"تحفۂ اثنا عشریہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 15:
مرہٹوں نے احمد شاہ ابدالی کے خلاف اودھ کے شیعہ نواب شجاع الدولہ کو اتحاد کی دعوت دی لیکن نواب نے احمد شاہ ابدالی سے اتحاد کرنے کو مصلحت کے قریب جانا۔ 1761ء میں اودھ کےشیعہ نواب شجاع الدولہ(صفدر جنگ کے بیٹے)، روہیل کھنڈ کے نجیب الدولہ اور احمد شاہ ابدالی کی مشترکہ افواج نے مرہٹوں کو پانی پت میں شکست دے کر شمال میں ان کی پیشقدمی ہمیشہ کے لئے روک دی۔نجیب الدولہ نے دہلی پر قبضہ کر لیا۔1762ء میں شاہ ولی اللہ انتقال فرما گئے۔1770ء میں نجیب الدولہ کے انتقال کے بعد مرہٹوں نے اس کے بیٹے ضابطہ خان کے قبضے سے دہلی آزاد کرایا اور شاہ عالم ثانی کے حوالے کیا ۔ 1772ء میں احمد شاہ ابدالی کا انتقال ہوا اور افغان سلطنت داخلی شورش کا شکار ہو گئی۔شاہ عالم ثانی نے شیعہ سردار نجف خان کو اپنا وزیر مقرر کیا۔ نجف خان نے سکھوں کے مقابلے میں دہلی کا کامیابی سے دفاع کیا۔ 1782ء میں نجف خان کا انتقال ہو گیا۔ 1787ء میں ضابطہ خان کے بیٹے غلام قادر روہیلہ نےدہلی پر حملہ کر کے دوبارہ قبضہ کر لیا۔ وہ ایک ذہنی مریض تھا، اس نے شاہ عالم ثانی کی آنکھوں میں سوئی مار کر اندھا کر دیا اور مغل شہزادیوں سے زنا باالجبر کرنے کے بعد ننگا کر کے کوڑے لگاۓ۔ کئی خوبصورت مغل شہزادیاں قید میں بھوکی رکھ کر ماری گئیں اور شہزادے اور ان کے بچے بری طرح پیٹے گئے<ref>خیر الدین محمد الہ آبادی،عبرت نامہ، 30-88</ref>۔ مرہٹے دوبارہ شاہ عالم ثانی کی کمک کو پہنچے اور دو سال بعد دہلی دوبارہ شاہ عالم کے قبضے میں چلا گیا، غلام قادر روہیلہ کی آنکھیں بھی نکالی گئیں اور اس کو اذیت ناک طریقے سے مارا گیا ۔
 
== تحفہ اثنا عشریہ کی تصنیف اور اسکے ابواب ==
== شاہ عبد العزیز اور تحفہ اثنا عشریہ ==
شاہ ولی الله کے بیٹوں میں سے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ( 1746ء ۔ 1823ء) فرقہ وارانہ نفرت میں آگے تھے، اور انہی منفی جذبات کی وجہ سے ان کو مستقل معدے میں جلن کی شکایت رہتی تھی<ref>دہلوی،محمد بیگ ،مرزا،دیباچہ فتاویٰ عزیزیہ، مطبع مجتبائی دہلی1391ھ، ص4</ref>۔ ستم بالاۓ ستم یہ کہ پچیس برس کی عمر ہی میں ان کو جذام ہو گیا اور نظر بھی کمزور ہو گئی تھی۔ ایک اور واقعہ جس نے ان کو ذاتی طور پر دکھ دیا وہ ان کے عزیز شاگرد سید قمر الدین حسینی، جن کیلئے انہوں نے" '''اجالہ نافعہ''' "کے عنوان سے علم حدیث کا ایک رسالہ لکھا تھا، کا شیعہ مسلک اختیار کرنا تھا<ref>علامہ عبد الحئی بن فخر الدین،"'''نزهة الخواطر وبهجة المسامع والنواظر'''"، جلد 7، شمارہ 713، "الشیخ قمر الدین دہلوی"- دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 1999.</ref>۔ مسلسل جسمانی اذیت اور اس زمانے کے حالات کا غصہ اپنے فتووں اور خطوط میں شیعوں پر نکالتے رہے۔ 1790ء میں شاہ عبد العزیز نے شیعہ اعتقادات کے خلاف '''"تحفۃ اثنا عشریۃ"''' نامی کتاب لکھی۔ یہ کتاب ایک افغان سنی عالم خواجہ نصر الله کابلی کی کتاب '''" ''صواقع موبقہ'''''''"'' کی فارسی میں شرح تھی۔اس کتاب کا پہلا نسخہ شاہ عبد العزیز نے تقیہ سے کام لیتے ہوۓ "حافظ غلام حلیم "کے قلمی نام سے شائع کیا، کیوں کہ انھیں شیعہ امراء سے انتقامی کاروائی کا خوف تھا۔ البتہ اگر شیعہ صاحبان حل و عقد کو اگر سنی علماء کے خلاف تعصب سے کام لینا ہوتا تو اودھ میں وہ سنی علماۓ فرنگی محل کی سرپرستی نہ کر رہے ہوتے۔ اس کتاب کی اشاعت کے خلاف کوئی کاروائی نہ کئے جانے کے بعد اگلی چاپ میں انہوں نے اپنا اصلی نام بھی ظاہر کر دیا۔اس کتاب میں شاہ عبد العزیز نے درج ذیل بارہ ابواب قائم کئے:۔