"صادق محمد خان سوم" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←سلسلہ نسب: نیا صفحہ (ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم) |
م خودکار: خودکار درستی املا ← موقع، اور، وزیر اعظم، دیے، کر دیا، کارروائی، ہو گیا؛ تزئینی تبدیلیاں |
||
سطر 9:
# صاحبزادہ حاجی خان کی بجائے سعادت یار خان کو اس کا وارث تسلیم کیا جائے
# نواب محمد بہاول خان سوم کو ایک لاکھ روپے سالانہ وظیفے کی بجائے زمین بطور جاگیر دی جائے
# قبل ازیں انواب محمد بہاول خان سوم کو رنجیت سنگھ سے اجارہ میں ملنے والے علاقے (دریاؤں کے پار) اسے پٹے پر
# نواب محمد بہاول خان سوم کو عطا کردہ کوٹ سبزل علاقے کو روہڑی تک توسیع دی جائے گی جیسا کہ جزل نیپیر نے وعدہ کیا تھا۔
18 جنوری کو لارڈ ڈلہوزی نے اپنے جواب میں سعادت یار خان کو ولی عہد مان لیا اور اسے 21 خلعتوں سے نوازا۔
سطر 19:
== کابینہ ==
نواب صادق محمد خان سوم نے درج ذیل تقرریاں کیں۔
*
* توشہ خان کا نگران : لالہ سلامت رائے
* میر منشی : لال خان چند
سطر 31:
# 11 محرم کونواب صادق محمد خان سوم نے متعدد حکام کو برطرف کیا جن میں کیپٹن ہول بھی شامل تھا جس نے ملتان میں ریاست کے لیے بہت اچھی خدمات انجام دی تھیں اور ان میں جمعدار احمد خان ملیزئی ( نواب [[محمد بہاول خان چہارم]] کا وزیر) بھی شامل تھا۔ موخر الذکر کو اہل خانہ سمیت وطن بدر کر دیا گیا۔
# نواب صادق محمد خان سوم نے فقیر سراج الدین کو بھی صاحبزادہ حاجی خان کے ساتھ مل کر سازش کرنے کا الزام دیا۔ فقیر سراج الدین گرفتاری سے بچنے کی خاطر یکم ربیع الثانی کو ریاست چھوڑ کر چلا گیا۔
# سر ہنری لانس نے نواب صادق محمد خان سوم کو اخراجات کم کرنے کی ہدایت کی تھی جس پر عمل کرنے کی وجہ سے متعدد گھوڑ سوار فارغ کر دیے گئے اور چند ایک خادم ہی نواب کے پاس رہ گئے۔ داؤد پوتروں اور دیگر کوتخت نشینی کے
ان اقدامات کے نتیجے میں لوگوں کے درمیان کافی بے چینی پیدا ہوئی۔ کیٹین ہول، سراج الدین اور دیگر پناه گزینوں نے آدم واہن کو لما کے امیروں اور داؤد پوتروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کا گڑھ بنایا۔ ان سب کا مقصد یہ تھا کہ عقیل خان، سردار
== صاحبزادہ حاجی خان کی رہائی ==
نواب صادق محمد خان سوم کے خلاف سازش کرنے والوں نے بنگل خان، بہرام خان چوندیا، علی بخش دستی، احمد خان دستی، خدا بخش خان ہالانی، اللہ بچایا خان، محمد یار خان اور خان محمد خان کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا اور سب سازشیوں نے قرآن پر حلف لیا کہ شہزادہ حاجی خان کو بچائیں گے۔
چنانچہ 29 ربیع الثانی 1269ھ کو وہ ایک سو داؤد پوتروں کو لے کر فتح گڑھ کے لیے روانہ ہوئے اور رات کے وقت قلعے کے پھاٹک میں نقب لگانا شروع کی۔ قلعے کی فوج نے خوف زدہ ہو کر دروازے کھول دیے۔ داؤد پوتروں کے داخل ہونے پر ایک ہندو نے صاحبزادہ حاجی خان کو ہلاک کرنے کی کوشش کی لیکن علی بخش دستی نے اس کی کوشش ناکام بنا دی۔ علی بخش دستی حملہ آور سے چھینی ہوئی تلوار کا وار کر کے اسے مار ہی ڈالتا لیکن شہزادے نے مداخلت کر کے بچا لیا۔ سازشی شہزادے کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر تین میل تک لے گئے۔ اس کے بعد اونٹ پر سوار کر کے خان پور پہنچایا جہاں سراج الدین، کیپٹن ہول اور غلام محمد خان ملیزئی ( جمعدار احمد خان کا بھائی) بھی ان سے آملے۔ دیگر داؤد پوترے اور لما کے چھوٹے موٹے امیر بھی آئے۔
== بغاوت کے منصوبے ==
صاحبزادہ حاجی خان کی رہائی کی خبر 9 فروری کو نواب صادق محمد خان سوم تک پہنچی اور اسے مشورہ دیا گیا کہ فوراً حاجی خان کے تعاقب میں روانہ ہو جائے لیکن اس نے تمام مشوروں کو رد کرتے ہوئے خان پور کے حکام کو ہی احکامات جاری کرنے پر ہی اکتفا کیا کہ شہزادے کو حراست میں لے لیا جائے۔ نواب کا یہ حکم کوئی
== حاجی خان کی بغاوت ==
12 فروری 1853ء کو نواب کی افواج گوٹھ چی پہنچیں جہاں انہیں احمد خان دشتی اور بہرام خان چانڈیا کی زیر قیادت ایک بڑی فوج مخالفت کے لیے تیاری ملی۔ نواب کے سپہ سالاروں نے ہدایات مانگیں کہ آیا رکاوٹ ڈالیں یا انتظار کرنے کی پالیسی کے ذریعے دشمن پر ہیبت طاری کریں۔ جواب میں نواب نے معز الدین اور سردار خان لکوزئی کو حکم بھیجا کہ ہر سپاہی کو ایک گریجوئیٹی دیں اور یوں انہیں دشمن پر غلبہ پانے کی ترغیب دلائیں لیکن نواب کے احکامات ایمان داری سے آگے نہ پہنچائے گئے کیونکہ سرفراز خان نے کیولری کو ان کی گریجوئیٹی تو ادا کر دی لیکن انفنٹری کو کچھ بھی نہ ملا تو انہوں نے نواب کی مخالفت کا حلف اٹھایا۔
15 فروری کو فقیر سراج الدین، علی گوہر خان اور احمد خان چونڈیا نے چار ہزار آدمیوں کے ہمراہ گوٹھ چینی کی طرف مارچ کیا اور نواب کی افواج کو مختلف وعدوں کے ذریعے بہانے پھسلانے لگے۔ نتیجتاً 17 فروری کو جھانسے میں آئے ہوئے سپاہی پانچ توپوں سمیت حاجی خان کے پاس چلے گئے جبکہ ان کے افسران (جن میں سے کچھ ایک پہلے ہی اس کی طرف مائل ہو چکے تھے ) اپنے گھروں کی طرف نکل گئے۔
18 فروری کو حاجی خان خان پور کے معاملات سلجھانے کے بعد چودھری کے مقام پر پہنچا۔ راستے میں ملنے والے لوگوں نے اظہار اطاعت کیا۔ 19 فروری کو غروب آفتاب کے وقت وہ احمد پور ایسٹ (شرقیہ) میں داخل ہوا۔ شہر میں چراغاں کیا گیا اور سلامی کی توپیں فائز ہوئیں ۔ یہاں حاجی خان نے نواب [[فتح محمد خان]] کا خطاب اختیار کیا۔ 20 فروری کو قلعہ دراوڑ کی فوج نے نئے نواب کو پیغام اطاعت بھیجا۔ اس نے فقیر سراج الدین کو اپنی افواج کا کمان دار تعینات کرتے ہوئے حکم دیا کہ دراوڑ پر قبضہ کیا جائے ۔ اس کے وہاں پہنچنے پر قلعے کی فوج اس کے ساتھ مل گئی اور قلعہ بغیر مدافعت کے فتح ہو گیا
== نواب کی گرفتاری ==
منشی چوکس رائے اپنے اہل خانہ سمیت قلعے سے فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا اور اس کے قبضے سے دس ہزار طلائی مہریں اور زیور برآمد ہوئے۔ صلح نامہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لاہور جا کر انگریزوں سے مدد مانگنا چاہتا تھا۔
دراوڑ کی تسخیر کے بعد نواب صادق محمد خان سوم کو غلے کے ایک گودام میں قید کر لیا گیا اور اس کے حامیوں کو بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ نیا نواب 22 فروری کو دراوڑ میں فاتحانہ داخل ہوا اور سعادت یار خان کی جان بخش دی۔
سطر 58:
5 مارچ 1853ء کو مقامی پولیٹکل ایجنٹ پیر ابراہیم خان نے نواب کو پنجاب کے چیف کمشنر سر جان لارنس کی
طرف سے آیا ہوا ایک خط پیش کیا جس میں درخواست کی گئی تھی کہ معزول نواب کو اہل خانہ سمیت ملتان بھیج دیا جائے۔
نواب نے جواب میں لکھا کہ اسے برطانوی حکومت کا حکم ماننے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں لیکن بہ امر حقیقت اس نے تخت پر بالکل جائز حق جتایا تھا اور وہ سعادت یار خان (نواب صادق محمد خان سوم) کا جانی دشمن نہیں تھا نیز اگر برطانوی حکام معزول نواب کو لاہور یا جالندھر بھیج دے تو اسے کوئی اعتراض نہ ہو گا لیکن برطانوی حکام کو نواب فتح محمد خان کو بہاولپور کا حکمران تسلیم کرنا ہو گا۔
ملتان کا کمشنر مسٹر پی ایم ایجورتھ 30 مارچ کو بہاولپور پہنچا۔ نواب نے کمشنر سے درخواست کی کہ سعادت یار خان کو برطانوی حکام کے حوالے کر دینے کے لیے وہ تیار ہے بشرطیکہ وہ اپنے دعووں سے دست بردار ہو جائے اور اس سلسلے میں ایک باقاعدہ معاہدے پر دستخط کرے۔ چنانچہ سعادت یار خان کو یکم اپریل کو بہاولپور لایا گیا۔ مسٹر ایجورتھ
# اسے ریاست کے خزانے سے 1600 روپے ماہانہ بطور پنشن ملیں گے
# وہ لاہور یا جالندھر میں رہنے کا انتخاب کر سکتا ہے۔
معزول نواب نے یہ شرائط قبول کر لیں لیکن درخواست کی کہ اس کے بھائی اور ماں کو ساتھ ہی رہنے دیا جائے۔
شروع میں تو نواب فتح محمد خان نے اس درخواست پر اعتراض کیا لیکن انجام کارمسٹرایجورتھ کی سفارش پر راضی
* عوامی دربار2 اپریل کو دوبارہ منعقد ہوا۔ ملتان کے کمشنر نے معزول نواب کی رہائی کی شرائط پڑھ کر سنائیں۔ اس کی دست برداری کا معاہدہ دستخط کروانے کے بعد فتح محمد خان کو دیا اور ایک نقل اپنے پاس رکھ لی۔ اسی دن شام کو سعادت یار خان اور اس کے اہل خانہ کو 100 سواروں کے محافظ دستے کے ہمراہ ملتان بھیجا گیا۔ بہاولپور شہر میں اس رات چراغاں ہوا اور سلامی کی توپیں فائر کی گئیں۔ برطانوی حکومت نے نئے نواب کوخلعت بھی بھیجی۔
== داؤد پوتروں کے نام خط ==
لاہور کے قلعے میں نظر بند سعادت یار خان کو دست برداری پر پچھتاوا ہوا کیونکہ اب اس کا نصف الاونس معطل
== وفات ==
|