"سورہ الشوریٰ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:خودکار ویکائی
م خودکار: خودکار درستی املا ← جس
سطر 35:
بات کا آغاز اس طرح کیا گیا ہے کہ تم لوگ ہمارے نبی کی پیش کردہ باتوں پر یہ کیا چہ میگوئیاں کرتے پھر رہے ہو۔ یہ باتیں کوئی نئی یا نرالی نہیں ہیں، نہ یہی کوئی نادر واقعہ ہے جو تاریخ میں پہلی ہی مرتبہ پیش آیا ہو کہ ایک شخص پر خدا کی طرف سے وحی آئے اور اسے بنی نوع [[انسان]] کی رہنمائی کے لیے ہدایات دی جائیں۔ ایسی ہی وحی، اسی طرح کی ہدایات کے ساتھ [[اللہ تعالٰی{{ا}}]] اس سے پہلے انبیا علیہم السلام پر پے در پے بھیجتا رہا اور نرالی،اچنبھے کے قابل بات یہ نہیں ہے کہ [[آسمان]] و [[زمین]] کے مالک کو معبود اور حاکم مانا جائے، بلکہ یہ ہے کہ اس کے بندے ہو کر، اس کی خدائی میں رہتے ہوئے کسی دوسرے کی خداوندی تسلیم کی جائے۔ تم [[توحید]] پیش کرنے والے پر بگڑ رہے ہو، حالانکہ مالک [[کائنات]] کے ساتھ جو شرک تم کر رہے ہو وہ ایسا جرم عظیم ہے کہ آسمان اس پر پھٹ پڑیں تو کچھ بعید نہیں۔ تمہاری اس جسارت پر [[ایمان بالملائکہ|فرشتے]] حیران ہیں اور ہر وقت ڈر رہے ہیں کہ نہ معلوم کب تم پر خدا کا غضب ٹوٹ پڑے۔
 
اس کے بعد لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ نبوت پر کسی شخص کا مقرر کیا جانا اور اس شخص کا اپنے آپ کو [[پیغمبر|نبی]] کی حیثیت سے پیش کرنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ خلق خدا کی قسمتوں کا مالک بنا دیا گیا ہے اور اسی دعوے کے ساتھ وہ میدان میں آیا ہے۔ قسمتیں تو اللہ نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھی ہیں۔ نبی صرف غافلوں کو چونکانے اور بھٹکے ہوؤں کو راستہ بتانے آیا ہے۔ اس کی بات نہ ماننے والوں کا محاسبہ کرنا اور انہیں عذاب دینا یا نہ دینا اللہ کا اپنا کام ہے۔ یہ کام نبی کے سپرد نہیں کر دیا گیا ہے۔ لہ{{ا}}ذا اس غلط فہمی کو اپنے دماغ سے نکال دو کہ نبی اس طرح کے کسی دعوے کے ساتھ آیا ہے جیسے دعوے تمہارے ہاں کے نام نہاد مذہبی پیشوا اور پیر فقیر کیا کرتے ہیں کہ جو ان کی بات نہ مانے گا یا ان کی شان میں گستاخی کرے گا وہ اسے جلا کر بھسم کر دیں گے۔ اسی سلسلے میں لوگوں کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نبی تمہاری بد خواہی کے لیے نہیں آیا ہے، بلکہ وہ تو ایک خیر خواہ ہے جو تمہیں خبردار کر رہا ہے کہ جس راہ پر تم جا رہے ہو اس میں تمہاری اپنی تباہی ہے۔
 
پھر اس مسئلے کی حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ اللہ نے سارے انسانوں کو پیدائشی طور پر [[راست رو]] کیوں نہ بنا دیا،اور یہ مجال{{زیر}} اختلاف کیوں رکھی جس کی وجہ سے لوگ فکر و عمل کے ہر الٹے سیدھے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ بتایا گیا کہ اسی چیز کی بدولت تو یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ انسان اللہ کی اس رحمت{{زیر}} خاص کو پا سکے جو دوسری بے اختیار مخلوقات کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اس ذی اختیار مخلوق کے لیے ہے جو جبلی طور پر نہیں، شعوری طور پر اپنے اختیار سے اللہ کو اپنا ولی بنائے۔ یہ روش جو انسان اختیار کرتا ہے اسے اللہ تعالٰی{{ا}} سہارا دے کر،اس کی رہنمائی کر کے، اسے حسن عمل کی توفیق دے کر، اپنی رحمت خاص میں داخل کر لیتا ہے اور جو انسان اپنے اختیار کو غلط استعمال کر کے ان کو ولی بناتا ہے جو در حقیقت ولی نہیں ہیں اور نہیں ہو سکتے، وہ اس رحمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اسی سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسان کا اور ساری مخلوقات کا ولی حقیقت میں اللہ تعالٰی{{ا}} ہی ہے۔ دوسرے نہ حقیقت میں ولی ہیں، نہ ان میں طاقت ہے کہ ولایت کا حق ادا کرسکیں۔ انسان کی کامیابی کا مدار اسی پر ہے کہ وہ اپنے لیے اپنے اختیار سے ولی کا انتخاب کرنے میں غلطی نہ کرے اور اسی کو اپنا ولی بنائے جو در حقیقت ولی ہے۔
 
اس کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ جس دین کو محمد {{درود}} پیش کر رہے ہیں وہ حقیقت میں ہے کیا:
اس کی اولین بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالٰی{{ا}} چونکہ کائنات اور انسان کا خالق، مالک اور ولی{{زیر}} حقیقی ہے، اس لیے وہی انسان کا حاکم بھی ہے اور اسی کا یہ حق ہے کہ انسان کو دین اور شریت (اعتقاد و عمل کا نظام) دے اور انسانی اختلافات کافیصلہ کر کے بتائے کہ حق کیا ہے اور نا حق کیا۔ دوسری کسی ہستی کو انسان کے لیے شارع (Lawgiver) بننے کا سرے سے حق ہی نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر فطری حاکمیت کی طرح تشریعی حاکمیت بھی اللہ کے لیے مخصوص ہے۔ انسان یا کوئی غیر اللہ اس حاکمیت کا حامل نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی شخص اللہ کی اس حاکمیت کو نہیں مانتا تو اس کا اللہ کی محض فطری حاکمیت کو ماننا لا حاصل ہے۔