"سلسلہ عظیمیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:خودکار ویکائی
م خودکار: خودکار درستی املا ← کے لیے، کیے، دوم، مکتب فکر، کیے، شے، توجیہ، لیے، کی بجائے
سطر 1:
اللہ تعالیٰ اپنا پیغام پہنچانے کے لئےلیے چراغ سے چراغ جلاتا ہے معرفت کی مشعل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں پہنچتی رہتی ہے۔
 
تمام روحانی لوگ قدرت کے وہ ہاتھ ہیں جو یہ مشعل لے کر چلتے ہیں اس روشنی سے وہ لوگ اپنی ذات کو بھی روشن رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہ روشنی پہنچاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک روحانی ہستی، ایسا ہی ایک روحانی ہاتھ ایسی ہی ایک روشن مشعل سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وارث ابدالِ حق، سلسلہ عظیمیہ کے بانی مبانی رسالہ روحانی ڈائجسٹ کے روح رواں حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ ہے۔
سطر 15:
تعلیم و تربیت: آپؒ نے ابتدائی تعلیم محلہ کے مکتب سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میٹرک “بلند شہر” سے کیا۔
 
اور انٹرمیڈیٹ کے لئےلیے داخلہ [[علی گڑھ مسلم یونیورسٹی]] میں لیا۔
 
روحانی تربیت: اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو اپنے کام کے لئےلیے منتخب کر لیتا ہے تو اس کی تربیت کا پورا پور اانتظام کرتا ہے۔ یہی کچھ قلندر بابا اولیاءؒ کے ساتھ ہوا۔ [[علی گڑھ]] میں قیام کے دوران آپ کا میلان درویشی کی طرف بڑھ گیا۔ آپؒ وہاں مولانا کابلیؒ کے قبرستان کے حجرے میں زیادہ وقت گزارنے لگے۔ صبح تشریف لے جاتے اور رات کو واپس آتے۔
 
تربیت کا دوسرا دور حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے نانا بابا [[تاج الدین]] ناگپوریؒ کی سرپرستی میں شروع ہوا ناگپور میں ۹ سال تک تربیت کا سلسلہ جاری رہا۔
سطر 37:
حضور قلندر بابا اولیاءؒ کا وصال ۷ ۲ جنوری؁۱۹۷۹ء کو ہوا۔
 
تصنیفات: حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے فیض کو عام کرنے کے لئےلیے سلسلہ عظیمیہ کو تین کتابیں بطور ورثہ منتقل ہوتی ہیں۔
 
۱۔ علم و عرفان کا سمندر۔ رباعیات قلندر بابا اولیاءؒ
سطر 49:
” خرق عادت یا کرامت کا ظہور کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے جب کسی بندہ کا شعوری نظام سے خود اختیاری طور پر مغلوب ہو جاتا ہے تو اس سے ایسی باتیں سرزدہونے لگتی ہیں جو عام طور پر نہیں ہوتیں۔ اور لوگ انہیں کرامت کے نام سے یاد کرنے لگتے ہیں۔ جو سب بھان متی ہے۔ اعمال و حرکات میں خرق عادت اور کرامت خود اپنے اختیار سے بھی ظاہر کی جاتی ہے اور کبھی کبھی غیر اختیاری طور پر بھی سرزد ہو جاتی ہے۔ خرق عادت آدمی کے اندر ایک ایسا وصف ہے جو مشق کے ذریعے متحرک کیا جا سکتا ہے۔”
 
موجودہ دور سائنسی دور ہے۔ انسان شعوری طور پر اتنا ترقی کر چکا ہے کہ وہ ہر چیز کی حقیقت کو کھلی آنکھ سے دیکھنا چاہتا ہے وہ ایک طرف تو زمین کی انتہائی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری طرف آسمانوں کی رفعت کی پیمائش کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں وہ ہر شئےشے کی حقیقت کی تلاش میں لگا ہوا ہے۔ جس طرح انسان نے ظاہر دنیا میں کامیابیاں حاصل کی ہیں اسی طرح وہ باطنی یا روحانی دنیا کے حقائق جاننے کا خواہاں ہے۔ سائنسی ترقی کی وجہ سے انسان کے ذہن کی رفتار بہت تیز ہو گئی ہے۔ اور وہ کسی بات کو اس وقت قبول کرتا ہے جب اس بات کے متعلق کیوں، کیسے اور کس لئےلیے کے جوابات اسے مل جائیں۔
 
انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ یقین ٹوٹ گیا ہے اور انسان سکون سے نا آشنا ہو گیا ہے۔ سکون کی تلاش و جستجو میں انسان روحانیت کی طرف متوجہ ہوا۔ مگر روحانیت کے حصول کے لئےلیے غیر سائنسی طور طریقوں کو وہ اپنانا نہیں چاہتا تھا۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئےکے لیے ایک ایسے روحانی سلسلے کی ضرورت تھی جو وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔ سلسلہ عظیمیہ کا قیام اسی مقصد کے تحت ہوا اور یہ سلسلہ جدید تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں روایتی طور طریقوں کو نظر انداز کر کے جدید طرزیں اختیار کی گئی ہیں۔ جدید افکار و نظریات کی وجہ سے یہ سلسلہ تیزی سے دنیا کے تمام ممالک میں پھیل رہا ہے۔
 
سنگ بنیاد: عارف باللہ، ابدال حق، واقف رموز لامکانی، حامل علم لدنی، بحر تکوین کے [[امیر البحر]] سلسلہ عظیمیہ کے امام، حسن اخریٰ [[سید محمد]] عظیم برخیا، حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے دست کرم سے آپ کے نام نامی اسم گرامی سے منسوب سلسلہ عظیمیہ کی بنیاد، سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ اقدس میں شرف قبولیت کے بعد جولائی؁ ۱۹۶۰ء میں رکھی گئی۔
سطر 83:
سلسلہ عظیمیہ میں روایتی پیری مریدی کا مروجہ طریقہ نہیں ہے۔ نہ اس میں کوئی مخصوص لباس ہے نہ کوئی وضع قطع مختص ہے۔
 
خلوص کے ساتھ طلب روحانیت کا ذوق و شوق ہی طالب کو سلسلہ عظیمیہ سے منسلک رکھتا ہے۔ سلسلہ میں مریدین دوست کے لفظ سے یاد کئےکیے جاتے ہیں۔ [[تعلیم و تربیت]] کے سلسلے میں سخت ریاضتوں، چلوں اور مجاہدوں کےکی بجائے ذکر و اشغال نہایت آسان اور مختصر ہیں۔ تعلیم کا محور وہ [[غار حرا]] والی عبادت ہے جہاں سرکار دو عالمﷺ نے طویل عرصہ صَرف کیا۔ اس عبادت سے سالک میدان روحانیت میں بہ آسانی گامزن ہو جاتا ہے۔ جوں جوں اس کا قدم آگے بڑھتا ہے اس پر تفکر کے دروازے کھلنے لگتے ہیں۔
 
لاشعور میں ہر سمت بیداری اور نظر میں اسرار کے پردوں میں جھانکنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ زاہد خشک کےکی بجائے حق آگاہی کے ایک ہوش مند [[طالب علم]] بن جاتا ہے۔ چونکہ امام سلسلہ ابدال حق حضرت قلندر بابا اولیاءؒ شعبہ تکوین کے اعلیٰ ترین عہدے اور قلندریت کے نہایت بلند مقام پر فائز تھے اس لئےلیے سلسلہ عظیمیہ میں قلندری رنگ مکمل طور پر موجود ہے۔
 
قلندر عارف باللہ، علم الٰہی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ حق کی عکاسی کرتا ہے۔ انوار محمدی کے طفیل وہ خالق و مخلوق کے درمیان رابطہ بن جاتا ہے کہ ادھر اللہ سے واصل ادھر مخلوق میں شامل فیضان حق سے سیراب ہوتا ہے۔ توحیدی سکون اور حق آگہی کے کیف میں زندگی گزارتا ہے۔ غیب کی ہر راہ اپنی انتہا تک اس کے لئےلیے کھلی ہوتی ہیں۔
 
قلندر خزائن کُن کے انوار کو پا لیتا ہے۔ اس کی روح کو ایک انبساط کی کیفیت حاصل ہوتی ہے اور وہ ہر غیر اللہ بشمول خود کی ’’لا‘‘ کہہ کے ’’الٰہ‘‘ کا حسن دیکھ لیتا ہے۔
 
مشاہدہ کرنے والوں نے دیکھا کہ قلندر باباؒ کی محفل میں ان کے دستر خوان پر شیعہ، سُنی، دیوبندی، بریلوی غرض کہ ہر مکتبہمکتب فکر کے لوگ بصد آداب بیٹھے ہوئے نظر آتے تھے۔ قادری، چشتی، نقش بندی، سہروردی ہر سلسلہ روحانی کے تشنہ لبوں کی حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی جوئے کرم سے سیرابی ہوتی تھی، قلندر بابا اولیاءؒ کے دریائے فیض کی طغیانی کی یہ کیفیت تھی کہ جس نے بھی ان کا دامن پکڑ لیا اللہ تعالیٰ نے اس پر فضل کر دیا۔ جس کو قلندر باباؒ نے محبت اور کرم کی نگاہ سے دیکھ لیا اس کی دنیاہی بدل گئی جس کو ان کی طرز فکر منتقل ہو گئی اس کے نصیب جاگ اٹھے۔ حق آگہی کے شرف سے مشرف ہو گیا۔
 
مستی خود آگہی قلندر کی ایک شان ہوتی ہے۔ اس کو ذات اور صفات دونوں کی آگہی حاصل ہوتی ہے وہ اپنے وجود سے گم اور حق میں ضم ہو جاتا ہے۔ یہ ادائے قلندرانہ ہے کہ درویشانہ بے نیازی کے ساتھ تحیر اور لب بندی اس کا شیوہ ہوتی ہے۔
سطر 97:
قلندر شہید خفی ہو کر جیتے جی مر کر۔ اپنے وجود میں سبحانیت کا نظارہ کرتا ہے۔ وہ دمادم دم کے کیف دائمی سے سرشار ہوتا ہے۔ حضور ی کے رشتے میں منسلک من عرف نفسہٗ فقد عرفہ ربہٗ کے بھید کا رازدان ہوتا ہے۔ اس کے وجودی کثافتوں کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور وہ حق کو حقانیت میں دیکھتا ہے۔
 
لازوال ہستی اپنی قدرت کا فیضان جاری و ساری رکھنے کے لئےلیے ایسے بندے تخلیق کرتی ہے جو دنیا کی بے ثباتی کا درس دیتے ہیں خالق حقیقی سے تعلق قائم کرنا اور آدم زاد کو اس سے متعارف کرانا ان کا مشن ہوتا ہے۔
 
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وارث ابدال حق حسن اخریٰ محمد عظیم برخیاء امام سلسلہ عظیمیہ قلندر بابا اولیاءؒ کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ انسان کو محض روٹی کپڑے کے حصول اور آسائش و زیبائش ہی کے لئےلیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس کی زندگی کا اولین مقصد یہ ہے کہ وہ خود کو پہچانے اپنے رحمت للعالمین محسنﷺ کا قلبی اور باطنی تعارف حاصل کرے جس کے جود و کرم اور رحمت سے ہم ایک خوش نصیب قوم ہیں اور ان کی تعلیمات سے انحراف کے نتیجے میں ہم دنیا کی بدنصیب اور بدترین قوم بن چکے ہیں۔
 
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 44 تا 51
 
اسم اعظم کے مضامین :
ِ 1.1 - نظریہ رنگ و روشنی ِ 1.2 - فوٹان اور الیکٹران ِ 1.3 - کہکشانی نظام اور دو کھرب سورج ِ 1.4 - دو پیروں اور چار پیروں سے چلنے والے جانور ِ 1.5 - چہرہ میں فلم ِ 5.8 - مراقبہ مرتبہ احسان اور روشنیوں کا مراقبہ ِ 1.6 - آسمانی رنگ کیا ہے؟ ِ 1.7 - رنگوں کا فرق ِ 1.8 - رنگوں کے خواص ِ 2.1 - مرشد کامل سے بیعت ہونا ِ 2.2 - مرشد کامل کی خصوصیات ِ 2.3 - تصور سے کیا مراد ہے؟ ِ 2.4 - علمِ حصولی اور علمِ حضوری میں فرق ِ 2.5 - اسم اعظم کیا ہے ِ 2.6 - وظائف نمازِ عشا کے بعد کیوں کیئےکیے جاتے ہیں ِ 2.7 - روزہ روح کی بالیدگی کا ذریعہ ہے ِ 2.8 - نام کا انسانی زندگی سے کیا رشتہ ہے اور نام مستقبل پر کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں؟ ِ 2.9 - جب ایک ہی جیسی اطلاعات سب کو ملتی ہیں تو مقدرات اور نظریات میں تضاد کیوں ہوتا ہے؟ ِ 3.1 - نماز اور مراقبہ ِ 3.2 - ایسی نماز جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق حضور قلب اور خواہشات، منکرات سے روک دے کس طرح ادا کی جائے؟ ِ 3.3 - روح کا عرفان کیسے حاصل کیا جائے؟ ِ 3.4 - مخلوق کو کیوں پیدا کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کا طریقہ کیا ہے؟ ِ 3.5 - چھ دائرے کیا ہیں، تین پرت سے کیا مراد ہے؟ ِ 3.6 - روح انسانی سے آشنا ہونے کا طریقہ کیا ہے؟ ِ 3.7 - مراقبہ کیا ہے۔ مراقبہ کیسے کیا جائے؟ ِ 4.1 - تعارف سلسلہ عظیمیہ ِ 4.2 - سلسلہ عظیمیہ کے اغراض و مقاصد اور قواعد و ضوابط ِ 5.1 - مراقبہ سے علاج ِ 5.2 - مراقبہ کی تعریف ِ 5.3 - مراقبہ کے فوائد اور مراقبہ کی اقسام ِ 5.4 - مراقبہ کرنے کے آداب ِ 5.5 - سانس کی مشق ِ 5.6 - مراقبہ کس طرح کیا جائے۔ خیالات میں کشمکش ِ 5.7 - تصورِ شیخ کیا ہے اور کیوں ضروری ہے ِ 5.9 - مراقبہ سے علاج ِ 6.1 - سانس کی لہریں ِ 6.2 - روحانی علم کو مخفی علم یا علم سینہ کہہ کر کیوں عام نہیں کیا گیا ِ 6.3 - اللہ تعالیٰ پر یقین رکھنے اور توکل کرنے کے کیا معانی ہیں ِ 6.4 - رحمانی طرز فکر کو اپنے اندر راسخ کرنے کے لئےلیے ہمیں کیا کرنا چاہئے ِ 6.5 - واہمہ، خیال تصور اور احساس میں کیا فرق ہے؟ ِ 6.6 - ہمارا ماحول ہمیں کس حد تک متاثر کرتا ہے؟ ِ 7 - کیا نہیں ہوں میں رب تمہارا؟ ِ 7.2 - لوح اول اور لوح دوئمدوم کیا ہیں ِ 7.3 - علمِ حقیقت کیا ہے ِ 7.4 - علمِ حصولی اور علم حضوری سے کیا مراد ہے ِ 7.5 - روح کیا ہے ِ 8 - انسان اور آدمی ِ 9 - انسان اور لوحِ محفوظ ِ 10.1 - احسن الخالقین ِ 10.2 - روحانی شاگرد کو روحانی استاد کی طرز فکر کس طرح حاصل ہوتی ہے۔ ِ 10.3 - روحانی علوم حاصل کرنے میں زیادہ وقت کیوں لگ جاتا ہے؟ ِ 10.4 - تصورات جسم پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں ِ 10.5 - یادداشت کیوں کمزور ہو جاتی ہے؟ ِ 10.6 - تصور سے کیا مراد ہے ِ 10.7 - کسی بزرگ کا قطب، غوث، ابدال یا کسی اور رتبہ پر فائز ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟ ِ 10.8 - تصور کیا ہے ِ 10.9 - کرامت کی توجیہہتوجیہ ِ 10.10 - مختلف امراض کیوں پیدا ہوتے ہیں ِ 11 - تصوف اور صحابہ کرام ِ 12 - ایٹم بم ِ 13 - نو کروڑ میل ِ 14 - زمین ناراض ہے ِ 15 - عقیدہ ِ 16 - کیا آپ کو اپنا نام معلوم ہے ِ 17 - عورت مرد کا لباس ِ 18 - روشنی قید نہیں ہوتی.
==حوالہ جات==