"اردو تراجم قرآن کی فہرست" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← نہ ہو
سطر 5:
== بلحاظ صدی ==
=== انیسویں صدی ===
* عبد اللہ ہوگلی 1869ء بمطابق 1245ھ عبد اللہ سید 1869ء بمطابق 1254ھ کا ٹائپ شدہ ترجمہ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد دکن میں موجود ہے یہ ترجمہ آٹھ سو پچاس صفحات پر مشتمل ہے۔
عبد اللہ ہوگلی 1869ء بمطابق 1245ھ
 
عبد اللہ سید 1869ء بمطابق 1254ھ کا ٹائپ شدہ ترجمہ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد دکن میں موجود ہے یہ ترجمہ آٹھ سو پچاس صفحات پر مشتمل ہے۔
* سید علی مجتہد 1836ء بمطابق 1252ھ کا ترجمہ وتفسیر ’توضیح مجید میں تنقیح کلام اللہ الحمید‘ کے نام سے چار جلدوں میں حیدری پریس سے بمبئی سے شائع ہوا۔<br />

* کرامت علی جونپوری 1837ء 1253ھ کا یہ ترجمہ ’ کوکب دری‘ کے سرکار عالی، حیدرآباد دکن میں موجود ہے۔
 
* مولوی [[انور علی]] لکھنوی 1255ھ بمطابق 1839 میں قرآن کا ترجمہ کیا جو [[کتب خانہ]] آصفیہ سرکار عالی حیدرآباد دکن میں موجود ہے۔
شاہ رفیع الدین دہلوی محدث دہلوی 1840ء بمطابق 1256ھ کے اس ترجمے کی اشاعت شاہ عبد القادر کے فوائد ’ موضح قرآن‘ کے ساتھ کلکتہ کے ایک قدیم مطبع بنام اسلامی پریس میں طبع ہوا۔ یہ پہلا ایڈیشن دو جلدوں میں بالترتیب 1838ء بمطابق 1254ھ اور 1840ء بمطابق 1256ھ میں طبع ہوا۔<br />* سید [[صفدر حسین]] مودودی 1844ء بمطابق 1260ھ کا ترجمہ وتفسیر قرآن مجید مع ختم الصحائف مترجم میاں محمود الحسن کا لیہ ضلع لائل پور کی ملکیت میں موجود ہے۔<br />* سکندر علی خاں نواب مالیر کوٹلہ 1852ء بمطابق 1268ھ کا ترجمہ ’تفسیر رحمانی ‘ کے نام سے مجتبائی پریس دہلی سے طبع ہوا۔ آٹھ سو اڑتالیس (848) صفحات پر پھلا ہوا ہے۔ اس کے حاشیہ پر شاہ عبد القادر دہلوی کا موضح قرآن دیا گیا ہے۔ بیت القرآن لاہور میں اس کا ایک نسخہ موجود ہے۔<br />* صبغۃ اللہ قاضی محمد بدر الدولہ 1860ء بمطابق 1277ھ نے ترجمہ وتفیسر ’فیض الکریم‘ لکھنی شروع کی جسے ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے مفتی محمد سعید اور [[مفتی محمود]] نے مکمل کرنے کی کوشش مگر دونوں اپنی وفات کی وجہ سے مکمل نہ کر سکے۔ ان کے بعد ان کے پوتے مولانا ناصر الدین نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ گویا ترجمہ وتفسیر فیض الکریم تین پشتوں اور چار علما کی محنت کا نتیجہ ہے۔<br />* نواب قطب الدین خان بہادر دہلوی 1866ء بمطابق 1283ھ نے جامع التفسیر لکھی۔ سورۃ اعلیٰ سے سورۃ الناس کا ترجمہ ان کے شاگرد مولوی عبد القادر نے مکمل کیا۔ کانپور کے نظامی پریس میں 1866 میں طبع ہوئی۔<br />* مولانا یعقوب حسن(1866ء بمطابق 1283ھ) کا ’جمائل شریف مترجمہ اردو‘ کے نام سے اردو ترجمہ قرآن آگرہ کے مینی پریس شائع ہوا۔ یہ دراصل [[تفسیر جلالین]] کا عربی سے اردو ترجمہ ہے۔<br />* مولوی عبد الغفور خاں ( 1867ء بمطابق 1284ھ) کا اردو ترجمہ جو تفسیر کے ساتھ بنام ’حدائق البیان فی معارف القرآن‘ مطبع فاروقی، دہلی سے شائع ہوا۔<br />* سید ظہیر الدین بگرامی ( 1873ء بمطابق 1290ھ) کا ترجمہ قرآن مجید [[برٹش میوزیم]] لائبریری لندن میں موجود ہے۔ یہ ترجمہ چھ سو چوالیس صفحات پر مشتمل ہے۔<br />* رؤف احمد رافت نقشبندی مجددی 1876ء بمطابق 1293ھ کا ترجمہ 1832ء تک ’تفسیر رؤفی‘ کے ضمن میں ہوتا رہا۔ اس تفسیر کا دوسرا نام ’تفسیر مجددی‘ بھی ہے۔<br />* [[محمد حسین]] نقوی کا ترجمہ تفسیر (1876ء بمطابق 1293ھ) میں شائع ہوئی۔
 
یہ ترجمہ اور تفسیر مرتضوی پریس دہلی میں طبع ہوئی۔ اس کا مکمل نام معاملات الاسرار فی مکاشافات الاخبار معروف بتفسیر حضرت شاہی ہے۔
* شاہ رفیع الدین دہلوی محدث دہلوی 1840ء بمطابق 1256ھ کے اس ترجمے کی اشاعت شاہ عبد القادر کے فوائد ’ موضح قرآن‘ کے ساتھ کلکتہ کے ایک قدیم مطبع بنام اسلامی پریس میں طبع ہوا۔ یہ پہلا ایڈیشن دو جلدوں میں بالترتیب 1838ء بمطابق 1254ھ اور 1840ء بمطابق 1256ھ میں طبع ہوا۔
فخر الدین احمد قادری کا ترجمہ 1879ء بمطابق 1296ھ میں شائع ہوا۔ یہ دو جلدوں پر مشتمل تھا۔ ’تفسیر قادری‘ کے نام سے یہ ترجمہ لکھنؤ میں شائع ہوا۔<br />* کنھیا لال لکھداری کا ترجمہ 1882ء بمطابق 1299ھ میں شائع ہوا۔ یہ ترجمہ شاہ عبد القادر دہلوی کے ترجمہ قرآن سے مدد لیتے ہوئے کیا گیا۔ یہ ترجمہ سردار جگجوت سنگھ، نبیرہ راجا رنجیت سنگھ کی فرمائش پر عربی متن کے بغیر لکھا گیا۔ مترجم کی تصویر جو ہندو تھاکی تصویر پہلے صفحے پر چھپی ہے۔ یہ دھرم بک لدھیانہ سے شائع ہوا۔<br />* عبد الصمد کا ترجمہ 1885ء بمطابق 1302ھ میں ’ جواہر الصمدیہ‘ کے عنوان سے مطبع فاروقی، دہلی سے شائع ہوا۔ اس کو جملہ سورتوں کے مضامین کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے۔ یہ دور سو پچھتر (275) صفحات پر مشتمل مختصر تفسیر بھی ہے۔<br />* محمد [[احتشام الدین]] مراد آبادی کا ترجمہ 1885ء بمطابق 1303 میں لکھا گیا اور ضخیم تفسیر بھی ہے۔ جو ’تفسیر اکبر اعظم کے نام سے موسوم‘ ہے۔ ترجمہ سلیس اور پر اثر ہے۔<br />* سید علی لکھنوی کا ترجمہ 1895ء بمطابق 1313ھ کا ہے۔ یہ ترجمہ اور تفسیر بنام ’تنویر البیان‘ کے نام سے مطبع اعجاز محمد ی آگرہ سے شائع ہوا۔<br />* سید زین العابدین نے قرآن کا ترجمہ 1886ء بمطابق 1304ھ میں کیا۔ یہ کاشف النعم کے نام سے کیا گیا ہے۔ [[الہ آباد]] میں ہندوستانی اکیڈمی کے تحت شائع ہوا۔<br />* مولوی فخر الدین احمد کی تفسیر 1886ء بمطابق 1304ھ میں آئی۔ مولوی صاحب کی تفسیر ’ تفسیر قادری ‘ تفسیر حسینی کا ترجمہ ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1300ھ بمطابق 1882ء میں لکھنؤ میں شائع ہوا۔
 
اور دوسرا ایڈیشن لکھنؤ کے نول کشور پریس میں 1304ھ یعنی 1886ء میں شائع ہوا۔
* سید [[صفدر حسین]] مودودی 1844ء بمطابق 1260ھ کا ترجمہ وتفسیر قرآن مجید مع ختم الصحائف مترجم میاں محمود الحسن کا لیہ ضلع لائل پور کی ملکیت میں موجود ہے۔
سید محمد علی کا ترجمہ مع مبسوط حواشی کے 1886ء بمطابق 1303ھ میں دو جلدوں میں شائع ہوا۔ یہ لکھنؤ کے حاجی محمد قلی خان کانپوری پریس میں طبع ہوا۔ متن کے بغیر پہلا ترجمہ پاک وہند میں ہوا جو ایک شیعہ عالم نے کیا۔ العابدین کا ترجمہ 1887ء بمطابق 1304ھ میں شائع ہوا۔ <br />* حکیم [[سید محمد]] حسن امروھی کی 1887ء بمطابق 1305ھ میں ترجمہ وتفسیر ’غایۃ الب رہان‘ کے نام سے شائؔع ہوئی۔ یہ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلا ایڈیشن امردھ کے مراد آباد میں اور دوسرا امرود معی سے ریاضی پریس سے طبع ہوا۔<br />* سیدنور الحق منعم نے 188ء بمطابق 1305ھ میں نواب سید محمد [[فیض اللہ خان]] کی فرمائش پر ترجمہ وتفسیر لکھی تھی۔ <br />* ابو محمد ابراہیم بن الحکیم عبد العلی آروی نے 1889ء بمطابق 1307ھ میں قرآن کا ترجمہ ’ تفسیر خلیلی ‘ کیا یہ آرہ کے مطبع خلیلی میں طبع ہوا۔<br />* سید عمار علی رئیس نے 1890ء بمطابق 1307ھ میں ترجمہ اور تفسیر کیا۔ یہ تفیسر ’ عمدۃ البیان‘ کے نام سے دہلی کے مطبع یوسفی سے شائع ہوا۔ یہ ایک ہزار چھ سو چوہتر 1674 صفحات پر مشتمل ہے۔<br />* احسان اللہ محمد عباسی گورکھپوری نے 1892ء بمطابق 1310ھ میں ترجمہ لکھا۔ یہ اسعدی پریس گھور کھپور میں شائع ہوا۔ احسان اللہ [[محمد عباس]] اردو کے معروف مصنف ہیں۔ <br />* مولوی [[محمد باقر]] کا ترجمہ 1893ء بمطابق 1310ھ میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوا۔<br />* ریونڈ ڈاکٹر امام الدین امر تسری کا ترجمہ 1894ء بمطابق 1312ھ میں الہ آباد کے پریس کرسچن مشن مین چھپا تھا۔ مترجم کے نام اور پریس کے سے اندازہ ہوتا ہے یہ ترجمہ کیسا ہے۔ مسیحیت کی جانب سے ایک پروپیگنڈہ ہے۔<br />* فیروز الدین ڈسکوی سیالکوٹ کا ترجمہ مع حواشی 1894ء بمطابق 1312ھ میں لکھا گیا۔<br />* محمد احتشام الدین مراد آبادی کی مترجم تفسیر 1895ء بمطابق 1313ھ میں تفسیر اکبر اعظم کے نام سے طبع ہوئی اس کا دوسرا ایڈیشن نو جلدوں پر مشتمل ہے۔ جو نول کشور پریس میں لکھنؤ سے طبع ہوا۔ ترجمہ سلیس اور پر اثر ہے۔<br />* مولانا ثناء اللہ امر تسری کا 1895ء بمطابق 1313ھ میں ترجمہ سات جلدوں میں طبع ہوا۔ حواشی سمیت یہ ترجمہ ثنائی کے نام سے امر تسر کے چشمہ نور پریس سے شائع ہوتا رہا۔<br />* سید علی لکھنوی کا ترجمہ 1895ء بمطابق 1313ھ میں ’ تنویر البیان‘ کے نام سے مطبع اعجاز محمدی آگرہ سے شائع ہوا۔<br />* مولوی حمید اللہ میرٹھی نے تفسیر وترجمہ 1897ء بمطابق 1315ھ میں کیا۔ یہ ترجمہ مطبعہ فاروقی میں طبع ہوا۔ دیپاچہ میں تفسیر کا نام ’ حدیث التفاسیر‘ دیا گیا ہے۔<br />* مولانا عبد المقتدر بدابونی نے 1897ء بمطابق 1315ھ میں ترجمہ وتفسیر قرآن لکھی۔ یہ چند جدید مضامین کے اضافہ کے ساتھ تفسیر عباسی کا ترجمہ ہے۔ اس میں شاہ عبد القادر کا ترجمہ اور حاشیہ میں تفسیر حسنی ہے۔ یہ آگرہ کے انوری پریس میں طبع ہوئی۔
 
* سکندر علی خاں نواب مالیر کوٹلہ 1852ء بمطابق 1268ھ کا ترجمہ ’تفسیر رحمانی ‘ کے نام سے مجتبائی پریس دہلی سے طبع ہوا۔ آٹھ سو اڑتالیس (848) صفحات پر پھلا ہوا ہے۔ اس کے حاشیہ پر شاہ عبد القادر دہلوی کا موضح قرآن دیا گیا ہے۔ بیت القرآن لاہور میں اس کا ایک نسخہ موجود ہے۔
 
* صبغۃ اللہ قاضی محمد بدر الدولہ 1860ء بمطابق 1277ھ نے ترجمہ وتفیسر ’فیض الکریم‘ لکھنی شروع کی جسے ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے مفتی محمد سعید اور [[مفتی محمود]] نے مکمل کرنے کی کوشش مگر دونوں اپنی وفات کی وجہ سے مکمل نہ کر سکے۔ ان کے بعد ان کے پوتے مولانا ناصر الدین نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ گویا ترجمہ وتفسیر فیض الکریم تین پشتوں اور چار علما کی محنت کا نتیجہ ہے۔
 
* نواب قطب الدین خان بہادر دہلوی 1866ء بمطابق 1283ھ نے جامع التفسیر لکھی۔ سورۃ اعلیٰ سے سورۃ الناس کا ترجمہ ان کے شاگرد مولوی عبد القادر نے مکمل کیا۔ کانپور کے نظامی پریس میں 1866 میں طبع ہوئی۔
 
* مولانا یعقوب حسن(1866ء بمطابق 1283ھ) کا ’جمائل شریف مترجمہ اردو‘ کے نام سے اردو ترجمہ قرآن آگرہ کے مینی پریس شائع ہوا۔ یہ دراصل [[تفسیر جلالین]] کا عربی سے اردو ترجمہ ہے۔
 
* مولوی عبد الغفور خاں ( 1867ء بمطابق 1284ھ) کا اردو ترجمہ جو تفسیر کے ساتھ بنام ’حدائق البیان فی معارف القرآن‘ مطبع فاروقی، دہلی سے شائع ہوا۔
 
* سید ظہیر الدین بگرامی ( 1873ء بمطابق 1290ھ) کا ترجمہ قرآن مجید [[برٹش میوزیم]] لائبریری لندن میں موجود ہے۔ یہ ترجمہ چھ سو چوالیس صفحات پر مشتمل ہے۔
 
* رؤف احمد رافت نقشبندی مجددی 1876ء بمطابق 1293ھ کا ترجمہ 1832ء تک ’تفسیر رؤفی‘ کے ضمن میں ہوتا رہا۔ اس تفسیر کا دوسرا نام ’تفسیر مجددی‘ بھی ہے۔
 
* [[محمد حسین]] نقوی کا ترجمہ تفسیر (1876ء بمطابق 1293ھ) میں شائع ہوئی۔ یہ ترجمہ اور تفسیر مرتضوی پریس دہلی میں طبع ہوئی۔ اس کا مکمل نام معاملات الاسرار فی مکاشافات الاخبار معروف بتفسیر حضرت شاہی ہے۔
 
* فخر الدین احمد قادری کا ترجمہ 1879ء بمطابق 1296ھ میں شائع ہوا۔ یہ دو جلدوں پر مشتمل تھا۔ ’تفسیر قادری‘ کے نام سے یہ ترجمہ لکھنؤ میں شائع ہوا۔
 
* کنھیا لال لکھداری کا ترجمہ 1882ء بمطابق 1299ھ میں شائع ہوا۔ یہ ترجمہ شاہ عبد القادر دہلوی کے ترجمہ قرآن سے مدد لیتے ہوئے کیا گیا۔ یہ ترجمہ سردار جگجوت سنگھ، نبیرہ راجا رنجیت سنگھ کی فرمائش پر عربی متن کے بغیر لکھا گیا۔ مترجم کی تصویر جو ہندو تھاکی تصویر پہلے صفحے پر چھپی ہے۔ یہ دھرم بک لدھیانہ سے شائع ہوا۔
 
* عبد الصمد کا ترجمہ 1885ء بمطابق 1302ھ میں ’ جواہر الصمدیہ‘ کے عنوان سے مطبع فاروقی، دہلی سے شائع ہوا۔ اس کو جملہ سورتوں کے مضامین کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے۔ یہ دور سو پچھتر (275) صفحات پر مشتمل مختصر تفسیر بھی ہے۔
 
* محمد [[احتشام الدین]] مراد آبادی کا ترجمہ 1885ء بمطابق 1303 میں لکھا گیا اور ضخیم تفسیر بھی ہے۔ جو ’تفسیر اکبر اعظم کے نام سے موسوم‘ ہے۔ ترجمہ سلیس اور پر اثر ہے۔
 
* سید علی لکھنوی کا ترجمہ 1895ء بمطابق 1313ھ کا ہے۔ یہ ترجمہ اور تفسیر بنام ’تنویر البیان‘ کے نام سے مطبع اعجاز محمد ی آگرہ سے شائع ہوا۔
 
* سید زین العابدین نے قرآن کا ترجمہ 1886ء بمطابق 1304ھ میں کیا۔ یہ کاشف النعم کے نام سے کیا گیا ہے۔ [[الہ آباد]] میں ہندوستانی اکیڈمی کے تحت شائع ہوا۔
 
* مولوی فخر الدین احمد کی تفسیر 1886ء بمطابق 1304ھ میں آئی۔ مولوی صاحب کی تفسیر ’ تفسیر قادری ‘ تفسیر حسینی کا ترجمہ ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1300ھ بمطابق 1882ء میں لکھنؤ میں شائع ہوا۔ اور دوسرا ایڈیشن لکھنؤ کے نول کشور پریس میں 1304ھ یعنی 1886ء میں شائع ہوا۔
 
* سید محمد علی کا ترجمہ مع مبسوط حواشی کے 1886ء بمطابق 1303ھ میں دو جلدوں میں شائع ہوا۔ یہ لکھنؤ کے حاجی محمد قلی خان کانپوری پریس میں طبع ہوا۔ متن کے بغیر پہلا ترجمہ پاک وہند میں ہوا جو ایک شیعہ عالم نے کیا۔ العابدین کا ترجمہ 1887ء بمطابق 1304ھ میں شائع ہوا۔
 
* حکیم [[سید محمد]] حسن امروھی کی 1887ء بمطابق 1305ھ میں ترجمہ وتفسیر ’غایۃ الب رہان‘ کے نام سے شائؔع ہوئی۔ یہ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلا ایڈیشن امردھ کے مراد آباد میں اور دوسرا امرود معی سے ریاضی پریس سے طبع ہوا۔
 
* سیدنور الحق منعم نے 188ء بمطابق 1305ھ میں نواب سید محمد [[فیض اللہ خان]] کی فرمائش پر ترجمہ وتفسیر لکھی تھی۔
 
* ابو محمد ابراہیم بن الحکیم عبد العلی آروی نے 1889ء بمطابق 1307ھ میں قرآن کا ترجمہ ’ تفسیر خلیلی ‘ کیا یہ آرہ کے مطبع خلیلی میں طبع ہوا۔
 
* سید عمار علی رئیس نے 1890ء بمطابق 1307ھ میں ترجمہ اور تفسیر کیا۔ یہ تفیسر ’ عمدۃ البیان‘ کے نام سے دہلی کے مطبع یوسفی سے شائع ہوا۔ یہ ایک ہزار چھ سو چوہتر 1674 صفحات پر مشتمل ہے۔
 
* احسان اللہ محمد عباسی گورکھپوری نے 1892ء بمطابق 1310ھ میں ترجمہ لکھا۔ یہ اسعدی پریس گھور کھپور میں شائع ہوا۔ احسان اللہ [[محمد عباس]] اردو کے معروف مصنف ہیں۔
 
* مولوی [[محمد باقر]] کا ترجمہ 1893ء بمطابق 1310ھ میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوا۔
 
* ریونڈ ڈاکٹر امام الدین امر تسری کا ترجمہ 1894ء بمطابق 1312ھ میں الہ آباد کے پریس کرسچن مشن مین چھپا تھا۔ مترجم کے نام اور پریس کے سے اندازہ ہوتا ہے یہ ترجمہ کیسا ہے۔ مسیحیت کی جانب سے ایک پروپیگنڈہ ہے۔
 
* فیروز الدین ڈسکوی سیالکوٹ کا ترجمہ مع حواشی 1894ء بمطابق 1312ھ میں لکھا گیا۔
 
* محمد احتشام الدین مراد آبادی کی مترجم تفسیر 1895ء بمطابق 1313ھ میں تفسیر اکبر اعظم کے نام سے طبع ہوئی اس کا دوسرا ایڈیشن نو جلدوں پر مشتمل ہے۔ جو نول کشور پریس میں لکھنؤ سے طبع ہوا۔ ترجمہ سلیس اور پر اثر ہے۔
 
* مولانا ثناء اللہ امر تسری کا 1895ء بمطابق 1313ھ میں ترجمہ سات جلدوں میں طبع ہوا۔ حواشی سمیت یہ ترجمہ ثنائی کے نام سے امر تسر کے چشمہ نور پریس سے شائع ہوتا رہا۔
 
* سید علی لکھنوی کا ترجمہ 1895ء بمطابق 1313ھ میں ’ تنویر البیان‘ کے نام سے مطبع اعجاز محمدی آگرہ سے شائع ہوا۔
 
* مولوی حمید اللہ میرٹھی نے تفسیر وترجمہ 1897ء بمطابق 1315ھ میں کیا۔ یہ ترجمہ مطبعہ فاروقی میں طبع ہوا۔ دیپاچہ میں تفسیر کا نام ’ حدیث التفاسیر‘ دیا گیا ہے۔
 
* مولانا عبد المقتدر بدابونی نے 1897ء بمطابق 1315ھ میں ترجمہ وتفسیر قرآن لکھی۔ یہ چند جدید مضامین کے اضافہ کے ساتھ تفسیر عباسی کا ترجمہ ہے۔ اس میں شاہ عبد القادر کا ترجمہ اور حاشیہ میں تفسیر حسنی ہے۔ یہ آگرہ کے انوری پریس میں طبع ہوئی۔
 
=== بیسویں صدی ===
بیسویں صدی عیسوی کے مکمل اور مطبوعہ تراجم: