"کھوار زبان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 70:
== نظم''' ==
نظم کے حوالے سے کھوار ادب میں کافی کام ہوا ہے اور اس کام کو نثر سے زیادہ وقیع کہا جا سکتا ہے۔ اس میں اگر غزل کے علاوہ تمام قسم کی شاعری کو شامل کر لیا جائے تو یہ کام قابل فخر ہے۔ اس میدان میں مثنوی کے حوالے سے اتالیق محمد شکور غریب کا نام ابتدائی حوالہ ہے جبکہ مثنوی کی صنف قدیم ہے۔ قطعات کے حوالے سے بھی اتالیق کا نام لیا جا سکتا ہے۔ مرز امحمدسیئر کو بھی مثنوی اور نظم کے حوالے سے اہم مقام حاصل ہے جبین، آمان، زیارت خان زیرک گل اعظم خان وغیرہ کو گیتوں کی وجہ سے اہم مقام حاصل ہے جدید ادب میں نظم کے حوالے سے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، گل نواز خاکی ،سلطان علی، صالع نظام، مبارک خان، عبد الولی خان عابد، محمد عرفان عرفان، محمد جناح الدین پروانہ، امتیاز احمد امتیاز، صمصام علی رضا اور سیلم الٰہی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ رحمت عزیز چترالی کی حمدیہ نظم کا ترجمہ پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
ترجمہ: اے میرے پرودگار! یہ زمین تیری تخلیق ہے اور آسمان بھی تیری ہی تخلیق ہے۔ یہ چرند،پرند،حیوان اور انسان بھی تیری تخلیق ہیں۔ تمام روحوں کو بھی تو نے ہی پیدا کیا ہے۔ ہمارے جسموں میں یہ جانیں بھی تیری ہی تخلیق ہیں یہ ناشکرا انسان پھر اس آیت کا مطب نہیں سمجھتا اور تیرا شکر ادا نہیں کرتا کہا’’تم انپے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے‘‘(41)مترجم ( رحمت عزیز چترالی)
 
=== کھوار حمد نگاری پر ایک نظر ===
سطر 94:
کھوارشعراء کی توجہ حمد و نعت کی طرف مبذول ہو چکی ہے جس کا ثبوت نعتیہ مجموعہ’’ آقائے نا مدار‘‘ ہے جو مولانا محمد نقیب اللہ رازی کا تخلیق کردہ ہے (112)جسے کھوار ادب میں ایک خوش آئند اضافہ قرار دیا جا رہا ہے۔ انجمن کھوارچترال کی کوششوں سے ’’ققنوز‘‘ کے نام سے دو شعری انتخاب شائع ہوئے تھے جن میں حمد و نعت کے بھی قابل ذکر نمونے ملتے ہیں۔ بہرحال یہ انتخاب کھوار ادب کا بھرپور اور متوازن منظرنامہ ہے جس میں حمد و نعت کا پہلو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ کھوار ایک قدیم زبان ہے مگر اس کی ادبی تاریخ تین سو سال سے زیادہ قدیم نہیں البتہ لوک ادب کی قدامت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کھوارلوک ادب زیادہ تر گیتوں پا مشتمل ہے جسے ’’باشونو‘‘کہا جاتا ہے (5)۔ باشونو کے آگے کئی سابقوں کے ساتھ اہم موقعوں کی مناسبت سے گائے جانے والے گیتوں کو الگ الگ نام دیا جاتا ہے۔ آشور جان بھی اس ادب کی ایک مقبول صنف ہے جو نہ صرف ہردلعزیز ہے بلکہ ہر عمر کے فرد کو کچھ نہ کچھ یاد ہے(6)۔ کھوار ادب میں ماں سے متعلق تمام گیتوں کو مہرو شونو (7)کہا جاتاہے اس میں ذیلی طورپر لوری )ہووئینی(شامل ہے جسے مائیں بچوں کو سلانے کے لیے گاتی ہیں۔ اس میں بچوں کے لیے نیک تمنائیں اور کامیابی کی دعائیں مانگی گئی ہوتی ہیں۔ کھوار لوری میں حمد یہ عناصر بھی پائے جاتے ہیں۔ جیسے:۔ ترجمہ: دم دارستارہ آسمان کی ایک سمت سے چل کے دوسری طرف جائے گا میرا بیٹا بہت ہی اچھا ہے۔ یہ بالکل روئے گا نہیں بلکہ سوئے گا۔ اللہ بہت بڑا ہے اس نے چاند کو پیدا کیا ہے اور ستاروں کو چاند کے ساتھ بطورپہرہ دار بنایا ہے اور چاند کی روشنی ہر جگہ پہنچے گی میرا بیٹا بہت ہی اچھا ہے۔ یہ با لکل روئے گا نہیں بلکہ سوئے گا(8)۔ مثنوی کے حوالے سے کھوار ادب میں کافی ذخیرہ ہے اس حوالے سے تقریبا سارے رومان مثنوی میں ہیں البتہ حمد کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ ’’یار من ہمیں‘‘ایک رومان ہے مگر اس کے اشعار میں حمد کا وجود نہیں ملتا البتہ تصوف کی گنجاش ہے۔ کیونکہ رومان یا مثنوی کی ابتدا حمد سے ہوتی ہے تو شائد اس رومان کی ابتدا بھی حمد سے ہوئی ہو مگر تمام تمام شعر دستیاب نہیں مختلف محققین نے اس کے مختلف شعر درج کیے ہیں اور ابتدائی اشعار بھی طے نہیں ہو سکے۔ تاج محمد فگار کی ایک حمدیہ مثنوی کے تیرہ میں سے دو شعرپیش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:۔ اللہیئے کا پورہ کوئی تہ سار غیر مہ حاجتو رحم کو روم کہ ریتاؤ کہ کھنار شیر تہ رحمتو اے مہ غفور الرحیم اوہ بو گنہگار اسوم اگر کہ گنہگار تہ رحمتو امیدوار اسوم (18)
 
ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی حاجتیں پوری کرنے والا نہیں اگر وہ رحم کرے تو اس کے لیے رحم کرنا مشکل نہیں۔ تو ایک اللہ ہے تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تیرا کوئی شریک نہیں نہ ذات میں اور نہ صفات میں۔ مترجم (محمد انور چترالی) سی حرفی کو کھوار ادب میں وہ مقام نہیں مل سکا جوہند کو میں ہے البتہ اس کی چند ایک مثالیں ضرور مل جاتی ہیں مگر حمد کے حوالے سے کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ چاربیتہ کی صنف کھوار ادب میں پشتو ادب سے آئی اور اس نے یہاں خوب ترقی کی۔ اس حوالے سے کھوار میں قابل ذکر کام ہوا ہے۔ رحمت عزیزچترالی ایک چاربیتہ حاض رہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ: پرندے تیری حمد و ثنا میں مصروف ہیں اور بلبل بھی ان کا ہمنواہے۔ کانٹے بھی تیری حمدوثنا سے خالی نہیں اور پھول بھی ان کے ساتھ ہیں۔ رحمت عزیز تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔ معافی کی التجا میں اکیلا نہیں بلکہ اس کا بڑا بھائی رحمت گل بھی ساتھ ہے (59)۔ مترجم ( رحمت عزیزچترالی)
 
کھوار ادب میں اردو میں مروجہ تمام اضاف ادب موجود ہیں البتہ کھوار گیتوں کی صنف قدیم شاعری میں سب سے نمایاں اور کثرت سے ہے۔ مگر جدید شاعری میں اب نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں اور نئی نئی اضاف کا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ غزل کے حوالے سے دیکھیں تو کھوار ادب کی معلوم تاریخ کا پہلا شاعر ہی غزل گو ہے اور انکی غزل اس سطع پر تھی جہاں ان کی فارسی شاعری تھی۔ یعنی اتالیق محمد شکور غریب نے اپنے دیوان کے آخر پر جو ’کھوار ادب‘ کا باب شامل کیا ہے اس میں غزل زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف فارسی شعری روایت کے اساتذہ میں سے تھے بلکہ فارسی غزل کے نامور شاعر تھے۔ اس لیے جب وہ اپنی مادری زبان کی طرف رجوع ہوئے تو ان کی کھوار غزل میں فارسی غزل کا تمام تجربہ اور فن منتقل ہو گیا۔ مگر پہ کام فارسی زدہ سا لگتا ہے ان کے بعد مولانامحمد سیئر سیئر اور باچہ خان ہما نے غزل کو بلند مقام ہے تجمل شاہ محوی، حبیب اللہ فدا برنسوی، مرزا فردوس فردوسی، بابا ایوب ایوب اور عزیرالرحمن بیغش نے کھوار غزل میں انپے قلم کے جوہر دکھائے۔ جدید ادب میں بھی غزل کا جادہ سر چڑھ کر بول رہا ہے البتہ روایتی مضامین کی جگہ جدید مضامین نے لے لی ہے۔ جدید غزل لکھنے والوں میں امین الرحمن چغتائی کا مقام کسی تعارف کا معتاج نہیں۔ انکی غزل میں تنوع،جدت،نازک خیالی،ندرت اور چابک دستی کا حسین امتنراج ہے۔ ذاکر محمد زخمی، پروفسیراسرارلدین، فضل الرحمن بیغش، سعادت حسین مخفی، جمشید حسین مخفی اور محمد چنگیز خان طریقی جدید غزل کے اہم شعراہیں ان کی غزل بلاشبہ اردو اور فارسی غزل کی ہمسری کا دعوی کر سکتی ہے۔ موجودہ دور میں بھی غزل کا سفر جاری ہے جس میں بے شمار نئے لکھنے والے اپنا اپنا حصّہ ڈال رہے ہیں۔ ان میں سے چند نام یہ ہیں : پروفیسر اسرارالدین،جاوید حیات کا کا خیل، جاوید حیات، رحمت عزیزچترالی، امین اللہ امین، سبحان عالم سبحان، انورالدین انور، محمد شریف شکیب رب نواز خان نوازاور عطا حسین اظہر شامل ہیں۔ سبحان عالم ساغر کی غزل سے تین حمدیہ اشعارپیش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ہر دورا،ہر زمانہ جلوہ تہ نمایان شیر طورا، چاہ کنعانہ، جلوہ تہ نمایان شیر گمبو دیو خاموشیہ، ہو رنگو چ ووریا بلبلو ہے ترانہ، جلوہ تہ نمایان شیر زندہ کرے ماریس تو،ماری اجی زندہ کوس بہار اوچے خزاں،جلوہ تہ نمایان شیر(70) ترجمہ: ہر دور میں ہر زمانے میں تیرا جلوہ نمایاں ہے، کوہ طور میں، چاہ کنعان میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔ پھول کی خاموشی میں، اس کے رنگ اور خوشبو میں اور بلبل کے ترانے میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔ زندہ کر کے مارے گا بھی تو ہی اور مار کر زندہ بھی تو ہی کرے گا، بہار اور خزاں میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔ مترجم ( رحمت عزیز چترالی)
 
کھوار حمد نگاری میں صنفی اشتراک کھوار ایک قدیم زبان ہے مگر اس کی ادبی تاریخ تین سو سال سے زیادہ قدیم نہیں البتہ لوک ادب کی قدامت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کھوارلوک ادب زیادہ تر گیتوں پا مشتمل ہے جسے ’’باشونو‘‘کہا جاتا ہے (36)۔ باشونو کو آگے کئی سابقوں کے ساتھاہم موقعوں کی مناسبت سے گائے جانے والے گیتوں کو الگ الگ نام دیا جاتا ہے جن میں آشور جان جیسی مقبول صنف بھی شامل ہے جو نہ صرف ہر لعزیز ہے بلکہ ہر عمر کے فرد کو کچھ نہ کچھ یاد ہے(37)۔ کھوار ادب میں ماں سے متعلق تمام گیتوں کو مہرو شونو (38) کہا جاتاہے اس میں ذیلی طورپر لوری )ہووئینی(شامل ہے جسے مائیں بچوں کو سلانے کے لیے گاتی ہیں۔ اس میں بچوں کے لیے نیک تمنائیں اور کامیابی کی دعائیں مانگی گئی ہوتی ہیں۔ کھوار لوری میں حمد یہ عناصر بھی پائے جاتے ہیں۔ جیسے:۔ ترجمہ: دم دارستارہ آسمان کی ایک سمت سے چل کے دوسری طرف جائے گا میرا بیٹا بہت ہی اچھا ہے۔ یہ بالکل روئے گا نہیں بلکہ سوئے گا۔ اللہ بہت بڑا ہے اس نے چاند کو پیدا کیا ہے اور ستاروں کو چاند کے ساتھ بطورپہرہ دار بنایا ہے اور چاند کی روشنی ہر جگہ پہنچے گی میرا بیٹا بہت ہی اچھا ہے۔ یہ بالکل روئے گا نہیں بلکہ سوئے گا(39)۔
 
کھوار ادب میں اردو میں مروجہ تمام اضاف ادب موجود ہیں البتہ کھوار گیتوں کی صنف قدیم شاعری میں سب سے نمایاں اور کثرت سے ہے۔ مگر جدید شاعری میں اب نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں اور نئی نئی اضاف کا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ غزل کے حوالے سے دیکھیں تو کھوار ادب کی معلوم تاریخ کا پہلا شاعر ہی غزل گو ہے اور انکی غزل اس سطع پر تھی جہاں ان کی فارسی شاعری تھی۔ یعنی اتالیق محمد شکور غریب نے اپنے دیوان کے آخر پر جو ’کھوار ادب‘ کا باب شامل کیا ہے اس میں غزل زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف فارسی شعری روایت کے اساتذہ میں سے تھے بلکہ فارسی غزل کے نامور شاعر تھے۔ اس لیے جب وہ اپنی مادری زبان کی طرف رجوع ہوئے تو ان کی کھوار غزل میں فارسی غزل کا تمام تجربہ اور فن منتقل ہو گیا۔ مگر پہ کام فارسی زدہ سا لگتا ہے ان کے بعد مولانامحمد سیئر سیئر اور باچہ خان ہما نے غزل کو بلند مقام ہے تجمل شاہ محوی، حبیب اللہ فدا برنسوی، مرزا فردوس فردوسی، بابا ایوب ایوب اور عزیرالرحمن بیغش نے کھوار غزل میں انپے قلم کے جوہر دکھائے۔ جدید ادب میں بھی غزل کا جادہ سر چڑھ کر بول رہا ہے البتہ روایتی مضامین کی جگہ جدید مضامین نے لے لی ہے۔ جدید غزل لکھنے والوں میں امین الرحمن چغتائی کا مقام کسی تعارف کا معتاج نہیں۔ انکی غزل میں تنوع،جدت،نازک خیالی،ندرت اور چابک دستی کا حسین امتنراج ہے۔ ذاکر محمد زخمی، پروفسیراسرارلدین، فضل الرحمن بیغش، سعادت حسین مخفی، جمشید حسین مخفی اور محمد چنگیز خان طریقی جدید غزل کے اہم شعراہیں ان کی غزل بلاشبہ اردو اور فارسی غزل کی ہمسری کا دعوی کر سکتی ہے۔ موجودہ دور میں بھی غزل کا سفر جاری ہے جس میں بے شمار نئے لکھنے والے اپنا اپنا حصّہ ڈال رہے ہیں۔ ان میں سے چند نام یہ ہیں : پروفیسر اسرارالدین،جاوید حیات کا کا خیل، جاوید حیات، رحمت عزیزچترالی، امین اللہ امین، سبحان عالم سبحان، انورالدین انور، محمد شریف شکیب رب نواز خان نوازاور عطا حسین اظہر شامل ہیں۔ سبحان عالم ساغر کی غزل سے سے ایک حمدپیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ: ہر دور میں ہر زمانے میں تیرا جلوہ نمایاں ہے، کوہ طور میں، چاہ کنعان میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔ پھول کی خاموشی میں، اس کے رنگ اور خوشبو میں اور بلبل کے ترانے میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔ زندہ کر کے مارے گا بھی تو ہی اور مار کر زندہ بھی تو ہی کرے گا، بہار اور خزاں میں تیرا جلوہ نمایاں ہے(40)۔ مترجم ( رحمت عزیز چترالی)
 
نظم کے حوالے سے کھوار ادب میں کافی کام ہوا ہے اور اس کام کو نثر سے زیادہ وقیع کہا جا سکتا ہے۔ اس میں اگر غزل کے علاوہ تمام قسم کی شاعری کو شامل کر لیا جائے تو یہ کام قابل فخر ہے۔ اس میدان میں مثنوی کے حوالے سے اتالیق محمد شکور غریب کا نام ابتدائی حوالہ ہے جبکہ مثنوی کی صنف قدیم ہے۔ قطعات کے حوالے سے بھی اتالیق کا نام لیا جا سکتا ہے۔ مرز امحمدسیئر کو بھی مثنوی اور نظم کے حوالے سے اہم مقام حاصل ہے جبین، آمان، زیارت خان زیرک گل اعظم خان وغیرہ کو گیتوں کی وجہ سے اہم مقام حاصل ہے جدید ادب میں نظم کے حوالے سے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، گل نواز خاکی ،سلطان علی، صالع نظام، مبارک خان، عبد الولی خان عابد، محمد عرفان عرفان، محمد جناح الدین پروانہ، امتیاز احمد امتیاز، صمصام علی رضا اور سیلم الٰہی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ رحمت عزیز چترالی کی حمدیہ نظم کا ترجمہ پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ: اے میرے پرودگار! یہ زمین تیری تخلیق ہے اور آسمان بھی تیری ہی تخلیق ہے۔ یہ چرند،پرند،حیوان اور انسان بھی تیری تخلیق ہیں۔ تمام روحوں کو بھی تو نے ہی پیدا کیا ہے۔ ہمارے جسموں میں یہ جانیں بھی تیری ہی تخلیق ہیں یہ ناشکرا انسان پھر اس آیت کا مطب نہیں سمجھتا اور تیرا شکر ادا نہیں کرتا کہا’’تم انپے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے‘‘(41)مترجم( رحمت عزیز چترالی)
سطر 106:
مثنوی کے حوالے سے کھوار ادب میں کافی ذخیرہ ہے اس حوالے سے تقریبا سارے رومان مثنوی میں ہیں البتہ حمد کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ ’’یار من ہمیں‘‘ایک رومان ہے مگر اس کے اشعار میں حمد کا وجود نہیں ملتا البتہ تصوف کی گنجاش ہے۔ کیونکہ رومان یا مثنوی کی ابتدا حمد سے ہوتی ہے تو شائد اس رومان کی ابتدا بھی حمد سے ہوئی ہو مگر تمام تمام شعر دستیاب نہیں مختلف محققین نے اس کے مختلف شعر درج کیے ہیں اور ابتدائی اشعار بھی طے نہیں ہو سکے۔ تاج محمد فگار کی ایک مثنوی نما حمد کے تیرہ میں سے دو شعرپیش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی حاجتیں پوری کرنے والا نہیں اگر وہ رحم کرے تو اس کے لیے رحم کرنا مشکل نہیں۔ تو ایک اللہ ہے تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تیرا کوئی شریک نہیں نہ ذات میں اور نہ صفات میں (42) مترجم (محمد انور چترالی)
 
سی حرفی کو کھوار ادب میں وہ مقام نہیں مل سکا جوہند کو میں ہے البتہ اس کی چند ایک مثالیں ضرور مل جاتی ہیں مگر حمد کے حوالے سے کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ چاربیتہ کی صنف کھوار ادب میں پشتو ادب سے آئی اور اس نے یہاں خوب ترقی کی۔ اس حوالے سے کھوار میں قابل ذکر کام ہوا ہے۔ رحمت عزیزچترالی ایک چاربیتہ حاض رہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ: پرندے تیری حمد و ثنا میں مصروف ہیں اور بلبل بھی ان کا ہمنواہے۔ کانٹے بھی تیری حمدوثنا سے خالی نہیں اور پھول بھی ان کے ساتھ ہیں۔ رحمت عزیز تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔ معافی کی التجا میں اکیلا نہیں بلکہ اس کا بڑا بھائی رحمت گل بھی ساتھ ہے (43)۔ مترجم ( رحمت عزیزچترالی)
 
== مزید دیکھیے ==