"تاج المساجد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: حذف حوالہ جات ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 21:
 
== تاریخ ==
ایکیا شہنشاہ کی سلطنت کی تعمیر ابھی بھی نامعلوم نہیں ہے. یہ مغل کی طرف سے تباہ اور تعمیر کیا گیا تھا. یہ یقینی طور پر مندر یا بادشاہ کا قلعہ تھا، جن کی گنبد سب سے زیادہ دیواروں پر بنائی گئی. مغل عرب ترکوں سے بھارت کو لوٹنے کے لئے آئے تھے جب helearned مجسمے؟ انہیں سونے، چاندی، ہیرے، لڑکیوں، قطاریں، راجکماریوں کو عربستان، ڈنڈسکا اور ترک بھیجنے کے لئے ایک بڑا محل کی ضرورت ہوتی تھی. یہ ضروریات محلات کو مکمل کرنے کے لئے استعمال کرتی تھیں. اس مسجد کی تعمیر کا کام گنبد) نے [[مغل شہنشاہ]] [[بہادر شاہد ظفر]] کے اقتدار میں شروع کیا تھا جس میں شاہد (بیوی کا بقیہ محمد خان) کے نواب شاہ جہان بیگم (1844-1860 اور 1868-1901) کی طرف سے بنوال بیٹی سلطان جھن بیگم، جب تک ان کی زندگی بھر تک. مسجد میں فنڈز کی کمی کی وجہ سے مکمل نہیں ہوا، اور [[جنگ کے 1857]] کے بعد ایک لمبے دورے کے بعد، تعمیر 1971 ء میں علامہ محمد عمران خان نویدی ازری اور مولانا نے شروع کی تھی. بھوپال کے سید حشمت علی صحاب. تعمیر 1985 ء تک مکمل کیا گیا تھا اور داخلہ (مشرقی) دروازے کو قدیم مقصودوں کا استعمال کرتے ہوئے تقریبا 1250 شام کی مسجدوں سے کویت کے امیر کی مدد سے اپنی اپنی بیوی کی یادگار کی یاد دلانے کے لۓ بحال کیا گیا.
"تاج المساجد" کو بھوپال کی سلطان شاہ جہاں بیگم (بھوپال کی نواب) نے 1888- 1901 میں تعمیر کروایا۔ لیکن 1901ء میں شاہ جہاں بیگم کے انتقال کے بعد نواب بھوپال نے اس مسجد کی طرف نظر کرم نہیں کی اور تاج المساجد پچاس سال تک بالکل ویران پڑی رہی اور شرابیوں اور جواریوں کا اڈا بن گئی لوگ اس مسجد میں آنے میں ڈرنے لگے اور اللہ تعالی نے بھوپال کے ایک مرد مجاہد مولانا محمد [[عمران خان ندوی ازہری]] {{رح}} کو اس مسجد کو مکمل کرنے کے لیے اٹھا کھڑا کیا، مولانا محمد عمران خاں صاحب ندوی ازہری اس وقت ندوۃ العلماء کے مہتمم جیسے عظیم الشان منصب پر فائز تھے لیکن آپ نے تاج المساجد میں1950ء میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی جو مدرسہ آج بھی دین کی خدمت انجام دے رہا ہے، تکمیل تاج المساجد کا منصوبہ 1971ء میں بنایا گیا جس کے تحت ملک و بیرون ملک میں چندہ مہم چلائی گئی اور چندہ اکھٹا کیا گیا اور صرف 1971ء سے 1986ء یعنی مولانا محمد عمران خاں ندوی ازہری کی وفات تک محض 15 سال کی مدت میں یہ عظیم مسجد مکمل ہوئی، اس مسجد کے چندہ کے لیے مولانا نے دنیا بھر کا سفر کیا جیسے یورپ امریکا افریقہ اور سعودیہ عربیہ اور ہندوستان کے تمام شہروں کا سفر کیا اور کروڑوں روپیوں کا چندہ کر کے اس عظیم الشان مسجد کو محض اللہ تعالی کے فضل و کرم سے مکمل کر ڈالا۔ اور جو کام بھوپال کی نوابی حکومت نہ کر سکی اور وہ ایک فقیر بے نوا نے اللہ کے فضل و کرم سے کر دکھایا۔ لیکن افسوس کہ ہم نے مولانا عمران خان صاحب ندوی ازہری جیسی بلند شخصیت کو بھلا دیا
 
== حوالہ جات ==