"انجمن ترقی اردو" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 28:
| former name =
}}
جنوری 1902ء میں آل انڈیا [[محمڈن ایجوکیشن کانفرنس]] [[علی گڑھ]] کے تحت ایک علمی شعبہ قائم کیا گیا۔ جس کانام '''انجمن ترقی اردو''' تھا۔ مولانا [[شبلی نعمانی]] اس کے سیکرٹری رہے تھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ء میں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں [[مولوی عبدالحق]] سیکرٹری منتخب ہوئے۔ مولوی صاحب اورنگ آباد (دکن ) میں ملازم تھے وہ انجمن کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس طرح حیدرآباد دکن اس کا مرکز بن گیا۔ انجمن کے زیر اہتمام لاکھ سے زائد جدیدعلمی، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا گیا۔ نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کرکے چھاپے گئے۔ دوسہ ماہی رسائل، اردو اور سائنس جاری کیے گئے۔ ایک عظیم الشان [[کتب خانہ]] قائم کیا گیا۔ حیدرآباد دکن کی [[عثمانیہ یونیورسٹی]] انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ انجمن نے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا جہاں سینکڑوں علمی کتابیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں۔
 
1936ء میں انجمن کو دلی منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اور 1938ء میں انجمن مع مولوی عبد الحق دلی آگئی۔ [[تقسیم ہند]] کے ہنگاموں میں انجمن کے کتب خانے کی بیشتر کتابیں ضائع ہوگئیں۔ مولوی صاحب کراچی آ گئے اور اکتوبر 1948ء سے انجمن کا مرکز کراچی بن گیا۔ [[سرعبد القادر|سر شیخ عبدالقادر]] انجمن کے صدر اور مولوی صاحب سیکرٹری تھے۔ 1950ء میں مولوی صاحب صدر منتخب ہوئے۔ 1949ء میں انجمن نے اردو کالج قائم کیا۔ جہاں ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ مولوی صاحب کے انتقال (1961) کے بعد جناب [[اختر حسین]] صدر اور [[جمیل الدین عالی]] اعزازی سیکرٹری بنائے گئے۔ انجمن کی شاخیں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں قائم ہیں۔ ہندوستان میں بھی یہ ابھی تک زندہ ہے۔
 
== تاریخ ==
 
انجمنِ ترقّیٴ اُردو کی تاریخ برّصغیر پاک و ہند میں خلوص، لگن، جدّوجہد اور سعی و عمل کی تاریخ ہے۔ سرسیّد احمد خاں کے عہد میں مسلمان 1857ء کی ہزیمت سے سہمے ہوئے تھے۔ ہندوؤں کو بھاری اکثریت کے ساتھ ساتھ فرنگی حکمرانوں کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔ چناں چہ انھوں نے اس سے فائدہ اٹھاکر یہ آواز بلند کی کہ عدالتوں کی ساری کارروائی [[ہندی زبان]] میں ہونا چاہیے۔ اس نعرے نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی اور اس سلسلے میں قوّت اور اکثریت کے دباؤ دونوں سے کام لیاگیا۔ سرسیّد کو اس تحریک کے نقصان دہ اثرات کا اندازہ ہو گیا تھا۔ انھوں نے یہ صورتِ حال دیکھ کر اپنے آپ کو صرف مسلمانوں کے قومی کاموں کے لیے وقف کر لیا اور دو قومی نظریے کی ترویج و اشاعت کی۔
سرسیّد نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔ اُن کے بعد اُن کے لائق جانشینوں نواب [[محسن الملک]] اور نواب وقار الملک نے یہ خدمت انجام دی۔ سرسیّد نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقّی کے لیے ایک ادارہ ”مسلم ایجوکیشنل کانفرنس“ کے نام سے قائم کیا تھا۔ مسلم ایجوکیشنل کے سالانہ جلسے ہماری قومی اور تعلیمی تاریخ میں اہمیت کے حامل ہیں۔ ترقّیٴ اردو بھی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا ایک مقصد تھا جس کے حوالے سے کام ہوتا رہتا تھا۔ مگر یہ بات شدّت کے ساتھ محسوس کی جا رہی تھی کہ ترقّیٴ اردو اور اردو کی مدافعت کے لیے ایک ہمہ جہت فعّال اور مستعد ادارے کی ضرورت ہے۔
1903ء میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ جلسہ دلّی میں منعقد ہوا۔ اس جلسے میں کانفرنس کے مختلف شعبے قائم کیے گئے۔ اِنہیں شعبوں میں ایک شعبہ ترقّیٴ اردو کا بھی تھا۔ یہی شعبہ’ انجمنِ ترقّیٴ اُردو‘کی بنیاد تھا۔
 
سطر 45:
نائب صدر شمس العلماء مولوی نذیر احمد
 
نائب صدر شمس العلماء مولانا [[الطاف حسین]] حالی
 
نائب صدر شمس العلماء مولوی ذکاء اللہ
سطر 59:
== ہندی اردو تنازع اور انجمن ==
 
برطانوی اقتدار قائم ہونے کے بعد برصغیر کے بیشتر کھلے طور پر متعصب اور بعض متعصب نہ ظاہر ہونے والے ہندو رہنماؤں نے اس بات پر پورا زور صرف کیا تھا کہ [[دیوناگری]] رسم الخط الفاظ اور ہندی زبان کو سرکاری حیثیت حاصل ہو جائے اور ہندی کو برّصغیر کی واحد مشترک زبان تسلیم کر لیا جائے۔ ”اردو کو جو قرآنی حروف میں لکھی جاتی ہے۔ “ یک قلم خارج کر دیا جائے۔ [[انڈین نیشنل کانگریس]] کے بااثر عناصر اور دوسری ہندو جماعتوں نے ہندی کو رواج دینے کی بڑی کوشش کی اور اس سلسلے میں بڑی پیچیدہ، چالاک سیاست سے کام لیا لیکن انجمن اور بابائے اردو کی اَن تھک محنت، حوصلے اور مقابلے کی وجہ سے انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ انجمن نے ہندی اردو تنازعے میں اردو زبان کی سلامتی اور تحفّظ کے لیے بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ انجمن کے یہ کارنامے تحریکِ پاکستان اور قومی تاریخ کا اہم حصّہ ہیں۔
 
== اردو زبان کی ترویج و اشاعت۔ مخالفتوں اور مشکلات کا دَور ==
سطر 76:
# تاریخ تمدّن (سر ہینری طامس بکل۔ ترجمہ: منشی محمد احد علی)
# تاریخ ملل قدیم (سینویس۔ ترجمہ: سیّد محمود اعظم فہمی)
# نفح الطیب (علّامہ مقری۔ ترجمہ: مولوی [[محمد خلیل]] الرحمن)
# نیپولین اعظم (جوزیف ایبٹ۔ ترجمہ: محمد معین الدّین)
# فلسفہ تعلیم (ہربرٹ اسپینسر۔ ترجمہ: خواجہ غلام الحسنین)
سطر 95:
# مشاہیر یونان و روما (چار جلدیں، پلوٹارک، ترجمہ: ہاشمی فرید آبادی)
# مکالمات افلاطون (افلاطون۔ ترجمہ: ڈاکٹر سیّد عابد حسین)
# [[جوامع الحکایات]] و لوامع الروایات (عربی سے ترجمہ: اختر شیرانی)
# طربیہ خداوندی (دانتے کی ڈوائن کامیڈی۔ ترجمہ: عزیز احمد)
# تاریخ الحکما (جمال الدّین ابو الحسن علی بن یوسف القفطی۔ ترجمہ: ڈاکٹر [[غلام جیلانی]] برق)
# انجمن کے رسائل
انجمن نے 1921ء میں جنوبی ایشیا کا وقیع سہ ماہی ”اردو“، 1928ء میں رسالہ ”سائنس“ اور 1939ء میں اخبار ”ہماری زبان“ جاری کیا۔ اردو کا مقصد و منشا اردو ادب،اور اعلیٰ تحقیق کو فروغ دینا تھا۔ ”سائنس“ کے ذریعے سے اردو میں جدید دَور کے سائنسی افکار کی اشاعت ہوئی۔ ”ہماری زبان“ ”اردو زبان“ کے بارے میں تازہ ترین خبروں کا مجموعہ ہوتا تھا۔
سطر 115:
== اردو زبان کے سلسلے میں انجمن کی تندہی ==
 
انجمن نے اردو کے خلاف اُٹھنے والی ہر تحریک کا پامردی سے مقابلہ کیا اور مخالفین اردو کے عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ مسلمانوں میں قومی یک جہتی بذریعہ اردو کی طویل کامیاب تحریک تاریخ کے ریکارڈ پر ہے۔ ڈاکٹر [[فرمان فتح پوری]] کی کتاب ”اُردو قومی یکجہتی اور پاکستان“ اسی موضوع پر، پوری کہانی سناتی ہے۔..
1938ء میں انجمن کا دفتر اورنگ آباد سے دلّی منتقل ہو گیا مگر 1947ء کے فسادات میں انجمن کا سارا اثاثہ برباد ہو گیا۔ عمارت پر ایک بیمہ کمپنی نے قبضہ کر لیا۔ انجمن کا نادر اور قیمتی کتب خانہ لُٹ گیا۔ مطبوعات ردّی میں فروخت کردی گئیں اور کام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔
دلّی میں انجمن کی تباہی اور بربادی کے بعد بابائے اردو کراچی چلے آئے۔ یہاں ازسرِنو انجمن کے کاموں کا آغاز ہوا۔
بے سروسامانی کے باوجود انجمن نے پاکستان میں نئے عزم اور حوصلے سے کام شروع کیا۔ مشہور ادیب اور ادیب گر سر شیخ عبد القادر صدر منتخب ہوئے۔ قائد اعظم [[محمد علی جناح]] کو انجمن کے افتتاح کی دعوت دی گئی۔ قائد اعظم نے یہ دعوت منظور کرلی اور لکھا کہ میں اپریل کے بعد کسی دن بخوشی انجمن کا افتتاح کروں گا لیکن اُن کی مصروفیت اور پھر وفات کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا۔ شہید ملّت نوابزادہ [[لیاقت علی]] خاں، سردار عبد الرّب نشتراور دوسرے اکابرین وقت نے انجمن سے تعلق جاری رکھا۔..
سر شیخ عبد القادر بھی جلد ہی انتقال فرماگئے۔ اب بابائے اردو انجمن کے صدر منتخب ہوئے اور اپنی وفات تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ بابائے اردو کے بعد اختر حسین نے صدارت کی ذمے داری قبول کی اور اپنی وفات تک صدر رہے اُن کے بعد [[قدرت اللہ شہاب]] صدر منتخب ہوئے، اُن کے انتقال کے بعد جناب نورالحسن جعفری انجمن کے صدر رہے اور ان کے انتقال کے بعدجناب آفتاب احمد خان انجمن کے صدر ہیں اور خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان میں انجمن کے معتمدین میں بھی بڑے نام شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر معین الحق! جمیل الدّین عالی بابائے اردو کی حیات ہی میں رکن منتظمہ تھے۔ ان کے انتقال کے بعد معتمدِاعزازی مقرر ہوئے۔ وہ یہ خدمت تاحال اعزازی طور پر انجام دے رہے ہیں۔
 
سطر 137:
[[زمرہ:تحریک پاکستان]]
[[زمرہ:علی گڑھ]]
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]