"ابو عبد اللہ محمد دواز دہم" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:خودکار ویکائی |
درستی |
||
سطر 5:
[[فائل:La Rendición de Granada - Pradilla.jpg|تصغیر|ابو عبد اللہ مسیحیوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے]]
'''ابو عبد اللہ''' (مکمل نام: ابو عبد اللہ محمد الثانی عشر) ([[1460ء]]-[[1533ء]]) [[امارت غرناطہ]] یعنی [[بنو نصر]] کا آخری فرمانروا تھا جو [[اندلس]] میں مسلمانوں کی آخری حکومت تھی۔ وہ [[طائفہ غرناطہ]] کے حکمران [[مولائے ابو الحسن]] کا بیٹا تھا۔
ابو عبد اللہ ایک غدار تھا، اس كا استاد ابو داؤد ایک منافق تھا وہ غیر مسلموں كى مدد كرتا تھا ابو عبد اللہ اس وقت ولى عهد تها ابو الحسن بادشاہ تها اور وہ بدر بن مغيرہ اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ لوشہ فتح كيا اور ادهر ابو عبد اللہ نے ابو داؤد كى کہنے بر بادشاہت كا اعلان كر ديا اور ابو موسى جو بدر بن مغيرہ اور اس کے ساتھیوں کی طرح بہترين انسان تھا اس كو قيد كرديا اور ساري باغيوں اور فساديوں كو آزاد كرديا بعد ازاں اس کے ضميرنے اس كو اٹھایا وہ دراصل ايك كمزور انسان تھا۔
[[1483ء]] میں ابو عبد اللہ گرفتار ہوکر [[لوسینا]] میں قید ہو گیا اور اسے اس شرط پر رہائی نصیب ہوئی کہ امارت غرناطہ
[[1489ء]] میں [[قشتالہ]] و [[ارغون]] کے [[شاہ فرڈیننڈ]] اور [[ازابیلا اول|ملکہ آئزابیلا]] نے ابو عبد اللہ کو غرناطہ خالی کرنے کا حکم دیا اور انکار پر شہر کا محاصرہ کر دیا۔ [[2 جنوری]] [[1492ء]] کو ابو عبد اللہ نے ہتھیار ڈال دیے اور [[ہسپانیہ|اسپین]] سے مسلم اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔
بعد ازاں وہ [[آبنائے جبل الطارق]] عبور کر کے [[مراکش]] آگیا جہاں [[فاس]] شہر میں اس کا انتقال ہو گیا۔
==ابو عبد اللہ بن ابوالحسن۔۔سقوطِ غرناطہ کا اہم کردار==
"جس چیز کی حفاظت تم مردو ں کی طرح نہیں کرسکے ، اس کے چھن جانے پر عورتوں کی طرح آنسو بہانے سے کیا فائدہ۔"
یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جو مسلم اسپین (اندلس)کے آخری حکمراں ابو عبداللہ بن مولائے ابو الحسن کی والدہ نے اُسے اُس وقت کہے جب وہ غرناطہ کی چابیاں
ابو عبداللہ، اندلس کی آخری مسلم ریاست غرناطہ کا وہ بد بخت حکمران تھا جس نے عین اس وقت اپنے والد ابو الحسن اور چچا [[محمد بن سعد]] الزاغل کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا جب وہ اندلس میں
==سن 1469ء کا سیاسی منظر نامہ اندلس کے تناظر میں==
1469ء کے اندلس کے سیاسی منظر نامے پر ایک نگاہ ڈالتے ہوئے اس داستان کے آخری باب کی طرف چلتے ہیں جس کا آغاز تقریباًآٹھ سو سال قبل جبل طارق یا جبرالٹر کے ساحل پر [[طارق بن زیاد]] نے
پھر وقت نے پلٹا کھایا اور اندلس کے مسلمانوں کا زوال شروع ہو گیا،پھر قدرت نے [[یوسف بن تاشفین]] کی صورت میں اندلس کے مسلمانوں کو سنبھلنے کا بہترین موقع فراہم کیا مگر ان کے نصیب میں زوال لکھ دیا گیا تھا ۔
الداخل کی عظیم سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہونا شروع ہو گئی۔ سرقسطہ ، قشطالیہ ،الشبیلہ اور قرطبہ جیسے عظیم علم و ہنر کے مراکز مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلنے شروع ہو گئے۔
اراغون اور قشطالیہ کی مضبوط
==غرناطہ، اندلس میں مسلمانوں کی آخری امید==
1469ء تک اندلس کے مسلمان غرناطہ کی ریاست تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔سارا اندلس ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا ،مسلمان اندلس بھر سے سمٹ کر غرناطہ میں اپنی بقاء کی لڑائی میں مصروف تھے ۔ غرناطہ کا موجودہ حکمران ایک نڈر اور قابل شخص مولائے ابو الحسن تھا ۔اہل اندلس کو طویل عرصے بعد ایک لائق حکمران نصیب ہوا تھا ۔اہل اندلس اسے اپنا نجات ہند تعبیر کر رہے تھے۔سلطان ابو الحسن سے مسلمانوں کی توقعات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سلطان کا بھائی محمد بن سعد الزاغل (جو الزاغل کے نام سے مشہور ہے )مالقہ کے علاقے کا حکمران تھا اور جب اس نے یہ محسوس کیا کہ
یہ جواب سن کر فرنڈیڈاور ازابیلا مبہوت رہ گئے۔ اس وقت قسطلہ اور اراغون کی باہمی ریاست کا رقبہ سوا لاکھ [[مربع میل]] کے لگ بھگ تھا ۔جبکہ غرناطہ کی ریاست سمٹ سمٹا کر صرف چار ہزار مربع میل رہ گئی تھی۔یہ مختصر رقبہ بھی
آخر کار غرناطہ کے سرحدی مقام لوشہ میں سلطان ابو الحسن اور فرنڈیڈ (Ferdinand) کا ٹکراؤ ہو گیا ،اہل غرناطہ قوت اور عدد دونوں اعتبار سے
==غرناطہ کے ولی عہد ابو عبداللہ کی بغاوت==
ابھی ابوالحسن لوشہ کے میدان میں ہی تھا کہ غرناطہ میں اس کے [[ولی عہد]] ابو عبداللہ نے بغاوت کردی اور غرناطہ کے تخت کا مالک بن
==ابو عبداللہ کی فرنڈیڈ کے ہا تھوں گرفتاری==
اسی دوران ابو عبداللہ اور فرنڈیڈ کالوشنیہ کے مقام پر آمنا سامنا ہو گیا ۔ناتجربہ کار ابو عبداللہ نے شکست کھائی اور گرفتار ہو گیا ،ابو عبداللہ کے فرنڈیڈ کی قید میں جانے کے بعد غرناطہ کا تخت خالی ہو گیا ، بیٹے کی بغاوت نے ابو الحسن کو بیمار کر دیا تھا ،اس پر زبر دست فالج کا حملہ ہو گیا تھا،اس نے ریاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنے بھائی الزاغل کو غرناطہ کا تخت سنبھالنے اور فرنیڈنڈکا مقابلہ کرنے کا حکم دیا۔الزاغل غرناطہ پہنچا اور اس نے مسلم افواج کی ازسرِنو تنظیم شروع کردی ۔ الزاغل بلاشبہ ابو الحسن کا حقیقی جانشین تھا اور ممکن تھا کہ اپنی دلیری اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ اندلس کے مسلمانوں کا نجات دہنرہ بن جاتا مگر اس موقع پر ابو عبداللہ کا ایک دفعہ پھر مکروہ کردار سامنے آتا ہے۔
دوران قید فرنیڈنڈ نے ابو عبداللہ کی خصلت پہچان لی۔ وہ سمجھ گیا کہ ابو عبداللہ کو مسلمانوں سے زیادہ اپنے اقتدار کی خواہش ہے ۔اب فرنیڈنڈ نے ابو عبداللہ کو الزاغل اور ابوالحسن کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ۔اس نے ابو عبداللہ کو یقین دلایا کہ وہ اسے غرناطہ کا وارث تسلیم کرتا ہے اور یہ کہ فرنیڈنڈ غرناطہ کا تخت حاصل کرنے میں ابوعبداللہ کی مدد کرے گا ۔
==ابوعبداللہ کی رہائی اور الزاغل سے ٹکراؤ==
ابو عبداللہ سے ساز باز کرنے کے بعد فرنڈیڈنے اسے اپنی قید سے رخصت کر دیا ۔ابو عبداللہ سیدھا مالقہ پہنچا جہاں الزاغل کا قبضہ تھااہل مالقہ کو یقین دہانی کرائی کہ فرنڈیڈ اس کے ساتھ ہے اور اگر اہل مالقہ ،ابو عبداللہ کا ساتھ دیں تو وہ ان کی
لوشہ پر قبضہ فرنڈیڈ کے منصوبے کا حصہ تھا۔ اب ابو عبداللہ مالقہ اور لوشہ دونوں پر قابض تھا۔ اس نے فوراً فرنیڈنڈ کو لوشہ آنے کی دعوت دے ڈالی۔مسلمان حیران و پریشان ہو گئے کہ جس لوشہ کی حفاظت کے لیے انہوں نے سالوں سے سر دھر کی بازی لگائی ہوئی ہے وہ بغیر کسی خون خرابے کے فرنڈیڈ کو مل گیا.
==ابو عبداللہ کا غرناطہ پر قبضہ==
سطر 45:
یہ منظر نامہ دیکھتے ہوئے مالقہ والوں نے فرنیڈنڈ سے صلح کرلی ۔اس طرح لوشہ اور مالقہ پر فرنڈیڈ کا قبضہ مکمل ہو گیا ۔
==فرنڈیڈ کا ابو عبداللہ کو غرناطہ حوالے کرنے کا پیغام==
ابو عبداللہ کو بیٹا کہنے اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا دم بھرنے والا فرنڈیڈ اب اپنے اصل روپ میں آگیا ۔ اس نے ابو عبداللہ کو پیغام بھجوایا کہ اب غرناطہ کی چابیاں
==الزاغل کا شرمناک کردار==
قدرت قوموں کو سنبھلنے کے لیے کئی مواقع دیتی ہے۔ یوسف بن تاشفین کی آمد سے لے کر ابو الحسن کی تخت نشینی تک اہل اندلس کو سنبھلنے کے کئی مواقع ملے ۔مگر اقتدار کی خواہش اور ہوس میں اپنوں سے غداری نے اہل اندلس کو برباد کر کے چھوڑا۔ اس نازک موقع پر جب
فرنیڈنڈ نے یہ سنہری موقع جانے نہ دیا اور ایک دفعہ پھر مسلمانوں کو آپس میں لڑوادیا ۔اب الزاغل نے فرنیڈنڈ کی مدد کے ساتھ ابو عبداللہ پر حملے کرنے شروع کیے ،غرناطہ کے مضافات کے تمام قلعے ایک ایک کرکے
==سقوطِ غرناطہ اور ابو عبداللہ کا انجام==
اب فرنڈیڈ اور ازابیلا نے فیصلہ کن معرکہ کی تیاریاں شروع کر دیں۔1492 ء کا سال آگیا اور اسی سال [[موسم گرما]] میں
اہل غرناطہ اب بھی
معاہدے کے تحت ابو عبداللہ کو البشرات کے علاقے میں ایک جاگیر دے دی گئی۔آخر کار وہ تاریخی دن آگیا جسے آج تک [[تاریخ اسلام]] کا [[طالب علم]] سیاہ دن سے تعبیر کرتا ہے۔2جنوری 1492 ء کو غرناطہ کی چابیاں ابو عبداللہ نے اپنے ہاتھوں سے فرنڈیڈ اور ازابیلا کو پیش کر دیں۔ پادری اعظم نے قصر الحمراء پر لہراتا صدیوں پرانا پرچم اسلامی اتار کر صلیب کو نصب کردیاور اس طرح سقوط غرناطہ کے ساتھ ساتھ اندلس میں مسلمانوں کا آٹھ سو سالہ حکمرانی کا سورج بھی غروب ہو گیا ۔سو سال کے اندر اند
== مزید دیکھیے ==
* [[سقوط غرناطہ]]
|