"یاس یگانہ چنگیزی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ زمرہ جات +ترتیب (14.9 core): + زمرہ:بیسویں صدی کے بھارتی مرد مصنفین
سطر 7:
 
== لکھنؤ کا قیام ==
یگانہؔ کا [[لکھنؤ]] کا قیام بڑا ہنگامہ خیز اور معرکہ آرا رہا، جس کا اثر ان کے فن پر بھی پڑا۔ معرکہ آرائیوں نے بھی ان کے فن کو جلا بخشی۔ شروع میں لکھنؤ کے شعرا سے ان کے تعلقات خوشگوار تھے۔ اتنا ہی نہیں وہ عزیزؔ، صفیؔ، ثاقبؔ و محشرؔ وغیرہ کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔ جب عزیزؔ کی سرپرستی میں رسالہ ’’معیار‘‘ جاری ہوا اور معیار پارٹی وجود میں آئی تو یگانہؔ بھی اس پارٹی کے مشاعروں میں غالبؔ کی زمینوں میں غزلیں پڑھتے تھے۔ ان طرحی مشاعروں کی جو غزلیں’’معیار‘‘ میں چھپی ہیں، ان میں بھی یگانہؔ کی غزلیں شامل ہیں۔ لیکن یہ تعلق بہت دنوں تک قائم نہ رہ سکا اور لکھنؤ کے اکثر شعرا سے یگانہؔ کی چشمک ہو گئی۔ اس سلسلے میں مالک رام بہ زبان یگانہؔ تحریر کرتے ہیں کہ :
{{اقتباس|اب اس میں میرا کیا قصور ! یہ خدا کی دین ہے، میرا کلام پسند کیاجانے لگا۔ باہر کے مشاعروں میں بھی اکثر جانا پڑتا۔ میری یہ ہر دل عزیزؔی اور مقبولیت ان تھڑدلوں سے دیکھی نہ گئی۔<ref>مرزا یگانہؔ چنگیزی، مضمون مشمولہ، میرزایگانہ :شخصیت اور فن ص: 20</ref>}}
 
یگانہؔ سے اہلِ [[لکھنؤ]] کی چشمک کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ "معیار" پارٹی کے مشاعروں میں ان کے کلام پر خندہ زنی کی جاتی تھی اور بے سروپا اعتراض کیے جاتے تھے مگر یہ سب کچھ زبانی ہوتا تھا۔ اصلی اور تحریری جنگ کا آغاز خود یگانہؔ نے کیا۔ اس کے بعد ایک دوسرے کے خلاف لکھنے کا سلسلہ چل پڑا، جس کی انتہا ’’شہرتِ کاذبہ‘‘ نامی یگانہؔ کی کتاب ہے۔ [[لکھنؤ]] کے شعرا غالبؔ کے بڑے قائل تھے، لہٰذا یگانہؔ کے لیے اب یہ بات بھی ناگزیر ہو گئی کہ وہ غالبؔ کی بھی مخالفت کریں۔ غالبؔ کی مخالفت کے سلسلے میں انہیں اندھا مخالف نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ انہوں نے خود کہا ہے کہ :
{{اقتباس|یہ کس نے آپ کو بہکا دیا کہ میں [[غالب]] کا مخالف ہوں، وہ یقینا بہت بڑا شاعر ہے۔ صاحب ! غالبؔ کی صحیح قدر و منزلت مجھ سے زیادہ کون سمجھے گا۔ مجھے غصہ اس بات پر آتا ہے کہ لوگ اس کے جائز مقام سے زیادہ اسے دینا چاہتے ہیں ۔ اور پھر قسم یہ ہے کہ یہ بھی وہ لوگ نہیں، جو اس کا صحیح مقام سمجھتے ہوں، بلکہ وہ جو تقلیداً اسے بڑا سمجھتے ہیں ۔۔۔ تو صاحب ! میں غالبؔ کے خلاف نہیں تھا، اور نہ ہوں لیکن میں اس کی جائز جگہ سے زیادہ اس کے حوالے کردینے پر تیار نہیں ۔<ref>مضمون از مالک رام مشمولہ ،میرزا یگانہؔ :شخصیت اور فن ،ص: 19</ref>}}
 
سطر 20:
زندگی کے دوسرے مشاغل کے ساتھ ساتھ یگانہؔ کی ملازمت کا سلسلہ بھی ناہمواری کا شکار رہا۔ ایک عرصے تک وہ ’’اودھ اخبار‘‘ سے وابستہ رہے۔ لیکن حتمی طور سے یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ کب سے کب تک، البتہ ’’اودھ اخبار‘‘ کے مدیروں میں یگانہؔ کا نام شامل ہے ۔1924ء میں یگانہؔ [[اٹاوہ]] چلے گئے، جہاں انہیں اسلامیہ ہائی اسکول میں ملازمت مل گئی۔ مارچ 1925ء کے آس پاس وہ اٹاوہ کو چھوڑ کر علی گڑھ چلے گئے، وہاں ایک پریس میں انہیں ملازمت مل گئی۔ 1926ء میں انہوں نے لاہور کا رخ کیا اور ’’اردو مرکز‘‘ سے وابستہ ہو گئے۔ یہاں کا ماحول انہیں راس آیا۔ یہاں کے ادیبوں سے ان کے بہتر مراسم رہے۔ کئی کتابوں اوررسالوں کے چھپنے کی سبیل پیدا ہوئی۔ [[اقبال|اقبالؔ]] کے یہاں بھی ان کا آنا جانا رہتا تھا۔ اقبالؔ بھی یگانہؔ کے بڑے قائل تھے۔ 1928ء میں یگانہؔ ’’اردو مرکز‘‘ سے علاحدہ ہو گئے لیکن قیام لاہور ہی میں رہا۔ لاہور کے بعد انہوں نے حیدرآباد دکن کا رخ غالباً 1928ء میں کیا۔ حیدرآباد میں ان کا قیام ان کے لیے کافی آسودگی لے کر آیا۔ جہاں ان کا تقرر نثار احمد مزاج کے توسط سے محکمہ رجسٹریشن میں ’’نقل نویس‘‘ کی حیثیت ہو گیا۔ یہاں ان کی آمدنی پچیس تیس روپے ماہوار تھی اور کبھی کبھی زیادہ بھی ہوجاتی تھی ۔1931ء میں یگانہؔ محکمۂ رجسٹریشن میں باقاعدہ ملازم ہو گئے۔ یہ جگہ سب رجسٹرار کی تھی۔ اس طرح وہ ’’عثمان آباد‘‘، ’’لاتور‘‘ اور ’’یادگیر‘‘ میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور 1942ء میں 55 برس کی عمر میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ سبکدوشی کے بعد ایک لمبے عرصے تک حیدرآباد ہی میں قیام رہا۔ 1946ء میں وہ بمبئی گئے اور وہاں اپنے بڑے بیٹے آغا جان کو ملازمت دلوائی۔ حیدرآباد میں نواب معظم جاہ نے انہیں اپنے دربار سے وابستہ کرناچاہا لیکن یگانہؔ راضی نہ ہوئے۔ سبکدوشی کے بعد یگانہؔ بار بار حیدرآباد روزگار کی امید سے آتے رہے لیکن انہیں مایوسی ہی نصیب ہوئی۔
 
== مجموعہ ہائے کلام ==
یگانہؔ کا پہلا مجموعۂ کلام ’’ نشترِ یاس‘‘ 1914ء میں شائع ہوا۔ اس کا بڑا حصہ ان کے ابتدائی اور روایتی کلام پر مشتمل ہے۔ ان کا دوسرا مجموعہ ’’ آیاتِ وجدانی‘‘ کے نام سے 1927ء میں منظر عام پر آیا۔ یگانہؔ کی قدر و منزلت کا دار و مدار بڑی حد تک اسی مجموعے پر ہے۔ ’’آیاتِ وجدانی‘‘ کے بعد ان کا تیسرا مجموعہ ’’ترانہ‘‘ کے نام سے سات سال بعد 1933ء میں شائع ہوا۔ 1934ء میں ’’آیاتِ وجدانی‘‘ کا دوسرا اڈیشن منظر عام پر آیا۔ 1945ء میں اس مجموعے کا تیسرا اڈیشن بھی آگیا۔ اس اشاعت کا کام پہلی اشاعتوں سے بہتر تھا۔ 1946ء میں جب یگانہؔ بمبئی گئے تو اس وقت ان کی ملاقات سید سجاد ظہیر سے ہوئی تھی۔ ان کے لیے یگانہؔ نے اپنے تمام مجموعوں میں شامل کلام کو ’’گنجینہ‘‘ کے نام سے مرتب کر دیا۔ یہ مجموعہ کمیونسٹ پارٹی کے اشاعتی ادارے سے 1947ء میں شائع کیا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے چند کتابچے بھی لکھے تھے۔ مثلاً ’’ شہرتِ کاذبہ‘‘ جسے خرافاتِ عزیزؔ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے ’’غالبؔ شکن‘‘ بھی شائع کیا، جس سے لکھنؤ کے ادبی حلقوں میں بڑی اٹھا پٹک ہوئی ۔
 
سطر 124:
دیوانہ وار دوڑ کے کوئی لپٹ نہ جائے
 
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا نہ کیجیے
 
=== سیمابی کیفیت ===
یگانہؔ نے صرف اپنا تخلص ہی یاس سے یگانہؔ (1920-21 میں ) نہیں کیا بلکہ 1932ء تک پہنچتے پہنچتے، اس میں چنگیزی کا اضافہ بھی کر لیا۔ اس کے بارے میں خودلکھتے ہیں کہ:
{{اقتباس|جس طرح چنگیز نے اپنی تلوار سے دنیا کا صفایا کر دیا تھا ،اسی طرح جب سے میں نے غالبؔ پرستوں کا صفایا کرنے کا تہیہ کیا ہے،یہ لقب اختیار کیا ہے۔<ref>یگانہؔ سوانحی خاکہ، مشمولہ، کلیاتِ یگانہؔ چنگیزی، ص: 68</ref>}}
 
سطر 216:
* [http://books.google.com/books?id=savUvFQbl_cC&pg=PA21&lpg=PA21&dq=Yagana+Changezi&source=web&ots=v8G72VNDdW&sig=_oIf19CU4fiTigp36vqXOvlDqcU&hl=en&sa=X&oi=book_result&resnum=9&ct=result#PPA25,M1] Google books: K. C. Kanda, ''Masterpieces of Urdu Rubaiyat''۔
{{Authority control}}
 
[[زمرہ:1883ء کی پیدائشیں]]
[[زمرہ:1956ء کی وفیات]]
[[زمرہ:اردو شعرا]]
[[زمرہ:بیسویں صدی کے بھارتی شعرا]]
[[زمرہ:بیسویں صدی کے بھارتی مرد مصنفین]]
[[زمرہ:بیسویں صدی کے مرد مصنفین]]
[[زمرہ:بھارتی اردو شعرا]]
سطر 229 ⟵ 231:
[[زمرہ:لکھنوی شخصیات]]
[[زمرہ:لکھنؤ کے مصنفین]]
[[زمرہ:کلکتہ یونیورسٹی کے فضلا]]