"بوطیقا" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ زمرہ جات +ترتیب (14.9 core): + زمرہ:شاعری سے متعلق کتابیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1:
{{خانۂخانہ معلومات کتاب/عربی}}
{{ناحوالہ}}
{{خانۂ معلومات کتاب
| نام = فن شاعری
|image = فن شاعری.png
| تصویر پیمائش =
| تصویر کا عنوان = بوطیقا، فن شاعری کا سرورق
| اصل عنوان =
<!-- مصنفین و مدیران کے لیے مخصوص اواتر -->
| مصنف = ارسطو
| مترجم = عزیز احمد بی اے
| مفسر =
| مصور سرورق =
<!-- اصناف و موضوعات کے لیے مخصوص اواتر -->
| صنف =
| ذیلی صنف =
| موضوعات =
<!-- تواریخ اشاعت اور ناشرین کے لیے مخصوص اواتر -->
| ناشر = انجمن ترقی اردو، ہند
| ناشر دوم =
| تاریخ اشاعت = 1941ء
| تاریخ اشاعت اول =
| تاریخ اشاعت آخر =
| بار اشاعت =
| تاریخ اشاعت انگریزی =
| ادبی تحریک =
<!-- ترتیبی نظاموں کے لیے مخصوص اواتر -->
| ملک = بھارت
| زبان = اردو
| بین الاقوامی معیاری کتاب نمبر =
| ڈیوی اعشاریائی نمبر =
| او سی ایل سی =
| کانگرس =
<!-- کتابی سلسلوں کے لیے مخصوص اواتر -->
| سلسلہ =
| سابقہ =
| اگلی =
<!-- دیگر مندرجات -->
| اعزازات =
| صفحات=
| ذرائع ابلاغ =
}}
 
'''بوطیقا''' ([[یونانی زبان|یونانی]]: Περὶ ποιητικῆς، [[لاطینی زبان|لاطینی]]: De Poetica) [[ارسطو]] کی کتاب ہے۔ بوطیقا میں ارسطو نے نقل، فطرت، [[شاعری]] کی اصل، شاعری کی اقسام، المیہ کے اصول وغیرہ پر بحث کی ہے اور شاعری کا ایک آفاقی نظریہ پیش کیا ہے۔ ”نقل“ جمالیات کی ایک بنیادی اصطلاح ہے۔ ارسطو اس لفظ کا اطلاق شاعری پر کرتا ہے۔ پروفیسر بوچر کے الفاظ میں ارسطو کے ہاں نقل کا مطلب ہے حقیقی خیال کے مطابق تخلیق کرنا اور خیال کے معنی ہیں اشیا کی اصل جو عالم مثال میں موجود ہے، جس کی ناقص نقلیں اس دنیا میں نظرآتی ہیں۔ عالم حواس کی ہر شے عالم مثال کی نقل ہے۔
سطر 45 ⟵ 5:
ارسطو کے نزدیک انسان حواس کے ذریعہ کسی شے کا ادراک کرتا ہے اور ہر شے کے اندر ایک مثالی ہیئت موجود ہے۔ لیکن خود اس شے سے اس ہیئت کا ادھورا اور نامکمل اظہار ہوتا ہے۔ یہ ہیئت فنکار کے ذہن پر حسی شکل میں اثر انداز ہوتی ہے اور وہ اس کے بھرپور اظہار کی کوشش کرتا ہے اور اس طرح اس عالم مثال کو سامنے لاتا ہے جودنیائے رنگ وبو میں نامکمل طور پر ظاہر ہوا ہے۔ حواس کے ذریعہ جس دنیا کو محسوس کیا جاتا ہے وہ ”اصل حقیقت“ کے نامکمل اور ادھورے مظاہر ہیں۔
 
طبعی دنیا کی مختلف شکلیں جدائی اور مثالی شکلوں کی نقلیں تھیں جنہیں اس مادی دنیا میں سونے والے حادثات نے مسخ کر دیا ہے فلسفی کا کام یہ ہے کہ وہ ان اتفاقی اور مسخ شدہ شکلوں کے اندر ”اصل حقیقت“ کو دریافت کرے اور ان قوتوں کو تلاش کرے جو ساری ہستی کا سبب ہیں اور اسے حرکت میں لاتے ہیں۔ یہی کام شاعر کا ہے۔ ارسطو کے اس ”شاعرانہ نقل“ کے نظریہ نے شاعر کو فلسفہ کے اعلیاعلیٰ منصب میں ایک اہم مقام عطا کر دیا۔ اس نظریہ کے مطابق نقل تخلیقی عمل ہے۔
 
شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی اس کا '''شعریات''' کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔<ref>https://www.rekhta.org/ebooks/sheriyat-arastu-ebooks?lang=ur</ref>
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
 
{{تضبیط سند}}
 
[[زمرہ:ارسطو کا کام]]