"سید احمد خان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:خودکار ویکائی
درستی, درستی املاتصنیفات ← تصانیف, لفظوں ← الفاظ, نقطہ نظر ← نقطۂ نظر (2), ہوئ ← ہوئی
سطر 1:
{{خانہ معلومات فلسفی
{{Infobox philosopher
| name =سر سید احمد خان
| image =File:Syed Ahmed Khan.jpg
سطر 88:
 
=== رسالہ نمیقہ ===
سر سید کی تصنیفاتتصانیف کی فہرست میں جو ایک رسالہ موسوم بہ " نمیقہ" بہ زبانِ فارسی تصور شیخ کے بیان میں ہے اس کی نسبت سر سید کہتے تھے کہ:
 
"میں نے اسے شاہ احمد سعید صاحب کو دکھایا تھا، انہوں نے اس کو دیکھ کر یہ فرمایا کہ جو باتیں اس میں لکھی گئی ہیں وہ اہلِ حال کے سوا کوئی نہیں لکھ سکتا۔ بس یہ اس توجہ کی برکت ہے جو شاہ صاحب× کو تمہارے ساتھ تھی اور اب تک ہے۔"
سطر 121:
سر سید کہتے تھے کہ
 
"1870ء میں جبکہ خطباتِ احمدیہ چھپ کر لندن میں شائع ہوئی تو اس پر لندن کے ایک اخبار میں کسی انگریز نے لکھا تھا کہ عیسائیوںمسیحیوں کو ہوشیار ہو جانا چاہیے کہ ہندوستان کے ایک مسلمان نے ان ہی کے ملک میں بیٹھ کر ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے دکھایا ہے کہ اسلام ان داغوں اور دھبوں سے پاک ہے جو عیسائیمسیحی اس کے خوش نما چہرے پر لگاتے ہیں۔"
 
=== تفسیر القرآن ===
سطر 142:
 
== تعلیمی خدمات ==
سرسید کا نقطہنقطۂ نظر تھا کہ مسلم قوم کی ترقی کی راہ تعلیم کی مدد سے ہی ہموار کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اوار دوسری اقوام کے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انہوں نے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلکہ مسلمانوں کے لیے جدید علوم کے حصول کی سہولتیں بھی فراہم کرنے کی پوری کوشش کی۔ انہوں نے سائنس٬ جدید ادب اور معاشرتی علوم کی طرف مسلمانوں کو راغب کیا۔ انہوں نے انگریزی کی تعلیم کو مسلمانوں کی کامیابی کے لیے زینہ قرار دیا تاکہ وہ ہندوئوں کے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل کر سکیں۔
 
[[1859ء]] میں سرسید نے مراد آباد اور [[1862ء]] میں غازی پور میں مدرسے قائم کیے۔ ان مدرسو ں میں [[فارسی زبان|فارسی]] کے علاوہ [[انگریزی زبان]] اور جدید علوم پڑھانے کا بندوبست بھی کیا گیا۔
سطر 148:
[[1875ء]] میں انہوں نے [[علی گڑھ]] میں ایم اے او ہائی اسکول کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں ایم۔ اے۔ او کالج اور آپ کی وفات کے بعد [[1920ء]] میں یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر گیا۔ ان اداروں میں انہوں نے آرچ بولڈ آرنلڈ اور موریسن جیسے انگریز اساتذہ کی خدمات حاصل کیں۔
 
[[1863ء]] میں [[غازی پور]] میں سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد مغربی زبانوں میں لکھی گئیں کتب کے اردو تراجم کرانا تھا۔ بعد ازاں [[1876ء]] میں سوسائٹی کے دفاتر [[علی گڑھ]] میں منتقل کر دیے گئے۔ سر سید نے نئی نسل کو انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دی تاکہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سکے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم کا بہت سا سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا۔ سوسائٹی کی خدمات کی بدولت اردو زبان کو بہت ترقی نصیب ہوئہوئی ۔
 
[[1886ء]] میں سر سید احمد خاں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ مسلم قوم کی تعلیمی ضرورتوں کے لیے افراد کی فراہمی میں اس ادارے نے بڑی مدد دی اور کانفرنس کی کارکردگی سے متاثر ہو کر مختلف شخصیات نے اپنے اپنے علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ [[لاہور]] میں [[اسلامیہ کالج]] [[کراچی]] میں [[سندھ مدرسۃ الاسلام]]، [[پشاور]] میں اسلامیہ کالج اور [[کانپور]] میں حلیم کالج کی بنیاد رکھی۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس مسلمانوں کے سیاسی ثقافتی معاشی اور معاشرت حقوق کے تحفظ کے لیے بھی کوشاں رہی۔<ref>[http://www.pakstudy.com/index.php?topic=17591.0 تعلیمی خدمات]</ref>
سطر 338:
[[اردو]] زبان پر سرسید کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے [[مولوی عبدالحق]] کہتا ہے:
 
”اس نے زبان (اردو) کو پستی سے نکالا، اندازِبیان میں سادگی کے ساتھ قوت پیدا کی، سنجیدہ مضامین کا ڈول ڈالا، سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی، جدید علوم و فنون کے ترجمے انگریزی سے کروائے، خود کتابیں لکھیں اور دوسروں سے لکھوائیں۔ اخبار جاری کرکے اپنے انداز تحریر، بے لاگ تنقید اور روشن صحافت کا مرتبہ بڑھایا ”تہذیب الاخلاق “ کے ذریعے [[اردو ادب]] میں انقلاب پیدا کیا۔“<br/>
 
سرسید کے زمانے تک اردو کا سرمایہ صرف قصے کہانیاں، داستانوں، تذکروں، سوانح عمریوں اور مکاتیب کی شکل میں موجود تھا۔ سرسید تک پہنچتے پہنچتے اردو نثر کم از کم دو کروٹیں لے چکی تھی جس سے پرانی نثر نگاری میں خاصی تبدیلی آچکی تھی۔ خصوصاً [[غالب کے خطوط]] نثر پر کافی حد تک اثر انداز ہوئے اور اُن کی بدولت نثر میں مسجع و مقفٰی عبارت کی جگہ سادگی اور مدعا نگاری کو اختیار کیا گیا لیکن اس سلسلے کو صرف اور صرف سرسید نے آگے بڑھایا اور اردو نثر کو اس کا مقام دلایا۔ سرسید نے برطانوی ایما پر فارسی اور عربی کو اردو کے ذریعہ بے دخل کروا دیا تاکہ مسلمانان ہند اپنے ہزار سالہ علمی مواد اور خطے میں موجود دیگر مسلمانوں سے ربط کا واحد ذریعہ کھو بیٹھیں اور کوئی منظم شورش برطانوی نظام کے خلاف اٹھ کھڑی نہ ہو۔ ایسی تدابیر سے مسلمان سرکاری نوکریوں تک دین ایمان خراب کروا کر پہنچ ضرور جاتے تھے مگر آزادی کی نعمت مزید دور ہوتی جاتی تھی۔
سطر 410:
=== پھیکا پن ===
 
سرسید کی تحریریں یقین و اعتماد تو پیدا کرتی ہیں مگر قاری کو محظوظ اور مسرور بہت کم کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مقصد کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ وہ خیالات کے اظہار میں اتنے بے تکلف اور بے ساختہ ہو جاتے ہیں کہ لفظوںالفاظ کی خوبصورتی، فقروں کی ہم آہنگی کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ وہ کسی پابندی، رکاوٹ اور احتیاط کا لحاظ نہیں کرتے۔ وہ اسلوب اور شوکت الفاظ پر مطلب اور مدعا کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح سرسید کی تحریروں میں حسن کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہی کمی اس کے اسلوب کا خاصہ بھی بن جاتی ہے۔ اور ان کی تحریر ہمہ رنگ خیالات ادا کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ مولانا حالی اُن کے بارے میں لکھتے ہیں،<br/>
” کسی شخص کے گھر میں آگ لگی ہو تو وہ لوگوں کو پکارے کہ آؤ اس آگ کو بجھائو۔ اس میں الفاظ کی ترتیب اور فقروں کی ترکیب کا خیال نہیں ہوتا کیونکہ ان کے پاس ایک دعوت تھی، اس دعوت کو دینے کے لیے انہیں جو بھی الفاظ ملے، بیان کر دیے۔“
 
سطر 421:
[[فائل:Muhammadansocialreformer.jpg|300px|تصغیر|[[تہذیب الاخلاق]] کا ٹائٹل جو سرسید 1870 میں لندن سے بنوا کر لائے تھے۔]]
* [[حالی]]
{{شعرنمونہ کلام آغاز}}
<div style='text-align: center;'>
{{شعر|ترے احسان رہ رہ کر سدا یاد آئیں گے ان کو|}}
{{شعر|کریں گے ذکر ہر مجلس میں اور دہرائیں گے ان کو|}}
{{شعرنمونہ کلام اختتام}}
* [[مولوی نظیر احمد]]
 
{{شعرنمونہ کلام آغاز}}
<div style='text-align: center;'>
{{شعر|وہ اپنے وقت کا اک فرد کامل بلکہ اکمل تھا |}}
سطر 436:
{{شعر|اب اس کے بعد لشکر ہے مگر افسر نیہں کوئی|}}
{{شعر|بھٹکتا پھر رہا ہے قافلہ رہبر نیہں کوئی|}}
{{شعرنمونہ کلام اختتام}}
* [[اکبر الہ آبادی]]
{{شعرنمونہ کلام آغاز}}
<div style='text-align: center;'>
{{شعر|ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا|}}
سطر 444:
{{شعر|یہ دنیا چاہے جو کچھ بھی کہے اکبر یہ کہتا ہے|}}
{{شعر|خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں|}}
{{شعرنمونہ کلام اختتام}}
* [[صبا اکبرآبادی]]
{{شعرنمونہ کلام آغاز}}
<div style='text-align: center;'>
 
سطر 481:
{{شعر|تھی قوم اگر جسم تو سر تھے سید|}}
{{شعر|بگڑی ہوئی قوم سنبھل جائے گی|}}
{{شعرنمونہ کلام اختتام}}
 
یاد رکھنا چاہئیے کہ شعرا کسی بھی بات کو چاہے وہ تعریف ہو یا تنقیص بہت بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں ان کے یہاں مبالغہ آرائی بہت زیادہ ملتی ہے۔<ref>[http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?3937-سرسید-احمد-خاں-کے -لیے&s=49d75e26c526ae19fc628f95e66d1a93 سرسید احمد خاں کے لیے]</ref>
سطر 487:
 
== تنقید اور مخالفت ==
اکثر اسلامی حلقوں میں سرسید گمراہ اور کافر قرار دیا جاتا رہا۔ برصغیر میں انگریزوں کے دو منتخب '''احمد''' خاص کر تنقید کا نشانہ بنے جن میں ایک [[مرزا غلام احمد]] اور دوسرا '''سید احمد خان''' تھا۔ (معلوم نہیں کہ [[مرزا غلام احمد]] کو احمد کس طرح لکھ دیا جاتا ہے)۔ اسلام کے بنیادی عقائد پر مختلف نقطہنقطۂ نظر رکھنے کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنے۔
 
=== انگریزوں کے ساتھ کھانے پر عام رد عمل ===