"مقتدیٰ خان شروانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 10:
[[1909ء]] کے آخری مہینوں میں وہ [[لاہور]] سے [[علی گڑھ]] واپس چلے گئے۔ یہ وقارالملک (متوفی [[جنوری]] [[1917ء]]) کی سیکرٹری کا زمانہ تھا۔ مولوی وحیدالدین سلیم پانی پتی (متوفی [[جولائی]] [[1928ء]]) نے [[علی گڑھ]] انسٹی ٹیوٹ گزٹ سے چھٹیاں لے لی تھیں اور اِس پر مقتدیٰ خان کو قائم مقام مدیر مقرر کردیا گیا۔ دو سال کے بعد [[1911ء]] میں مشہور خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی ملازمت اختیار کرکے اُس کے مقامی نامہ نگار بن گئے۔ اِس عہدے پر وہ تقریباً چودہ سال کی طویل مدت تک یعنی [[1925ء]] تک فائز رہے۔ [[1920ء]] میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ اب اُس کا پریس جہاں گزٹ شائع ہوا کرتا تھا، مسلم یونیورسٹی پریس کہلانے لگا۔ مقتدیٰ خان اِس کے مہتمم مقرر ہوئے۔ اب تک اُس میں صرف لوہے کے چھاپہ کا اِنتظام تھا مگر شروانی صاحب نے اِس میں پتھر کے چھاپہ کا اِضافہ کیا۔
 
[[1914ء]] میں نواب عمادالملک سید حسین بلگرامی (متوفی [[جون]] [[1926ء]]) نے کلیات [[امیر خسرو]] کی ترتیب و تدوین اور اِشاعت کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اِس سلسلے کی سرپرستی نظام دکن میر عثمان علی خان نے قبول کی تھی۔ کلیات [[امیرخسرو]] کے مجموعہ کی مختلف کتب ترتیب و تدوین کے لیے متعدد اصحابِ علم حضرات میں تقسیم کردی گئی تھیں جس میں خمسہ خسروی کی پہلی مثنوی مطلع الانوار کی تصحیح مقتدیٰ خان نے ہی کی تھی مگر افسوس کہ وہ کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا اور صرف آٹھ جلدیں ہی شائع ہوسکیں ۔<ref>[[مالک رام]]: تذکرہ معاصرین، جلد 1، صفحہ 90/91۔ مطبوعہ [[دہلی]]</ref>
 
== وفات ==