"ثور انقلاب" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 9:
 
=== پس منظر ===
بیسوی صدی میں افغانستان کو پسماندگی سے نکال کر ایک جدید سماج بنانے کے لیے دو قابل ذکر کوششیں کی گئیں۔ پہلی سنجیدہ جدوجہد افغانستان کے اس وقت کے بادشاہ [[امان اللہ]] خان کی قیادت میں کی گئی۔ تیسری انگریز افغان جنگ 1919ء کے نتیجے میں افغانستان نے برطانیہ سے مکمل آزادی حاصل کر لی۔[[امان اللہ خان]] (دورِ اقتدار: 1919ء-1929ء) نے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اصلاحات کیں اور مغربی دنیا سے تعلقات قائم کیے۔ اصلاحات میں بنیادی تعلیم کا لازمی قرار دینا اور مغربی طرز کی دیگر اصلاحات شامل تھیں۔ 1929ء میں اسے اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اس کے جاتے ہی تمام تر اصلاحات کو منسوخ کردیا گیا۔1940ء کی دہائی کے اواخر میں رجعت کے بادل چھٹنا شروع ہوئے۔ پریس کو کسی حد آزادی دی گئی اور سیاسی پارٹیاں بنانے کی اجازت دی گئی۔ 1947ء میں افغانستان کے بائیں بازو کے انقلابی اور ترقی پسند نوجوانوں نے ویش زلمیان کے نام سے ایک سیاسی اور ادبی تنظیم قائم کی۔ اس کے سرکردہ رہنماؤں میں محمد رسول پشتون، گل باچا الفت، [[گل محمد]] غبار، عبدالرؤف بینوا، نور محمد ترہ کئی اور ببرک کارمل بھی شامل تھے۔ تنظیم کا ہیڈ کوارٹر قندھار میں تھ<ref name=":0">{{Cite news|title=ثور انقلاب آج بھی مشعل راہ ہے!|url=http://www.struggle.pk/relevance-of-saur-revolution-today/|work=The Struggle {{!}} طبقاتی جدوجہد|access-date=2018-11-02|language=en}}</ref>ا۔ ’ولس‘ اور ’انگار‘ تنظیم کے دو جریدے تھے جبکہ افغانستان کے ایوان زیریں میں ان کے حمایتی بھی موجود تھے جو عوامی مسائل اور حکومتی نااہلی اور بدعنوانی پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔جنوری 1965ء میں نور محمد ترہ کئی کے گھر میں بائیں بازو کے تیس رہنماؤں کی میٹنگ ہوئی جس میں ایک نئی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان بنانے کا اعلان کیا گیا۔ نور محمد ترہ کئی اس کے سربراہ منتخب ہوئے۔ 1967ء میں تشکیل پانے والی پارٹی آئین کے مطابق پارٹی کی اساس مارکسزم لینن ازم کو قرار دیا گیا۔ پارٹی کے پرچے کا نام خلق (عوام) تھا<ref name=":0" />۔
 
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان کی حمایت کے ذریعے محمد داؤد خان نے 1973ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے بادشاہ ظاہر شاہ کو معزول کر کے خو د اقتدار پر قبضہ کر لیا جس کے نتیجے میں پہلی افغانستان جمہوریہ معرض وجود میں آئی<ref>{{cite web|url=http://news.bbc.co.uk/1/hi/world/analysis/83854.stm|title=Afghanistan: 20 years of bloodshed|last=|first=|date=1998-04-26|website=BBC News|archive-url=|archive-date=|dead-url=|access-date=2018-03-12}}</ref>۔صدر داؤد کو یقین تھا کہ سوویت یونین کے قریبی تعلقات اور فوجی حمایت انہیں پاکستان کے ساتھ سرحدی مسئلے کو حل میں مدد دے گی۔ تاہم داؤد، جو غیر معمولی طور پر غیر صف بندی پالیسی پر عمل پیرا  تھے، داؤد نے افغانستان کی [[خارجہ پالیسی]] میں سوویت سویت مداخلت پر اسے تنقید کا نشانہ بنایاجس کی وجہ سے  دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے<ref>{{Cite book|url=https://books.google.com/books?id=AwJg8iXi1hgC|title=Ghosts of Afghanistan: The Haunted Battleground|last=Steele|first=Jonathan|date=2012-01-01|publisher=Counterpoint Press|year=|isbn=9781582437873|location=|pages=64–65|language=en|via=}}</ref>۔
 
داؤد کی سیکولر حکومت کے دوران پی ڈی پی اے  میں گروہ پرستی اور رقابت پیدا ہوگئی جس کی وجہ سے پارٹی دو پرچم اور خلق کےدھڑوں میں بٹ گئی۔. 17 اپریل 1978 کوپرچم کے ایک ممتاز رکن میر اکبر خیبر کو قتل کیا گیااگرچہ حکومت نے قتل کے خلاف مذمتی بیان جاری کیا جبکہ  پی ڈی پی اے  کے رہنما نور محمد ترہ کئی نے الزام لگایا  کہ قتل کی ذمہ دار حکومت خودہے ،  اس قتل کے بعد اندیشہ پیدا ہوا کہ حکومت پی ڈی پی اے کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اکبر خیبر  کے جنازہ کے دوران حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ ہوا اور اس کے بعد جلد ہی ببرک  کارمل سمیت کئی   پی ڈی پی اے  رہنماؤں کو حکومت کی طرف سے گرفتارکر لیا گیا تاہم حفیظ اللہ امین کوگھر میں نظر بند کیا گیا <ref name="Barnett2">{{cite web|url=https://books.google.be/books?id=laG03iJF7t8C&lpg=PA290&dq=|title=The Fragmentation of Afghanistan|last=Rubin|first=Barnett R.|date=2002|publisher=Yale University Press|year=|isbn=9780300095197|location=|pp=104–105}}</ref>۔صورتحال کو دیکھتے ہوئے حفیط اللہ امین نے خلقی فوجی افسران کو حکومت کا تختہ الٹنے کے احکامات جاری کئے۔
سطر 18:
 
[[File:Day_after_Saur_revolution.JPG|ربط=https://en.wikipedia.org/wiki/File:Day_after_Saur_revolution.JPG|متبادل=|تصغیر|200x200پکسل|کابل میں ثور انقلاب کے بعد کی صبح کا منظر]]
27 اپریل کی صبح کو زمینی اور فضائی فوج کے انقلابی افسران نے ایک انقلابی سرکشی کے ذریعے داؤد کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ اقتدار فوری طور پر پارٹی کے حوالے کردیا گیا۔ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد جمہوری [[جمہوریہ افغانستان]] کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے پہلے صدر نور محمد ترہ کئی منتخب ہوئے<ref name=":02">{{Cite web|url=http://www.hackwriters.com/78RevolutionAfghan.htm|title=Surviving the '78 Revolution in Afghanistan|last=Thompson|first=Larry|date=December 2009|website=www.hackwriters.com|archive-url=https://web.archive.org/web/20171019150657/http://www.hackwriters.com/78RevolutionAfghan.htm|archive-date=26 July 2010|dead-url=no|access-date=2011-04-06}}</ref>۔
 
انقلابی حکومت نے اپنے انقلابی فرائض کو انجام دینا شروع کیا۔ یہ افغانستان کی جدید تاریخ میں افغان سماج کو پسماندگی سے نکال کر ایک جدید سماج بنانے کے لیے امان اللہ خان کے بعد دوسری سنجیدہ جدوجہد تھی<ref>{{cite web|url=http://www.workersliberty.org/node/1935|title=The "Great Saur Revolution|last=|first=|date=|website=Workers' Liberty|language=en|archive-url=|archive-date=|dead-url=|access-date=2011-04-06}}</ref>۔ ایک حکم نامے کے ذریعے بے زمین کسانوں کے تمام قرضے معاف کردیئے گئے۔ مختلف حکم ناموں کے ذریعے افغانستان کی تاریخ کی سب سے وسیع زرعی اصلاحات کی گئیں<ref name="kaplan">{{cite book|url=https://books.google.co.uk/books?id=r3TLByMXsJkC&q=|title=Soldiers of God: With Islamic Warriors in Afghanistan and Pakistan|last1=Kaplan|first1=Robert D.|date=1990|publisher=Knopf Doubleday Publishing Group|year=|isbn=978-0395521328|location=|pp=115–116|accessdate=17 March 2018}}</ref>۔ اس وقت افغانستان کی شرح خواندگی بمشکل 10 فیصد تھی۔ مفت تعلیم اور صحت کا اجرا کیا گیا۔ چائلڈ میرج پر پابندی لگا دی گئی۔ خواتین پر جبر کا خاتمہ کیا گیا اور جنسی برابری کو تسلیم کیا گیا۔ قومی جبر کا خاتمہ کیا گیا اور محکموم قومیتوں کو محکمومی سے نجات دلا کر انقلابی حکومت میں نمائندگی دی گئی<ref name="kaplan2">{{cite book|url=https://books.google.co.uk/books?id=r3TLByMXsJkC&q=|title=Soldiers of God: With Islamic Warriors in Afghanistan and Pakistan|last1=Kaplan|first1=Robert D.|date=1990|publisher=Knopf Doubleday Publishing Group|year=|isbn=978-0395521328|location=|pp=115–116|accessdate=17 March 2018}}</ref>۔
سطر 30:
[[زمرہ:1978ء میں افغانستان]]
[[زمرہ:افغان خانہ جنگی]]
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]