"وحدت الوجود" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم) |
Hammad (تبادلۂ خیال | شراکتیں) BukhariSaeed (تبادلۂ خیال) کی 3518464ویں ترمیم کی جانب واپس پھیر دیا گیا: متن حذفی۔ (پلک) (ٹیگ: رد ترمیم) |
||
سطر 10:
اللہ کے بارے میں اہل تصوف کے مختلف عقیدے ہیں۔ ایک عقیدہ حلول کا ہے،یعنی اللہ اپنی کسی مخلوق میں اتر آتا ہے، یہ حلاج صوفی کا عقیدہ تھا۔ ایک عقیدہ وحدت الوجود کا ہے یعنی خالق مخلوق جدا نہیں، یہ عقیدہ تیسری صدی سے لے کر موجودہ زمانہ تک رائج رہا اور آخر میں اسی پر تمام اہل تصوف کا اتفاق ہو گیا ہے۔ اس عقیدے کے چوٹی کے حضرات میں ابن عربی، ابن سبعین، تلمسانی، عبد الکریم جیلی، عبد الغنی نابلسی ہیں۔ اور جدید طرق تصوف کے افراد بھی اسی پر کاربند ہیں۔<ref>{{حوالہ کتاب|نام= اہل تصوف کی کارستانیاں|مصنف=شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کویت ، مترجم:مولانا صفی الرحمن مبارک پوری{{رح}}|صفحہ=27|ناشر=مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان}}</ref>
== اہل سنت والجماعت کا نقطۂ نگاہ ==
وحدت الوجود اور اللہ تعالٰی کا کسی مخلوق میں حلول کرنا یا مخلوق اور خالق کے یکجان ہونے کا عقیدہ رکھنا دین سے خارج کردینے والا کف رہے۔<ref>{{حوالہ کتاب|نام=اصول اہلسنت والجماعت|صفحہ=3|مصنف=ناصر بن عبد الکریم العقل}}</ref>
===امام ابن تیمیہ{{رح}} کا نظریہ===
[[امام ابن تیمیہ]] رحمۃ اللہ علیہ وحدت الوجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور ان کا استدلال یہ تھا کہ یہ نت نئی چیزیں ہیں جو رسول اللہ {{درود}} اور صحابہ کے دور میں نہ تھیں۔ لہٰذا پیروان ابن عربی کے متعلق ایک جگہ پر فرمایا۔
ان لوگوں کے عقائد اس بنیاد پر قائم ہیں کہ تمام مخلوقات عالم جن میں شیطان، کافر، فاسق، کتا، سور وغیرہ خدا کا عین ہیں۔ یہ سب چیزیں مخلوق ہونے کے باوجود ذات خدا وندی سے متحد ہیں اور یہ کثرت جو نظر آ رہی ہے فریب نظر ہے۔ (رسالہ حقیقۃ مذہب الاتحادین، ص 160)
اسی رسالے میں انہوں نے ابن عربی کا ایک شعر نقل کیا ہے
الرب حق“ و العبد حق“
یا لیتَ شعری مَن المکلف“
جس کا ترجمہ ہے کہ رب بھی خدا ہے اور انسان بھی خدا ہے۔ کاش! مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ان میں سے مکلف (یعنی دوسرے کو احکام کی پابندی کا حکم دینے والا) کون ہے۔
اسی جیسے عقائد کی بنا پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ{{رح}} ابن عربی کو کافر قرار دیتے ہیں۔
=== فنا کے تین درجات ===
بعض صوفیا کے ہاں اتحاد یا وحدت الوجود سے مراد اللہ کی ذات میں فنا ہوجانا ہے۔ امام کے ہاں فنا کے تین درجات ہیں۔
اول۔ مناہی کو ترک کرکے اوامر کی تعمیل میں ڈوب جانا
دوم۔ عبادت کرتے کرتے اللہ کی ذات میں فنا ہوجانا
سوم۔ اپنے آپ کو عین خداسمجھنا
امام کے ہاں پہلی صورت محمود ہے اور باقی دونوں مذموم۔ کیونکہ ان کی تائید نہ تو حضور [[محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم]] کے کسی قول سے ہوتی ہے اور نہ فعل سے ۔
=== بریلوی نقطۂ نگاہ ===
مولوی محمد یار دربار محمدیہ گڑھی شریف محمد {{درود}} کو خدا قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:-
<div style='text-align: center;'>
گر محمد نے محمد کو خدا مان لیا<br/>
پھر تو سمجھو کہ مسلمان ہے دغاباز نہیں<br/>
</div>
بریلوی علامہ سید [[احمد سعید کاظمی]] اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ((قبلہ حضرت یار صاحب کا یہ شعر اور اس جیسی دوسری عبارات (جو مسلم بین الفریقین علما کی کتب میں بکثرت پائی جاتی ہیں) مسئلہ وحدت الوجود پر مبنی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تعینات سے قطع نظر کرکے موجود حقیقی یعنی مابہ الموجودیت حق سبحانہ وتعالی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔ مولانا یار صاحب کے شعر کا مضمون شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے کلام میں ہے۔: تم محمد عظیم الشان {{درود}} کو محمد گمان کرتے ہو جیسے تم سراب کو دور سے دیکھ کر پانی سمجھتے ہو، وہ ظاہری نظر میں پانی ہی ہے مگر حقیقت{{دوزبر}}ا آب نہیں ہے، بلکہ سراب ہے، جب تم محمد {{درود}} کے قریب آؤگے تو تم محمد {{درود}} کو نہ پاؤ گے بلکہ صورت محمدیہ میں اللہ تعالٰی کو پاؤ گے اور رویت محمدیہ میں اللہ تعالٰی کو دیکھو گے۔<ref>فتوحات مکیہ جلد ثانی ص:127</ref>{{اطلاع}}حوالہ مکمل دیں
=== دیوبندی نقطۂ نگاہ ===
|