ کو حسب وصیت تین کپڑوں کا کفن دیا گیا جن میں سے ایک وہ یمنی چادر تھی جسے اوڑھ کر آپ روز جمعہ نماز پڑھتے تھے اور ایک وہ پیراہن تھا جسے آپ ہمیشہ پہنے رہتے تھے اور [[جنت البقیع]] میں اسی قبہ میں کہ جہاں امام حسن اور امام زین العابدین دفن ہو چکے تھے، دفن کیے گئے۔
 
== حوالہ جات ==
سطر 125:
[[زمرہ:733ء کی وفیات]]
[[زمرہ:743ء کی وفیات]]
[[زمرہ:آٹھویں صدی کے ائمہ کرام]]
[[زمرہ:اسماعیلی]]
[[زمرہ:ائمہ اثنا عشریہ]]
[[زمرہ:اہل بیت]]
[[زمرہ:بنو حسین]]
[[زمرہ:جنت البقیع میں مدفون شخصیات]]
[[زمرہ:چودہ معصوم]]
[[زمرہ:سنی ائمہ]]
[[زمرہ:شیعہ اثناعشری]]
[[زمرہ:بنو حسین]]
[[زمرہ:آٹھویں صدی کے ائمہ کرام]]