"اگستیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں (ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم) |
م خودکار: اضافہ زمرہ جات +ربط+ترتیب+صفائی (14.9 core): + زمرہ:قدیم تمل ماہرین صرف و نحو+زمرہ:سنگم شعرا+زمرہ:سدھ طب |
||
سطر 11:
}}
[[فائل:AgasthiyarG.jpg|تصغیر|اگستیہ کا سونے کا مجسمہ]]
'''اگستیہ''' یا '''اگستیا''' {{دیگر نام|ہندی=अगस्त्य}} [[ہندو مت]] میں [[وید]]وں کے ایک مشہور دانشور ([[رشی]]) تھے۔{{sfn|David Shulman|2016|p=17,25-30|ps=: "agasti, Tamil, akatti, "West Indian pea-tree", presumably the origin of the name of the Vedic sage Agastya (likely a Dravidian root"}}<ref name="Doniger1981p167">{{cite book |author=Wendy Doniger |title=The Rig Veda: An Anthology : One Hundred and Eight Hymns, Selected, Translated and Annotated |url= https://books.google.com/books?id=lqKwteD19U8C&pg=PA167| year=1981| publisher=Penguin Books| isbn=978-0-14-044402-5| pages=167–168| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231208/https://books.google.com/books?id=lqKwteD19U8C&pg=PA167 | archivedate = 5 جنوری 2019
اگستیہ کا نام متعدد داستانوں اور [[پران]]وں (مثلاً دیومالائی کہانیوں اور علاقائی داستانوں) میں آتا ہے جن میں خاص طور پر [[رامائن]] اور [[مہا بھارت]] شامل ہیں۔{{sfn|Roshen Dalal|2010|pp=7–8}}{{sfn|William Buck|2000|p=138–139}} وہ ویدوں کے سات یا آٹھ انتہائی قابل احترام رشیوں میں سے ایک ہیں،{{sfn|Alf Hiltebeitel|2011|p=285–286}} اس کے ساتھ ساتھ ان کا ذکر [[شیو مت]] کی روایت تمل [[سدھار|سِدّھار]] میں ایک سِدّھار کی حیثیت سے آتا ہے۔ علاوہ ازیں [[شکتی مت]] اور [[ویشنو مت]] کے پرانوں میں بھی ان کو بہت قابل قدر گردانا گیا ہے۔{{sfn|Ludo Rocher|1986|pp=166–167, 212–213, 233}} نیز وہ ان ہندوستانی دانشوروں میں سے ایک ہیں جن کے قدیم مجسمے اور خاکے [[جنوبی ایشیا]] کے ہندو مندروں اور جنوب مشرقی ایشیا جیسے [[جاوا]]، [[انڈونیشیا]] وغیرہ میں ابتدائی قرون وسطیٰ میں تعمیر شدہ [[شیو]] کے مندروں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ قدیم [[جاوی زبان]] کی تحریر، اگستیہ پروا میں وہ ایک بنیادی کردار اور استاذ کا درجہ رکھتے ہیں جس کا 11 ویں صدی کا نسخہ اب تک موجود ہے۔{{sfn|Jan Gonda|1975|pp=12–14}}{{sfn|Ludo Rocher|1986|p=78}}
اگستیہ کو روایتی طور پر کئی سنسکرت تحریروں کا مصنف مانا جاتا ہے، جیسے اگستیہ گیتا کو [[وراہ پران]] میں پایا گیا، [[اگستیہ سمہیتا]] کو [[اسکند پران]] اور "دویدھ نرنئے تنتر" میں پایا گیا۔{{sfn|Roshen Dalal|2010|pp=7–8}} علاوہ ازیں ان کی دیومالائی شخصیت کا حوالہ '''من'''، '''کلساج'''، '''کمبھاج'''، '''کمبھایونی''' اور '''میترا ورونی''' کی حیثیت سے بھی دیا جاتا ہے۔{{sfn|Jan Gonda|1975|pp=12–14}}<ref>{{cite book |author=Michael Witzel |authorlink=Michael Witzel |editor=J. C. Heesterman |display-editors=etal |title=Ritual, State, and History in South Asia: Essays in Honour of J.C. Heesterman |url= https://books.google.com/books?id=EtwtSZwyWpgC&pg=PA822 |year=1992|publisher=BRILL Academic |isbn=90-04-09467-9 |pages=822 footnote 105| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231210/https://books.google.com/books?id=EtwtSZwyWpgC&pg=PA822%20 | archivedate = 5 جنوری 2019
== وجہ تسمیہ ==
[[
اگستیہ کے اشتقاق کے حوالے سے متعدد نظریات ہیں۔ ایک نظریے کے مطابق "اج" یا "انج" اس کا مادہ ہے جس کے معنی "روشن اور چمکنے والے" کے ہیں اور اس کا تعلق اگستیہ سے جوڑتا ہے، یعنی جو اندھیرے میں "روشنی پھیلاتا" ہے اور اگستیہ روایتی طور پر [[کینوپس|کینوپَس]] کا ہندوستانی نام ہے جو جنوب ایشیائی آسمانوں پر [[شعریٰ یمانی|سیریس]] (Sirius) کے بعد دوسرا سب سے زیادہ چمک دار اور روشن ستارہ ہے۔{{sfn|Alf Hiltebeitel|2011|pp=407}} دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اس کو ایک پھولوں والے درخت سے بنایا گیا ہے جس کا نام اگاتی گاندی فلورا ہے، یہ برصغیر میں پایا جاتا ہے اور اسے تمل میں"اکٹّی" کہتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق "اگاتی" ارتقا پاکر "اگاستیح" میں تبدیل ہوا یہ نظریہ ویدوں کے اس دانش ور کی جڑیں دراوڑی ماخذ سے جوڑتا ہے۔{{sfn|Alf Hiltebeitel|2011|pp=400, 404–406 with footnote 74}}
تیسرا نظریہ اگستیہ کا تعلق ہند یورپی ماخذ سے جوڑتا ہے، اس نظریہ کے مطابق یہ ایرانی لفظ گستہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی "گناہ اور ناپسندیدہ" کے ہیں اور اگستہ کا مطلب ہوگا "بے گناہ، پسندیدہ"۔<ref>Edwin Bryant and Laurie Patton (2005), The Indo-Aryan Controversy, Routledge, {{ISBN|0-700-71462-6}}, pages 252–253</ref>چوتھا نظریہ لوک ماخذ سے منسوب ہے جو رامائن کے اشلوک 2.11 میں بیان کیا گیا ہے کہ اگستیہ، اگا (جامد یا پہاڑ) سے لیا گیا ہے اور مل کر یہ جڑیں یہ مطلب بیان کرتی ہیں "وہ شخص جو پہاڑوں کو ہلا دے" یا جامد چیزوں کو ہلا دے۔{{sfn|Alain Daniélou|1991|p=322–323 with footnotes 5 and 6}} اس لفظ کو اگستی اور اگستھیار بھی لکھا جاتا ہے۔({{lang-ta|அகத்தியர்}}
== حالات زندگی ==
[[
رگ وید (1500 تا 1200 قبل مسیح) کے متعدد بھجنوں کے مصنف کو اگستیہ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ بھجن ان کے حالات زندگی کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتے ہیں۔<ref name="Doniger1981p167"/>{{sfn|Stephanie W. Jamison|Joel P. Brereton|2014|pp=1674–1675}} اگستیہ کے ماخذ افسانوی ہیں۔ اپنی روایتوں میں ویدوں کے زیادہ تر دانش وروں کے برعکس ان کی نہ تو کوئی انسانی ماں ہے نہ باپ۔ ان کی کرشماتی پیدائش ایک یوجنا کے بعد ہوتی ہے، جس کو ورون دیوتا اور متر دیوتا نے ادا کیا تھا، جہاں پر کائناتی اپسرا اُروَشی نمودار ہوتی ہے۔{{sfn|J. A. B. van Buitenen|1981|p=187–188}} دونوں دیوتا اُروشی کی غیر معمولی جنسی کشش سے جوش میں آجاتے ہیں اور مادّہ منویہ (نطفہ) کا اخراج کرتے ہیں۔ ان کا مادّہ منویہ کیچڑ کی ایک دلدل میں گرتا ہے، جو ایک ایسا رحم ہے، جس میں اگستیہ کا نطفہ پروان چڑھتا ہے۔ وہ اس مرتبان سے پیدا ہوتے ہیں؛ بعض دیومالائی داستانوں میں ان کے ساتھ ان کا جڑواں دانشور بھائی [[وسشٹھ]] پیدا ہوتا ہے۔<ref>{{cite book |author=Hananya Goodman| title=Between Jerusalem and Benares: Comparative Studies in Judaism and Hinduism| url= https://books.google.com/books?id=XF_a3cfrcLQC&pg=PA218 |year=2012| publisher=State University of New York Press |isbn=978-1-4384-0437-0 |pages=218–219| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231222/https://books.google.com/books?id=XF_a3cfrcLQC&pg=PA218%20 | archivedate = 5 جنوری 2019
اگستیہ پاکیزہ اور نظم و ضبط سے بھرپور زندگی گزارتے ہیں، خود کو تعلیم یافتہ کرتے ہیں اور معروف دانشور بن جاتے ہیں۔ وہ [[برہمن]] والدین سے پیدا نہیں ہوتے، لیکن ان کو بہت ساری ہندوستانی تحریروں میں ان کے علم و دانش کی وجہ سے 'براہمن' کہا جاتا ہے۔ ان کے نامعلوم ماخذ نے قیاس آرائیوں پر مبنی اس تجویز کو شہ دی ہے کہ ویدوں کے دور کے اگستیہ مہاجر آریائی ہو سکتے ہیں، جن کے خیالات نے جنوب کو متاثر کیا اور متبادل طور پر ایک آبائی غیر آریائی دراوڑ، جن کے خیالات نے شمال کو متاثر کیا۔<ref>K. R. Rajagopalan (1957), "Agastya – his non-Aryan Origin", Tamil Culture, Volume VI, Number 4 (Oct. 1957), pages 286-293</ref><ref name="tamil"/><ref>{{cite book| author=Arvind Sharma |title=Hinduism as a Missionary Religion| url= https://books.google.com/books?id=3J7qJA7L4xwC&pg=PA76| year=2011 | publisher=State University of New York Press| isbn=978-1-4384-3211-3| pages=76–77| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231233/https://books.google.com/books?id=3J7qJA7L4xwC&pg=PA76 | archivedate = 5 جنوری 2019
پران کی اور قدیم داستانوں کی عدم تسلسل پر مبنی روایتوں کے مطابق ، پرہیز گار دانش ور اگستیہ نے لوپا مُدرا کو شادی کا پیغام بھیجا، جو ریاست ودربھ میں پیدا ہونے والی ایک شہزادی تھیں۔ شہزادی کے والدین اس شادی سے راضی نہیں تھے؛ انھیں اس بات کی فکر تھی کہ اگستیہ کی تنگ دستی کے باعث ان کی بیٹی صحیح طریقے سے جنگل میں رہ نہیں پائے گی۔ تاہم روایات کے مطابق، لوپا مُدرا نے ان کو اپنے شوہر کے طور پر قبول کر لیا ، یہ کہتے ہوئے کہ اگستیہ کے پاس پرہیز گاری کی دولت ہے، خود شہزادی کی اپنی جوانی بھی ڈھل جائے گی اور یہ کہ اگستیہ کی نیکی ہی ہے جو اس رشتے کے لیے مناسب ہے۔ اس طرح لوپا مدرا ، اگستیہ کی بیوی بن گئیں۔ دیگر روایتوں میں لوپا مدرا اگستیہ سے شادی کرتی ہیں، لیکن شادی کے بعد وہ اگستیہ سے تقاضا کرتی ہیں کہ وہ انھیں بنیادی آسائشیں فراہم کریں تب ہی ان کے رشتے کا نباہ ہو پائے گا۔ یہ ایک ایسا تقاضا<ref>[http://www.sacred-texts.com/hin/m03/m03097.htm Lopamudra] The Mahabharata, translated by Kisari Mohan Ganguli (1883 -1896), Book 3: Vana Parva: Tirtha-yatra Parva: Section XCVII.</ref> ہوتا ہے جو آخر کار اگستیہ کو مجبور کرتا ہے کہ معاشرے میں واپس جاکر دولت کمائیں۔<ref name="Dhand2009p110">{{cite book| author=Arti Dhand| title=Woman as Fire, Woman as Sage: Sexual Ideology in the Mahabharata| url=https://books.google.com/books?id=Kq1JvDXJ5EwC&pg=PA110 |year=2009| publisher=State University of New York Press| isbn=978-0-7914-7140-1| page=110| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231238/https://books.google.com/books?id=Kq1JvDXJ5EwC&pg=PA110%20 | archivedate = 5 جنوری 2019
اگستیہ اور لوپا مدرا کا ایک بیٹا ہوتا ہے، جس کا نام دِرِڑچِیُت ہے، جس کا نام بعض اوقات اِدھمواہ لیا گیا ہے۔ مہابھارت میں اسے ایک ایسے لڑکے کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو رحم مادر میں اپنے والدین سے سن کر ویدوں کو سیکھتا ہے اور دنیا میں بھجن پڑھتے ہوئے پیدا ہوتا ہے۔{{sfn|Laurie Patton|2014|p=34}}
=== اگستیہ آشرم ===
اگستیہ کا ایک آشرم تھا، لیکن قدیم اور قرون وسطیٰ کی ہندوستانی تحریروں کے مطابق اس آشرم کی کہانیوں اور مقامات میں تضاد ہے۔ دو روایتوں میں اس آشرم کا مقام شمال مغربی مہاراشٹر بتایا گیا ہے، [[ناسک]] کے قریب چھوٹے سے قصبوں اگستیہ پوری اور اکولے میں [[دریائے گوداوری]] کے کناروں پر۔ شمالی اور مشرقی ہندوستانی ذرائع میں ممکنہ مقامات [[کولہاپور|کولہا پور]] کے قریب ([[مہاراشٹر]] [[کرناٹک]] کی سرحد پر مغربی گھاٹ) یا [[قنوج|قنّوج]] ([[اترپردیش]]) یا اگستیہ مُنی گاؤں میں رُدرا پریاگ ([[
== تحریری مآخذ ==
سطر 48:
کم زوروں کے دیوتا ہماری مدد کریں۔
— ''1.169.5''،
''ترجمہ: رالف ٹی۔ ایچ۔ گریفیتھ''<ref>Ralph T.H. Griffith, [
دعا ہے کہ ہم غذا سے لبریز ہو جائیں،
اور اس برادری سے جہاں کے بہتے پانی زندگی بخش ہوں۔
—''1.165، 1.166.15، 1.167.11''، وغیرہ
''ترجمہ: اسٹیفانی جیمی سن، جوئل بریریٹن''؛{{sfn|Stephanie W. Jamison|Joel P. Brereton|2014|pp=359–360}} سنسکرت [
</poem>
| source = —''رگ وید''
سطر 60:
}}
ان کی ویدوں کی شاعری خاص طور پر دو نہجوں کے حوالے سے قابل ذکر ہے۔{{sfn|Stephanie W. Jamison|Joel P. Brereton|2014|pp=359–360}} بھجن کے ایک خانے میں اگستیہ دو افواج کے مابین تصادم کو ظاہر کرتے ہیں جن کی قیادت الگ الگ دو دیوتا اِندر اور ماروتس کر رہے ہیں، جس کی ویدی علما نے تشریح کی۔ ایس۔ غوریے نے نظمیہ طور پر ایک تصادم کی شکل میں بیان کی ہے، جو آریہ (اِندر) اور داس ([[ردر]]) کے درمیان ہے۔<ref name="tamil"/><ref>{{cite book|author=Govind Sadashiv Ghurye|title=Indian Acculturation: Agastya and Skanda|url=https://books.google.com/books?id=HLMtAAAAMAAJ|year=1977|publisher=Popular Prakashan|pages=19–20| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231228/https://books.google.com/books?id=HLMtAAAAMAAJ | archivedate = 5 جنوری 2019
دوسرا پہلو – ہندو مت کے ادب میں معروف—ان کی اہلیہ لوپا مدرا اور ان کے مابین گفتگو کی شکل میں ہے۔ جو اس انسانی تناؤ کی عکاسی کرتا ہے، جو روحانیت کی تلاش میں سنیاسی بن جانے اور گھریلو زندگی و خاندان پروان چڑھانے کی درمیان کش مکش سے پیدا ہوتا ہے۔ اگستیہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ خوشی اور آزادی کے حصول کے بہت سارے راستے ہیں، جبکہ لوپا مدر زندگی کی فطرت، وقت اور دونوں کے امکانات کی دلیل پیش کرتی ہیں۔ وہ کامیابی سے اگستیہ کو رجھاتی ہیں۔ تشبیہ سے بھرپور رگ وید کے بھجن 1.179 کی شکل میں ہے۔{{sfn|Stephanie W. Jamison|Joel P. Brereton|2014|pp=359–360}}{{sfn|Laurie Patton|2014|p=27–30}}
سطر 67:
=== رامائن ===
[[
دانشور اگستیہ کا ہندو داستان رامائن کے متعدد ابواب میں تذکرہ ہے، جس میں ان کی سنیاسی زندگی کو دریائے گوداوری کے کناروں پر گزارتے ہوئے بیان موجود ہے۔<ref>{{cite book|title=India through the ages|last=Gopal|first=Madan|year= 1990| page= 62|editor=K.S. Gautam|publisher=Publication Division, Ministry of Information and Broadcasting, Government of India}}</ref>
سطر 78:
اگستیہ کی کہانی کا عکس دوسری اہم ہندو داستان مہا بھارت میں ملتا ہے۔ تاہم، رام کے بہ جائے کہانی کو ویسمپایانا اور لوماسا کے درمیان گفت گو کی شکل میں بیان کیا گیا ہے، جو کتاب 3 کی شق 33 میں موجود ہے، ون پرو (جنگل کی کتاب)۔{{sfn|J. A. B. van Buitenen|1981|p=409–411}}
[[
داستان میں ان کو ایک ایسے دانشور کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس کے معدے میں شکم خوری اور ہضم کرنے کی بے پناہ قوتیں ہیں۔{{sfn|J. A. B. van Buitenen|1981|p=187–188}} اگستیہ، ایک بار پھر – وندھیا پہاڑوں کو اوپر بڑھنے سے روک دیتے ہیں اور انھیں پست کر دیتے ہیں؛ اور وہ وتاپی اور اِلوالا شیطانوں کو اسی افسانوی انداز میں قتل کرتے ہیں، جیسے رامائن میں بیان کیا گیا ہے۔ وانا پاروا بھی لوپامدر اور اگستیہ کی منگنی اور شادی ہونے کی کہانی بیان کرتی ہے۔ یہ اس افسانوی کہانی پر بھی مشتمل ہے ، جس میں اِندر اور وریترا کے درمیان جنگ کا تذکرہ ہے، جہاں تمام شیطان سمندر میں چھپ جاتے ہیں؛ دیوتا اگستیہ سے مدد کی درخواست کرتے ہیں ، جو ان کے کہنے پر جاتے ہیں اور سمندر کا تمام پانی پی جاتے ہیں؛ جس کے نتیجے میں شیطان دیوتاؤں کے سامنے ظاہر ہو جاتے ہیں۔{{sfn|J. A. B. van Buitenen|1981|p=409–411}}
سطر 87:
=== تمل تحریریں ===
[[
تمل روایتوں میں، اگستیہ کو [[تمل زبان]] کا باپ اور تمل زبان کے قواعد کا مؤلف تصور کیا جاتا ہے؛ انہیں اگاتّیام یا اکاتّیام کہا جاتا ہے۔{{sfn|Richard S Weiss|2009|p=50–51, 81–82}}<ref name="klaus17">Klaus Klostermaier (2003), A Concise Encyclopedia of Hinduism, Oxford: Oneworld Publications, {{ISBN|1-85168-175-2}}, page 17</ref><ref name="tamil"/> تمل روایتوں میں اگستیہ ثقافتی ہیرو ہیں اور متعدد تمل تحریروں میں نمودار ہوتے ہیں۔{{sfn|David Shulman|2016|p=30–31, 38–40}}
اگستیہ کے بارے میں شمالی اور جنوبی (تمل) روایتوں میں یکسانیتیں اور اختلافات ہیں۔ اِراواتھم مہادیون کے مطابق،<ref name="tamil">Iravatham Mahadevan (1986) [http://www.ulakaththamizh.org/JOTSpdf/030024037.pdf ''Agastya Legend and the Indus Civilization'' by கட்டுரையாளர் : ஐராவதம் மகாதேவன்
شمالی روایتوں میں اگستیہ کا کردار ویدوں کی روایت پھیلانے سنسکرت پر زور دینے پر مشتمل ہے،{{sfn|Alf Hiltebeitel|2011|p=294}} جبکہ جنوبی روایات میں ان کا کردار [[آبپاشی]]، [[زراعت]]
مہادیون کہتے ہیں کہ شمالی روایتی کہانیاں "ناقابل یقین افسانوں کے مجموعےسے زیادہ آگے کچھ حقیقت نہیں رکھتیں"، جبکہ جنوبی پہلو "زیادہ حقیقت پر مبنی [[تاریخی واقعات]] اور زمینی حقائق سے زیادہ میل کھاتے نظر آتے ہیں"۔<ref name="tamil"/> دیگر اختلاف کرتے ہیں۔ کے۔این۔ شیو راج پِلے کے مطابق، مثال کے طور پر وسطی پہلے ہزاریے سنہ مشترکہ سے پہلے ابتدائی [[سنگم ادب]] یا کسی تمل تحریرمیں کچھ نہیں ہے ، جو اگستیہ کا حوالہ دے۔<ref>K.N. Sivaraja Pillai, [https://archive.org/stream/agastyaintamilla00sivarich#page/14/mode/2up Agastya in the Tamil Land], University of Madras, pages 15-16</ref>{{sfn|David Shulman|2016|p=26–27}} رچرڈ ویس کے مطابق، تمل زبان میں اگستیہ کے کردار کا سب سے ابتدائی حوالہ ایرائیاناراکاپورول میں 8 ویں صدی میں ملتا ہے۔ تاہم، تمل روایت کی قرون وسطیٰ کی کہانیوں میں، اگستیہ نے پہلے سنگم دور کی بنیاد رکھی ، جو 4،440 سال پر محیط رہا اور دوسرے سنگم دور میں شامل رہے ، جو مزید 3،700 سال پر محیط رہا۔{{sfn|Richard S Weiss|2009|p=81–82}}
سطر 99:
=== سِدّھار ===
[[
تمل ہندو روایات میں اگستیہ کو سب سے پہلا اور سب سے اہم سِدّھار مانا جاتا ہے (تمل: سِتّر؛ سنسکرت: سِدّھا)۔ سِدّھار سنسکرت کی کلماتی جڑ سِدھ سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں "حاصل کرنا یا کامیاب ہونا"۔ پہلے سِدّھار کے طور پر اگستیہ پہلے استاذ مانے جاتے ہیں، کامیاب — وہ دانشور ، جس نے اپنے علم کو فطری اور روحانی دنیاؤں میں کامل کر لیا۔ یہ تمل تصور تبّتی مہا سِدّھاؤں ، سری لنکائی بُدّھوں اور شمالی ہندوستان کی ناتھ ہندو یوگی روایات کے متوازی ہے۔{{sfn|Richard S Weiss|2009|p=47–48}}
سطر 106:
وینکٹ رامن کے مطابق، اگستیہ کے بارے میں سِدّھار سے متعلقہ ادب قرونِ وسطیٰ سے لے کر ابتدائی جدید دور کے درمیان ہے۔ خاص طور پر ادویات اور صحت سے متعلق تمل تحریریں، جن میں اگستیہ بہ حیثیت سِدّھار شامل ہیں – ان کو 15ویں صدی اور اس کے بعد تحریر ی طور وجود میں لایا گیا۔ ہارٹ مٹ شرفے کے مطابق، ادویات سے متعلق سب سے قدیم ترین تمل تحریری نسخہ جس میں اگستیہ کا نام لیا گیا، 16 ویں صدی سے پہلے تحریر نہیں کیا گیا تھا۔{{sfn|Richard S Weiss|2009|p=49–51}}
بعض تمل تحریروں میں ان کا نام اگاتھیار یا اگستھیار لیا گیا ہے،<ref>{{cite book|author=Vē. Irā Mātavan̲|title=Siddha medical manuscripts in Tamil|url= https://books.google.com/books?id=fyu4AAAAIAAJ| year=1984|publisher=International Institute of Tamil Studies|page=28| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231226/https://books.google.com/books?id=fyu4AAAAIAAJ | archivedate = 5 جنوری 2019
کامل ظویلیبل کے مطابق، دانش ور اگستیہ، اکتّیان سِدّھا اور اکتّھیور، اکتّیام کا مصنف – مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے تین یا ممکنہ طور چار مختلف اشخاص تھے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمل روایتوں میں ایک فردِ واحد میں ڈھل گئے۔{{sfn|Kamil Zvelebil|1992|p=237-238 with note 2}}
=== بدھ مت کی تحریریں ===
متعدد [[بدھ مت]] کی تحریروں میں اگستیہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جیسے ابتدائی بدھ تحریروں جیسے کَلَپ، کانتانتر اور کیندر-ویاکاراناداپتنگ پانینی اور آسواگھوس مزید قدیم سنسکرت شاعرانہ انداز اپناتے ہوئے ، جب انہوں نے [[گوتم بدھ|بدھ]] کی تعریف کی، اگستیہ پہلے ہزاریے سنہ مشترکہ کے بدھ تحریروں میں نمودار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر تمل تحریروں میں اکتّیان کو ایک ایسے دانشور کے طورپر بیان کیا گیا ہے ، جنہوں نے تمل اور سنسکرت قواعد اور عروض اوالوکیتان سے سیکھے (ہونے والے بدھ کا ایک اور نام اوالوکیٹیشور)۔{{sfn|Anne E. Monius|2001|pp=133–135}}<ref>{{cite book|author=John Clifford Holt|title=Buddha in the Crown: Avalokitesvara in the Buddhist Traditions of Sri Lanka|url= https://books.google.com/books?id=aT3AMR8g1gEC&pg=PA68| year=1991|publisher= Oxford University Press|isbn=978-0-19-536246-6|pages=68–69| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231248/https://books.google.com/books?id=aT3AMR8g1gEC&pg=PA68 | archivedate = 5 جنوری 2019
[[
این ای، مونیوس کے مطابق ، مانیمیکالائی اور وراکولیام بہت ساری جنوبی ہندوستانی تحریروں میں دو ایسی تحریریں ہیں، جنہوں نے اگستیہ کا انتخاب کیا ہےاور انہیں ہونے والے بدھ کا شاگرد بتایا ہے۔{{sfn|Anne E. Monius|2001|pp=133–135}}
اگستیہ دیگر تاریخی بدھ دیومالائی داستانوں میں بھی نمودار ہوئے ہیں، جیسے جٹک کہانیاں۔ مثال کے طور پر آریہ صور کی بدھ تحریرجٹک مالا، جو بدھ کے پچھلے جنموں سے متعلق ہے – اگستیہ کو ساتویں باب میں شامل کرتی ہے۔<ref>{{cite book|author1=Āryaśūra|author2=Peter Khoroche (Translator)|title=Once the Buddha Was a Monkey: Arya Sura's "Jatakamala"|url=https://books.google.com/books?id=5TxenuXB6NEC|year=2006|publisher=University of Chicago Press|isbn=978-0-226-78215-7|pages=39–46| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231208/https://books.google.com/books?id=5TxenuXB6NEC | archivedate = 5 جنوری 2019
=== جاوی اور جنوب مشرقی ایشیائی تحریریں ===
سطر 125:
حالانکہ اگستیہ–پروا کے تحریر اور کلاسیکی ہندوستانی تصورات کے مابین یکسانی واضح ہے، لیکن جان گونڈا کے مطابق – اس تحریر کی سنسکرت اور یا تمل ہم عصر زبانوں میں موجودگی انڈونیشیا یا ہندوستان میں نہیں پائی گئی ہے۔{{sfn|Jan Gonda|1975|p=15}} اسی طرح اگستیہ سے متعلق انڈونیشیائی تحریریں – جن کا دور 10ویں سے 12 ویں صدی تک ہے – شیو مت کے مختلف ذیلی مکاتب فکر جیسے خدا کو ماننے وال شیو سدھانت اور سنیاسی [[مکتب فکر]] اگامک پشوپت کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں، اوریہ تحریریں اعلان کرتی ہیں کہ مذکورہ مذہبی تعلیمات یکساں طور پر اہل ہیں اور اہمیت کی حامل ہیں۔{{sfn|Jan Gonda|1975|p=15}}
[[
جنوب مشرقی ایشیا کے قرون وسطیٰ کے شیو مندروں میں اگستیہ کی موجودگی عام ہے، جیسے جاوا (کاندی) میں پتھر سے بنے مندر۔ شیو، اوما، نندی اور گنیش کی تصاویر کے ساتھ جو بنیادی سمتوں کی جانب رخ کرکے بنائی گئی ہیں، یہ مندر اگستیہ کے مجسموں، نقاشی کے کام اور تصویروں پر مشتمل ہیں — جو جنوبی رخ پر بنائے گئے ہیں۔<ref>{{cite book|author1=Peter Sharrock|author2=Ian C. Glover|author3=Elizabeth A. Bacus|title=Interpreting Southeast Asia's Past: Monument, Image and Text|url=https://books.google.com/books?id=HiSUl9aN88MC&pg=PA104|year=2008|publisher=National University of Singapore Press|isbn=978-9971-69-405-0|pages=104–109| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231232/https://books.google.com/books?id=HiSUl9aN88MC&pg=PA104 | archivedate = 5 جنوری 2019
760 سنہ مشترکہ میں کی جانے والی ڈنویو نقاشی بنیادی طور پر اگستیہ سے منسوب ہے۔ نقّاشی سے پتا چلتا ہے کہ لکڑی سے بنائے گئے اگستیہ کے مجسمے کو دوبارہ پتھر سے تراش کر نقّاشی کا کام کیا گیا ، جس سے پتا چلتا ہے کہ اگستیہ کی تصویر سازی جنوب مشرقی ایشیا کے قدیم دور میں عام تھی۔<ref>{{cite book|author=Nicholas Tarling|title=The Cambridge History of Southeast Asia: Volume 1, From Early Times to c. 1800|url=https://books.google.com/books?id=rOw8AAAAIAAJ&pg=PA313|year=1992|publisher=Cambridge University Press|isbn=978-0-521-35505-6|page=313| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231216/https://books.google.com/books?id=rOw8AAAAIAAJ&pg=PA313 | archivedate = 5 جنوری 2019
=== اگستیہ سمہیتا ===
[[اگستیہ سمہیتا]] جسے بعض اوقات شنکر سمہیتا کہا جاتا ہے — ایک حصہ ہے جو سکند پُران میں تحریر ہے۔{{sfn|Roshen Dalal|2010|pp=7–8}} اغلباً اس کو قرونِ وسطیٰ کے دور میں تحریر گیا، لیکن 12 ویں صدی سے قبل۔<ref name=banerji121>{{cite book|author=Sures Chandra Banerji|title=A Companion to Sanskrit Literature|url=https://books.google.com/books?id=JkOAEdIsdUsC&pg=PA121|year=1989|publisher=Motilal Banarsidass|isbn=978-81-208-0063-2|page=121| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231211/https://books.google.com/books?id=JkOAEdIsdUsC&pg=PA121 | archivedate = 5 جنوری 2019
=== اگستی ماتا ===
سطر 140:
* [[برہد دیوتا]] شق 5.134{{sfn|Alain Daniélou|1991|p=322–323 with footnotes 5 and 6}}
* ہندو مت کی [[شکتی مت]] روایت کی [[للیتا سہسرنام]]، جس میں [[تریپورا سندری|للیتا دیوی]] کے 1000 نام بیان کیے گئے ہیں—[[برہمانڈ پران|برہمانڈ پُران]] کا حصہ ہے۔ یہ وہ تعلیمات ہیں، جو [[ہیاگریو]] (وشنو کے اوتار) نے اگستیہ کو دیں۔{{sfn|Roshen Dalal|2010|p=221}}
* اگستیہ، [[آدتیہ ہردیم|آدتیہ ہِرِدیم]] (لفظی معنی سورج کا دل) کے تخلیق کار کے طور پر جانے جاتے ہیں، [[سوریا]] کے نام ایک بھجن – جو انہوں نے رام کو پڑھنے کے لیے کہا ، تا کہ وہ [[راون]] پر فتح پا سکیں۔ علما جیسے جان نوئیرنے اس بھجن پر سوال اٹھایا ہے، چونکہ رام کی جانب سے ایسا بھجن پڑھنا رام کے الوہی مرتبے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتا ہے۔<ref>{{cite book|author=John Muir|title=Original Sanskrit Texts on the Origin and History of the People of India|url=https://books.google.com/books?id=wNPaeose9K4C&pg=PA473|year=1873|publisher=Trübner|page=473| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231219/https://books.google.com/books?id=wNPaeose9K4C&pg=PA473 | archivedate = 5 جنوری 2019
* لکشمی استروترم اور سرسوتی استروترم۔<ref>{{cite book|author=Theodor Aufrecht|title=Florentine Sanskrit Manuscripts|url=https://books.google.com/books?id=mc27AAAAIAAJ&pg=PA152|year=1892|publisher=G. Kreysing|page=152| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231239/https://books.google.com/books?id=mc27AAAAIAAJ&pg=PA152 | archivedate = 5 جنوری 2019
* تمل تحریر پٹوپّٹّو بیان کرتی ہے کہ اگستیہ آئیکائی کے (موسیقی، گیت) کے استاذ ہیں۔{{sfn|Kamil Zvelebil|1992|p=245}}
* [[رگھوونش]] (6.61) میں [[کالی داس]] بیان کرتے ہیں کہ اگستیہ نے [[مدورائی]] کے [[پانڈئے شاہی سلسلہ|پانڈئے]] بادشاہ کے [[اشومیدھ|گھوڑے کی قربانی]] کی نگرانی کی۔{{sfn|David Shulman|2016|p=26}}
سطر 148:
== ورثہ ==
=== مندریں ===
اگستیہ کے مجسمے اور سنگی نقوش شمالی ہندوستان کے متعدد ابتدائی قرون وسطیٰ مندروں میں نظر آتے ہیں۔ [[دیو گڑھ، اتر پردیش|دیو گڑھ]] (اترپردیش میں [[مدھیہ پردیش]] کی سرحد کے نزدیک) میں دش اوتار مندر چھٹی صدی کی گپت بادشاہت کے دور کا ہے، جس میں اگستیہ کی تصاویر کی نقّاشی ہے۔<ref name="Bemmel1994p35">{{cite book|author=Helena A. van Bemmel|title=Dvarapalas in Indonesia: Temple Guardians and Acculturation|url=https://books.google.com/books?id=kNlt08SXW48C&pg=PA35|year=1994|publisher=CRC Press|isbn=978-90-5410-155-0|pages=35–37, 41–44, 60| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231221/https://books.google.com/books?id=kNlt08SXW48C&pg=PA35 | archivedate = 5 جنوری 2019
جنوب ایشیائی اور جنوب مشرقی ایشیائی مندروں کی فنونی مصوری ایک مشترکہ قدر کو ظاہر کرتی ہے، جیسے کہ وہ ایک مرتبان اٹھائے ہوئے ہیں، لیکن دیگر باتوں میں اختلافات بھی ہیں۔ مثال کے طور پر اگستیہ کی تصویر مندر کی اندرونی اور بیرونی دیواروں پر بنی ہوئی ہے اور بعض اوقات داخلی دروازے کے سرپرست اور محافظ (دُوار پال) کے طور پر، بڑھے ہوئے پیٹ کے ساتھ یا اس کے بغیر، بال پیشانی پر جھڑتے ہوئے یا اس کے بغیر، خنجر اور تلوار کے ساتھ یا اس کے بغیر۔<ref name="Bemmel1994p35"/> چٹانوں کو کاٹ کر بنائے گئے مندر، غار، جیسے 8 ویں صدی کے پانڈیہ چٹان سے بنے مندروں کا گروہ، اگستیہ کا سراغ دیتے ہیں۔<ref name="Bemmel1994p35"/>
سطر 158:
=== عسکری فنون ===
مہا رشی اگستیہ کو سِلبم اور ”ورمک کلئی“ کا بانی اور [[سرپرست بزرگ]] تسلیم کیا جاتا ہے۔ ورمک کلئی میں مختلف بیماریوں میں صحت مند ہونے کے لیے ورمک نقاط استعمال کیے جاتے ہیں۔<ref name="Zarilli1998">{{cite book |last=Zarrilli |first=Phillip B. |title=When the Body Becomes All Eyes: Paradigms, Discourses and Practices of Power in Kalarippayattu, a South Indian Martial Art |year=1998 |publisher=Oxford University Press |location=Oxford}}</ref> [[شیو]] کے بیٹے [[موروگن]] کے بارے میں کہا جاتا ہے انہوں نے دانشور اگستیہ کو یہ فن سکھایا، جنہوں نے اس کو تحریری شکل دی اور اس فن کو دیگر دوسرے [[سدھار|
== حوالہ جات ==
سطر 167:
{{ref begin}}
* {{cite book| author=Alf Hiltebeitel| title=Reading the Fifth Veda: Studies on the Mahābhārata - Essays by Alf Hiltebeitel |url= https://books.google.com/books?id=lLfHSOWKB-sC |year=2011 |publisher=Brill Academic |isbn=90-04-18566-6 |ref=harv
* {{cite book |author=Alain Daniélou |authorlink=:en:Alain Daniélou |title=The Myths and Gods of India: The Classic Work on Hindu Polytheism from the Princeton Bollingen Series |url= https://books.google.com/books?id=1HMXN9h6WX0C&pg=PA322 |year=1991 |publisher=Inner Traditions |isbn=978-0-89281-354-4 |ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231220/https://books.google.com/books?id=1HMXN9h6WX0C&pg=PA322%20 | archivedate = 5 جنوری 2019
* {{cite book |author=Anne E. Monius |title=Imagining a Place for Buddhism: Literary Culture and Religious Community in Tamil-Speaking South India |url=https://books.google.com/books?id=CvetN2VyrKcC&pg=PA134 |year=2001 |publisher=Oxford University Press |isbn=978-0-19-803206-9 |ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231246/https://books.google.com/books?id=CvetN2VyrKcC&pg=PA134%20 | archivedate = 5 جنوری 2019
* {{cite book |author=David Shulman |author-link=:en:David Dean Shulman |title=Tamil Temple Myths: Sacrifice and Divine Marriage in the South Indian Saiva Tradition| url= https://books.google.com/books?id=d97_AwAAQBAJ&pg=PA65|year=2014 |publisher=Princeton University Press| isbn=978-1-4008-5692-3| ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231249/https://books.google.com/books?id=d97_AwAAQBAJ&pg=PA65 | archivedate = 5 جنوری 2019
* {{cite book |author=David Shulman |title=Tamil |url=https://books.google.com/books?id=_KkzDQAAQBAJ&pg=PA25 |year=2016 |publisher=Harvard University Press |isbn=978-0-674-05992-4 |page=25 | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231230/https://books.google.com/books?id=_KkzDQAAQBAJ&pg=PA25%20 | archivedate = 5 جنوری 2019
* {{cite book| author=J. A. B. van Buitenen |title=The Mahabharata, Volume 2: Book 2: The Book of Assembly; Book 3: The Book of the Forest| url= https://books.google.com/books?id=2QG_ZgsM13IC |year=1981 |publisher=University of Chicago Press| isbn=978-0-226-84664-4 |ref=harv
* {{cite book |author=Jan Gonda |title=Handbook of Oriental Studies. Section 3 Southeast Asia, Religions, Religionen |url= https://books.google.com/books?id=X7YfAAAAIAAJ&pg=PA13 |year=1975 |publisher=Brill Academic |isbn=90-04-04330-6 |ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231231/https://books.google.com/books?id=X7YfAAAAIAAJ&pg=PA13%20 | archivedate = 5 جنوری 2019
* {{cite book |author=Kamil Zvelebil |title=Companion Studies to the History of Tamil Literature |url=https://books.google.com/books?id=qAPtq49DZfoC&pg=PA239 |year=1992 |publisher=BRILL Academic |isbn=90-04-09365-6 |ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231213/https://books.google.com/books?id=qAPtq49DZfoC&pg=PA239%20 | archivedate = 5 جنوری 2019
* {{cite book |author=Laurie Patton |editor=Julia Leslie |title=Myth and Mythmaking: Continuous Evolution in Indian Tradition |url=https://books.google.com/books?id=Z7LKAgAAQBAJ&pg=PA27 |year=2014 |publisher=Taylor & Francis |isbn=978-1-136-77888-9 |ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231217/https://books.google.com/books?id=Z7LKAgAAQBAJ&pg=PA27%20 | archivedate = 5 جنوری 2019
* {{cite book |author=Laurie Patton |title=Myth as Argument: The Br̥haddevatā as Canonical Commentary|url=https://books.google.com/books?id=10a0lfJypoYC&pg=PA413 |year=1996 |publisher=Walter de Gruyter |isbn=978-3-11-013805-4 |ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231225/https://books.google.com/books?id=10a0lfJypoYC&pg=PA413%20 | archivedate = 5 جنوری 2019
* {{cite book |author=Ludo Rocher |title=The Purāṇas |url= https://books.google.com/books?id=n0-4RJh5FgoC |year=1986 |publisher=Otto Harrassowitz Verlag |isbn=978-3-447-02522-5 |ref=hav
* {{cite book| author=Richard S Weiss |title=Recipes for Immortality: Healing, Religion, and Community in South India| url=https://books.google.com/books?id=ges6XgLkffEC | year=2009 |publisher=Oxford University Press| isbn=978-0-19-971500-8 |ref=harv
* {{cite book|author=Roshen Dalal |title=Hinduism: An Alphabetical Guide |url= https://books.google.com/books?id=DH0vmD8ghdMC |year=2010 |publisher =Penguin Books |isbn=978-0-14-341421-6 |ref=harv
* {{cite book |author=Roshen Dalal |title=The Vedas: An Introduction to Hinduism's Sacred Texts |url= https://books.google.com/books?id=UCEoAwAAQBAJ&pg=PT376 |year=2014 |publisher=Penguin Books |isbn=978-81-8475-763-7 |ref=harv| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231207/https://books.google.com/books?id=UCEoAwAAQBAJ&pg=PT376%20 | archivedate = 5 جنوری 2019
* {{cite book |author1=Stephanie W. Jamison |author2=Joel P. Brereton |title=The Rigveda |url=https://books.google.com/books?id=1-PRAwAAQBAJ&pg=PA1674 |year=2014 |publisher=Oxford University Press |isbn=978-0-19-937018-4 |ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231228/https://books.google.com/books?id=1-PRAwAAQBAJ&pg=PA1674%20 | archivedate = 5 جنوری 2019
* {{cite book |author=William Buck |title=Ramayana |url= https://books.google.com/books?id=4Wzg6wFJ5xwC&pg=PA138 |year=2000 |publisher=University of California Press| isbn=978-0-520-22703-3| ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231211/https://books.google.com/books?id=4Wzg6wFJ5xwC&pg=PA138%20 | archivedate = 5 جنوری 2019
{{ref end}}
</div>
== بیرونی روابط ==
{{
* [http://www.ias.ac.in/currsci/dec252005/2174.pdf Folklore and Astronomy: Agastya a sage and a star]
* [https://web.archive.org/web/20140903112940/http://agastiashram.org/
{{Hindudharma}}
سطر 196:
{{Tamil language}} -->
{{تضبیط سند}}
[[زمرہ:بھارتی ہندو مبلغین]]
[[زمرہ:رشی]]
[[زمرہ:سدھ طب]]
[[زمرہ:سنگم شعرا]]
[[زمرہ:ضلع کنیاکماری کی شخصیات]]
[[زمرہ:قدیم تمل ماہرین صرف و نحو]]
|