"مسعود غزنوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
 
سطر 1:
سلطان [[محمود غزنوی]] کے تین بیٹے محمد غزنوی ، مسعود غزنوی اور [[عزالدولہ عبدالرشید]] غزنوی تھے۔ سلطان کا سب سے بڑا بیٹا محمد غزنوی تھا اس لیے اس نے مرتے وقت بڑے بیٹے کو سلطان بنانے کی وصیت کی تھی۔ مسعود غزنوی فوج میں مقبول تھا اس لیے اس نے 1030ء میں ہی بھائی کو گرفتار کر لیا اور اسے اندھا کر کے قید خانے میں ڈال دیا اور خود غزنی کے تخت پر قابض ہو گیا۔ <ref>ہندوستان کا تاریخی خاکہ مولف کارل مارکس فریڈرک اینگلز ترتیب و تعارف احمد سلیم صفحہ 15</ref>
 
== سلطان محمود کی خواہش ==
سطر 32:
 
== ترکمانیوں سے معرکہ ==
422ھ میں سلطان مسعود غزنی سے صفاہان اور رے کی طرف روانہ ہوا۔ جب وہ ہرات پہنچا تو سرخس اور بار آورد کے باشندے اس کے پاس آئے اور اس سے ترکمان سلجوقی کے ظلم و ستم کی شکایت کی۔ مسعود نے عبد الرئیس بن [[عبد العزیز]] کو ایک زبردست لشکر کے ساتھ ترکمانیوں کی سرزنش کے لیے روانہ کیا۔ عبد الرئیس نے بار ہا ترکمانیوں کے ساتھ جنگ کی، لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ آخر کار سلطان مسعود ناکام و نامراد واپس غزنی آيا۔
 
== علی مگین سے جنگ ==
422ھ میں علی مگین نے بخارا اور سمرقند پر قبضہ کر کے بڑے ہنگامے پیدا کر رکھے تھے۔ سلطان مسعود نے التونتاش کو على مگین کی سرکوبی کے لیے نامزد کیا۔ التونتاش خوارزم سے [[ماوراء النہر]] کی طرف روانہ ہوا۔ سلطان مسعود نے بھی غزنی سے پندرہ ہزار سپاہیوں کی ایک فوج التونتاش کی مدد کے لیے روانہ کی اور یہ فوج بلغ کے علاقے میں التونتاش کے لشکر میں جا ملی۔ التونتاش نے دریائے اسویہ کو عبور کر کے پہلے بخارا پر حملہ کیا اور اس کو فتح کر کے سمرقند کی طرف روانہ ہوا۔ علی مگین کو جب غزنوی لشکر کی آمد کی خبر ملی تو وہ شہر سے نکل کر ایک میدان میں آیا۔ اس میدان کے ایک طرف تو ایک بہت بڑی نہر بہ رہی تھی اور دوسری طرف ایک بہت بڑا پہاڑ تھا۔ جب لڑائی شروع ہوئی تو التو نتاش کے لشکر پر علی مگین کی فوج کے ایک دستے نے پیچھے سے حملہ کیا یہ دستہ کمیں گاہ میں چھپا ہوا تھا اس حملے میں غزنوی فوج کے بے شمار سپاہی مارے گئے۔ یہاں تک کہ التونتاش کے جسم پر بھی ایک کاری زخم لگا اور اتفاق سے یہ زخم جسم کے ایک ایسے حصے میں لگا جہاں پہلے بھی جب کہ التونتاش سلطان محمود کے ساتھ ہندوستان میں معرکہ آرا ہوا تھا منجیق کے ایک بھاری پتھر سے زخم لگ چکا تھا۔ التونتاش نے اپنے اس زخم کا حال اپنے ساتھیوں سے چھپائے رکھا اور میدان جنگ میں بڑی ثابت قدمی سے ڈٹا رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا دشمن کے حملے کے باوجود غزنوی فوج میں بد دلی اور پریشانی نہ پھیلنے پائی اور غزنوی سپاہیوں نے دشمن کے بھی بے شمار افراد کو تہ تیغ کیا اور باقی لوگوں کو میدان جنگ سے بھگا دیا۔ جب علی مگین کا کوئی سپاہی بھی باقی نہ رہا تو التونتاش نے لشکر کو واپسی کا حکم دیا۔ غزنوی لشکر اپنے خیموں میں واپس آگیا۔ رات کے وقت التونتاش نے فوری سرداروں کو اپنے پاس بلایا ان کو اپنے زخمی ہونے کی کیفیت بتائی اور کہا کہ "اس زخم سے میرا بچنا ناممکن نظر آتا ہے اب تم لوگ اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے لڑائی کے بارے میں جو چاہو کرو- فوجی سرداروں نے جب دیکھا کہ التونتاش کی حالت نازک ہے اور صبح دشمن سے پھر مقابلہ کرنا ہے تو انہوں نے باہمی مشورے کے بعد یہ طے کیا کہ مناسب اور معقول شرائط پر صلح کر کے جنگ سے ہاتھ اٹھا لیا جائے۔
 
=== التونتاش کی وفات اور صلح ===
سطر 57:
 
== احمد نیالتگین کی سرکشی ==
اسی زمانے میں ہندوستان سے احمد نیالتگین کی بغاوت کی خبریں آئیں۔ سلطان مسعود نے نانھ نام کے ایک ہندو سردار کو اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ ناتھ اپنے لشکر کے ساتھ روانہ ہوا اور اس سے معرکہ آرا ہوا دونوں میں زبردست جنگ ہوئی۔ احمد نے بڑی دلیری اور جوانمردی کے ساتھ ناتھ کا مقابلہ کیا اس لڑائی میں ناتھ مارا گیا اور غزنوی فوج کو شکست ہوئی۔ جب سلطان مسعود تک اس واقعے کی اطلاع پہنچی تو اس نے تولک بن حسین کو جو ہندووں کا بہت بڑا امیر تھا نیالتگین کے مقابلے پر روانہ کیا۔ تولک نے نیالتگین سے جنگ کر کے اسے شکست دی۔ نیا لتگین پریشانی کے عالم میں منصورہ ، ٹھٹھہ اور سندھ کی طرف بھاگ گیا۔ تولک نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے جس ساتھی کو دیکھا اس کے کان اور ناک کاٹ کر اسے چھوڑ دیا۔ احمد ہانپتا کانپا [[دریائے سندھ]] کے کنارے تک پہنچا وہ دریا کو پار کر کے دوسری طرف اترنا ہی چاہتا تھا کہ دفعتاً دریا میں سیلاب آگیا اور نیالتگین اس سیلاب کے سامنے بے دست و پا ہو کر رہ گیا اور یوں اس کا خاتمہ ہوگیا۔ پانی کے بہاو نے نیالتگین کی لاش جب کنارے پر پھینک دی تو لاش کو غزنوی سپاہیوں نے اپنے قبضے میں کر لیا اور اس کا سر کاٹ کر تولک کے سامنے پیش کیا۔ تولک نے سر کو سلطان مسعود کے پاس غزنی بھیج دیا۔
 
== عالی شان تاج ==
سطر 63:
 
== قلعہ ہانسی اور سون پت کی فتح ==
اسی سال سلطان مسعود نے اپنے بیٹے مودود غزنوی کو صاحب طبل و علم کیا اور خود قلعہ ہانسی کو فتح کرنے کے لیے ہندوستان کی طرف روانہ ہوا۔ طبقات ناصری کے مولف کا بیان ہے کہ اس زمانے میں ہانسی سوالک کا دارالسلطنت تھا اور ہانسی کا قلعہ بہت ہی مضبوط تھا۔ اس کی بابت ہندو عقیدہ رکھتے تھے کہ اب کبھی کوئی مسلمان فرمانروا تسخیر نہیں کر سکتا۔ سلطان مسعود نے ہانسی پہنچ کر اس قلعے کا محاصرہ کر لیا اور چھ روز کی محنت کے بعد اسے فتح کر لیا۔ اس قلعے سے بہت سا [[مال غنیمت]] مسعود کے ہاتھ لگا۔ اس نے یہ قلعہ اور تمام مال غنیمت اپنے قابل اعتماد سرداروں کے حوالے کیا اور خود سون پت کا قلعہ فتح کرنے کے لیے آگے بڑھا۔
سون پت کے راجہ دیپال ہری کو جب یہ معلوم ہوا کہ سلطان مسعود اس کی سرزنش کے لیے آ رہا ہے تو وہ پریشان و بد حواس ہو کر جنگل کی طرف بھاگ گیا۔ غزنوی لشکر نے سون پت پہنچ کر وہاں کے قلعہ کو تسخیر کر لیا اور اس کے تمام بتوں کو پاش پاش کر کے تمام مال و دولت پر اپنا قبضہ کرلیا۔ مسلمانوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ دیپال ہری راجہ سون پت یہاں سے فرار ہو چکا ہے تو انہوں نے اس کا تعاقب گیا۔ دیپال کو جب اس کی خبر ہوئی تو اس نے اپنا ساز و سامان اور لشکر جنگل ہی میں چھوڑ دیا اور خود کسی گوشے میں روپوش ہو گیا۔ مسلمانوں نے دیپال ہری کے ساز و سامان پر قبضہ کیا اور اس کے لشکر کو گرفتار کر کے یہاں سے دره رام دیو کی طرف بڑھے۔
راجہ رام دیو اپنی آنکھوں سے دیپال ہری کا حشر دیکھ چکا تھا۔ اسے جب سلطان مسعود کی آمد کی خبر ہوئی تو اس نے بڑی دانشمندی سے کام لیا۔ اس نے بہت سا مال و دولت سلطان کی خدمت میں روانہ کیا اور یہ درخواست کی کہ میں بہت ضعیف اور کمزور ہوں اس لیے مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ بذات خود خدمت اقدس میں حاضر ہو سکوں میرے حال پر رحم کیا جائے اور جو کچھ ارسال خدمت ہے اسے قبول کیا جائے اور مجھے اپنے اطاعت شعاروں میں شمار کیا جائے۔ سلطان نے اس کی درخواست قبول کر لی اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا یہاں سے وہ سون پت واپس آگیا۔
سطر 71:
 
== طغرل بیگ کی سرزنش کا ارادہ ==
ترکمانیوں کی شورشوں کو ختم کرنے کے لیے سلطان مسعود 438ھ میں بلغ پہنچا۔ ترکمانیوں کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو وہ بلغ کو چھوڑ کر ادھر ادھر کے علاقوں میں منتشر ہو گئے۔ بلخ کے باشندوں نے سلطان مسعود کی خدمت میں حاضر ہو کر گزارش کی کہ سلطان کی غیر موجودگی میں [[طغرل بیگ]] نے دریا کو پار کر کے کئی بار مسلمانوں کو مارا اور لوٹا ہے۔ سلطان مسعود نے یہ سن کر [[موسم سرما]] میں ہی طغرل کی سرکوبی کا ارادہ کیا اور ترکمانیوں کی سرزنش کو موسم بہار کے ابتدائی زمانے تک کے لیے ملتوی کیا۔ سلطنت کے امراء اور فوجی افسروں وغیرہ کو بادشاہ کے اس ارادے کی خبر ہوئی تو انہوں نے گزارش کی کہ دو سال سے ترکمانی خراسان میں لوٹ مار مچائے ہوئے ہیں اور اہل خراسان ان کی اس روش سے اس حد تک عاجز آ چکے ہیں کہ خراسانیوں کا ایک بڑا حصہ ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہے اس وقت یہی مناسب ہے کہ سب سے پہلے ترکمانیوں کا قلع قمع کیا جائے اور پھر اس کے بعد کسی اور طرف توجہ کی جائے۔ (سبھی لوگ بادشاہ کے اس ارادے کے مخالف تھے اور اس کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کرنے لگے) ایک شاعر نے اس مضمون کی ایک نظم بھی لکھی کہ بادشاہ کو پہلے طغرل بیگ پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس نے یہ نظم سلطان مسعود کی خدمت میں پیش کی لیکن سلطان پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ اپنے ارادے پر قائم رہا۔ اس کا یہ خیال تھا کہ طغرل بیگ کا ملک بآسانی اس کے قبضے میں آجائے گا۔ لہذا اس نے دریائے جیحون پر پل بندھوایا اور دریا کو پار کر کے ماوراء النہر پہنچا۔
ماوراءالنہر میں کسی نے سلطان مسعود کا مقابلہ نہ کیا اس لیے اس صوبے کے بہت سے علاقوں پر مسعود نے بغیر کسی روک ٹوک کے قبضہ کرلیا۔ ان دنوں میں اس علاقے میں شدید [[برف باری]] اور بارش ہوئی ، ایک تو سردیوں کا موسم اور دوسرے یہ مصیبت اس وجہ سے غزنوی فوج کو بہت سی تکلیفوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔
اس زمانے میں داؤد سلجوقی نے سر اٹھایا اور وہ سرخس سے بلغ کی طرف بڑھا۔ خواجہ احمد وزیر نے بلغ سے سلطان مسعود کو اطلاع دی کہ داؤد سلجوقی ایک زبردست لشکر کے ساتھ بلغ کی طرف آ رہا ہے اور میرے پاس اتنی فوج اور سامان جنگ نہیں ہے کہ اس کے مقابلے میں صف آرا ہو سکوں۔ یہ خبر ملتے ہی سلطان مسعود بلغ کی طرف روانہ ہو گیا۔ جو نہی سلطان بلغ کی طرف روانہ ہوا طغرل نے غزنی پر حملہ کر دیا اور بہت سے شاہی اونٹ اور گھوڑے لوٹ کر لے گیا۔ اس لوٹ مار کے دوران میں طغرل نے اہل غزنی کو خوب جی بھر کے بے عزتی کی۔
سلطان مسعود جب بلخ کے قرب و جوار میں پہنچا تو داؤد بلغ پر حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر کے مرو کی طرف چلا گیا۔ سلطان نے بلغ پہنچ کر اپنے بیٹے مودود کو ساتھ لیا اور داؤد کے تعاقب میں گورگان کی طرف روانہ ہو گیا۔ گورکان میں کچھ لوگ علی تقندری کے ظلم و ستم کا شکار تھے انہوں نے سلطان مسعود کی خدمت میں حاضر ہو کر على تقندری کی شکایت کی اور اس کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کی درخواست کی۔ على تقندری ایک ظالم عیار اور چالاک ڈاکو تھا لوٹ مار اس کا پیشہ تھا اور اس پر وہ گزر بسر کرتا تھا۔ سلطان مسعود نے اس سے اطاعت گزاری کے لیے کہا۔ اس نے نے انکار کیا اور حسب معمول اپنی روش پر چلتا رہا، علی تقندری نے جب دیکھا کہ سلطان جنگ کا ارادہ کر رہا ہے تو وہ قلعہ میں پناہ گزین ہو گیا۔ مسعود نے اس قلع کی تسخیر کے لیے لشکر کا ایک دستہ روانہ کیا ان سپاہیوں نے بآسانی قلعے کو فتح کر لیا اور علی تقندری کو گرفتار کر کے سلطان کے سامنے لائے ، مسعود نے اس بد معاش شخص کو اس کی بد اعمالیوں کی سزا دی اور پھانسی پر چڑھا دیا۔
سطر 93:
== غلاموں کی بغاوت اور سلطان کی گرفتاری ==
ان حفاظتی انتظامات کے بعد سلطان مسعود نے اپنے باپ (محمود غزنوی) کی جمع کی ہوئی تمام دولت اونٹوں پر لادی اور اس خزانے کو اپنے ساتھ لے کر لاہور کی طرف روانہ ہوا۔
سلطان نے راستے ہی میں اپنے ایک آدمی کو اس کام کے لیے بھیجا کہ وہ اس کے بھائی محمد غزنوی کو قلعے سے نکال کر ان کے سامنے لائے۔ سلطان رباط مارکلہ (مارگیلہ)(یہ مقام راولپنڈی اور اٹک کے درمیان واقع ہے) [[دریائے جہلم]] کے قریب پہنچا تو سلطان کے قابل اعتبار غلاموں نے لالچ میں آ کر اونٹوں پر لدے ہوئے خزانے کو جی کھول کر لوٹا اور اس دوران میں سلطان کے بھائی محمد غزنوی بھی وہاں پہنچ گیا۔ ان نمک حرام غلاموں نے جنہوں نے خزانہ شاہی کو لوٹا تھا یہ خیال کیا کہ سلطان مسعود کو معزول کر دینا مناسب ہے ورنہ وہ ان کی ناشائستہ حرکت کو معاف نہ کرے گا۔ (اور کڑی سزا دے گا) یہ سوچنے کے بعد ان غلاموں نے سلطان مسعود پر حملہ کر دیا۔ مسعود مجبوراً رباط مارکلہ میں قلعہ بند ہوگیا۔
غزنوی فوج کا ہر چھوٹا بڑا فرد آئے دن کی جنگوں سے تنگ آ چکا تھا نیز وطن کی جدائی کی وجہ سے بھی یہ سب لوگ پریشان تھے۔ اس بنا سارے لشکر نے سلطان کی مخالفت کی۔ یہ لوگ رباط کے اندر داخل ہو گئے اور سلطان مسعود کو گرفتار کر کے امیر محمد غزنوی کے پاس لے آئے۔ امیر محمد نے اپنے بھائی سے کہا
* میں نہیں چاہتا کہ تمہیں قتل کر دوں ہاں نظر بند ضرور کروں گا ، تم جو جگہ اپنے اور اپنے بال بچوں کے لیے منتخب کرو میں وہیں تمہیں قید کر دوں گا۔ تاکہ تم اپنی زندگی کے باقی دن اطمینان اور آرام سے بسر کر سکو۔
سطر 121:
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات|2}}
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]