"ریاست ہائے متحدہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار:تبدیلی ربط V3.4
درستی
سطر 1:
{{دیگر استعمال|امریکہ (ضد ابہام)}}
{{خانۂ معلومات ملک}}
|مقامی_نام = United States of America<br/>Estados Unidos de América<br/>États-Unis d’Amérique<br/>ریاستہائے متحدہ امریکا
|روايتی_لمبا_نام = ریاستہائے متحدہ امریکا
|عمومی_نام = ریاستہائے متحدہ امریکا
|پرچم_تصویر = Flag of the United States.svg
|نشان_امتیاز_تصویر = US-GreatSeal-Obverse.svg
|نشان_امتیاز_قسم = قومی نشان
|قومی_شعار = In God We Trust <br/><center>(خدا پر ہمارا بھروسا ہے)</center>
|نقشہ_تصویر = Location United States.svg
|قومی_ترانہ = [[دی اسٹار اسپینگلڈ بینر]]
|دار_الحکومت = [[واشنگٹن ڈی سی]]
|latd = 39
|latm= 91
|latNS= شمال
|longd= 77
|longm= 2
|longEW= مغرب
|عظیم_شہر = [[نیو یارک]]
|دفتری_زبانیں = قومی سطح پر کوئی نہیں ،انگریزی 28 ریاستوں میں
|حکومت_قسم = جمہوریہ (صدارتی نظام)
|راہنما_خطاب = صدر
|راہنما_نام = [[ڈونلڈ ٹرمپ]]
|خودمختاری_قسم = آزادی
|تسلیمشدہ_واقعات = - اعلانِ آزادی<br/>تاریخِ آزادی
|تسلیمشدہ_تواریخ = برطانیہ سے<br/>4 جولائی 1776ء<br/>3 ستمبر 1783ء
|یویو_رکنیت_تاریخ =
|رقبہ_مقدار = 9629091
|رقبہ_ = 9629091
|areami²= 3717813
|رقبہ_درجہ = 4
|فیصد_پانی = 6.76
|آبادی_تخمینہ = 303,528,492
|آبادی_تخمینہ_سال = 2008
|آبادی_تخمینہ_درجہ = 3
|آبادی_مردم_شماری = 281421906
|آبادی_مردم_شماری_سال = 2000
|آبادی_کثافت = 31
|آبادی_کثافت_درجہ = 180
|population_densitymi² = 80
|جی_ڈی_پی_پی_پی_پی_سال = 2007
|جی_ڈی_پی_پی_پی_پی = 13860 ارب [[بین الاقوامی ڈالر]]
|جی_ڈی_پی_پی_پی_پی_درجہ = پہلا
|جی_ڈی_پی_پی_پی_پی_فیکس = 46000 [[بین الاقوامی ڈالر]]
|جی_ڈی_پی_پی_پی_پی_فیکس_درجہ = 7 واں
|ایچ_ڈی_آئی_سال = 2007
|ایچ_ڈی_آئی = 0.951
|ایچ_ڈی_آئی_درجہ = 12
|ایچ_ڈی_آئی_زمرہ = بلند
|سکہ_ = امریکی ڈالر
|سکہ_کوڈ = USD
|منطقۂ_وقت =
|یو_ٹی_سی_تفریق = -5 تا -10
|منطقۂ_وقت_ڈی_ایس_ٹی = مستعمل
|یو_ٹی_سی_تفریق_ڈی_ایس_ٹی = -4 تا -9
|cctld = [[ریاستہائے متحدہ امریکا|.us]]
|کالنگ_کوڈ = 1-58
}}
'''ریاستہائے متحدہ امریکا''' {{دیگر نام|انگریزی= United States of America؛ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امیریکہ}} [[شمالی امریکا]] میں واقع ایک ملک ہے۔ اسے عرف عام میں صرف یونائیٹڈ سٹیٹس (انگریزی: United States؛ ریاستہائے متحدہ) بھی کہتے ہیں جبکہ امریکا (انگریزی: America؛ امیریکہ) کا لفظ بھی زیادہ تر اسی ملک سے موسوم کیا جاتا ہے جو بعض ماہرین کے مطابق تکنیکی لحاظ سے غلط ہے۔
 
سطر 149 ⟵ 93:
=== یورپی نوآبادیاں ===
 
آج تک سب سے پہلا بندہ جس نے امریکا کی سرزمین پر باہر سے آکر قدم رکھا، وہ [[کرسٹوفر کولمبس]] ہے جس نے 19 نومبر 1493 کو ریو ڈی جنیریو میں اپنے دوسرے بحری سفر کے دوران میں سفر کیا تھا۔ سان جوان جو امریکا کی سرزمین پر پہلی یورپی نوآبادی تھی، 8 اگست 508 میں جوان پونسی ڈی لائن نے قائم کی۔ جوان پونسی ڈی لائن تاریخ کا پہلا یورپی بندہ بنا جس نے براعظم امریکا میں فلوریڈا کے ساحل پر 2 اپریل 1513 کو پہلا قدم رکھا۔ فلوریڈا ابتدائی یورپی نوآبادیوں کا مرکز بنی جن میں پنساکولا، فورٹ کیرولائن اور [[سینٹ آگسٹائن]] شامل ہیں۔ سینٹ آگسٹائن وہ واحد نو آبادی ہے جو اپنے قیام سے لے کر اب تک مسلسل آباد رہی ہے۔
 
فرانسیسیوں نے ملک کا شمال مشرقی حصہ، ہسپانیوں نے جنوبی اور مغربی حصہ آباد کاری کے لیے چنا۔ پہلی کامیاب انگریزی آبادکاری جیمز ٹاؤن، ورجینیا میں 1607ء میں قائم ہوئی۔ اس کے فورا بعد 1620ء میں پلے ماؤتھ، میسا چوسٹس میں بھی آباد کاری ہوئی۔ 1609ء اور 1617ء میں ولندیزی آبادکار موجودہ نیو یارک اور نیو جرسی کے علاقوں میں آباد ہوئے۔ 17ویں اور 18ویں صدی کے اوائل میں انگلینڈ (جو بعد ازاں عظیم برطانیہ بنا) نے ولندیزی کالونیوں پر قبضہ کرکے یا تو انہیں ختم کرکے یا تقسیم کرکے نئی نوآبادیاں بنائیں۔ 1729ء میں کیرولینا کی تقسیم کے بعد اور 1732ء میں جارجیا کی آبادکاری کے بعد برطانوی کالونیاں شمالی امریکا (موجودہ کینیڈا کے علاوہ) تک پھیل گئیں اور مشرقی اور مغربی فلوریڈا کی شاہی کالونیوں کو تیرہواں نمبر دیا گیا۔ بیشتر اصلی امریکی مار دیے گئے یا پھر دوسرے علاقوں کو چلے گئے۔
سطر 155 ⟵ 99:
=== امریکی انقلاب اور ابتدائی جمہوریہ ===
 
1760ء سے 1770ء کے دوران میں امریکی نو آبادیوں اور برطاونی راج کے درمیان میں جاری کشیدگی نے 1775ء کی کھلی لڑائی کا روپ دھار لیا۔ جارج واشنگٹن نے جنگ انقلاب کے دوران میں کانٹی نینٹل فوج کی سربراہی کی کیونکہ دوسری کانٹینینٹل کانگریس نے 4 جولائی 1776 کو آزادی کے اعلان کو قبول کر لیا تھا۔ کانگریس کا قیام اس لیے عمل میں آیا تھا تاکہ برطانوی اقدام کی مخالفت کی جاسکے لیکن اس کانگریس کو ٹیکسوں کے نفاذ کا اختیار حاصل نہیں تھا۔ 1777ء میں کانگریس نے آرٹیکل آف کنفیڈریشن کو تسلیم کیا جس کے تحت تمام ریاستیں ایک لچکدار وفاقی حکومت کے تحت اکٹھی ہو گئیں۔ یہ آرٹیکل 1781ء سے لے کر 1788ء تک نافذ العمل رہا۔ قومی حکومت کی کمزوری کی وجہ سے 1787ء کا آئین بنانا پڑا۔ جون 1788ء میں اکثر ریاستوں نے نئی حکومت کے قیام کے لیے ریاست ہائے متحدہ کو قبول کر لیا۔ آئین کے باعث اس اتحاد کو مضبوطی ملی اور وفاقی حکومت کو یہاں کی سب سے بڑی حکومت اور مقننہ تسلیم کر لیا گیا۔
 
=== مغربی توسیع ===
 
1803ء سے 1848ء تک اس نئی قوم کے حجم میں تین گنا اضافہ ہوا کیونکہ آباد کاروں کو مغربی سرحدوں سے باہر دھکیل دیا گیا۔ 1812ء کی جنگ<ref>{{cite web |url=http://nation.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-english-online/International/12-May-2011/Unprovoked-attacks-from-1812-to-911 |title=‘Unprovoked’ attacks, from 1812 to 9/11 |author=آیون ایلنڈ |date=12 مئی 2011ء |work= |publisher=[[روزنامہ دی نیشن|دی نیشن]] |accessdate=13 Mayمئی 2011| archiveurl = http://web.archive.org/web/20181225135138/https://nation.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-english-online/International/12-May-2011/Unprovoked-attacks-from-1812-to-911%20 | archivedate = 25 دسمبر 2018 }}</ref>
کی وجہ سے توسیع کچھ متاثر ہوئی لیکن امریکا-میکسیکو جنگ کے بعد 1848ء میں یہ اور زیادہ تیز ہوئی۔
 
سطر 175 ⟵ 119:
1914ء میں پہلی [[جنگ عظیم]] کے آغاز پر ریاست ہائے متحدہ غیر جانبدار رہی۔ تاہم 1917ء میں ریاست ہائے متحدہ نے اتحادیوں کا ساتھ دیا اور ان کے مخالفین کی شکست کا باعث بنا۔ تاریخی اعتبار سے بھی امریکا ہمدریاں برطانوی اور فرانسیسی طرف تھیں اگرچہ بہت بڑی تعداد میں جرمن اور آئرش عوام نے اس کی مخالفت بھی کی تھی۔ تاہم جنگ کے بعد، سینیٹ نے ورسیلز کے امن معاہدے میں شمولیت سے انکار کر دیا کیونکہ اس سے ریاست ہائے متحدہ کا عمل دخل یورپ میں بڑھ جانے کا خطرہ تھا۔ اس کی بجائے انہوں نے ایک طرف ہونے کو ترجیح دی۔
 
1920ء کے عشرے کے دوران میں زیادہ تر امریکا نے بہت زیادہ ترقی کے مزے لوٹے کیونکہ فارموں کی قیمتیں گریں اور صنعتی منافع جات بڑھے۔ اس کی وجہ سے 1929ء میں سٹاک مارکیٹ کریش ہوئی اور اس وجہ سے عظیم مندی دیکھنی پڑی۔ فرینکلن ڈیلانو روز ویلٹ نے 1932ء میں صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد اس ضمن میں ایک نیا منصوبہ بنایا اور اس سے معیشت میں حکومتی مداخلت بڑھی۔
 
1941ء تک امریکی قوم اس عظیم مندی کے اثرات سے پوری طرح باہر نہ آسکا تھا کہ [[پرل ہاربر]] پر ہونے والے حملے کی وجہ سے امریکا کو پھر اتحادی افواج کا ساتھ دینا پڑا۔ دوسری جنگ عظیم امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی جنگ ہے لیکن اس کی وجہ سے امریکی معیشت کو بہت سہارا ملا کیونکہ جنگی مال کی طلب کی وجہ سے نئی ملازمتیں پیدا ہوئیں اور خواتین کو بھی پہلی بار ملازمتوں میں حصہ ملا۔ جنگ کے دوران میں سائنسدانوں نے امریکا کی وفاقی حکومت کو دنیا کی پہلی [[ایٹمی طاقت]] بنانے کے لیے شب و روز کام کیا۔ یورپ میں اس جنگ کے خاتمے کے بعد، امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تاکہ بقول امریکی انتظامیہ اور [[ذرائع ابلاغ]] کے، "جنگ کو مکمل طور پر ختم کیا جاسکے"۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم، دنیا کے دوسرے اور تیسرے ایٹم بم تھے اور تاحال یہ کسی حکومت کی طرف سے جنگ میں استعمال کیے جانے کی واحد مثالیں ہیں۔<ref>[http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2007/08/070806_hiroshima_bomb.shtmlبی بی سی ڈاٹ کام، 6 اگست 2007ء،] "1945:امریکا نے ہیروشیما پر ایٹم بم گرا دیا"</ref>
 
اس کے فورا بعد، [[2 ستمبر]] [[1945ء]] میں جاپان نے ہتھیار ڈال دیے اور دوسری جنگ عظیم کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔
 
=== سرد جنگ اور شہری حقوق ===
جنگ عظیم کے خاتمے پر ریاست ہائے متحدہ اور سوویت یونین سپر پاور بن کر ابھرے اور ان کے درمیان میں جاری کشمکش نے سرد جنگ کا روپ اختیار کر لیا۔ امریکا نے عوام کی آزادی اور سرمایہ داری کو فروغ دیا جبکہ سوویت یونین نے کمیونزم اور مرکزی منصوبہ شدہ معیشت کو پروان چڑھایا۔ اس کا نتیجہ کئی بالواسطہ جنگوں کی صورت میں نکلا جن میں کوریا کی جنگ اور ویت نام، کیوبین میزائل بحران اور سوویت یونین کی افغانستان کے ساتھ جنگ شامل ہیں۔
 
اس اندازے کی بنیاد پر کہ ریاست ہائے متحدہ خلائی ریس میں بہت پیچھے رہ گیا ہے، کی وجہ سے سکولوں کی سطح پر سائنس اور ریاضی کی مہارت میں اضافے کے سلسلے میں حکومت نے بہت سے اقدامات اٹھائے۔ صدر [[جان ایف کینیڈی]] نے 1960ء میں اعلان کیا کہ وہ چاند پر پہلا آدمی بھیجیں گے اور 1969ء تک یہ بھی مکمل ہو گیا۔
 
اسی دوران میں امریکی معاشرہ معاشی پھیلاؤ کے متناسب دور سے گزرا۔ ساتھ ہی ساتھ عوام میں شعور بیدار ہوا اور مختلف تفریقوں کے لیے افریقی امریکی مثلا [[مارٹن لوتھر کنگ جونیئر]] نمایاں ہیں۔ اس کے نتیجے میں جم کرو قوانین کو جنوبی ریاستوں میں ختم کر دیا گیا۔
 
1991ء میں سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکا نے دوسرے ممالک کی جنگوں جیسا کہ خلیجی جنگ، میں مداخلت جاری رکھی۔ امریکا اب دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔
سطر 193 ⟵ 137:
{{اس|دہشت کے خلاف جنگ}}
 
[[11 ستمبر]] [[2001ء]] کو القاعدہ کے انیس ارکان نے چار کمرشل ہوائی جہازوں کو اغوا کر لیا۔ (بقول امریکا کے ) دو جہازوں کو نیو یارک شہر میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاوروں سے ٹکرا دیا گیا اور تیسرا جہاز پینٹاگون، واشنگٹن ڈی سی سے ٹکرا کر تباہ کیا گیا۔ چوتھا جہاز ہائی جیکرز اور مسافروں کے درمیان میں جنگ کی وجہ سے شانکسول، پینسلوانیا میں تباہ ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چوتھا جہاز اغوا ہوجانے کے بعد امریکی جنگی طیاروں نے خود ہی کسی مزید ممکنہ حملے کے خوف سے مار گرایا۔ [[نائن الیون]] کے حملوں کے بعد، امریکا [[خارجہ پالیسی]] [[دہشت گردی]] کی عالمی صورت حال پر مرکوز ہو گئی۔ جواب کے طور پر [[جارج ڈبلیو بش]] کی زیر صدارت، امریکی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت سارے فوجی اور قانونی آپریشن شروع کیے۔ [[دہشت پر جنگ|دہشت گردی کے خلاف جنگ]] [[8 اکتوبر]] 2001ء میں شروع ہوئی جب امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف فوجی کارروائی شروع ہوئی تاکہ القاعدہ کی تنظیم اور اس کے لیڈروں کو باہر نکالا جائے۔ 11 ستمبر کے واقعات نے امریکی تحفظ کے خلاف ہونے والے کسی بھی واقعے کے خلاف پیشگی حملوں کی پالیسی کو جنم دیا جسے بش ڈاکٹرائن کے نام سے جانا جاتا ہے۔
 
[[2002ء]] کو قوم سے خطاب کے دوران، صدر جارج ڈبلیو بش نے شمالی کوریا، عراق اور ایران کو برائی کا محور قرار دیا اور بتایا کہ یہ ممالک امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف بڑا خطرہ ہیں۔ اسی سال امریکا نے عراق میں حکومت کی تبدیلی کے اشارے دینا شروع کردیے۔ [[اقوام متحدہ]] کی کئی قراردوں کی ناکامی اور [[صدام حسین]] کی طرف سے ہتھیار ڈالنے سے انکار کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے مارچ [[2003ء]] میں عراق پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کے جواز کے طور پر امریکی حکومت نے کہا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے اور یہ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔ جنگ کے بعد بہت کم مقدار میں غیر ایٹمی ہتھیاروں کے چند ذخیرے ملے اور اس کے بعد امریکی حکومت نے اقرار کیا کہ انہوں نے غلط جاسوسی اطلاعات پر حملہ کیا تھا۔
 
=== انسانی حقوق ===
امریکی ذرائع ابلاغ آئین کے تحت شہریوں کو ترمیم 1 تا 5 کے تحت حاصل [[انسانی حقوق]] کا ذکر فخریہ کرتے ہیں۔ البتہ امریکی عدالتوں کے کئی فیصلے ان ترامیم کا لحاظ نہیں کرتے۔<ref>{{cite news |title=Court: No right to resist illegal cop entry into home |author= |url=http://www.nwitimes.com/news/local/govt-and-politics/article_ec169697-a19e-525f-a532-81b3df229697.html |newspaper=nwi.com |date= |accessdate=13 Mayمئی 2011| archiveurl = http://web.archive.org/web/20181225135133/http://www.nwitimes.com/news/local/govt-and-politics/article_ec169697-a19e-525f-a532-81b3df229697.html%20 | archivedate = 25 دسمبر 2018 }}</ref>
امریکی عدالت عظمیٰ کا حکم ہے کہ اگر حکومت [[قومی سلامتی]] کا خدشہ بتائے تو کوئی امریکی عدالت کسی شخص کی فریاد نہیں سُن سکتی۔<ref>{{cite news |title=Supreme Court Declines Rendition Torture Case Involving ‘State Secrets’
|author= |url=http://www.wired.com/threatlevel/2011/05/scotus-rendition-torture/ |newspaper=[[وائرڈ]] |date= |accessdate=17 Mayمئی 2011| archiveurl = http://web.archive.org/web/20181225135136/https://www.wired.com/2011/05/scotus-rendition-torture/%20/ | archivedate = 25 دسمبر 2018 }}</ref>
 
== طريق حكومت ==
سطر 215 ⟵ 159:
امریکی کانگریس دو ایوانوں پر مشتمل مقننہ ہے۔ ایوانِ نمائندگان( ہاؤس آف رپریزنٹیٹوز) کے ارکان کی تعداد 435 ہے، ہر ایک الگ ضلعے کی نمائندگی دو سال کے لیے کرتا ہے۔ ہر ریاست کو اس کی آبادی کی شرح سے سیٹوں کی تعداد ملتی ہے۔ آبادی کا تعین ہر دس سال بعد از سر نوء کیا جاتا ہے۔ ہر ریاست کو کم از کم ایک نمائندے کی اجازت ہوتی ہے: سات ریاستوں کے ایک ایک نمائندے ہیں، کیلیفورنیا کے نمائندگان کی تعداد سب سے زیادہ 53 ہے۔ ہر ریاست کے دو سینیٹر ہوتے ہیں جو ریاستی سطح پر چھ سال کے لیے منتخب ہوتے ہیںْ۔ ایک تہائی سینیٹ کے انتخابات ہر دوسرے سال منعقد ہوتے ہیں۔
 
ریاست ہائے متحدہ کا آئین امریکی نظام میں سب سے اعلٰیاعلیٰ قانونی دستاویز ہے اور اسے سماجی معاہدہ بھی سمجھا جاسکتا ہے جو امریکی شہریوں اور ان کی حکومت کے مابین ہے۔ وفاقی اور ریاستی حکومت کے تمام قوانین پر [[نظر ثانی]] کی جاتی ہے جو کسی طور پر بھی آئین کے خلاف ہوں اور عدلیہ انہیں ختم بھی کرسکتی ہے۔ آئین ایک زندہ دستاویز ہے اور اس میں ترمیم کئی طریقوں سے کی جاسکتی ہے لیکن اس کی بہر طور منظوری ریاستی اکثریت ہی دیتی ہے۔ اب تک آئین میں 27 بار ترمیم کی جاچکی ہے۔ آخری ترمیم 1992ء میں کی گئی۔
آئین میں آزادی کی ضمانت دی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی حقوق کی بھی وضاحت موجود ہے اور دیگر ترامیم بھی جن میں آزادئ اظہار رائے، مذہب، پریس کی آزادی، منصفانہ عدالتی کارروائی، ہتھیار رکھنا اور ان کا استعمال، ووٹ کا حق اور غریبوں کے حقوق شامل ہیں۔ تاہم ان قوانین کو کس حد تک استعمال کیا جا ئے، قابل بحث بات ہے۔ آئین ایک عوامی طرز کی حکومت کی ضمانت دیتا ہے لیکن اس کی بہت کم وضاحت کی گئی ہے۔
 
امریکی سیاست پر ریپبلک اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے اثرات بہت گہرے ہیں اور انہی جماعتوں کی حکمرانی ہے۔ وفاقی، ریاستی اور نچلے درجوں کی حکومت میں انہی پارٹیوں کی اکثریت موجود ہے۔ آزاد امیدوار نچلے درجوں پر بہتر کام کرسکتے ہیں اگرچہ ان کی کچھ مقدار سینیٹ اور ایوان نمائیندگان (ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز ) میں بھی موجود ہے۔ امریکی سیاسی کلچر کے مطابق ری پبلک پارٹی کو دائیں بازو کی جماعت یا قدامت پرست جماعت کہا جاتا ہے جبکہ ڈیمو کریٹک پارٹی کو بائیں بازو کی جماعت یا آزاد خیال جماعت کہا جاتا ہے۔ تاہم پارٹیوں کے حجم اور ان کے قوانین میں لچک کی وجہ سے دونوں پارٹیوں کے اراکین کی رائے بہت مرتبہ پارٹی سے مختلف بھی ہو جاتی ہے اور آپ محض پارٹی کے نام کی وجہ سے اس کے رائے کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔
 
2001ء سے امریکی صدرجارج ڈبلیوبش ایک ری پبلکن صدر تھے۔ اور 2006ء کے وسط مدتی انتخابات کے دوران میں ڈیمو کریٹس کو، 1994ء کے بعد دونوں ایوانوں میں پہلی بار اکثریت حاصل ہوئی ہے۔
 
=== حالت جمہوریت ===
سطر 229 ⟵ 173:
 
امریکا کا دنیا بھر میں وسیع معاشی، سیاسی اور فوجی اثر ہے جس کی وجہ سے اس کی خارجہ پالیسی دنیا بھر میں مباحثوں کا ایک پسندیدہ موضوع ہے۔ تقریباً تمام ممالک کے سفارت خانے واشنگٹن ڈی سی میں موجود ہیں اور قونصل خانے پورے ملک میں موجود ہوتے ہیں۔ تاہم کیوبا، ایران، [[شمالی کوریا]] اور سوڈان کے امریکا کے ساتھ کوئی خاص سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ امریکا اقوام متحدہ کا بانی رکن ہے اور اسے [[سلامتی کونسل]] میں مستقل نشست بھی ملی ہوئی ہے اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سے [[بین الاقوامی]] اداروں کا بھی رکن ہے۔
امریکا میں فوجی معاملات میں شہری کنٹرول کی طویل روایت موجود ہے۔ محکمہ دفاع کا کام [[امریکی مسلح افواج]] کو سنبھالنا ہے جو بری، بحری، میرین کارپس اور فضائی افواج پر مشتمل ہے۔ کوسٹ گارڈ زمانہ امن میں محکمہ داخلہ کے ذمے ہے اور دوران میں جنگ یہ بحری فوج کے ماتحت۔
 
امریکی فوج میں چودہ لاکھ افراد خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور کئی لاکھ مزید افراد ریزور اور نیشنل گارڈز کی صورت میں موجود ہیں۔ فوجی خدمات سر انجام دینا ایک رضاکارانہ فعل ہے تاہم بعض اوقات عام لام بندی کے احکامات بھی دیے جا سکتے ہیں۔ امریکا کی فوج دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور فوج ہے۔ اس کا بجٹ بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ امریکی فوجی بجٹ 2005 میں امریکا کے بعد آنے والے چودہ ممالک کے فوجی بجٹ سے زیادہ ہے۔ مزے کی بات کہ امریکا کا فوجی بجٹ کل ملکی آمدنی کا صرف چار فیصد ہے۔ [[امریکی فوج]] کے زیر انتظام 700 سے زیادہ مراکز ہیں۔ انٹارکٹیکا کے سوا دنیا کے ہر براعظم میں اس کے فوجی مراکز موجود ہیں۔
سطر 264 ⟵ 208:
 
امریکی معیشت کا زیادہ تر حصہ خدمات سے حاصل ہوتا ہے جہاں کل افراد کا تین چوتھائی حصہ کام کرتا ہے۔ صنعتی زوال کی وجہ سے 2011ء میں 22 ملین افراد حکومت کے ملازم تھے اور صناعی میں 11 ملین، جبکہ 1960ء میں صورت حال اس کے برعکس تھی۔<ref>{{cite news |title=We've Become a Nation of Takers, Not Makers:
More Americans work for the government than in manufacturing, farming, fishing, forestry, mining and utilities combined. |author=اسٹیفم موور |url=http://online.wsj.com/article/SB10001424052748704050204576219073867182108.html |newspaper= |date=[[وال سٹریٹ جورنل]]1 اپریل 2011ء |accessdate=2 Aprilاپریل 2011| archiveurl = http://web.archive.org/web/20181225135131/https://www.wsj.com/articles/SB10001424052748704050204576219073867182108 | archivedate = 25 دسمبر 2018 }}</ref>
 
ملک کی معیشت کا بہت بڑا حصہ قدرتی ذرائع کی کثرت ہے جیسا کہ کوئلہ، تیل اور قیمتی دھاتیں۔ تاہم ابھی تک یہ ملک اپنی توانائی کے لیے زیادہ تر دیگر ممالک پر انحصار کرتا ہے۔ زراعت میں مکئی، سورج مکھی، چاول اور گندم کی پیداوار کے لیے یہ ملک پہلے نمبر پر ہے۔ امریکا میں سیاحت کی کافی وسیع صنعت موجود ہے اور یہ دنیا میں تیسری نمبر پر آتی ہے۔ اس کے علاوہ ہوائی جہازوں، سٹیل، ہتھیاروں اور الیکٹرانکس کی مصنوعات کی برآمد کے لیے امریکا کا بہت بڑا حصہ ہے۔ کینیڈا امریکا کی بیرونی تجارت میں انیس فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پے اور اس کے بعد چین، میکسیکو اور جاپان کے نمبر آتے ہیں۔
سطر 274 ⟵ 218:
== ایجادات ==
 
امریکا اپنی سائنسی اور ٹیکنالوجی کی ایجادات کی وجہ سے اور نئی ایجاد ہونے والی مصنوعات کی پیداوار کے لیے بہت مشہور ہے۔ تحقیق و ترویج کے لیے فنڈز کا 69% حصہ پرائیوٹ سیکٹر سے ملتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے ایٹم بم کی ایجاد کے کام کی سربراہی کی اور نئے ایٹمی دور کی بنیاد قائم کی۔ سرد جنگ کے آغاز میں امریکا نے خلائی سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت کامیابیاں حاصل کیں اور [[خلائی دوڑ]] کا آغاز بھی کیا۔ اس دوران میں امریکا نے راکٹ، ہتھیاروں، مادی سائنسوں، کمپیوٹروں اور دیگر شعبوں میں ترقی کی۔ ٹیکنالوجی میں ترقی کی معراج تب دکھائی دی جب نیل آرم سٹرانگ نے پہلی بار جولائی 1969ء میں اپالو 11 کی مدد سے چاند پر قدم رکھا۔ اسی طرح امریکا نے انٹرنیٹ اور اس سے پہلے آرپا نیٹ کو بھی بنایا۔ امریکا اپنے زیادہ تر انفراسٹرکچر کو خود ہی کنٹرول کرتا ہے۔
 
سائنسی بالخصوص فزیالوجی اور میڈیسن میں امریکیوں نے بہت زیادہ نوبل پرائز حاصل کیے ہیں۔ قومی ادارہ برائے صحت بائیو میڈیسن کے لیے امریکا کا مرکز ہے اور پرائیوٹ فنڈ سے چلنے والا ادارہ سیلیرا جی نومکس نے انسانی جینیاتی پروجیکٹ کی تکمیل میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہوابازی اور خلا کے لیے ناسا کا کردار بہت اہم ہے۔ بوئنگ اور لاک ہیڈ مارٹن بھی بہت اہم ہیں۔
سطر 284 ⟵ 228:
عوام کے سفر کے لیے نظام بڑے شہروں میں موجود ہیں جیسا کہ نیو یارک میں دنیا کا بہت مصروف سب وے سسٹم موجود ہے۔ چند شہروں کے سوا، اکثر امریکی شہر نسبتا کم گنجان آباد ہیں اور اس کی وجہ سے اکثر خاندانوں کے پاس ذاتی گاڑیاں لازمی چیز بن گئی ہیں۔
 
امریکا پرائیوٹ مسافر ریل کی پٹڑیوں کے لیے بھی منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ 1970ء کے دوران میں حکومت نے مداخلت کرکے انہیں باقاعدہ کیا اور تمام پیسنجر سروسوں کو حکومتی ماتحت ایمٹریک کارپوریشن کے ماتحت کر دیا۔ امریکا کا ریلوے کا نظام دنیا میں سب سے بڑا نظام ہے۔
 
لمبے فاصلے کے لیے مسافر ہوائی سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ مسافروں کی تعداد کے لحاظ سے 2004ء میں دنیا کے تیس مصروف ترین ایئرپورٹس میں سے سترہ امریکی شمار ہوتے تھے۔ مسافروں کے لحاظ سے دنیا کا سب سے مصروف ائیر پورٹ ہارٹس فیلڈ جیکسن اٹلانٹا انٹرنیشنل ایئر پورٹ امریکا میں ہی ہے۔ اسی طرح سامان کی منتقلی کے لیے دنیا کے تیس مصروف ترین ائیر پورٹوں میں سے بارہ امریکا میں ہیں۔ سامان کی منتقلی کے لیے دنیا کا سب سے مصروف ایئر پورٹ ممفس انٹرنیشنل ائیر پورٹ ہے۔
 
دنیا کی کئی بڑی بندرگاہیں امریکا میں ہیں جن میں سے تین سب سے زیادہ مصروف ،کیلیفورنیا کی لاس اینجلس بندرگاہ، لانگ بیچ کی بندرگاہ اور نیویارک اور نیو جرسی کی بندرگاہ شامل ہیں۔ امریکا کے اندر بھی آبی نقل و حمل کے لیے [[سینٹ لارنس بحری گزرگاہ|سینٹ لارنس کی بحری گزرگاہ]] اور دریائے مسی سیپی بہت مشہور ہیں اٹلانٹک اور گریٹ لیک کے درمیان میں بننے والی پہلی نہر ایری کینال نے زراعت اور صنعت کو وسط مغربی امریکا میں بہت ترقی دی اور [[نیویارک شہر]] کو ملک کا معاشی مرکز بنا دیا۔
 
== آبادی ==
سطر 303 ⟵ 247:
 
=== بصری فنون لطیفہ ===
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں امریکی [[فنون لطیفہ]] نے یورپ سے بہت اثر لیا۔ مصوری، مجسمہ سازی اور ادب کے لیے یورپ کی تقلید کی گئی اور پورپ سے اس کی قبولیت کو معیار بنایا گیا۔ [[امریکی خانہ جنگی]] کے اختتام تک امریکی ادب کی تخلیق شروع ہو گئی تھی۔ مارک ٹوئین، ایمائیلی ڈکنسن اور والٹ وہائٹ مین نے سب کچھ امریکی انداز میں پیش کرنا شروع کیا۔ بصری فنون میں امریکی اثرات بہت آہستہ روی سے مرتب ہوئے۔ 1913ء میں نیویارک میں ہونے والے آرمری شو کے دوران میں ایک نمائش منعقد ہوئی جس میں یورپی جدت پسند فنکاروں کا امریکا کے لیے کیا جانے والا کام سامنے لایا گیا اور اس نے نہ صرف عوام کو جھنجھوڑا بلکہ بیسوی صدی کے بقیہ حصے میں اپنے اثرات مرتب کیے۔ اس نمائش کے دو سطحی اثرات واقع ہوئے جس میں انہوں نے امریکی فنکاروں کو یہ دکھایا کہ فنون لطیفہ اپنے خیالات کا اظہار ہے اور یہ کوئی ادبی یا حقیقت پسندی کو ظاہر نہیں کرتی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دکھایا کہ یورپ فنکاروں کے کام پر تنقید کے لیے اپنے قدیم خیالات کو چھوڑ چکا ہے جن میں فنکاروں کو سختی کے ساتھ اصولوں کی پاسداری کرنی پڑتی تھی۔ اس سے امریکی فنکاروں کو اپنی شناخت کا موقع ملا اور ایک جدت پسندی کی مہم چلی اور امریکی تہذیب ابھر کر سامنے آئی۔ ایلفرڈ سٹی گلیٹز (1864ء سے 1946ء) فوٹو گرافر، چارلس ڈی متھ (1883ء سے 1935ء) اور مارسڈین ہارٹلے (1877ء سے 1943ء)، دونوں مصوروں نے فنون لطیفہ کے حوالے سے امریکا کا مقام بنایا۔ ماڈرن آرٹ کے عجائب گھر، جو نیو یارک میں 1929ء میں بنایا گیا، امریکی اور بین الاقوامی فنون لطیفہ کا شوکیس بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے فیصلے کے بعد دنیا کے فنون لطیفہ کا مرکز پیرس سے منتقل ہو کر امریکا میں منتقل ہو گیا۔
 
=== موسیقی ===
سطر 353 ⟵ 297:
[[زمرہ:وفاقی آئینی جمہوریتیں]]
[[زمرہ:وفاقی ممالک]]
 
<!-- [iRef] -->==(مراجع)==
{{حوالہ جات}}<!-- [/iRef] -->
 
<!--[iRef]-->==(مراجع)==
<references /><!--[/iRef]-->