"اگستیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
م خودکار: اضافہ زمرہ جات +ربط+ترتیب+صفائی (14.9 core): + زمرہ:قدیم تمل ماہرین صرف و نحو+زمرہ:سنگم شعرا+زمرہ:سدھ طب
سطر 11:
}}
[[فائل:AgasthiyarG.jpg|تصغیر|اگستیہ کا سونے کا مجسمہ]]
'''اگستیہ''' یا '''اگستیا''' {{دیگر نام|ہندی=अगस्त्य}} [[ہندو مت]] میں [[وید]]وں کے ایک مشہور دانشور ([[رشی]]) تھے۔{{sfn|David Shulman|2016|p=17,25-30|ps=: "agasti, Tamil, akatti, "West Indian pea-tree", presumably the origin of the name of the Vedic sage Agastya (likely a Dravidian root"}}<ref name="Doniger1981p167">{{cite book |author=Wendy Doniger |title=The Rig Veda: An Anthology : One Hundred and Eight Hymns, Selected, Translated and Annotated |url= https://books.google.com/books?id=lqKwteD19U8C&pg=PA167| year=1981| publisher=Penguin Books| isbn=978-0-14-044402-5| pages=167–168| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231208/https://books.google.com/books?id=lqKwteD19U8C&pg=PA167 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref> [[ہندوستان]]ی روایات کے مطابق وہ ایک قابل ذکر [[سنیاسی]] اور [[برصغیر]] کی مختلف زبانوں میں ایک بااثر عالم تسلیم کیے گئے ہیں۔ وہ اور ان کی زوجہ [[لوپامدرا|لوپا مُدرا]] [[سنسکرت زبان|سنسکرت]] کی مذہبی کتاب [[رگ وید]] کے بھجن 1.165 تا 1.191 اور دیگر ویدی ادب کے [[مصنف]] ہیں۔<ref name="Doniger1981p167" />{{sfn|Richard S Weiss|2009|p=49–51}}{{sfn|Roshen Dalal|2010|pp=7–8}}
 
اگستیہ کا نام متعدد داستانوں اور [[پران]]وں (مثلاً دیومالائی کہانیوں اور علاقائی داستانوں) میں آتا ہے جن میں خاص طور پر [[رامائن]] اور [[مہا بھارت]] شامل ہیں۔{{sfn|Roshen Dalal|2010|pp=7–8}}{{sfn|William Buck|2000|p=138–139}} وہ ویدوں کے سات یا آٹھ انتہائی قابل احترام رشیوں میں سے ایک ہیں،{{sfn|Alf Hiltebeitel|2011|p=285–286}} اس کے ساتھ ساتھ ان کا ذکر [[شیو مت]] کی روایت تمل [[سدھار|سِدّھار]] میں ایک سِدّھار کی حیثیت سے آتا ہے۔ علاوہ ازیں [[شکتی مت]] اور [[ویشنو مت]] کے پرانوں میں بھی ان کو بہت قابل قدر گردانا گیا ہے۔{{sfn|Ludo Rocher|1986|pp=166–167, 212–213, 233}} نیز وہ ان ہندوستانی دانشوروں میں سے ایک ہیں جن کے قدیم مجسمے اور خاکے [[جنوبی ایشیا]] کے ہندو مندروں اور جنوب مشرقی ایشیا جیسے [[جاوا]]، [[انڈونیشیا]] وغیرہ میں ابتدائی قرون وسطیٰ میں تعمیر شدہ [[شیو]] کے مندروں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ قدیم [[جاوی زبان]] کی تحریر، اگستیہ پروا میں وہ ایک بنیادی کردار اور استاذ کا درجہ رکھتے ہیں جس کا 11 ویں صدی کا نسخہ اب تک موجود ہے۔{{sfn|Jan Gonda|1975|pp=12–14}}{{sfn|Ludo Rocher|1986|p=78}}
 
اگستیہ کو روایتی طور پر کئی سنسکرت تحریروں کا مصنف مانا جاتا ہے، جیسے اگستیہ گیتا کو [[وراہ پران]] میں پایا گیا، [[اگستیہ سمہیتا]] کو [[اسکند پران]] اور "دویدھ نرنئے تنتر" میں پایا گیا۔{{sfn|Roshen Dalal|2010|pp=7–8}} علاوہ ازیں ان کی دیومالائی شخصیت کا حوالہ '''من'''، '''کلساج'''، '''کمبھاج'''، '''کمبھایونی''' اور '''میترا ورونی''' کی حیثیت سے بھی دیا جاتا ہے۔{{sfn|Jan Gonda|1975|pp=12–14}}<ref>{{cite book |author=Michael Witzel |authorlink=Michael Witzel |editor=J. C. Heesterman |display-editors=etal |title=Ritual, State, and History in South Asia: Essays in Honour of J.C. Heesterman |url= https://books.google.com/books?id=EtwtSZwyWpgC&pg=PA822 |year=1992|publisher=BRILL Academic |isbn=90-04-09467-9 |pages=822 footnote 105| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231210/https://books.google.com/books?id=EtwtSZwyWpgC&pg=PA822%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref>{{sfn|Roshen Dalal|2014|p=187,376}}
 
== وجہ تسمیہ ==
[[Fileفائل:MET 1993 387 2 357588.jpg|thumbتصغیر|بیٹھے ہوئے مافوق البشری دانشور اگستیہ]]
اگستیہ کے اشتقاق کے حوالے سے متعدد نظریات ہیں۔ ایک نظریے کے مطابق "اج" یا "انج" اس کا مادہ ہے جس کے معنی "روشن اور چمکنے والے" کے ہیں اور اس کا تعلق اگستیہ سے جوڑتا ہے، یعنی جو اندھیرے میں "روشنی پھیلاتا" ہے اور اگستیہ روایتی طور پر [[کینوپس|کینوپَس]] کا ہندوستانی نام ہے جو جنوب ایشیائی آسمانوں پر [[شعریٰ یمانی|سیریس]] (Sirius) کے بعد دوسرا سب سے زیادہ چمک دار اور روشن ستارہ ہے۔{{sfn|Alf Hiltebeitel|2011|pp=407}} دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اس کو ایک پھولوں والے درخت سے بنایا گیا ہے جس کا نام اگاتی گاندی فلورا ہے، یہ برصغیر میں پایا جاتا ہے اور اسے تمل میں"اکٹّی" کہتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق "اگاتی" ارتقا پاکر "اگاستیح" میں تبدیل ہوا یہ نظریہ ویدوں کے اس دانش ور کی جڑیں دراوڑی ماخذ سے جوڑتا ہے۔{{sfn|Alf Hiltebeitel|2011|pp=400, 404–406 with footnote 74}}
 
تیسرا نظریہ اگستیہ کا تعلق ہند یورپی ماخذ سے جوڑتا ہے، اس نظریہ کے مطابق یہ ایرانی لفظ گستہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی "گناہ اور ناپسندیدہ" کے ہیں اور اگستہ کا مطلب ہوگا "بے گناہ، پسندیدہ"۔<ref>Edwin Bryant and Laurie Patton (2005), The Indo-Aryan Controversy, Routledge, {{ISBN|0-700-71462-6}}, pages 252–253</ref>چوتھا نظریہ لوک ماخذ سے منسوب ہے جو رامائن کے اشلوک 2.11 میں بیان کیا گیا ہے کہ اگستیہ، اگا (جامد یا پہاڑ) سے لیا گیا ہے اور مل کر یہ جڑیں یہ مطلب بیان کرتی ہیں "وہ شخص جو پہاڑوں کو ہلا دے" یا جامد چیزوں کو ہلا دے۔{{sfn|Alain Daniélou|1991|p=322–323 with footnotes 5 and 6}} اس لفظ کو اگستی اور اگستھیار بھی لکھا جاتا ہے۔({{lang-ta|அகத்தியர்}} ''Agathiyar''؛<ref name="Indian History">{{citation |title=Indian History |publisher=Tata McGraw-Hill |p=240 |url=https://books.google.com/books?id=CeEmpfmbxKEC&pg=SL1-PA240 }}</ref> {{lang-te|అగస్త్య}}؛ {{lang-kn|ಅಗಸ್ತ್ಯ}}؛ {{lang-ml|അഗസ്ത്യൻ or അഗസ്ത്യമുനി}} {{lang-ms|Anggasta}}؛ {{lang-th|italic=yes|Akkhot}})<ref name="Indian History"/>
 
== حالات زندگی ==
[[Fileفائل:AgathiyarLopamudra.jpg|thumbتصغیر|leftبائیں|upleft=0.8|مہارشی اگستیہ اور [[لوپامدرا]]]]
رگ وید (1500 تا 1200 قبل مسیح) کے متعدد بھجنوں کے مصنف کو اگستیہ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ بھجن ان کے حالات زندگی کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتے ہیں۔<ref name="Doniger1981p167"/>{{sfn|Stephanie W. Jamison|Joel P. Brereton|2014|pp=1674–1675}} اگستیہ کے ماخذ افسانوی ہیں۔ اپنی روایتوں میں ویدوں کے زیادہ تر دانش وروں کے برعکس ان کی نہ تو کوئی انسانی ماں ہے نہ باپ۔ ان کی کرشماتی پیدائش ایک یوجنا کے بعد ہوتی ہے، جس کو ورون دیوتا اور متر دیوتا نے ادا کیا تھا، جہاں پر کائناتی اپسرا اُروَشی نمودار ہوتی ہے۔{{sfn|J. A. B. van Buitenen|1981|p=187–188}} دونوں دیوتا اُروشی کی غیر معمولی جنسی کشش سے جوش میں آجاتے ہیں اور مادّہ منویہ (نطفہ) کا اخراج کرتے ہیں۔ ان کا مادّہ منویہ کیچڑ کی ایک دلدل میں گرتا ہے، جو ایک ایسا رحم ہے، جس میں اگستیہ کا نطفہ پروان چڑھتا ہے۔ وہ اس مرتبان سے پیدا ہوتے ہیں؛ بعض دیومالائی داستانوں میں ان کے ساتھ ان کا جڑواں دانشور بھائی [[وسشٹھ]] پیدا ہوتا ہے۔<ref>{{cite book |author=Hananya Goodman| title=Between Jerusalem and Benares: Comparative Studies in Judaism and Hinduism| url= https://books.google.com/books?id=XF_a3cfrcLQC&pg=PA218 |year=2012| publisher=State University of New York Press |isbn=978-1-4384-0437-0 |pages=218–219| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231222/https://books.google.com/books?id=XF_a3cfrcLQC&pg=PA218%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref> یہ دیومالائی داستان انھیں کمبھایونی کا نام دیتی ہے، جس کے لفظی معنی "وہ شخص جس کا رحم کیچڑ کا مرتبان ہو"۔{{sfn|J. A. B. van Buitenen|1981|p=187–188}}{{sfn|David Shulman|2014|p=65}}
 
اگستیہ پاکیزہ اور نظم و ضبط سے بھرپور زندگی گزارتے ہیں، خود کو تعلیم یافتہ کرتے ہیں اور معروف دانشور بن جاتے ہیں۔ وہ [[برہمن]] والدین سے پیدا نہیں ہوتے، لیکن ان کو بہت ساری ہندوستانی تحریروں میں ان کے علم و دانش کی وجہ سے 'براہمن' کہا جاتا ہے۔ ان کے نامعلوم ماخذ نے قیاس آرائیوں پر مبنی اس تجویز کو شہ دی ہے کہ ویدوں کے دور کے اگستیہ مہاجر آریائی ہو سکتے ہیں، جن کے خیالات نے جنوب کو متاثر کیا اور متبادل طور پر ایک آبائی غیر آریائی دراوڑ، جن کے خیالات نے شمال کو متاثر کیا۔<ref>K. R. Rajagopalan (1957), "Agastya – his non-Aryan Origin", Tamil Culture, Volume VI, Number 4 (Oct. 1957), pages 286-293</ref><ref name="tamil"/><ref>{{cite book| author=Arvind Sharma |title=Hinduism as a Missionary Religion| url= https://books.google.com/books?id=3J7qJA7L4xwC&pg=PA76| year=2011 | publisher=State University of New York Press| isbn=978-1-4384-3211-3| pages=76–77| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231233/https://books.google.com/books?id=3J7qJA7L4xwC&pg=PA76 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref>
 
پران کی اور قدیم داستانوں کی عدم تسلسل پر مبنی روایتوں کے مطابق ، پرہیز گار دانش ور اگستیہ نے لوپا مُدرا کو شادی کا پیغام بھیجا، جو ریاست ودربھ میں پیدا ہونے والی ایک شہزادی تھیں۔ شہزادی کے والدین اس شادی سے راضی نہیں تھے؛ انھیں اس بات کی فکر تھی کہ اگستیہ کی تنگ دستی کے باعث ان کی بیٹی صحیح طریقے سے جنگل میں رہ نہیں پائے گی۔ تاہم روایات کے مطابق، لوپا مُدرا نے ان کو اپنے شوہر کے طور پر قبول کر لیا ، یہ کہتے ہوئے کہ اگستیہ کے پاس پرہیز گاری کی دولت ہے، خود شہزادی کی اپنی جوانی بھی ڈھل جائے گی اور یہ کہ اگستیہ کی نیکی ہی ہے جو اس رشتے کے لیے مناسب ہے۔ اس طرح لوپا مدرا ، اگستیہ کی بیوی بن گئیں۔ دیگر روایتوں میں لوپا مدرا اگستیہ سے شادی کرتی ہیں، لیکن شادی کے بعد وہ اگستیہ سے تقاضا کرتی ہیں کہ وہ انھیں بنیادی آسائشیں فراہم کریں تب ہی ان کے رشتے کا نباہ ہو پائے گا۔ یہ ایک ایسا تقاضا<ref>[http://www.sacred-texts.com/hin/m03/m03097.htm Lopamudra] The Mahabharata, translated by Kisari Mohan Ganguli (1883 -1896), Book 3: Vana Parva: Tirtha-yatra Parva: Section XCVII.</ref> ہوتا ہے جو آخر کار اگستیہ کو مجبور کرتا ہے کہ معاشرے میں واپس جاکر دولت کمائیں۔<ref name="Dhand2009p110">{{cite book| author=Arti Dhand| title=Woman as Fire, Woman as Sage: Sexual Ideology in the Mahabharata| url=https://books.google.com/books?id=Kq1JvDXJ5EwC&pg=PA110 |year=2009| publisher=State University of New York Press| isbn=978-0-7914-7140-1| page=110| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231238/https://books.google.com/books?id=Kq1JvDXJ5EwC&pg=PA110%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref>
 
اگستیہ اور لوپا مدرا کا ایک بیٹا ہوتا ہے، جس کا نام دِرِڑچِیُت ہے، جس کا نام بعض اوقات اِدھمواہ لیا گیا ہے۔ مہابھارت میں اسے ایک ایسے لڑکے کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو رحم مادر میں اپنے والدین سے سن کر ویدوں کو سیکھتا ہے اور دنیا میں بھجن پڑھتے ہوئے پیدا ہوتا ہے۔{{sfn|Laurie Patton|2014|p=34}}
 
=== اگستیہ آشرم ===
اگستیہ کا ایک آشرم تھا، لیکن قدیم اور قرون وسطیٰ کی ہندوستانی تحریروں کے مطابق اس آشرم کی کہانیوں اور مقامات میں تضاد ہے۔ دو روایتوں میں اس آشرم کا مقام شمال مغربی مہاراشٹر بتایا گیا ہے، [[ناسک]] کے قریب چھوٹے سے قصبوں اگستیہ پوری اور اکولے میں [[دریائے گوداوری]] کے کناروں پر۔ شمالی اور مشرقی ہندوستانی ذرائع میں ممکنہ مقامات [[کولہاپور|کولہا پور]] کے قریب ([[مہاراشٹر]] [[کرناٹک]] کی سرحد پر مغربی گھاٹ) یا [[قنوج|قنّوج]] ([[اترپردیش]]) یا اگستیہ مُنی گاؤں میں رُدرا پریاگ ([[اتراکھنڈ|اتراکھنڈ]]) کے قریب یا [[ستپوڑا سلسلہ کوہ]] ([[مدھیہ پردیش]])۔ جنوبی ذرائع اور شمالی ہندوستانی دیوی بھگوَت پُران میں ان کا آشرم [[تمل ناڈو]] میں واقع ہے، جس کے لیے مختلف مقامات [[ترونلویلی|ترونل ویلی]]، پوتھی ول پہاڑیاں یا [[تنجاور]] کے نام لیے گئے ہیں۔{{sfn|Roshen Dalal|2010|p=294}}
 
== تحریری مآخذ ==
سطر 48:
کم زوروں کے دیوتا ہماری مدد کریں۔
— ''1.169.5''،
''ترجمہ: رالف ٹی۔ ایچ۔ گریفیتھ''<ref>Ralph T.H. Griffith, [https://en.wikisource.org/wiki/The_Rig_Veda/Mandala_1/Hymn_169 Rigveda], Mandala 1, Hymn 169, Wikisource; Sanskrit [https://sa.wikisource.org/wiki/ऋग्वेद:_सूक्तं_१.१६९ original]: त्वे राय इन्द्र तोशतमाः प्रणेतारः कस्य चिदृतायोः । ते षु णो मरुतो मृळयन्तु ये स्मा पुरा गातूयन्तीव देवाः ॥५॥</ref>
 
دعا ہے کہ ہم غذا سے لبریز ہو جائیں،
اور اس برادری سے جہاں کے بہتے پانی زندگی بخش ہوں۔
—''1.165، 1.166.15، 1.167.11''، وغیرہ
''ترجمہ: اسٹیفانی جیمی سن، جوئل بریریٹن''؛{{sfn|Stephanie W. Jamison|Joel P. Brereton|2014|pp=359–360}} سنسکرت [https://sa.wikisource.org/wiki/ऋग्वेद:_सूक्तं_१.१६६ اصلی]: एषा यासीष्ट तन्वे वयां विद्यामेषं वृजनं जीरदानुम् ॥१५॥
</poem>
| source = —''رگ وید''
سطر 60:
}}
 
ان کی ویدوں کی شاعری خاص طور پر دو نہجوں کے حوالے سے قابل ذکر ہے۔{{sfn|Stephanie W. Jamison|Joel P. Brereton|2014|pp=359–360}} بھجن کے ایک خانے میں اگستیہ دو افواج کے مابین تصادم کو ظاہر کرتے ہیں جن کی قیادت الگ الگ دو دیوتا اِندر اور ماروتس کر رہے ہیں، جس کی ویدی علما نے تشریح کی۔ ایس۔ غوریے نے نظمیہ طور پر ایک تصادم کی شکل میں بیان کی ہے، جو آریہ (اِندر) اور داس ([[ردر]]) کے درمیان ہے۔<ref name="tamil"/><ref>{{cite book|author=Govind Sadashiv Ghurye|title=Indian Acculturation: Agastya and Skanda|url=https://books.google.com/books?id=HLMtAAAAMAAJ|year=1977|publisher=Popular Prakashan|pages=19–20| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231228/https://books.google.com/books?id=HLMtAAAAMAAJ | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref> اگستیہ کامیابی سے ان کی محاذ آرائی کو حل کرتے ہیں، نذرانہ پیش کرتے ہیں – جس میں یہ دعا کرتے ہیں کہ دونوں دیوتاوں کے مابین ہم آہنگی محبت پر مبنی برتاؤ پیدا ہو۔ رگ وید کے منڈل 1 میں ستائیس میں اکیس بھجن جو انھوں نے ترتیب دیے ہیں، ان میں اختتام پر ان کے دستخط ہیں، جہاں پر وہ التجا کرتے ہیں، "دعا ہے کہ ہر برادری غذا اور بہتے پانیوں سے مالا مال ہو"۔{{sfn|Stephanie W. Jamison|Joel P. Brereton|2014|pp=359–360}} یہ خیالات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ آریہ اور دسا دونوں کے محافظ تھے۔<ref name=sharma135>{{cite book| author=Arvind Sharma| title=Classical Hindu Thought: An Introduction| url= https://books.google.com/books?id=gDmUToaeMJ0C&pg=PA135 |year=2000 |publisher=Oxford University Press |isbn=978-0-19-564441-8| page=135| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231220/https://books.google.com/books?id=gDmUToaeMJ0C&pg=PA135%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref> تاہم، بعض علما اسی بھجن کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ یہ نظمیہ پیش کش دو متصادم نظریات یا طرز زندگی کا عکّاس ہے، کیونکہ اگستیہ نے کبھی آریہ یا دسا<!-- کیااسے داس یا داسا ہونا چاہیے؟--> کے الفاظ استعمال نہیں کیے اور صرف اُبھاؤ واناو (لفظی طور پر "دونوں رنگ") کی اصطلاح استعمال کی ہے۔<ref name="tamil"/><ref>{{cite book|author=G.C. Pande|title=Foundations of Indian Culture, Volume 2|url=https://books.google.com/books?id=VMf-isGALqQC&pg=PA184|year=1990|publisher=Motilal Banarsidass|isbn=978-81-208-0712-9|pages=184–186| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231209/https://books.google.com/books?id=VMf-isGALqQC&pg=PA184 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref>{{sfn|Kamil Zvelebil|1992|p=239}} "دوطرفہ ہم آہنگی" کا پہلو اور خیال بہ حیثیت دائمی مفاہمت—اگستیہ کے نام کے ساتھ – ہندو مت کے ایتاریہ ارانایکہ کی شق 1.2.2 میں دوبارہ نمودار ہوتا ہے۔<ref>Max Muller, [https://archive.org/stream/upanishads01ml#page/170/mode/2up Aitareya Aranyaka], ''The Upanishads: Part I'', Oxford University Press, page 170</ref>
 
دوسرا پہلو – ہندو مت کے ادب میں معروف—ان کی اہلیہ لوپا مدرا اور ان کے مابین گفتگو کی شکل میں ہے۔ جو اس انسانی تناؤ کی عکاسی کرتا ہے، جو روحانیت کی تلاش میں سنیاسی بن جانے اور گھریلو زندگی و خاندان پروان چڑھانے کی درمیان کش مکش سے پیدا ہوتا ہے۔ اگستیہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ خوشی اور آزادی کے حصول کے بہت سارے راستے ہیں، جبکہ لوپا مدر زندگی کی فطرت، وقت اور دونوں کے امکانات کی دلیل پیش کرتی ہیں۔ وہ کامیابی سے اگستیہ کو رجھاتی ہیں۔ تشبیہ سے بھرپور رگ وید کے بھجن 1.179 کی شکل میں ہے۔{{sfn|Stephanie W. Jamison|Joel P. Brereton|2014|pp=359–360}}{{sfn|Laurie Patton|2014|p=27–30}}
سطر 67:
 
=== رامائن ===
[[Fileفائل:WLA lacma 12th century Maharishi Agastya.jpg|thumbتصغیر|leftبائیں|upleft=0.8|بہار سے اگستیہ کا بارہویں صدی کا مجسمہ]]
 
دانشور اگستیہ کا ہندو داستان رامائن کے متعدد ابواب میں تذکرہ ہے، جس میں ان کی سنیاسی زندگی کو دریائے گوداوری کے کناروں پر گزارتے ہوئے بیان موجود ہے۔<ref>{{cite book|title=India through the ages|last=Gopal|first=Madan|year= 1990| page= 62|editor=K.S. Gautam|publisher=Publication Division, Ministry of Information and Broadcasting, Government of India}}</ref>
سطر 78:
اگستیہ کی کہانی کا عکس دوسری اہم ہندو داستان مہا بھارت میں ملتا ہے۔ تاہم، رام کے بہ جائے کہانی کو ویسمپایانا اور لوماسا کے درمیان گفت گو کی شکل میں بیان کیا گیا ہے، جو کتاب 3 کی شق 33 میں موجود ہے، ون پرو (جنگل کی کتاب)۔{{sfn|J. A. B. van Buitenen|1981|p=409–411}}
 
[[Fileفائل:Agastya drinks the ocean.jpg|thumbتصغیر|leftبائیں|upleft=0.8|مہارشی پورا سمندر پیتے ہوئے]]
داستان میں ان کو ایک ایسے دانشور کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس کے معدے میں شکم خوری اور ہضم کرنے کی بے پناہ قوتیں ہیں۔{{sfn|J. A. B. van Buitenen|1981|p=187–188}} اگستیہ، ایک بار پھر – وندھیا پہاڑوں کو اوپر بڑھنے سے روک دیتے ہیں اور انھیں پست کر دیتے ہیں؛ اور وہ وتاپی اور اِلوالا شیطانوں کو اسی افسانوی انداز میں قتل کرتے ہیں، جیسے رامائن میں بیان کیا گیا ہے۔ وانا پاروا بھی لوپامدر اور اگستیہ کی منگنی اور شادی ہونے کی کہانی بیان کرتی ہے۔ یہ اس افسانوی کہانی پر بھی مشتمل ہے ، جس میں اِندر اور وریترا کے درمیان جنگ کا تذکرہ ہے، جہاں تمام شیطان سمندر میں چھپ جاتے ہیں؛ دیوتا اگستیہ سے مدد کی درخواست کرتے ہیں ، جو ان کے کہنے پر جاتے ہیں اور سمندر کا تمام پانی پی جاتے ہیں؛ جس کے نتیجے میں شیطان دیوتاؤں کے سامنے ظاہر ہو جاتے ہیں۔{{sfn|J. A. B. van Buitenen|1981|p=409–411}}
 
سطر 87:
 
=== تمل تحریریں ===
[[Fileفائل:Agasthiyar.jpg|thumbتصغیر|اگستیہ، تمل ناڈو]]
تمل روایتوں میں، اگستیہ کو [[تمل زبان]] کا باپ اور تمل زبان کے قواعد کا مؤلف تصور کیا جاتا ہے؛ انہیں اگاتّیام یا اکاتّیام کہا جاتا ہے۔{{sfn|Richard S Weiss|2009|p=50–51, 81–82}}<ref name="klaus17">Klaus Klostermaier (2003), A Concise Encyclopedia of Hinduism, Oxford: Oneworld Publications, {{ISBN|1-85168-175-2}}, page 17</ref><ref name="tamil"/> تمل روایتوں میں اگستیہ ثقافتی ہیرو ہیں اور متعدد تمل تحریروں میں نمودار ہوتے ہیں۔{{sfn|David Shulman|2016|p=30–31, 38–40}}
 
اگستیہ کے بارے میں شمالی اور جنوبی (تمل) روایتوں میں یکسانیتیں اور اختلافات ہیں۔ اِراواتھم مہادیون کے مطابق،<ref name="tamil">Iravatham Mahadevan (1986) [http://www.ulakaththamizh.org/JOTSpdf/030024037.pdf ''Agastya Legend and the Indus Civilization'' by கட்டுரையாளர் : ஐராவதம் மகாதேவன் கட்டுரையாளர் பணி : Retired I.A.S, his studies pertaining to the Indus Civilization கட்டுரைப் பிரிவு : Indus Valley Signs - சிந்துவெளி குறியீடுகள் ஆய்விதழ் எண் : 030 - December 1986 பக்கங்கள்] pages 29 (see 24-37 for context), Journal of Tamil studies</ref> دونوں روایتیں بیان کرتی ہیں کہ اگستیہ نے شمال سے جنوب کی جانب ہجرت کی۔ تمل تحریر پُران نورو– جس کی تاریخ سنہ مشترکہ کے آغاز کی دی گئی ہے – یا ممکنہ طور پر دوسری صدی سنہ مشترکہ – کے اشلوک 201 میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگستیہ نے بہت سارے لوگوں کے ساتھ جنوب کی جانب ہجرت کی۔<ref name="tamil"/><ref>{{cite book|author=Alf Hiltebeitel|title=Rethinking India's Oral and Classical Epics |url=https://books.google.com/books?id=MMFdosx0PokC&pg=PA464 |year=2009|publisher=University of Chicago Press|isbn=978-0-226-34055-5|pages=463–464| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231237/https://books.google.com/books?id=MMFdosx0PokC&pg=PA464%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref>
 
شمالی روایتوں میں اگستیہ کا کردار ویدوں کی روایت پھیلانے سنسکرت پر زور دینے پر مشتمل ہے،{{sfn|Alf Hiltebeitel|2011|p=294}} جبکہ جنوبی روایات میں ان کا کردار [[آبپاشی]]، [[زراعت]] اور تمل زبان کی اہمیت اجاگر کرنے پر مشتمل ہے۔<ref name="tamil"/> شمال میں ان کا نسب نامہ نامعلوم ہے اور افسانوی روایتیں اپنے آپ کو اس حد تک کہنے پرمحدود رکھتی ہیں کہ اگستیہ دلدلی کیچڑ سے پیدا ہوئے۔ جنوبی روایتوں میں ، ان کا دلدلی کیچڑ سے ظہور مشترکہ حوالہ ہے، لیکن دو متبادل جنوبی روایات انہیں سنکم (سنگم) قوم کا بتاتی ہیں—اور کہا جاتا ہے انہوں نے اٹّھارہ ویلیر قبیلوں کی دوارکا سے جنوب کی جانب ہجرت میں قیادت کی۔<ref>{{cite book|title=Journal of Tamil Studies, Issues 29-32|publisher=International Institute of Tamil Studies|year=1986}}</ref><ref>{{cite book|author=Romila Thapar|title=Ancient Indian Social History: Some Interpretations|publisher=Orient Blackswan|year=1978|page=224}}</ref>
 
مہادیون کہتے ہیں کہ شمالی روایتی کہانیاں "ناقابل یقین افسانوں کے مجموعےسے زیادہ آگے کچھ حقیقت نہیں رکھتیں"، جبکہ جنوبی پہلو "زیادہ حقیقت پر مبنی [[تاریخی واقعات]] اور زمینی حقائق سے زیادہ میل کھاتے نظر آتے ہیں"۔<ref name="tamil"/> دیگر اختلاف کرتے ہیں۔ کے۔این۔ شیو راج پِلے کے مطابق، مثال کے طور پر وسطی پہلے ہزاریے سنہ مشترکہ سے پہلے ابتدائی [[سنگم ادب]] یا کسی تمل تحریرمیں کچھ نہیں ہے ، جو اگستیہ کا حوالہ دے۔<ref>K.N. Sivaraja Pillai, [https://archive.org/stream/agastyaintamilla00sivarich#page/14/mode/2up Agastya in the Tamil Land], University of Madras, pages 15-16</ref>{{sfn|David Shulman|2016|p=26–27}} رچرڈ ویس کے مطابق، تمل زبان میں اگستیہ کے کردار کا سب سے ابتدائی حوالہ ایرائیاناراکاپورول میں 8 ویں صدی میں ملتا ہے۔ تاہم، تمل روایت کی قرون وسطیٰ کی کہانیوں میں، اگستیہ نے پہلے سنگم دور کی بنیاد رکھی ، جو 4،440 سال پر محیط رہا اور دوسرے سنگم دور میں شامل رہے ، جو مزید 3،700 سال پر محیط رہا۔{{sfn|Richard S Weiss|2009|p=81–82}}
سطر 99:
 
=== سِدّھار ===
[[Fileفائل:Agathiyar.JPG|thumbتصغیر|align=left|upleft=0.8|پھولوں و پھلوں کے ہار پہنا کر اگستیہ مندر میں پوجا۔]]
تمل ہندو روایات میں اگستیہ کو سب سے پہلا اور سب سے اہم سِدّھار مانا جاتا ہے (تمل: سِتّر؛ سنسکرت: سِدّھا)۔ سِدّھار سنسکرت کی کلماتی جڑ سِدھ سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں "حاصل کرنا یا کامیاب ہونا"۔ پہلے سِدّھار کے طور پر اگستیہ پہلے استاذ مانے جاتے ہیں، کامیاب — وہ دانشور ، جس نے اپنے علم کو فطری اور روحانی دنیاؤں میں کامل کر لیا۔ یہ تمل تصور تبّتی مہا سِدّھاؤں ، سری لنکائی بُدّھوں اور شمالی ہندوستان کی ناتھ ہندو یوگی روایات کے متوازی ہے۔{{sfn|Richard S Weiss|2009|p=47–48}}
 
سطر 106:
وینکٹ رامن کے مطابق، اگستیہ کے بارے میں سِدّھار سے متعلقہ ادب قرونِ وسطیٰ سے لے کر ابتدائی جدید دور کے درمیان ہے۔ خاص طور پر ادویات اور صحت سے متعلق تمل تحریریں، جن میں اگستیہ بہ حیثیت سِدّھار شامل ہیں – ان کو 15ویں صدی اور اس کے بعد تحریر ی طور وجود میں لایا گیا۔ ہارٹ مٹ شرفے کے مطابق، ادویات سے متعلق سب سے قدیم ترین تمل تحریری نسخہ جس میں اگستیہ کا نام لیا گیا، 16 ویں صدی سے پہلے تحریر نہیں کیا گیا تھا۔{{sfn|Richard S Weiss|2009|p=49–51}}
 
بعض تمل تحریروں میں ان کا نام اگاتھیار یا اگستھیار لیا گیا ہے،<ref>{{cite book|author=Vē. Irā Mātavan̲|title=Siddha medical manuscripts in Tamil|url= https://books.google.com/books?id=fyu4AAAAIAAJ| year=1984|publisher=International Institute of Tamil Studies|page=28| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231226/https://books.google.com/books?id=fyu4AAAAIAAJ | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref> اور بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ان طبّی نسخوں کا مصنف کوئی مختلف شخص ہے۔<ref>{{cite book|author=P Karthigayan|title=History of Medical and Spiritual Sciences of Siddhas of Tamil Nadu|url=https://books.google.com/books?id=Q4HDDAAAQBAJ&pg=PT438|year=2016|publisher=Notion Press|isbn=978-93-5206-552-3|page=438| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231212/https://books.google.com/books?id=Q4HDDAAAQBAJ&pg=PT438 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref>
 
کامل ظویلیبل کے مطابق، دانش ور اگستیہ، اکتّیان سِدّھا اور اکتّھیور، اکتّیام کا مصنف – مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے تین یا ممکنہ طور چار مختلف اشخاص تھے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمل روایتوں میں ایک فردِ واحد میں ڈھل گئے۔{{sfn|Kamil Zvelebil|1992|p=237-238 with note 2}}
 
=== بدھ مت کی تحریریں ===
متعدد [[بدھ مت]] کی تحریروں میں اگستیہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جیسے ابتدائی بدھ تحریروں جیسے کَلَپ، کانتانتر اور کیندر-ویاکاراناداپتنگ پانینی اور آسواگھوس مزید قدیم سنسکرت شاعرانہ انداز اپناتے ہوئے ، جب انہوں نے [[گوتم بدھ|بدھ]] کی تعریف کی، اگستیہ پہلے ہزاریے سنہ مشترکہ کے بدھ تحریروں میں نمودار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر تمل تحریروں میں اکتّیان کو ایک ایسے دانشور کے طورپر بیان کیا گیا ہے ، جنہوں نے تمل اور سنسکرت قواعد اور عروض اوالوکیتان سے سیکھے (ہونے والے بدھ کا ایک اور نام اوالوکیٹیشور)۔{{sfn|Anne E. Monius|2001|pp=133–135}}<ref>{{cite book|author=John Clifford Holt|title=Buddha in the Crown: Avalokitesvara in the Buddhist Traditions of Sri Lanka|url= https://books.google.com/books?id=aT3AMR8g1gEC&pg=PA68| year=1991|publisher= Oxford University Press|isbn=978-0-19-536246-6|pages=68–69| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231248/https://books.google.com/books?id=aT3AMR8g1gEC&pg=PA68 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref>
 
[[Fileفائل:Agastya.jpg|thumbتصغیر|leftبائیں|upleft=0.8|دائیں انڈونیشیائی مجسمے میں اگستیہ کو شیو کے ترشول کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے، وہ [[شیو مت]] میں ایک اعلیٰ رشی خیال کیے جاتے ہیں۔ جنوب مشرقی مندروں میں اگستیہ کی مورتی بنانا بہت عام ہے۔<ref name="Klokke2003p21">{{cite book|author1=Ann R. Kinney|author2=Marijke J. Klokke|author3=Lydia Kieven|title=Worshiping Siva and Buddha: The Temple Art of East Java |url=https://books.google.com/books?id=sfa2FiIERLYC&pg=PA21 |year=2003|publisher=University of Hawaii Press|isbn=978-0-8248-2779-3|pages=21–25| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231250/https://books.google.com/books?id=sfa2FiIERLYC&pg=PA21%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref><ref name="Glover2008p109">{{cite book|author1=Peter Sharrock|author2=Ian C. Glover|author3=Elizabeth A. Bacus| title=Interpreting Southeast Asia's Past: Monument, Image and Text| url=https://books.google.com/books?id=HiSUl9aN88MC&pg=PA109 |year=2008| publisher=National University of Singapore Press|isbn=978-9971-69-405-0|pages=109–110| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231227/https://books.google.com/books?id=HiSUl9aN88MC&pg=PA109%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref>]]
این ای، مونیوس کے مطابق ، مانیمیکالائی اور وراکولیام بہت ساری جنوبی ہندوستانی تحریروں میں دو ایسی تحریریں ہیں، جنہوں نے اگستیہ کا انتخاب کیا ہےاور انہیں ہونے والے بدھ کا شاگرد بتایا ہے۔{{sfn|Anne E. Monius|2001|pp=133–135}}
 
اگستیہ دیگر تاریخی بدھ دیومالائی داستانوں میں بھی نمودار ہوئے ہیں، جیسے جٹک کہانیاں۔ مثال کے طور پر آریہ صور کی بدھ تحریرجٹک مالا، جو بدھ کے پچھلے جنموں سے متعلق ہے – اگستیہ کو ساتویں باب میں شامل کرتی ہے۔<ref>{{cite book|author1=Āryaśūra|author2=Peter Khoroche (Translator)|title=Once the Buddha Was a Monkey: Arya Sura's "Jatakamala"|url=https://books.google.com/books?id=5TxenuXB6NEC|year=2006|publisher=University of Chicago Press|isbn=978-0-226-78215-7|pages=39–46| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231208/https://books.google.com/books?id=5TxenuXB6NEC | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref> اگستیہ-جٹک کہانی کی نقّاشی بوروبودور میں کی گئی ہے، جو ابتدائی قرون وسطیٰ کے دور میں مہایان بدھ مندر ہے۔<ref>{{cite book|author= Helena A. van Bemmel|title=Dvarapalas in Indonesia: Temple Guardians and Acculturation|url= https://books.google.com/books?id=kNlt08SXW48C |year=1994| publisher=CRC Press|isbn=978-90-5410-155-0|page=35}}</ref>
 
=== جاوی اور جنوب مشرقی ایشیائی تحریریں ===
سطر 125:
حالانکہ اگستیہ–پروا کے تحریر اور کلاسیکی ہندوستانی تصورات کے مابین یکسانی واضح ہے، لیکن جان گونڈا کے مطابق – اس تحریر کی سنسکرت اور یا تمل ہم عصر زبانوں میں موجودگی انڈونیشیا یا ہندوستان میں نہیں پائی گئی ہے۔{{sfn|Jan Gonda|1975|p=15}} اسی طرح اگستیہ سے متعلق انڈونیشیائی تحریریں – جن کا دور 10ویں سے 12 ویں صدی تک ہے – شیو مت کے مختلف ذیلی مکاتب فکر جیسے خدا کو ماننے وال شیو سدھانت اور سنیاسی [[مکتب فکر]] اگامک پشوپت کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں، اوریہ تحریریں اعلان کرتی ہیں کہ مذکورہ مذہبی تعلیمات یکساں طور پر اہل ہیں اور اہمیت کی حامل ہیں۔{{sfn|Jan Gonda|1975|p=15}}
 
[[Fileفائل:Agastya statue in southern niche of Sambisari temple.jpg|thumbتصغیر|leftبائیں|upleftt=0.8|اگستیہ، نویں صدی کے جاوی ”سامبیساری“ نامی مندر کے جنوبی رخ میں، جو آتش فشاں پھٹنے سے نمودار ہوا تھا۔]]
جنوب مشرقی ایشیا کے قرون وسطیٰ کے شیو مندروں میں اگستیہ کی موجودگی عام ہے، جیسے جاوا (کاندی) میں پتھر سے بنے مندر۔ شیو، اوما، نندی اور گنیش کی تصاویر کے ساتھ جو بنیادی سمتوں کی جانب رخ کرکے بنائی گئی ہیں، یہ مندر اگستیہ کے مجسموں، نقاشی کے کام اور تصویروں پر مشتمل ہیں — جو جنوبی رخ پر بنائے گئے ہیں۔<ref>{{cite book|author1=Peter Sharrock|author2=Ian C. Glover|author3=Elizabeth A. Bacus|title=Interpreting Southeast Asia's Past: Monument, Image and Text|url=https://books.google.com/books?id=HiSUl9aN88MC&pg=PA104|year=2008|publisher=National University of Singapore Press|isbn=978-9971-69-405-0|pages=104–109| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231232/https://books.google.com/books?id=HiSUl9aN88MC&pg=PA104 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref> شیو کا مندر، پرام بانن، جو جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے بڑے [[ہندو مندر]] کامپلیکس کے اندر ہے — اس کے اندرونی حصے میں چار جگہیں متعین کی گئی ہیں۔ پرام بانن گروہ کے مندروں میں اس مرکزی مندر نے جنوبی حصہ اگستیہ کے لیے مخصوص کر رکھا ہے۔<ref>{{cite book|author=Keat Gin Ooi|title=Southeast Asia: A Historical Encyclopedia, from Angkor Wat to East Timor|url=https://books.google.com/books?id=QKgraWbb7yoC&pg=PA1101| year=2004| publisher=ABC-CLIO|isbn=978-1-57607-770-2|pages=1101–1102| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231248/https://books.google.com/books?id=QKgraWbb7yoC&pg=PA1101 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref>
 
760 سنہ مشترکہ میں کی جانے والی ڈنویو نقاشی بنیادی طور پر اگستیہ سے منسوب ہے۔ نقّاشی سے پتا چلتا ہے کہ لکڑی سے بنائے گئے اگستیہ کے مجسمے کو دوبارہ پتھر سے تراش کر نقّاشی کا کام کیا گیا ، جس سے پتا چلتا ہے کہ اگستیہ کی تصویر سازی جنوب مشرقی ایشیا کے قدیم دور میں عام تھی۔<ref>{{cite book|author=Nicholas Tarling|title=The Cambridge History of Southeast Asia: Volume 1, From Early Times to c. 1800|url=https://books.google.com/books?id=rOw8AAAAIAAJ&pg=PA313|year=1992|publisher=Cambridge University Press|isbn=978-0-521-35505-6|page=313| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231216/https://books.google.com/books?id=rOw8AAAAIAAJ&pg=PA313 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref><ref>{{cite book|author1=Veronique Degroot|author2=Marijke J. Klokke|title=Materializing Southeast Asia's Past: Selected Papers from the 12th International Conference of the European Association of Southeast Asian Archaeologists|url=https://books.google.com/books?id=r5rGBgAAQBAJ |year=2013|publisher=National University of Singapore Press|isbn=978-9971-69-655-9|pages=116 note 1}}</ref> کمبوڈیا میں 9 ویں صدی کے بادشاہ اِندر ورمن ، جنہیں بڑی تعداد میں مندروں کی تعمیر اور اس سے متعلقہ فنون کے کام کے حوالے سے جانا جاتا ہے – کے بارے میں تحریروں میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ اگستیہ کی اولادوں میں سے ہیں۔<ref>{{cite book|author=Jean Ph. Vogel|title=India antiqua|url=https://books.google.com/books?id=GckUAAAAIAAJ&pg=PA45|year=1947|publisher=Brill Archive|pages=45–46| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231215/https://books.google.com/books?id=GckUAAAAIAAJ&pg=PA45 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref><ref>{{cite book|author=Lesya Poerbatjaraka|title=Agastya in den archipel|url=https://books.google.com/books?id=2LITAQAAIAAJ|year=1926|publisher=Universiteit te Leiden (Republished by BRILL)|pages=1–5 |oclc= 5841432| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231251/https://books.google.com/books?id=2LITAQAAIAAJ | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref>
 
=== اگستیہ سمہیتا ===
[[اگستیہ سمہیتا]] جسے بعض اوقات شنکر سمہیتا کہا جاتا ہے — ایک حصہ ہے جو سکند پُران میں تحریر ہے۔{{sfn|Roshen Dalal|2010|pp=7–8}} اغلباً اس کو قرونِ وسطیٰ کے دور میں تحریر گیا، لیکن 12 ویں صدی سے قبل۔<ref name=banerji121>{{cite book|author=Sures Chandra Banerji|title=A Companion to Sanskrit Literature|url=https://books.google.com/books?id=JkOAEdIsdUsC&pg=PA121|year=1989|publisher=Motilal Banarsidass|isbn=978-81-208-0063-2|page=121| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231211/https://books.google.com/books?id=JkOAEdIsdUsC&pg=PA121 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref> یہ مختلف اشکال میں موجود ہےاور اس کو اسکند اور اگستیہ کے مابین مکالمے کی شکل میں ترتیب دیا گیا ہے۔ علما جیسے موریز ونٹرنٹز بیان کرتے ہیں کہ اس دستاویز کی بقا پا جانے والی شکل کا مستند ہونامشکوک ہے، کیونکہ کہ شیو کے چاہنے والے جیسے اسکند اور اگستیہ، ویشنو مت اور بھگتی مت (رام کی پوجا) کی تعلیمات دیتے نظر آتے ہیں— جس کے ساتھ اس میں [[وارنسی]] اور ہندوستان کے دیگر حصوں میں شیو کے مندروں کے بارے میں سیاحتی راہ نما ئی فراہم کی گئی ہے۔<ref>{{cite book|author1=Moriz Winternitz|author2=V. Srinivasa Sarma|title=A History of Indian Literature|url=https://books.google.com/books?id=JRfuJFRV_O8C |year=1996|publisher=Motilal Banarsidass|isbn=978-81-208-0264-3|pages=545–546}}</ref>{{sfn|Ludo Rocher|1986|pp=234–237, 228–229}}
 
=== اگستی ماتا ===
سطر 140:
* [[برہد دیوتا]] شق 5.134{{sfn|Alain Daniélou|1991|p=322–323 with footnotes 5 and 6}}
* ہندو مت کی [[شکتی مت]] روایت کی [[للیتا سہسرنام]]، جس میں [[تریپورا سندری|للیتا دیوی]] کے 1000 نام بیان کیے گئے ہیں—[[برہمانڈ پران|برہمانڈ پُران]] کا حصہ ہے۔ یہ وہ تعلیمات ہیں، جو [[ہیاگریو]] (وشنو کے اوتار) نے اگستیہ کو دیں۔{{sfn|Roshen Dalal|2010|p=221}}
* اگستیہ، [[آدتیہ ہردیم|آدتیہ ہِرِدیم]] (لفظی معنی سورج کا دل) کے تخلیق کار کے طور پر جانے جاتے ہیں، [[سوریا]] کے نام ایک بھجن – جو انہوں نے رام کو پڑھنے کے لیے کہا ، تا کہ وہ [[راون]] پر فتح پا سکیں۔ علما جیسے جان نوئیرنے اس بھجن پر سوال اٹھایا ہے، چونکہ رام کی جانب سے ایسا بھجن پڑھنا رام کے الوہی مرتبے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتا ہے۔<ref>{{cite book|author=John Muir|title=Original Sanskrit Texts on the Origin and History of the People of India|url=https://books.google.com/books?id=wNPaeose9K4C&pg=PA473|year=1873|publisher=Trübner|page=473| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231219/https://books.google.com/books?id=wNPaeose9K4C&pg=PA473 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref>
* لکشمی استروترم اور سرسوتی استروترم۔<ref>{{cite book|author=Theodor Aufrecht|title=Florentine Sanskrit Manuscripts|url=https://books.google.com/books?id=mc27AAAAIAAJ&pg=PA152|year=1892|publisher=G. Kreysing|page=152| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231239/https://books.google.com/books?id=mc27AAAAIAAJ&pg=PA152 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref>
* تمل تحریر پٹوپّٹّو بیان کرتی ہے کہ اگستیہ آئیکائی کے (موسیقی، گیت) کے استاذ ہیں۔{{sfn|Kamil Zvelebil|1992|p=245}}
* [[رگھوونش]] (6.61) میں [[کالی داس]] بیان کرتے ہیں کہ اگستیہ نے [[مدورائی]] کے [[پانڈئے شاہی سلسلہ|پانڈئے]] بادشاہ کے [[اشومیدھ|گھوڑے کی قربانی]] کی نگرانی کی۔{{sfn|David Shulman|2016|p=26}}
سطر 148:
== ورثہ ==
=== مندریں ===
اگستیہ کے مجسمے اور سنگی نقوش شمالی ہندوستان کے متعدد ابتدائی قرون وسطیٰ مندروں میں نظر آتے ہیں۔ [[دیو گڑھ، اتر پردیش|دیو گڑھ]] (اترپردیش میں [[مدھیہ پردیش]] کی سرحد کے نزدیک) میں دش اوتار مندر چھٹی صدی کی گپت بادشاہت کے دور کا ہے، جس میں اگستیہ کی تصاویر کی نقّاشی ہے۔<ref name="Bemmel1994p35">{{cite book|author=Helena A. van Bemmel|title=Dvarapalas in Indonesia: Temple Guardians and Acculturation|url=https://books.google.com/books?id=kNlt08SXW48C&pg=PA35|year=1994|publisher=CRC Press|isbn=978-90-5410-155-0|pages=35–37, 41–44, 60| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231221/https://books.google.com/books?id=kNlt08SXW48C&pg=PA35 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref> اسی طرح [[کرناٹک]] میں انہیں 7 ویں صدی کے مندروں میں قابل احترام انداز میں پیش کیا گیا ہے، جیسے مہاکُوٹہ میں ملک ارجن مندر اور سندور میں پاروتی مندر۔ ہندوستانی برصغیر [[جزیرہ نما]] میں وہ چالوکہ دور کے شیو مت کے مندروں کا حصہ ہیں۔<ref name="Bemmel1994p35"/><ref>{{cite book|author=Douglas E. Barrett|title=The dancing Siva in early south Indian art|url=https://books.google.com/books?id=rw83AQAAIAAJ|year=1976|publisher=Oxford University Press|isbn=0856721328|page=15| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231241/https://books.google.com/books?id=rw83AQAAIAAJ | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref><ref>{{cite book|author=James C. Harle|title=Temple Gateways in South India: The Architecture and Iconography of the Cidambaram Gopuras|url=https://books.google.com/books?id=iZ5NAAAAYAAJ|year=1995|publisher=Munshiram Manoharlal|isbn=978-81-215-0666-3|page=135| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231223/https://books.google.com/books?id=iZ5NAAAAYAAJ | archivedate = 5 جنوری 2019 }}</ref>
 
جنوب ایشیائی اور جنوب مشرقی ایشیائی مندروں کی فنونی مصوری ایک مشترکہ قدر کو ظاہر کرتی ہے، جیسے کہ وہ ایک مرتبان اٹھائے ہوئے ہیں، لیکن دیگر باتوں میں اختلافات بھی ہیں۔ مثال کے طور پر اگستیہ کی تصویر مندر کی اندرونی اور بیرونی دیواروں پر بنی ہوئی ہے اور بعض اوقات داخلی دروازے کے سرپرست اور محافظ (دُوار پال) کے طور پر، بڑھے ہوئے پیٹ کے ساتھ یا اس کے بغیر، بال پیشانی پر جھڑتے ہوئے یا اس کے بغیر، خنجر اور تلوار کے ساتھ یا اس کے بغیر۔<ref name="Bemmel1994p35"/> چٹانوں کو کاٹ کر بنائے گئے مندر، غار، جیسے 8 ویں صدی کے پانڈیہ چٹان سے بنے مندروں کا گروہ، اگستیہ کا سراغ دیتے ہیں۔<ref name="Bemmel1994p35"/>
سطر 158:
 
=== عسکری فنون ===
مہا رشی اگستیہ کو سِلبم اور ”ورمک کلئی“ کا بانی اور [[سرپرست بزرگ]] تسلیم کیا جاتا ہے۔ ورمک کلئی میں مختلف بیماریوں میں صحت مند ہونے کے لیے ورمک نقاط استعمال کیے جاتے ہیں۔<ref name="Zarilli1998">{{cite book |last=Zarrilli |first=Phillip B. |title=When the Body Becomes All Eyes: Paradigms, Discourses and Practices of Power in Kalarippayattu, a South Indian Martial Art |year=1998 |publisher=Oxford University Press |location=Oxford}}</ref> [[شیو]] کے بیٹے [[موروگن]] کے بارے میں کہا جاتا ہے انہوں نے دانشور اگستیہ کو یہ فن سکھایا، جنہوں نے اس کو تحریری شکل دی اور اس فن کو دیگر دوسرے [[سدھار|سِدّھارسِدّھارو]]وںں تک منتقل کیا۔<ref>Luijendijk, D.H. (2005) ''Kalarippayat: India's Ancient Martial Art'', Paladin Press</ref><ref name="Zarilli 92">Zarrilli 1992</ref>
 
== حوالہ جات ==
سطر 167:
 
{{ref begin}}
* {{cite book| author=Alf Hiltebeitel| title=Reading the Fifth Veda: Studies on the Mahābhārata - Essays by Alf Hiltebeitel |url= https://books.google.com/books?id=lLfHSOWKB-sC |year=2011 |publisher=Brill Academic |isbn=90-04-18566-6 |ref=harv }}
* {{cite book |author=Alain Daniélou |authorlink=:en:Alain Daniélou |title=The Myths and Gods of India: The Classic Work on Hindu Polytheism from the Princeton Bollingen Series |url= https://books.google.com/books?id=1HMXN9h6WX0C&pg=PA322 |year=1991 |publisher=Inner Traditions |isbn=978-0-89281-354-4 |ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231220/https://books.google.com/books?id=1HMXN9h6WX0C&pg=PA322%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}
* {{cite book |author=Anne E. Monius |title=Imagining a Place for Buddhism: Literary Culture and Religious Community in Tamil-Speaking South India |url=https://books.google.com/books?id=CvetN2VyrKcC&pg=PA134 |year=2001 |publisher=Oxford University Press |isbn=978-0-19-803206-9 |ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231246/https://books.google.com/books?id=CvetN2VyrKcC&pg=PA134%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}
* {{cite book |author=David Shulman |author-link=:en:David Dean Shulman |title=Tamil Temple Myths: Sacrifice and Divine Marriage in the South Indian Saiva Tradition| url= https://books.google.com/books?id=d97_AwAAQBAJ&pg=PA65|year=2014 |publisher=Princeton University Press| isbn=978-1-4008-5692-3| ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231249/https://books.google.com/books?id=d97_AwAAQBAJ&pg=PA65 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}
* {{cite book |author=David Shulman |title=Tamil |url=https://books.google.com/books?id=_KkzDQAAQBAJ&pg=PA25 |year=2016 |publisher=Harvard University Press |isbn=978-0-674-05992-4 |page=25 | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231230/https://books.google.com/books?id=_KkzDQAAQBAJ&pg=PA25%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}
* {{cite book| author=J. A. B. van Buitenen |title=The Mahabharata, Volume 2: Book 2: The Book of Assembly; Book 3: The Book of the Forest| url= https://books.google.com/books?id=2QG_ZgsM13IC |year=1981 |publisher=University of Chicago Press| isbn=978-0-226-84664-4 |ref=harv }}
* {{cite book |author=Jan Gonda |title=Handbook of Oriental Studies. Section 3 Southeast Asia, Religions, Religionen |url= https://books.google.com/books?id=X7YfAAAAIAAJ&pg=PA13 |year=1975 |publisher=Brill Academic |isbn=90-04-04330-6 |ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231231/https://books.google.com/books?id=X7YfAAAAIAAJ&pg=PA13%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}
* {{cite book |author=Kamil Zvelebil |title=Companion Studies to the History of Tamil Literature |url=https://books.google.com/books?id=qAPtq49DZfoC&pg=PA239 |year=1992 |publisher=BRILL Academic |isbn=90-04-09365-6 |ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231213/https://books.google.com/books?id=qAPtq49DZfoC&pg=PA239%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}
* {{cite book |author=Laurie Patton |editor=Julia Leslie |title=Myth and Mythmaking: Continuous Evolution in Indian Tradition |url=https://books.google.com/books?id=Z7LKAgAAQBAJ&pg=PA27 |year=2014 |publisher=Taylor & Francis |isbn=978-1-136-77888-9 |ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231217/https://books.google.com/books?id=Z7LKAgAAQBAJ&pg=PA27%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}
* {{cite book |author=Laurie Patton |title=Myth as Argument: The Br̥haddevatā as Canonical Commentary|url=https://books.google.com/books?id=10a0lfJypoYC&pg=PA413 |year=1996 |publisher=Walter de Gruyter |isbn=978-3-11-013805-4 |ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231225/https://books.google.com/books?id=10a0lfJypoYC&pg=PA413%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}
* {{cite book |author=Ludo Rocher |title=The Purāṇas |url= https://books.google.com/books?id=n0-4RJh5FgoC |year=1986 |publisher=Otto Harrassowitz Verlag |isbn=978-3-447-02522-5 |ref=hav }}
* {{cite book| author=Richard S Weiss |title=Recipes for Immortality: Healing, Religion, and Community in South India| url=https://books.google.com/books?id=ges6XgLkffEC | year=2009 |publisher=Oxford University Press| isbn=978-0-19-971500-8 |ref=harv }}
* {{cite book|author=Roshen Dalal |title=Hinduism: An Alphabetical Guide |url= https://books.google.com/books?id=DH0vmD8ghdMC |year=2010 |publisher =Penguin Books |isbn=978-0-14-341421-6 |ref=harv }}
* {{cite book |author=Roshen Dalal |title=The Vedas: An Introduction to Hinduism's Sacred Texts |url= https://books.google.com/books?id=UCEoAwAAQBAJ&pg=PT376 |year=2014 |publisher=Penguin Books |isbn=978-81-8475-763-7 |ref=harv| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231207/https://books.google.com/books?id=UCEoAwAAQBAJ&pg=PT376%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}
* {{cite book |author1=Stephanie W. Jamison |author2=Joel P. Brereton |title=The Rigveda |url=https://books.google.com/books?id=1-PRAwAAQBAJ&pg=PA1674 |year=2014 |publisher=Oxford University Press |isbn=978-0-19-937018-4 |ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231228/https://books.google.com/books?id=1-PRAwAAQBAJ&pg=PA1674%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}
* {{cite book |author=William Buck |title=Ramayana |url= https://books.google.com/books?id=4Wzg6wFJ5xwC&pg=PA138 |year=2000 |publisher=University of California Press| isbn=978-0-520-22703-3| ref=harv | archiveurl = http://web.archive.org/web/20190105231211/https://books.google.com/books?id=4Wzg6wFJ5xwC&pg=PA138%20 | archivedate = 5 جنوری 2019 }}
{{ref end}}
</div>
 
== بیرونی روابط ==
{{Commonsزمرہ categoryکومنز|Agastya}}
* [http://www.ias.ac.in/currsci/dec252005/2174.pdf Folklore and Astronomy: Agastya a sage and a star]
* [https://web.archive.org/web/20140903112940/http://agastiashram.org/ Agasti Ashram Akole, Maharashtra website]
 
{{Hindudharma}}
سطر 196:
{{Tamil language}} -->
{{تضبیط سند}}
 
[[زمرہ:بھارتی ہندو مبلغین]]
[[زمرہ:رشی]]
[[زمرہ:سدھ طب]]
[[زمرہ:سنگم شعرا]]
[[زمرہ:ضلع کنیاکماری کی شخصیات]]
[[زمرہ:قدیم تمل ماہرین صرف و نحو]]