"علی بن ابی طالب البلخی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
ویکائی
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 21:
ابو الحسن [[علی بن ابی طالب]] الحسن نقیب [[بلخ]] بن ابی علی عبید اللہ بن ابی الحسن محمد الزاہد بن ابی علی عبید اللہ نقیب [[ہرات]] بن ابی القاسم علی نقیب [[بلخ]] بن ابی محمد الحسن بن الحسین بن جعفر الحجہ بن عبید اللہ الاعرج بن الحسين الاصغر بن [[زین العابدین|علی]] بن [[حسین ابن علی|الحسین]] بن [[علی بن ابی طالب|علی]]<ref>عمدة الطالب في أنساب آل أبى طالب تأليف: جمال الدين أحمد بن علي الحسيني المعروف بابن عنبة المتوفى سنة 828 هجرية الطبعة الثانية 1380هـ - 1960م عنى بتصحيحه محمد حسن آل الطالقاني منشورات المطبعة الحيدرية في النجف الاشرف، مادة ذرية جعفر الحجة.</ref> بن [[ابو طالب بن عبد المطلب|ابی طالب]] اور والدہ ریطہ بنت الحسن کا نسب [[محمد بن حنفیہ]] بن علی بن ابی طالب سے جا ملتا ہے۔<ref>الجامع لصلة الأرحام في نسب السادة الكرام من الإمامين الحسن والحسين (مجلدات اربعة) إعداد: الشريف احمد وفقي بن محمد ياسين المحاسب بالجهاز المركزي للمحاسبات بمصر مراجعة وتحقيق: الدكتور عبد الفتاح أبو سنة عضو المجلس العلمى للشؤون الإسلامية،ج2،ص65</ref><ref>بهجة الحضرتين تأليف محمد الصيادي تحقيق المجموعة: عارف أحمد عبد الغني نسابة بلاد الشام الشريف عبد الله بن حسين السادة (قطر - الدوحة) الناشر: دار كنان - دمشق / الدوحة ص.ب 8878</ref><ref>ابن عنبة الحسني ، عمدة الطالب في انساب ابي طالب ، ص 303</ref>
 
==آپ کا زمانہءزمانہ حیات==
اس عہد میں گروہِ کلامیہ اور دیگر فقہی مذاہب کے درمیان فکری تنازعات اپنے عروج پر تھے۔ یہ دراصل اُنہی سیاسی مسائل اور عقائد کے اختلافات کا تسلسل تھا جو زمانہءزمانہ قدیم سے چلے آ رہے تھے حالانکہ جس طرح دیگر دیگرتمام تمام ادیان کے اصول و فروع میں اس طرح کے اختلافات رہتے آئے ہیں اسی طرح اسلامی ثقافت میں بھی رہے ہیں لیکن ان نظریاتی اختلافات کی نہ کوئی خاص اہمیت رہی ہے اور نہ ہی انہیں قابلِ ملامت سمجھا گیا ہے ۔گیا۔ علمِ کلام اصول میں اختلافات کے باعث پروان چڑھا ہے جبکہ علمِ فقہ کی بنیاد فروعی اختلافات پر مبنی ہے۔ اصول میں اختلاف چار بڑے مسائل کے باعث تھا۔ پہلا مسئلہ صفات اور توحید'توحید، دوسرا قضا اور قدر'قدر، تیسرا وعد و وعید اور چوتھا مسئلہ نبوت اور امامت کا تھا تھا۔ پانچویں صدی ہجری اس لیے اہمیت کی حامل ہے کہ اس عہد میں علومِ شرعی کے دائرہءدائرہ تفکیر نے وسعت پائی اور یہی حال دیگر علوم کا بھی رہا جن میں عقلی'عقلی، طبیعی اورسماجیاور سماجی علوم بھی شامل ہیں ۔ہیں۔ یہ عہد اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں ان علوم پر تمام فرقوں اور مذاہب کی جانب سے بکثرت کام ہوا ۔ہوا۔
 
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ آپعلی ابن ابی طالب بلخی کا عہدِ حیات خلافتِ عباسیہ کے تنزل کا دور تھا ۔تھا۔ مرکزی حکومت مختلف علاقائی حکومتوں میں بٹ چکی تھی اور یہ چھوٹی چھوٹی طاقتیں خلفاء کے انتخاب کے لیے آپس میں دست و گریبان تھیں جس کے باعث ان میں اور خلیفہءخلیفہ وقت میں جنگی کیفیت پیدا ہو گئی تھی جو عام زندگی کے تمام شعبوں پر بری طرح اثر انداز تھی۔ اس کے علاوہ اس عہد میں زلزلوں اور قحط سالی جیسے قدرتی حوادث بھی بکثرت واقع ہوئے جن کے نتائج و نقصانات کا تفصیلی ذکر مورخین نے کیا ہے ۔ہے۔ یہ دور اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں ہر علم و فن میں علمائے کاملین پیدا ہوائے ہیں۔
اس عہد میں گروہِ کلامیہ اور دیگر فقہی مذاہب کے درمیان فکری تنازعات اپنے عروج پر تھے۔ یہ دراصل اُنہی سیاسی مسائل اور عقائد کے اختلافات کا تسلسل تھا جو زمانہء قدیم سے چلے آ رہے تھے حالانکہ جس طرح دیگرتمام ادیان کے اصول و فروع میں اس طرح کے اختلافات رہتے آئے ہیں اسی طرح اسلامی ثقافت میں بھی رہے ہیں لیکن ان نظریاتی اختلافات کی نہ کوئی خاص اہمیت رہی ہے اور نہ ہی انہیں قابلِ ملامت سمجھا گیا ہے ۔ علمِ کلام اصول میں اختلافات کے باعث پروان چڑھا ہے جبکہ علمِ فقہ کی بنیاد فروعی اختلافات پر مبنی ہے۔ اصول میں اختلاف چار بڑے مسائل کے باعث تھا۔ پہلا مسئلہ صفات اور توحید' دوسرا قضا اور قدر' تیسرا وعد و وعید اور چوتھا مسئلہ نبوت اور امامت کا تھا پانچویں صدی ہجری اس لیے اہمیت کی حامل ہے کہ اس عہد میں علومِ شرعی کے دائرہء تفکیر نے وسعت پائی اور یہی حال دیگر علوم کا بھی رہا جن میں عقلی' طبیعی اورسماجی علوم بھی شامل ہیں ۔ یہ عہد اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں ان علوم پر تمام فرقوں اور مذاہب کی جانب سے بکثرت کام ہوا ۔
اضمحلال اور تنزل کے باعث ان اہم واقعات کی بنیاد پر اس دور مختصرکو اً کومختصراً یوں بیان کیا جاسکتا ہے:
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ آپ کا عہدِ حیات خلافتِ عباسیہ کے تنزل کا دور تھا ۔ مرکزی حکومت مختلف علاقائی حکومتوں میں بٹ چکی تھی اور یہ چھوٹی چھوٹی طاقتیں خلفاء کے انتخاب کے لیے آپس میں دست و گریبان تھیں جس کے باعث ان میں اور خلیفہء وقت میں جنگی کیفیت پیدا ہو گئی تھی جو عام زندگی کے تمام شعبوں پر بری طرح اثر انداز تھی۔ اس کے علاوہ اس عہد میں زلزلوں اور قحط سالی جیسے قدرتی حوادث بھی بکثرت واقع ہوئے جن کے نتائج و نقصانات کا تفصیلی ذکر مورخین نے کیا ہے ۔ یہ دور اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں ہر علم و فن میں علمائے کاملین پیدا ہوائے ہیں۔
* یہ دور مختلف شعبہ ہائے حیات میں عجیب وغریب واقعات سے بھرا ہوا تھا۔
اضمحلال اور تنزل کے باعث ان اہم واقعات کی بنیاد پر اس دور مختصر اً کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے:
* یہ دور سیاسی' فکری اور دینی اعتبار سے اضطراب کا دور تھا۔
• یہ دور مختلف شعبہ ہائے حیات میں عجیب وغریب واقعات سے بھرا ہوا تھا۔
* مسلم بادشاہوں اور سلاطین کی کمزوری اور آپسی اختلافات کے باعث مغلوں نے مشرقی حدود پر ہلہ بول دیا تھا
• یہ دور سیاسی' فکری اور دینی اعتبار سے اضطراب کا دور تھا۔
* مغربی جانب سے بلادِ اسلامیہ کو صلیبی جنگوں کے خطرہ نے آگھیرا تھا۔
• مسلم بادشاہوں اور سلاطین کی کمزوری اور آپسی اختلافات کے باعث مغلوں نے مشرقی حدود پر ہلہ بول دیا تھا
* مسلم بادشاہوں نے اپنی آپسی لڑائیوں میں ان اجنبی طاقتوں سے مدد لینی شروع کردی تھی جو بہر طور ان کی دشمن تھیں۔
• مغربی جانب سے بلادِ اسلامیہ کو صلیبی جنگوں کے خطرہ نے آگھیرا تھا۔
* سماجی بنیادیں کمزور ہو گئیں تھیں بلکہ لڑکھڑا رہی تھیں۔
• مسلم بادشاہوں نے اپنی آپسی لڑائیوں میں ان اجنبی طاقتوں سے مدد لینی شروع کردی تھی جو بہر طور ان کی دشمن تھیں۔
* گروہِ کلامیہ اور مذاہبِ فقہی کے درمیان تنازعات اپنے عروج پر تھے۔
• سماجی بنیادیں کمزور ہو گئیں تھیں بلکہ لڑکھڑا رہی تھیں۔
* علامہ علاء الدین سمرقندی اور علامہ نظام الملک جیسے اکابر علما کے وجودِ بابرکت سے اسلامی شعور نئے انداز سے پنپ رہا تھا۔
• گروہِ کلامیہ اور مذاہبِ فقہی کے درمیان تنازعات اپنے عروج پر تھے۔
اسی افراتفری اور بدحالی کے دور میں آپ نے طلبِ علم کے لیے جد و جہد فرمائی ' مختلف حنفی شیوخ کی خدمت میں فقہ کی تعلیم حاصل کی اور مذہب' خلاف اوراصول میں یکتائے زمانہ ہو گئے ۔اسی طرح آپ نے ادب پڑھا اور مختلف محدثین سے سماعتِ حدیث کا شرف حاصل کیا۔ آپ تیس سال تک علوم ِ شرعی اور ان کے اصول و فروع کی تعلیم میں مشغول رہے<ref>2. ڈاکٹر قحطان عبد الستار الحديثي (استاد تاريخ خراسانِ اسلامي بغداد یونیورسٹی) ۔ "أبو الحسن علي بن أبي طالب البلخي والمسجد الازرق" ، جريدة الراصد البغدادية ، 1988</ref>۔
• علامہ علاء الدین سمرقندی اور علامہ نظام الملک جیسے اکابر علما کے وجودِ بابرکت سے اسلامی شعور نئے انداز سے پنپ رہا تھا۔
اسی افراتفری اور بدحالی کے دور میں آپ نے طلبِ علم کے لیے جد و جہد فرمائی ' مختلف حنفی شیوخ کی خدمت میں فقہ کی تعلیم حاصل کی اور مذہب' خلاف اوراصول میں یکتائے زمانہ ہو گئے ۔اسی طرح آپ نے ادب پڑھا اور مختلف محدثین سے سماعتِ حدیث کا شرف حاصل کیا۔ آپ تیس سال تک علوم ِ شرعی اور ان کے اصول و فروع کی تعلیم میں مشغول رہے<ref>2. ڈاکٹر قحطان عبد الستار الحديثي (استاد تاريخ خراسانِ اسلامي بغداد یونیورسٹی) ۔ "أبو الحسن علي بن أبي طالب البلخي والمسجد الازرق" ، جريدة الراصد البغدادية ، 1988</ref>۔
 
==آپ کے بعض حالاتِ زندگی==