"ابو عبد اللہ محمد دواز دہم" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ زمرہ جات +ترتیب (14.9 core): + زمرہ:غرناطہ کی شخصیات
م خودکار: خودکار درستی املا ← ۔، عبد اللہ
سطر 17:
"جس چیز کی حفاظت تم مردو ں کی طرح نہیں کرسکے ، اس کے چھن جانے پر عورتوں کی طرح آنسو بہانے سے کیا فائدہ۔"
 
یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جو مسلم اسپین (اندلس)کے آخری حکمراں ابو عبداللہعبد اللہ بن مولائے ابو الحسن کی والدہ نے اُسے اُس وقت کہے جب وہ غرناطہ کی چابیاں مسیحی حکمرانوں کے حوالے کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غرناطہ سے جلا وطن ہورہا تھا۔ اس نے جب آخری نگاہ اپنے آبا ؤ اجداد کے ورثے پر ڈالی تو اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔ اس مقام پر جہاں ابو عبداللہعبد اللہ کی آہ نکلی مسیحیوں نے مسلمانوں کی شکست کی علامت کے طور پر محفوظ کر لیا اور آج اسے مور کی آخری آہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔خیالہے۔خیال رہے کہ یورپی تاریخ داں اندلس کے مسلمانوں کے لیے ’’مور‘‘ Moors کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
 
ابو عبداللہ،عبد اللہ، اندلس کی آخری مسلم ریاست غرناطہ کا وہ بد بخت حکمران تھا جس نے عین اس وقت اپنے والد ابو الحسن اور چچا [[محمد بن سعد]] الزاغل کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا جب وہ اندلس میں مسیحیوں کے مشترکہ لشکر سے اندلس میں مسلمانوں کی بقا کی آخری لڑائی لڑ رہے تھے۔
== سن 1469ء کا سیاسی منظر نامہ اندلس کے تناظر میں ==
1469ء کے اندلس کے سیاسی منظر نامے پر ایک نگاہ ڈالتے ہوئے اس داستان کے آخری باب کی طرف چلتے ہیں جس کا آغاز تقریباًآٹھ سو سال قبل جبل طارق یا جبرالٹر کے ساحل پر [[طارق بن زیاد]] نے مسیحی گاتھ شہنشاہ راڈرک کو عبرتناک شکست دے کر کیا تھا ۔موسیٰتھا۔موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد نے جلد ہی اسپین سے مسیحیوں کی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور اسی طرح اسپین، دمشق کی خلافت کے زیر نگیں آگیا۔ دمشق کے انقلاب کے بعد اسلامی خلافت بغداد منتقل ہو گئی اور اندلس کی حکمرانی اموی شہزادے عبدالرحمن الداخل کو مل گئی ۔وقتگئی۔وقت گزرتا گیا اور اندلس کی حکومتیں بدلتی رہیں اور مسلمان اندلس میں مضبوط اور مستحکم ہوتے چلے گئے۔ آہستہ آہستہ اندلس عالم سلام کا علم و ہنر کا مرکز بن گیا۔ دور عروج میں اندلس نے ابنِ بیطار،ابنِ رشد،ابنِ باجا، الفارابی۔ ابنَ حزم، اسحق موصلی ،اور الخظیب جیسے ہزاروں علما اور فضلاء پیدا کیے۔
پھر وقت نے پلٹا کھایا اور اندلس کے مسلمانوں کا زوال شروع ہو گیا،پھر قدرت نے [[یوسف بن تاشفین]] کی صورت میں اندلس کے مسلمانوں کو سنبھلنے کا بہترین موقع فراہم کیا مگر ان کے نصیب میں زوال لکھ دیا گیا تھا ۔
 
الداخل کی عظیم سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہونا شروع ہو گئی۔ سرقسطہ ، قشطالیہ ،الشبیلہ اور قرطبہ جیسے عظیم علم و ہنر کے مراکز مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلنے شروع ہو گئے۔
اراغون اور قشطالیہ کی مضبوط مسیحی ریاستیں وجود میں آگئیں ۔اراغونآگئیں۔اراغون کی حکمران ازابیلانامی ملکہ تھی جو تاریخ میں ملکہ ازابیلا کے نام سے مشہور ہوئی ۔ یہ وہی ملکہ ہے جس کی تحریک پر کولمبس نے اپنی بحری مہم شروع کی تھی۔دوسری طرف قسطلہ کا شاہ فرنڈیڈ (Ferdinand) نامی متعصب مسیحی شخص تھا ۔یہتھا۔یہ دونوں حکمراں شدت پسند اور مسلمان دشمن تھے۔یہ دونوں اندلس سے مکمل طور پر مسلمانوں کا خاتمہ چاہتے تھے، اسی مشترکہ مفاد کے تحت ان دونوں حکمرانوں نے 1469 ؁ء میں اراغون اور قسطلہ کی ریاستوں کو باہم مدغم کر لیا اور آپس میں شادی کرلی ۔
== غرناطہ، اندلس میں مسلمانوں کی آخری امید ==
1469ء تک اندلس کے مسلمان غرناطہ کی ریاست تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔سارا اندلس ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا ،مسلمان اندلس بھر سے سمٹ کر غرناطہ میں اپنی بقاء کی لڑائی میں مصروف تھے ۔ غرناطہ کا موجودہ حکمران ایک نڈر اور قابل شخص مولائے ابو الحسن تھا ۔اہلتھا۔اہل اندلس کو طویل عرصے بعد ایک لائق حکمران نصیب ہوا تھا ۔اہلتھا۔اہل اندلس اسے اپنا نجات ہند تعبیر کر رہے تھے۔سلطان ابو الحسن سے مسلمانوں کی توقعات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سلطان کا بھائی محمد بن سعد الزاغل (جو الزاغل کے نام سے مشہور ہے )مالقہ کے علاقے کا حکمران تھا اور جب اس نے یہ محسوس کیا کہ مسیحی ان دونوں بھائیوں میں پھوٹ ڈلوانا چاہتے ہیں تو الزاغل فوراًغرناطہ پہنچا اور اس نے مالقہ کے تخت سے دست بردار ہوتے ہوئے ابوالحسن کے ہاتھ پر بیعت کرلی ۔اسیکرلی۔اسی طرح ابوالحسن طاقتور ہو گیا اور جب فرنڈیڈ نے ابو الحسن سے خراج طلب کیا تو اس نے وہ تاریخی جواب دیا جو ہمیشہ کے لیے تاریخ میں محفوط ہو گیا۔ ابو الحسن نے کہا ’’غرناطہ کے ٹکسال میں مسیحیوں کو دینے کے لیے سکّوں کی بجائے اب فولاد کی وہ تلواریں تیار ہوتی ہیں جو ان کی گردنیں اتار سکیں۔
 
یہ جواب سن کر فرنڈیڈاور ازابیلا مبہوت رہ گئے۔ اس وقت قسطلہ اور اراغون کی باہمی ریاست کا رقبہ سوا لاکھ [[مربع میل]] کے لگ بھگ تھا ۔جبکہتھا۔جبکہ غرناطہ کی ریاست سمٹ سمٹا کر صرف چار ہزار مربع میل رہ گئی تھی۔یہ مختصر رقبہ بھی مسیحیوں کی نگاہ میں کھٹک رہا تھا وہ اندلس سے مسلمانوں کا مکمل خاتمہ چاہتے تھے۔انہوں نے ابو الحسن سے فیصلہ کن جنگ کا ارادہ کیا اور خاموشی سے جنگی تیاریاں تیز کر دیں۔ ابو الحسن بھی غافل نہیں تھا ۔
 
آخر کار غرناطہ کے سرحدی مقام لوشہ میں سلطان ابو الحسن اور فرنڈیڈ (Ferdinand) کا ٹکراؤ ہو گیا ،اہل غرناطہ قوت اور عدد دونوں اعتبار سے مسیحیوں کی مشترکہ افواج کے مقابلے پر کمزور تھے ۔مگرتھے۔مگر ان کو علم تھا کے اندلس میں یہ ان کے پاس یہی آخری خطہ اراضی رہ گیا ہے ۔اسہے۔اس کے دفاع کے لیے اہل غرناطہ نے سر دھڑ کی بازی لگادی۔آخر کار لوشہ کے میدان میں طارق بن زیاد کی یاد تازہ کرتے ہوئے ابو الحسن نے فرنیڈنڈ کو شکست فاش سے دو چار کیا۔
== غرناطہ کے ولی عہد ابو عبداللہعبد اللہ کی بغاوت ==
ابھی ابوالحسن لوشہ کے میدان میں ہی تھا کہ غرناطہ میں اس کے [[ولی عہد]] ابو عبداللہعبد اللہ نے بغاوت کردی اور غرناطہ کے تخت کا مالک بن بیٹھا۔مسیحیوں سے جہاد میں مشغول مسلمانوں کے لیے یہ خطرناک اطلاع تھی ۔لوشہتھی۔لوشہ کی فتح کے بعد وہ ابو الحسن کی سربراہی میں اندلس میں مسلمانوں کی نشاط ثانیہ کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ابو عبداللہعبد اللہ کی بغاوت نے ان کے ہوش اڑا دئے اور سلطان ابو الحسن کو مجبوراًلوشہ چھوڑ کر مالقہ میں پناہ لینی پڑی۔یعنی اس نازک دور میں جب اہل اندلس اپنے بقاء کی جنگ میں مصروف تھے ،ابو عبداللہعبد اللہ کی اقتدار کی ہوس نے غرناطہ کی سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ۔بجائےدیا۔بجائے باپ کے ہاتھ مضبوط کرنے کے ابوعبداللہ اس کی سلطنت کے درپے ہو گیا ۔دوسریگیا۔دوسری طرف مسلمانوں کو منقسم دیکھ کر شکست خورہ فرنڈیڈکو حوصلہ مل گیا اور اس نے مالقہ پر حملہ کر دیا ۔مالقہدیا۔مالقہ میں ابو الحسن اور فرنڈیڈ کو بر سر پیکار دیکھ کر ابو عبداللہعبد اللہ نے بے غیرتی کی انتہا کرتے ہوئے ابوالحسن پر پشت سے حملہ کر دیا ۔ابودیا۔ابو الحسن تجربہ کار سپہ سالار تھا ،اس نے ایک طرف تو مسیحیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا دوسری طرف ابو عبداللہعبد اللہ کو واپس غرناطہ جانے پر مجبور کر دیا ۔
== ابو عبداللہعبد اللہ کی فرنڈیڈ کے ہا تھوں گرفتاری ==
اسی دوران ابو عبداللہعبد اللہ اور فرنڈیڈ کالوشنیہ کے مقام پر آمنا سامنا ہو گیا ۔ناتجربہگیا۔ناتجربہ کار ابو عبداللہعبد اللہ نے شکست کھائی اور گرفتار ہو گیا ،ابو عبداللہعبد اللہ کے فرنڈیڈ کی قید میں جانے کے بعد غرناطہ کا تخت خالی ہو گیا ، بیٹے کی بغاوت نے ابو الحسن کو بیمار کر دیا تھا ،اس پر زبر دست فالج کا حملہ ہو گیا تھا،اس نے ریاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنے بھائی الزاغل کو غرناطہ کا تخت سنبھالنے اور فرنیڈنڈکا مقابلہ کرنے کا حکم دیا۔الزاغل غرناطہ پہنچا اور اس نے مسلم افواج کی ازسرِنو تنظیم شروع کردی ۔ الزاغل بلاشبہ ابو الحسن کا حقیقی جانشین تھا اور ممکن تھا کہ اپنی دلیری اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ اندلس کے مسلمانوں کا نجات دہنرہ بن جاتا مگر اس موقع پر ابو عبداللہعبد اللہ کا ایک دفعہ پھر مکروہ کردار سامنے آتا ہے۔
دوران قید فرنیڈنڈ نے ابو عبداللہعبد اللہ کی خصلت پہچان لی۔ وہ سمجھ گیا کہ ابو عبداللہعبد اللہ کو مسلمانوں سے زیادہ اپنے اقتدار کی خواہش ہے ۔ابہے۔اب فرنیڈنڈ نے ابو عبداللہعبد اللہ کو الزاغل اور ابوالحسن کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ۔اسبنایا۔اس نے ابو عبداللہعبد اللہ کو یقین دلایا کہ وہ اسے غرناطہ کا وارث تسلیم کرتا ہے اور یہ کہ فرنیڈنڈ غرناطہ کا تخت حاصل کرنے میں ابوعبداللہ کی مدد کرے گا ۔
== ابوعبداللہ کی رہائی اور الزاغل سے ٹکراؤ ==
ابو عبداللہعبد اللہ سے ساز باز کرنے کے بعد فرنڈیڈنے اسے اپنی قید سے رخصت کر دیادیا۔ابو ۔ابوعبد عبداللہاللہ سیدھا مالقہ پہنچا جہاں الزاغل کا قبضہ تھااہل مالقہ کو یقین دہانی کرائی کہ فرنڈیڈ اس کے ساتھ ہے اور اگر اہل مالقہ ،ابو عبداللہعبد اللہ کا ساتھ دیں تو وہ ان کی مسیحیوں سے صلح کروا سکتا ہے ۔جنگہے۔جنگ و جدل سے گھبرائے ہوئے مسلمان اس کی باتوں میں آگئے اور انہوں نے مالقہ پر ابو عبداللہعبد اللہ کی بالا دستی تسلیم کرلی۔اب ابو عبداللہعبد اللہ نے الزاغل کو پیغام بھیجا کہ اگر وہ لوشہ کا قلعہ اس کے حوالے کر دے تو ان دونوں کی صلح ہوسکتی ہے ۔اسہے۔اس طرح مسیحیوں کی مشترکہ افواج کا مقابلہ دونوں مل کر کریں گے۔ لوشہ کا قلعہ دراصل غرناطہ کا دفاعی مورچہ تھا ، فرنڈیڈ کئی سالوں سے لوشہ پر قبضہ کرنے کے چکر میں تھا اس طرح اُس کا راستہ غرناطہ تک آسان ہوجاتا ۔ مگر اہل لوشہ نے اپنے علاقے کا دفاع بڑی بے جگری سے کیا ہوا ۔لوشہہوا۔لوشہ کی دفاعی اہمیت کے باوجود مسلمانوں میں اتحاد کے خواہش مند الزاغل نے ابو عبداللہعبد اللہ کا کہا مان لیا اور لوشہ کا قلعہ اس کے حوالے کر دیا۔
لوشہ پر قبضہ فرنڈیڈ کے منصوبے کا حصہ تھا۔ اب ابو عبداللہعبد اللہ مالقہ اور لوشہ دونوں پر قابض تھا۔ اس نے فوراً فرنیڈنڈ کو لوشہ آنے کی دعوت دے ڈالی۔مسلمان حیران و پریشان ہو گئے کہ جس لوشہ کی حفاظت کے لیے انہوں نے سالوں سے سر دھر کی بازی لگائی ہوئی ہے وہ بغیر کسی خون خرابے کے فرنڈیڈ کو مل گیا.
== ابو عبداللہعبد اللہ کا غرناطہ پر قبضہ ==
ادھر مالقہ میں جب مسلمانوں نے یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے ابو عبداللہعبد اللہ کے خلاف بغاوت کردی۔ اس پر فرنڈیڈ نے مالقہ کا محاصرہ کر لیا ۔ اہل مالقہ کی مدد کے لیے الزاغل غرناطہ سے روانہ ہو گیا۔ غرناطہ خالی دیکھ کر ابوعبداللہ کو سنہری موقع مل گیا ،وہ فوراًغرناطہ پہنچ گیا اور تخت غرناطہ پر قبضہ کر لیا ۔
یہاں سے المناک داستان کا وہ باب شروع ہوتا ہے جس کا انجام مسلمانانِ اندلس کی مکمل بربادی پر ختم ہوا ۔وہہوا۔وہ لوگ جو آٹھ سو سال قبل اندلس میں روشنی کا پیغام لے کر آئے تھے اور روشنی کی مانند پورے اندلس میں پھیل گئے تھے وہ راستہ بھول گئے ۔ افراد راستہ بھول جائیں تو گھرانے تباہ ہوجاتے ہیں مگر جب قومیں راستہ فراموش کر دیں تو سلطنتیں برباد ہوجاتی ہیں ۔اندلسہیں۔اندلس کے مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔غرناطہہوا۔غرناطہ پر ابوعبداللہ کا قبضہ بھی [[مسلمانان اندلس]] کے لیے بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
یہ منظر نامہ دیکھتے ہوئے مالقہ والوں نے فرنیڈنڈ سے صلح کرلی ۔اسکرلی۔اس طرح لوشہ اور مالقہ پر فرنڈیڈ کا قبضہ مکمل ہو گیا ۔
== فرنڈیڈ کا ابو عبداللہعبد اللہ کو غرناطہ حوالے کرنے کا پیغام ==
ابو عبداللہعبد اللہ کو بیٹا کہنے اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا دم بھرنے والا فرنڈیڈ اب اپنے اصل روپ میں آگیا ۔ اس نے ابو عبداللہعبد اللہ کو پیغام بھجوایا کہ اب غرناطہ کی چابیاں مسیحیوں کے حوالے کردی جائیں ۔یہجائیں۔یہ پیغام ملتے ہی ابوعبداللہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی ۔اپنوںگئی۔اپنوں سے غداری کرنے کا انجام اسے نظر آنے لگا ۔اسلگا۔اس نے اہل غرناطہ سے مشورہ کیا اہل غرناطہ موسیٰ اور طارق کے فرزند تھے ۔انہوںتھے۔انہوں نے آخری دم تک جنگ لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔اہلکیا۔اہل غرناطہ اور فرنڈیڈ میں سخت لڑائی لڑی گئی۔مسلمانوں کو علم تھا کہ اندلس میں اب غرناطہ ہی ان کی آخری امید ہے لہٰذا وہ جم کر لڑے اور انہوں نے مسیحیوں کو شکست سے دوچار کر دیا غرناطہ کے مضافات کے علاقے دوبارہ مسلمانوں کے قبضے میں آگئے ۔انآگئے۔ان میں البشرات نامی پہاڑی علاقہ بھی شامل تھا ۔
== الزاغل کا شرمناک کردار ==
قدرت قوموں کو سنبھلنے کے لیے کئی مواقع دیتی ہے۔ یوسف بن تاشفین کی آمد سے لے کر ابو الحسن کی تخت نشینی تک اہل اندلس کو سنبھلنے کے کئی مواقع ملے ۔مگرملے۔مگر اقتدار کی خواہش اور ہوس میں اپنوں سے غداری نے اہل اندلس کو برباد کر کے چھوڑا۔ اس نازک موقع پر جب مسیحی اندلس میں مسلمانوں کو آخری پناہ گاہ کے سامنے مورچہ زن تھے اس وقت بھی اہل اندلس کی آپس کی نااتفاقی ختم نہ ہوئی۔ اہل غرناطہ کی ابو عبداللہعبد اللہ کی سربراہی میں مسیحیوں کے خلاف کامیابیاں اس کے چچا الزاغل کو ایک آنکھ نہ بھائی‘ وہی محمد بن سعد الزاغل جو کچھ عرصہ قبل مسلمانوں کے اتحاد کی خاطر اپنے بھائی سلطان ابو الحسن کے حق میں اپنی سلطنت سے دستبردار ہو چکا تھا اس دفعہ اس نے شرمناک حرکت کی۔الزاغل نے اہل غرناطہ کے خلاف فرنڈیڈ کے حق میں اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے فرنڈیڈ کو ابو عبداللہعبد اللہ پر حملہ کرنے پر اکسایا ۔
فرنیڈنڈ نے یہ سنہری موقع جانے نہ دیا اور ایک دفعہ پھر مسلمانوں کو آپس میں لڑوادیا ۔ابلڑوادیا۔اب الزاغل نے فرنیڈنڈ کی مدد کے ساتھ ابو عبداللہعبد اللہ پر حملے کرنے شروع کیے ،غرناطہ کے مضافات کے تمام قلعے ایک ایک کرکے مسیحیوں کے قبضہ میں دوبارہ چلے گئے اور آخر کار اہل غرناطہ محصور ہو کر رہ گئے ۔ غرناطہ کے تخت کا خواہش مند الزاغل کو فرنڈیڈ نے اس کی خدمات کا صلہ دیتے ہوئے اسے اسپین سے نکل جانے کا حکم دیا۔ الزاغل، فرنڈیڈ کا منہ دیکھتا رہ گیا اور آخر کار مراکش میں جلا وطن کر دیا گیا اور وہیں گم نامی کی موت مرگیا۔ غداروں کا انجام یہی ہوتا ہے ۔
== سقوطِ غرناطہ اور ابو عبداللہعبد اللہ کا انجام ==
اب فرنڈیڈ اور ازابیلا نے فیصلہ کن معرکہ کی تیاریاں شروع کر دیں۔1492 ؁ء کا سال آگیا اور اسی سال [[موسم گرما]] میں مسیحیوں کی مشترکہ ا فواج نے غرناطہ کا محاصرہ کر لیا ۔غرناطہلیا۔غرناطہ کے شمال میں پہاڑی سلسلہ تھے اور محاصرے کے دوران اہل غرناطہ کو مدد ملتی رہی۔ مگر سردیاں شروع ہوتے ہی پہاڑوں پر [[برف باری]] شروع ہو گئی اور غرناطہ کو کمک ملنا بند ہو گئی ۔شہرگئی۔شہر میں اشیاء خورد نوش کی قلت ہو گئی ۔
اہل غرناطہ اب بھی مسیحیوں پر فیصلہ کن حملہ کرنے پر آمادہ تھے ۔غرناطہتھے۔غرناطہ کا سپہ سالار ’موسیٰ بن ابی غسان‘ افسانوی شہرت کا حامل کردار تھا۔ وہ آخری سپاہی تک لڑنا چاہتا تھامگر ابو عبداللہعبد اللہ ذہنی طور پر شکست قبول کرچکا تھا ۔وہتھا۔وہ اور اس کے اکثر امرا فرنڈیڈ سے صلح کا معاہدہ کرنا چاہتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ اسی طرح وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مراعات حصل کرسکیں گے۔امراِ سلطنت سازش میں مصروف ہو گئے۔ پس پردہ مسیحیوں سے رابطے قائم کرنے لگے ان سازشی عناصر کا سر غنہ [[وزیر اعظم]] غرناطہ ’ابوالقاسم‘ تھا۔ فرنڈیڈنے غرناطہ پر قبضے کی صورت میں اس کوغرناطہ کا اہم عہدہ دینے کا وعدہ کر لیا۔۔ابو عبداللہعبد اللہ کی ذہنی شکست میں ابو القاسم کا مرکزی کردار تھا ۔بلاآخرتھا۔بلاآخر ابو عبداللہعبد اللہ نے ابو القاسم کو خفیہ سفارتکاری کی اجازت دے دی۔ صلح کی شرائط طے کرلی گئیں ۔بظاہرگئیں۔بظاہر ان شرائط میں مسلمانوں کے لیے ہر قسم کا تحفظ یقینی بتایا گیا تھا مگر بعد میں مسیحیوں نے اس پر کتنا عمل کیا وہ ایک علاحدہ باب ہے۔
معاہدے کے تحت ابو عبداللہعبد اللہ کو البشرات کے علاقے میں ایک جاگیر دے دی گئی۔آخر کار وہ تاریخی دن آگیا جسے آج تک [[تاریخ اسلام]] کا [[طالب علم]] سیاہ دن سے تعبیر کرتا ہے۔2جنوری 1492 ؁ء کو غرناطہ کی چابیاں ابو عبداللہعبد اللہ نے اپنے ہاتھوں سے فرنڈیڈ اور ازابیلا کو پیش کر دیں۔ پادری اعظم نے قصر الحمراء پر لہراتا صدیوں پرانا پرچم اسلامی اتار کر صلیب کو نصب کردیاور اس طرح سقوط غرناطہ کے ساتھ ساتھ اندلس میں مسلمانوں کا آٹھ سو سالہ حکمرانی کا سورج بھی غروب ہو گیا ۔سوگیا۔سو سال کے اندر اند رمسیحیوں کے ظلم و ستم کے باعث لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے مراکش اور [[شمالی افریقہ]] میں آباد ہو گئے ان کے قبائل آج بھی وہاں مہاجر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔لاکھوںہیں۔لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور بیشمار اہل ایمان مسیحی ظلم و ستم کی تاب نہ لا کر مسیحی بن گئے ۔یوںگئے۔یوں ایک غدار اور بزدل حکمران ابوعبداللہ کی شامت اعمال کا نتیجہ اہل اندلس کو دیکھنا پڑا۔<ref>https://blog.jasarat.com/2017/10/28/saqootegharnata/</ref>
== مزید دیکھیے ==
* [[سقوط غرناطہ]]