"ثور انقلاب" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ زمرہ جات +ترتیب+صفائی (14.9 core): + زمرہ:1970ء کی دہائی میں فوجی تاخت اور فوجی بغاوت کی کوششیں+زمرہ:1978ء میں افغانستان+زمرہ:1978ء کے تنازعات+زمرہ:افغان خانہ جنگی |
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 6:
27-28 اپریل 1978ء کو افغانستان میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اففانستان کی زیر قیادت فوجی انقلاب کے ذریعے اس وقت کے صدر داؤد خان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، اسے تاریخ میں ثور انقلاب یا اپریل انقلاب کہا جاتا ہے ۔ داؤد خان کو اس کے خاندان سمیت صدارتی محل میں قتل کر دیا گیا<ref>{{Cite web|url=http://www.afghanland.com/history/biography/daoud.html|title=Mohammad Daud Khan|last=|first=|date=2000|website=Afghanland.com|archive-url=https://web.archive.org/web/20170817040633/http://www.afghanland.com/history/biography/daoud.html|archive-date=2017-08-17|dead-url=|access-date=2018-03-11}}</ref> ۔ اس انقلاب کے نتیجے میں نور محمد ترکئی نے بطور صدر (جنرل سیکرٹری ، انقلابی کونسل ) کے اقتدار سنبھالا ، جوکہ ملک میں 1979ء میں سویت مداخلت اور سویت افغان جنگ (1979–1989) تک عہدے پر فائض رہے۔ یہ انقلاب اس خطے میں محنت کشوں، دہقانوں، نوجوانوں اور مظلوموں کی وہ واحد سرکشی تھی جس نے افغانستان سے فرسودہ قبائلیت، جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کیا تھا، ایک طبقات سے پاک انسانی معاشرے کی تعمیر کا آغاز کیا تھا اور ہمسایہ ممالک میں انقلابیوں اور انقلابی تبدیلی کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں ایک نئی روح پھونک دی تھی<ref name="Barnett">{{cite web|url=https://books.google.be/books?id=laG03iJF7t8C&lpg=PA290&dq=|title=The Fragmentation of Afghanistan|last=Rubin|first=Barnett R.|date=2002|publisher=Yale University Press|year=|isbn=978-0-300-09519-7|location=|pp=104–105}}</ref>۔
جون 1978ء نیویارک میں ایک پریس کانفرنس کے دوران میں حفیظ اللہ امین خود کہا کہ یہ قطعاً کوئی کُو (فوجی بغاوت) نہیں تھا بلکہ ایک انقلاب تھا جسے افغانستان کے عوام نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کی قیادت میں برپا کیا<ref>{{Citation|last=AP Archive|title=SYND 6 6 78 AFGHAN FOREIGN MINISTER HAFIZULLAH PRESS CONFERENCE ON RECENT COUP|date=2015-07-24|url=https://www.youtube.com/watch?v=iEJAuOA-Qow|accessdate=2018-03-11}}</ref>
=== پس منظر ===
بیسوی صدی میں افغانستان کو پسماندگی سے نکال کر ایک جدید سماج بنانے کے لیے دو قابل ذکر کوششیں کی گئیں۔ پہلی سنجیدہ جدوجہد افغانستان کے اس وقت کے بادشاہ امان اللہ خان کی قیادت میں کی گئی۔ تیسری انگریز افغان جنگ 1919ء کے نتیجے میں افغانستان نے برطانیہ سے مکمل آزادی حاصل کر لی۔[[امان اللہ خان]] (دورِ اقتدار: 1919ء-1929ء) نے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اصلاحات کیں اور مغربی دنیا سے تعلقات قائم کیے۔ اصلاحات میں بنیادی تعلیم کا لازمی قرار دینا اور مغربی طرز کی دیگر اصلاحات شامل تھیں۔ 1929ء میں اسے اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اس کے جاتے ہی تمام تر اصلاحات کو منسوخ کردیا گیا۔1940ء کی دہائی کے اواخر میں رجعت کے بادل چھٹنا شروع ہوئے۔ پریس کو کسی حد آزادی دی گئی اور سیاسی پارٹیاں بنانے کی اجازت دی گئی۔ 1947ء میں افغانستان کے بائیں بازو کے انقلابی اور ترقی پسند نوجوانوں نے ویش زلمیان کے نام سے ایک سیاسی اور ادبی تنظیم قائم کی۔ اس کے سرکردہ رہنماؤں میں محمد رسول پشتون، گل باچا الفت، گل محمد غبار، عبدالرؤف بینوا، نور محمد ترہ کئی اور ببرک کارمل بھی شامل تھے۔ تنظیم کا ہیڈ کوارٹر قندھار میں تھ<ref name=":0">{{Cite news|title=ثور انقلاب آج بھی مشعل راہ ہے!|url=http://www.struggle.pk/relevance-of-saur-revolution-today/|work=The Struggle {{!}} طبقاتی جدوجہد|access-date=2018-11-02|language=en}}</ref>ا۔ ’ولس‘ اور ’انگار‘ تنظیم کے دو جریدے تھے جبکہ افغانستان کے ایوان زیریں میں ان کے حمایتی بھی موجود تھے جو عوامی مسائل اور حکومتی نااہلی اور بدعنوانی پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔جنوری 1965ء میں نور محمد ترہ کئی کے گھر میں بائیں بازو کے تیس رہنماؤں کی میٹنگ ہوئی جس میں ایک نئی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان بنانے کا اعلان کیا گیا۔ نور محمد ترہ کئی اس کے سربراہ منتخب ہوئے۔ 1967ء میں تشکیل پانے والی پارٹی آئین کے مطابق پارٹی کی اساس مارکسزم لینن ازم کو قرار دیا گیا۔ پارٹی کے پرچے کا نام خلق (عوام) تھا<ref name=":0" />۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان کی حمایت کے ذریعے محمد داؤد خان نے 1973ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے بادشاہ ظاہر شاہ کو معزول کر کے خو د اقتدار پر قبضہ کر لیا جس کے نتیجے میں پہلی افغانستان جمہوریہ معرض وجود میں آئی<ref>{{cite web|url=http://news.bbc.co.uk/1/hi/world/analysis/83854.stm|title=Afghanistan: 20 years of bloodshed|last=|first=|date=1998-04-26|website=BBC News|archive-url=|archive-date=|dead-url=|access-date=2018-03-12}}</ref>۔صدر داؤد کو یقین تھا کہ سوویت یونین کے قریبی تعلقات اور فوجی حمایت انہیں پاکستان کے ساتھ سرحدی مسئلے کو حل میں مدد دے گی۔ تاہم داؤد، جو غیر معمولی طور پر غیر صف بندی پالیسی پر عمل پیرا تھے، داؤد نے افغانستان کی خارجہ پالیسی میں سوویت سویت مداخلت پر اسے تنقید کا نشانہ بنایاجس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے<ref>{{Cite book|url=https://books.google.com/books?id=AwJg8iXi1hgC|title=Ghosts of Afghanistan: The Haunted Battleground|last=Steele|first=Jonathan|date=2012-01-01|publisher=Counterpoint Press|year=|isbn=9781582437873|location=|pages=64–65|language=en|via=}}</ref>۔
داؤد کی سیکولر حکومت کے دوران پی ڈی پی اے میں گروہ پرستی اور رقابت پیدا ہوگئی جس کی وجہ سے پارٹی دو پرچم اور خلق کےدھڑوں میں بٹ گئی۔. 17 اپریل 1978 کوپرچم کے ایک ممتاز رکن میر اکبر خیبر کو قتل کیا گیااگرچہ حکومت نے قتل کے خلاف مذمتی بیان جاری کیا جبکہ پی ڈی پی اے کے رہنما نور محمد ترہ کئی نے الزام لگایا کہ قتل کی ذمہ دار حکومت خودہے ، اس قتل کے بعد اندیشہ پیدا ہوا کہ حکومت پی ڈی پی اے کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اکبر خیبر کے جنازہ کے دوران حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ ہوا اور اس کے بعد جلد ہی ببرک کارمل سمیت کئی پی ڈی پی اے رہنماؤں کو حکومت کی طرف سے گرفتارکر لیا گیا تاہم حفیظ اللہ امین کوگھر میں نظر بند کیا گیا <ref name="Barnett2">{{cite web|url=https://books.google.be/books?id=laG03iJF7t8C&lpg=PA290&dq=|title=The Fragmentation of Afghanistan|last=Rubin|first=Barnett R.|date=2002|publisher=Yale University Press|year=|isbn=9780300095197|location=|pp=104–105}}</ref>۔صورتحال کو دیکھتے ہوئے حفیط اللہ امین نے خلقی فوجی افسران کو حکومت کا تختہ الٹنے کے احکامات جاری کئے۔
== حوالہ جات ==
|