"موسیٰ بیگی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م خودکار: خودکار درستی املا ← دار الحکومت، دنیا، لیے، کر دیا، ہو گئے، ہو گئی، ر\1 عمل، ہو گیا، کر لیا
سطر 1:
{{خانہ معلومات عالم دین/عربی|موسیٰ بیگی جار اللہ=}}
'''موسیٰ بیگی جار اللہ''' (پیدائش: [[24 ستمبر]] [[1873ء]]— وفات: [[28 اکتوبر]] [[1949ء]]) [[انقلاب اکتوبر]] سے قبل [[روس]] کے [[شیخ الاسلام]] تھے۔ وہ [[مترجم]]، [[الٰہیات|ماہر علم الٰہیات]]، [[فلسفہ|فلسفی]] تھے۔عرب دنیاءدنیا میں موسیٰ جار اللہ کے نام سے مشہور ہیں۔
 
== سوانح ==
سطر 9:
 
=== تحصیل علم ===
موسیٰ بیگی نے [[قازان]] ([[تاتارستان]] کے دارالحکومتدار الحکومت)، [[بخارا]]، [[سمرقند]]، [[مکہ مکرمہ]]، [[مدینہ منورہ]] اور [[قاہرہ]] میں تعلیم حاصل کی۔ [[قاہرہ]] میں وہ [[دارالافتاء المصریہ]] میں وہ شیخ محمد بخت المطیع سے پڑھتے رہے۔ [[قازان]] میں اُن کی ابتدائی تعلیم نامکمل رہ گئی تھی، وہ تعلیم مکمل کیے بغیر ہی [[روستوف]] واپس آگئے تھے اور وہاں روسی سائنس کالج میں داخلہ لے لیا جہاں اُس نے [[1895ء]] میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ دینی تعلیم کی تکمیل کے لیے موسیٰ بیگی [[بخارا]] چلے گئے اور وہاں چار سال تک دینی تعلیم حاصل کی اور پھر [[روستوف]] واپس آگئے۔ مزید دینی تعلیم کے لئےلیے وہ [[مشرق وسطی]] چلے گئے۔ [[استنبول]] سے ہوتے ہوئے وہ [[قاہرہ]] پہنچ گئے اور [[جامعہ الازہر|جامعۃ الازہر]] میں داخلہ لیا۔ [[جامعہ الازہر|جامعۃ الازہر]] میں [[شیخ محمد عبدہ]] سے استفادہ کیا۔ چار سال تک علم [[فقہ]]، [[علم کلام]] اور [[فلسفہ]] کا وسیع مطالعہ کیا۔[[ہندوستان]] میں بھی آئے اور [[اتر پردیش]] میں قیام کیا، اِس قیام میں اُنہوں نے [[سنسکرت زبان]] سیکھی اور [[مہابھارت]] کا بھی مطالعہ کیا۔
 
=== ازدواج اور [[سینٹ پیٹرز برگ]] میں قیام ===
[[فائل:Musa Bigiev.jpg|تصغیر|285x285پکسل|موسیٰ بیگی [[استنبول]] میں قیام کے دوران۔]]
 
[[1904ء]] میں اُنہوں نے [[جامعہ الازہر|جامعۃ الازہر]] سے واپسی کے بعد اسماء علیہ خانم سے شادی کرلی۔زوجہ اسماء خانم کا انتقال [[1979ء]] میں ہوا۔ موسیٰ بیگی کے 8 اولادیں تھیں جن میں 2 کا انتقال نوعمری میں ہوگیاہو گیا تھا۔ اِس شادی میں ملازمت کی عملی زندگی بسر کرنے کی بجائے وہ قانون پڑھنے کے لیے [[سینٹ پیٹرز برگ اسٹیٹ یونیورسٹی]] ([[سینٹ پیٹرز برگ]]) چلے گئے تاکہ وہاں اسلامی [[فقہ]] کا مغربی قانون سے تقابلی جائزے کا مطالعہ کرسکیں۔ [[سینٹ پیٹرز برگ]] میں قیام کے دوران اُنہیں روسی معاشرے کو قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم ہوا۔ یہ قیام [[1905ء]] سے [[1917ء]] یعنی [[انقلاب اکتوبر]] تک رہا۔ [[1910ء]] سے [[1911ء]] میں وہ [[اورنبرگ]] کے مدرسہ خوسانیہ میں [[عربی زبان]]، [[تاریخ]] اسلام اور عقائد کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ بحیثیت مھقق و معلم وہ اجتہاد کے قائل تھے اور اجتہاد پر کاربند بھی رہے۔ لیکن موسیٰ بیگی کی آراء روایتی طرز کی اسلامی آراء سے دور ہونے کی وجہ سے [[رضا الدین ابن فخر الدین]] جیسے بارسوخ عالم کی حمایت کے باوجود مذہبی حلقوں میں موسیٰ بیگی کی مخالفت کی جانے لگی اور اُنہوں نے [[اورنبرگ]] چھوڑ دیا۔<ref>Ahmet Kanlidere: ''Reform within Islam. The Tajdid and Jadid Movement among the Kazan Tatars (1809–1917)'', Istanbul 1997; p. 52-56</ref>
 
=== سیاسی زندگی ===
[[سینٹ پیٹرز برگ]] میں قیام کے دوران ہی اُنہیں سیاحت سے شغف پیدا ہوگیاہو گیا اور [[اسلام]] میں ایک سیاسی قوت پیدا کرنے کی کوششوں کا احساس پیدا ہوا۔[[انقلاب روس 1905ء]] کے دوران موسیٰ بیگی مسلم اتحاد کے لیے کوششوں میں متحرک ہوئے۔ تاہم وہ عملی سیاست میں ملوث نہ ہوئے، سوائے اِس کے کہ اُنہوں نے مسلم کانگریس کے سیکرٹری کے طور پر کام کیا اور [[اتحاد اسلامیت|پین اسلام ازم]] کے علمبردار جریدہ اُلفت میں کئی مضامین لکھے۔[[اتفاق المسلین]] کے نام سے مسلم اتحاد کی کوشش کے لیے ایک کانگریس [[اگست]] [[1905ء]] میں [[نیژنی نووگورود]] میں منعقد ہوئی۔<ref>Ahmet Kanlidere: ''Reform within Islam. The Tajdid and Jadid Movement among the Kazan Tatars (1809–1917)'', Istanbul 1997; p. 52-56</ref> یہاں وہ مزید علمی و تحقیقی کاموں میں مشغول رہے۔[[1914ء]] میں اس اتحادی کوشش کی چوتھی کانگریس منعقد ہوئی۔[[1915ء]] میں موسیٰ بیگی نے اصطلاحات اساسلری تصنیف کی ۔
 
=== انقلاب روس ===
[[1917ء]] میں [[روس]] میں [[انقلاب روس|بالشویک انقلاب روس]] کے سبب [[سلطنت روس]] ختم ہوگئی۔ہو گئی۔ اِس انقلاب سے [[روس]] میں آباد مسلمانوں کے لیے ایک اُمید جاگی کہ اُنہیں آزادی نصیب ہوگی مگر جلد ہی روسی مسلمانوں کی اِس اُمید سے پانی پھرگیا اور اُنہیں سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ [[1920ء]] میں موسیٰ بیگی نے ABC of Islam تصنیف کی جو اشتراکی مصنف بکارن کی تصنیف ABC Communism کی طرز پر لکھی گئی۔ [[1920ء]] میں [[اوفا]] کے دانشوروں کی ایک کانگریس میں دستاویز پیش کی۔ یہ دستاویز 236 نکات پر مرتب کی گئی تھی جس میں 68 نکات روسی مسلمانوں سے متعلق تھے اور باقی نکات دنیا میں آباد دوسرے مسلمانوں کے متعلق تھے۔ حکومت روس نے اِس دستاویز پر فوری ردِعملردِ عمل ظاہر کیا اور موسیٰ بیگی کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ تاہم [[فن لینڈ]] اور [[ترکی]] کے اخبارات نے موسیٰ بیگی کی جیل بھیجے جانے کی کارروائی کے متعلق اخباری مہم چلائی جس کے نتیجے میں حکومت [[روس]] نے موسیٰ بیگی کو تین ماہ جیل میں رکھنے کے بعد رہا کردیا۔کر دیا۔
 
ناگزیر حالات میں بھی موسیٰ بیگی نے [[روس]] میں اپنا قیام رکھا اور [[1926ء]] میں منعقد ہونے والی مسلم کانگریس میں اُنہوں نے اپنے ملک کی نمائندگی کی۔ وہ [[مئی]] [[1926ء]] میں [[مکہ مکرمہ]] ایک وفد کے ہمراہ پہنچے اور وہاں سے [[قاہر]] چلے گئے۔ آئندہ سال ([[1927ء]]) میں موسیٰ بیگی نے [[حج]] اداء کیا جس کی اجازت اُنہیں حکومت [[روس]] نے دے دی تھی۔ ادائیگی [[حج]] کے بعد وہ دوبارہ [[روس]] واپس چلے گئے کیونکہ اب تک اُن کا یہی خیال تھا کہ وہ [[روس]] میں مقیم رہ کر مسلم ثقافتی ورثے کو بچانے کی کوششیں کرسکتے ہیں۔
 
=== جلاوطنی ===
موسیٰ بیگی جو خوش گماں شخصیت ثابت ہوئے تھے، [[1930ء]] میں وہ مسلمانوں کے مستقبل سے مایوس ہوگئےہو گئے اور اُنہوں نے ہمیشہ کے لیے [[روس]] چھوڑ دینے کا ارادہ کرلیا۔کر لیا۔ [[1930ء]] میں وہ شب کی تاریکیوں میں [[روس]] سے فرار ہوئے، اِس حالت میں کہ اُن کے بیوی اور بچے [[روس]] میں رہ گئے۔ وہ [[مشرقی ترکستان|چینی ترکستان]] سے [[چین]] میں داخل ہوکر [[ترکستان]] اور [[افغانستان]] سے ہوتے ہوئے [[ہندوستان]] پہنچے۔ [[1931ء]] میں اُنہوں نے [[مصر]] اور [[فن لینڈ]] کا دورہ کیا اور [[1932ء]] میں [[ترکی]] کی تاریخ میں منعقد ہونے والی پہلی کانگریس میں شرکت کی۔ [[1933ء]] سے [[1937ء]] تک وہ [[فن لینڈ]]، [[جرمنی]] اور [[مشرق وسطی]] میں مقیم رہے۔ [[1938ء]] میں [[چین]] اور [[جاپان]] کا سفر کیا اور [[1939ء]] میں وہ [[ہندوستان]] سے ہوتے ہوئے [[افغانستان]] پہنچے۔ [[افغانستان]] میں مستقل رہائش اختیار کرنے کا اِرادہ کیا لیکن انگریزوں نے اُنہیں جیل بھیج دیا جہاں وہ اٹھارہ مہینے تک رہے۔ اٹھارہ مہینوں کے بعد رہا ہوئے تو ناچار حالت میں واپس [[ہندوستان]] چلے آئے اور یہاں [[1947ء]] تک مقیم رہے۔ [[1947ء]] کے بعد وہ [[مصر]] چلے گئے اور وہیں مقیم ہوئے۔<ref>Elmira Akhmetova: ''Musa Jerullah Bigiev (1875–1949). Political Thought of a Tatar Muslim Scholar'', Intellectual Discourse (2008, Vol.1), p. 49-71</ref>
 
== وفات ==