"عدی بن حاتم" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی (ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم) |
م خودکار: خودکار درستی املا ← لیے، دھوکا، جو، ہو گیا، ابتدا، علاحدہ، ہو گئی |
||
سطر 10:
حضرت عدی کا خاندان مدت سے قبیلہ طے پر حکمرانی کرتا چلا آ رہا تھا اور ظہور اسلام کے وقت وہ خود قبیلہ کے سردار تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلسل فتوحات حاصل ہوئیں اور اس کے ساتھ آپ کا اثر و اقتدار اور اسلام کا دائرہ وسیع ہونے لگا۔ عدی کو فکر لاحق ہوئی کیونکہ ایک طرف حکمرانی کا غرور اس کو اسلام کے سامنے سر جھکانے سے روک رہا تھا دوسری طرف اس سیلاب کو روکنا بھی اس کے بس میں نہ تھا اس لیے وہ انتظار میں تھا کہ جب اسلامی لشکر حملہ کرے گا میں وطن چھوڑ کر بھاگ جاؤں گا۔
<ref>سیرہ الصحابہ جلد اول از مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی جلد چہارم حصہ ہفتم صفحہ 385</ref>
عدی
== یمن سے فرار ==
عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی قوم کا سردار تھا۔ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی خبر سنی تو مجھے آپ سے شدید نفرت
میرا ارادہ تھا کہ میں اپنے ہم مذہب عیسائیوں کے پاس چلا جاتا ہوں جاتے ہوئے میں اپنی بہن کو یہیں چھوڑ گیا۔ میں شام پہنچا اور وہاں رہنے لگا۔ میرے جانے کے بعد رسول اللہ کے لشکر آئے اور میرے قبیلے کو فتح کر کے قیدی ساتھ لے گئے ۔ ان قیدیوں میں حاتم طائی کی سفانہ بنت حاتم بھی تھی ۔ عدی بن حاتم کی بہن نے نبی کریم سلام سے رہائی کی اپیل کی جو آپ نے منظور کر لی ۔ آپ نے نہایت عزت و اکرام کے ساتھ اسے رخصت کیا۔
عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ ایک روز میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ ایک سواری ہماری طرف آتی دکھائی دی۔ میں نے سوچا کہ یہ تو میری بہن لگتی ہے۔ جب وہ قریب آئی تو وہ میری بہن ہی تھی ۔ وہ اترتے ہی مجھے پر برسنے لگی۔ مجھے خوب برا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نکالی۔ مجھے ملامت کرتے ہوئے کہتی ہے: تم ظالم اور قاطع رحم ہو۔ تم اپنے بیوی بچوں کو لے بھاگے اور بہن کی کوئی پروا نہ کی ۔ میں نے بہن کی ساری ملامت حوصلے سے سنی اور بہن سے معافی مانگی ۔ لہذا وہ راضی
میں نے کہا: تمھارا مشورہ بہت خوب ہے۔
بہن کا مشورہ سن کر میں نے سوچا کہ مجھے ایک بار ضرور مد ینہ حاضر ہونا چاہیے۔ اگر وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہوئے تو مجھے کیا نقصان ہے۔ اگر وہ سچے ہوئے تو میں جان لوں گا اور ان کی پیروی کرلوں گا۔ لہذا میں شام سے نکالا اور مدینہ منورہ کی طرف روانہ
== بارگاہ رسالت میں ==
سطر 34:
رسول اللہ : ہاں، میں تم سے زیادہ جانتا ہوں، کیا تم رکوسی ( عیسائی اور سابی فرقے کا ملا جلا عقیدہ رکھتے والے) نہیں ہو؟ تم اپنی قوم کی غنیمت (لوٹ ) سے چوتھا حصہ وصول کرتے ہو، حالانکہ وہ تمھارے مذہب کے مطابق تمھارے لیے حلال نہیں ہے۔
عدی بن حاتم : بالکل ایسے ہی ہے ۔ آپ کے ان ارشادات کے بعد میں آپ کی عظمت کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ واقعی اللہ کے سچے رسول ہیں اور آپ کو غیب کی باتیں بتائی جاتی ہیں۔
رسول اللہ : اے عدی ممکن ہے تم اس لیے اسلام قبول نہیں کر رہے کہ تم سوچتے ہوئے کہ اس نبی کے پیرو کار نہایت غریب و مساکین ہیں ۔ ایسے کمزور و ناتواں جنھیں عربوں نے دھتکارا ہوا تھا، وہ مسلمان ہو رہے ہیں ۔ کوئی امیر زاده، رئیس و سردار مسلمان نہیں ہو رہا؟ اللہ کی قسم ! عنقریب مال وافر ہو جائے گا ، غربت ختم ہو جائے گی حتی کہ (زکاة کا) مال لینے والا نہیں ملے گا ممکن ہے تمھارے دل میں ہو کہ مسلمان بہت کم ہیں اور ان کے دشمنوں کی کثرت ہے۔ اللہ کی فسم! عنقریب تم سنو گے کہ اکیلی عورت قادسیہ ( یا فرمایا: الحیرہ جو
عدی بن حاتم : کسری بن ہرمز کے خزانے؟
رسول اللہ : ہاں کسری بن ہرمز کے خزانے مسلمانوں میں مال و دولت کی ریل پیل ہو جائے گی حتی کہ اسے لینے والا نہیں ملے گا۔ عنقریب ارض بابل کے سفید محلات مسلمانوں کے قبضے میں ہوں گے۔
سطر 41:
== امارت ==
رسول اللہ ہر نئے مسلمان سے اس کے رتبہ کے مطابق کام لیتے تھے اور اسلام سے پہلے جس کا جو رتبہ تھا اس کو برقرار رکھتے تھے۔ عدی قبیلہ طے کے حکمران تھے اس
== عہد صدیقی ==
سطر 50:
== عہد فاروقی ==
13ھ میں جب حضرت عمر فاروق نے عراق کی فتوحات کی تکمیل کے
ایک مرتبہ حضرت عدی عمرفاروق کے زمانہ میں مدینہ آئے اور ان سے مل کر پوچھا آپ نے مجھے پہچانا۔ فرمایا پہچانا کیوں نہیں تم اس وقت ایمان لائے جب لوگ کفر میں مبتلا تھے ، تم نے اس وقت ان کو پیا جب لوگ اس کے کرتے اورتم نے اس وقت حق کو پہچانا جب لوگ
== عہد مرتضوی ==
حضرت عثان" کے طرزعمل سے عدی کو اختلاف تھا اس
ایک دن جب گھمسان کی لڑائی ہورہی تھی اور عراقی فوجیں پراگندہ ہو رہی تھیں حضرت علی
جنگ صفین کے بعد نہروان کا معرکہ ہوا اس میں بھی عدی حضرت علی کے دست راست تھے۔ غرض شروع سے آخر تک وہ برابر حضرت علی کے ساتھ جان نثارانہ شریک رہے۔
سطر 62:
== فضل و کمال ==
عدی بن حاتم کو آخری زمانہ میں شرف باسلام ہوئے تا ہم چونکہ آنحضرت اور شیخین کے پاس برابر آتے جاتے رہتے تھے۔ خصوصا حضرت علی کے ساتھ ان کے تعلقات بہت زیادہ تھے اس
آپ کے تلامذہ میں عمرو بن حریت ، عبد اللہ بن معقل ، معقل تمیم بن طرفہ ، خثیمہ بن عبد الرحمن ، محل بن خلیفہ طائی ، عامر الثعبی ، عبد اللہ بن عمرو ، ہلال بن منذر ، سعید بن جبیر ، قاسم بن عبد الرحمن ، عبادہ بن جیش وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
* علامہ [[ابن عبد البر]] نے لکھا ہے وہ (عدی بن حاتم) اپنی قوم کے سردار اور معززین میں تھے ، خطیب ، حاضر جواب ، فاضل اور کریم تھے۔
== مذہبی زندگی ==
یوں تو عدی بن حاتم کی زندگی بحیثیت ایک صحابی کے خالص مذہبی تھی لیکن نماز اور روزوں کے ساتھ خاص انہماک تھا۔ نماز کے
== سخاوت و فیاضی ==
سخاوت اور فیاضی آپ کو ورثہ میں ملی تھی۔ آپ کا دروازہ ہر وقت ہر شخص کے
ایک مرتبہ ایک شاعر سالم بن وارہ نے آ کر کہا میں نے آپ کی مدح میں اشعار کہے ہیں ۔ عدی نے کہا ذرا رک جاؤ میں اپنے مال و اسباب کی تفصیل تم کو بتا دوں ،اس کے بعد سنانا۔ میرے پاس ایک ہزار بچے والے مویشی، دو ہزار درہم ، 3 غلام اور ایک گھوڑا ہے اس کے بعد شاعر نے مدحیہ قصیدہ سنایا
جو شخص ان کے رتبے سے کم سوال کرتا ہے اسے نہ دیتے تھے۔ یہ [[صحیح مسلم]] میں بروایت میں مروی ہے کہ ایک شخص نے سو درہم کا سوال کیا اتنی کم رقم کا سن کر بولے میں حاتم کابیٹا ہوں اورتم مجھ سے سو درہم مانگتے ہو خدا کی قسم ہرگز نہ دوں گا۔
ان کی فیاضی سے انسان سے لے کر حیوان تک یکساں مستفید ہوتے تھے۔ چیونٹیوں کی غذا مقرر تھی ،ان کے کھانے کے
== حوالہ جات ==
|