"اسلام میں ملنساری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
ویکائی
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 1:
'''اسلام میں ملنساری''' ایک ایسا وصف ہے جسے [[محمد|پیغمبر اسلام]] نے اپنی زندگی میں کیساعمدہ تھاطریقہ سے کہبرتا۔ چنانچہ [[عائشہ بنت ابی بکر]] نے ایک جملے میں اس کی عکاسی کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہا کہ "{{ع}}کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ{{ڑ}}" یعنی تعلیمات قرآن پر پورا پورا عمل یہی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہرسول وسلماللہ کے اخلاق تھے۔
 
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن اپنے احباب، اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم،اپنےعنہم، اپنے رشتے داروں،اپنےداروں، اپنے پڑوسیوں ہر ایک کے ساتھ اتنی خوش اخلاقی اورملنساریاور ملنساری کا برتاؤ فرماتے تھے کہ ان میں سے ہر ایک آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کا گرویدہ اور مداح تھا،خادم خاص حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ میں نے دس برس تک سفر و وطن میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل کیا مگر کبھی بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہ مجھے ڈانٹا نہ جھڑکا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تو نے فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا۔ <ref>زرقانی جلد 4 ص266</ref>
عائشہ بنت ابی بکر کہتی ہیں کہ رسول اللہ سے زیادہ کوئی خوش اخلاق نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گھر والوں میں سے جو کوئی بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پکارتا تو آپ لبیک کہہ کر جواب دیتے۔ حضرت جریر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں جب سے مسلمان ہوا کبھی بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھے پاس آنے سے نہیں روکا اور جس وقت بھی مجھے دیکھتے تو مسکرا دیتے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے خوش طبعی بھی فرماتے اور سب کے ساتھ مل جل کر رہتے اور ہر ایک سے گفتگو فرماتے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بچوں سے بھی خوش طبعی فرماتے اور ان بچوں کو اپنی مقدس گود میں بٹھا لیتے اور آزاد نیز لونڈی غلام اور مسکین سب کی دعوتیں قبول فرماتے اور مدینہ کے انتہائی حصہ میں رہنے والے مریضوں کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے جاتے۔<ref>المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، الفصل الثانی فیما اکرمہ اللہ الخ، ج6، ص 42،43</ref>