"سورہ النجم" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:خودکار ویکائی
م خودکار: خودکار درستی املا ← جس؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 51:
اس کے بعد علی الترتیب تین مضامین ارشاد ہوئے ہیں :
 
* اولاً سامعین کو سمجھایا گیا ہے کہ جس دین کی تم پیروی کر رہے ہو اس کی بنیاد محض گمان اور من مانے مفروضات پر قائم ہے۔ تم نے [[لات]] اور [[منات]] اور [[عزٰی]] جیسی چند دیویوں کو معبود بنا رکھا ہے، حالانکہ الوہیت میں برائے نام بھی ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ تم نے [[ایمان بالملائکہ|فرشتوں]] کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے رکھا ہے، حالانکہ خود اپنے لیے تم بیٹی کو عار سمجھتے ہو۔ تم نے اپنے نزدیک یہ فرض کر لیا ہے کہ تمہارے یہ معبود اللہ تعالٰی سے تمہارے کام بنوا سکتے ہیں، حالانکہ تمام ملائکہ، مقربین مل کر بھی اللہ سے اپنی کوئی بات نہیں منوا سکتے۔ اس طرح کے عقائد جو تم نے اختیار کر رکھے ہیں، ان میں سے کوئی عقیدہ بھی کسی علم اور دلیل پر مبنی نہیں ہے، بلکہ کچھ خواہشات ہیں جن کی خاطر تم بعض اوہام کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہو۔ یہ ایک بہت بڑی بنیادی غلطی ہے جس میں تم لوگ مبتلا ہو۔ دین وہی صحیح ہے جو حقیقت کے مطابق ہو اور حقیقت لوگوں کی خواہشات کی تابع نہیں ہوا کرتی کہ جسے وہ حقیقت سمجھ بیٹھیں وہی حقیقت ہو جائے۔ اس سے مطابقت کے لیے قیاس و گمان کام نہیں دیتا، بلکہ اس کے لیے علم درکار ہے، وہ علم تمہارے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو تم اس سے منہ موڑتے ہو اور الٹا اس شخص کو گمراہ ٹھیراتے ہو جو تمہیں صحیح بات بتا رہا ہے۔ اس غلطی میں تمہارے مبتلا ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ تمہیں آخرت کی کوئی فکر نہیں ہے،بس دنیا ہی تمہاری مطلوب بنی ہوئی ہے۔ اس لیے نہ تمہیں علم حقیقت کی کوئی طلب ہے، نہ اس بات کی کوئی پروا کہ جن عقائد کی تم پیروی کر رہے ہو وہ حق کے مطابق ہیں یا نہیں۔
* ثانیاً لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ ہی ساری کائنات کا مالک و مختار ہے۔ [[راست رو]] وہ ہے جو اس کے راستے پر ہو اور گمراہ وہ جو اس کی راہ سے ہٹا ہوا ہو۔ گمراہ کی گمراہی اور راست رو کی راست روی اس سے چھپی ہوئي نہیں ہے۔ ہر ایک کے عمل کو وہ جانتا ہے اور اس کے ہاں لازماً برائی کا بدلہ برا اور بھلائی کا بدلہ بھلا مل کر رہنا ہے۔ اصل فیصلہ اس پر نہیں ہونا کہ تم اپنے زعم میں اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو اور اپنی زبان سے اپنی پاکیزگی کے کتنے لمبے چوڑے دعوے کرتے ہو، بلکہ فیصلہ اس پر ہونا ہے کہ خدا کے علم میں تم متقی ہو یا نہیں۔ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو تو اس کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ چھوٹے چھوٹے قصوروں سے وہ درگزر فرمائے گا۔
* ثالثاً دین حق کے وہ چند بنیادی امور لوگوں کے سامنے پیش کیے گئے ہیں جو قرآں مجید کے نزول سے صدہا برس پہلے حضرت ابراہیم اور حضرت موسٰی علیہم السلام کے صحیفوں میں بیان ہو چکے تھے، تاکہ لوگ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نیا اور نرالا دین لے آئے ہیں، بلکہ ان کو معلوم ہو جائے کہ یہ وہ اصولی حقائق ہیں جو ہمیشہ سے خدا کے نبی بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ اس کے ساتھ انہی صحیفوں سے یہ بات بھی نقل کر دی گئی ہے کہ عاد اور ثمود اور قوم نوح اور قوم لوط کی تباہی اتفاقی حوادث کا نتیجہ نہ تھی بلکہ اللہ تعالٰی نے اسی ظلم و طغیان کی پاداش میں ان کو ہلاک کیا تھا جس سے باز آنے پر کفار مکہ کسی طرح آمادہ نہیں ہو رہے ہیں۔
 
یہ مضامین ارشاد فرمانے کے بعد تقریر کا خاتمہ اس بات پر کیا گیا ہے کہ فیصلے کی گھڑی قریب آ لگی ہے جسے کوئی ٹالنے والا نہیں ہے۔ اس گھڑی کے آنے سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے ذریعہ سے تم لوگوں کو اسی طرح خبردار کیا جا رہا ہے جس طرح پہلے لوگوں کو خبردار کیا گیا تھا۔ اب کیا یہی وہ بات ہے جو تمہیں انوکھی لگتی ہے؟ جس کی تم ہنسی اڑاتے ہو؟ جسے تم سننا نہیں چاہتے اور شور مچاتے ہو تاکہ کوئی اور بھی اسے نہ سننے پائے؟ اپنی اس نادانی پر تمہیں رونا نہیں آتا؟ باز آجاؤ اپنی اس روش سے، جھک جاؤ اللہ کے سامنے اور اس کی بندگی کرو۔
 
یہی وہ مؤثر خاتمۂ کلام تھا جسے سن کر کٹے سے کٹے منکرین بھی ضبط نہ کر سکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کلام الٰہی کے یہ فقرے ادا کر کے سجدہ کیا تو وہ بھی بے اختیار سجدے میں گر گئے۔
{{سورت