"شاہ محمد غوث لاہوری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 2:
 
== نام اور ولادت ==
آپکا اسم گرامی [[سید محمد]] غوث لقب شیخ المحدثین غوث وقت اور شاہ محمدغوث کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کے والد محترم [[ابو البرکات سید حسن قادری]] نے دوسری شادی خاندان سادات کنڑ [[سید علی ترمذی المشہور پیربابا]] کی نواسی سے کی۔ یہ بی بی صاحبہ اتنی نیکوکار اور صالحہ تھیں کہ آپ کا لقب ’’ رابعہ عصر ‘‘ پڑ چکا تھا۔ آپ اسی عفیفہ کے بطن سے [[1084ھ]] پیدا ہوئے۔
== تعلیم وتربیت ==
آپ کی [[تعلیم و تربیت]] اپنے والد محترم کے زیر سایہ ہوئی۔ آپ خود رقمطراز ہیں۔
"جب اس احقر کی عمر سات سال کی ہوئی تو بہت ہی قرآن مجیدپڑھا مگر ضبط نہ ہوا۔ بڑا ہی قاصر الفہم تھا۔ جناب قبلہ گاہ والد صاحب نے باطنی طور پر پیر دستگیر ([[غوث اعظم]]) کے حضور میں عرض کی کہ اس بیٹے پر مہربانی فرمادیں۔ آپ نے عنایت فرمائی۔ اورظاہر اور باطن کے علوم سے نوازا گیا۔ اس مہربانی کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے علوم کے دروازے کھل گئے اور بہت تھوڑی مدت میں علم ظاہری حاصل ہو گیا۔
چنانچہ اٹھار ہ برس کی عمر میں تمام علوم کی مروجہ کتابیں پڑھ لیں، [[مطول]] کو چھ ماہ میں پڑھا لیا۔ نیز دیگر کتابوں کو بھی جلدی جلدی پڑھ لیا۔ [[تلویح توضیح]] جناب عالم علوم ظاہری و باطنی آخوند مولینا محمد نعیم صاحب سے پڑھی۔ جناب مولانا صاحب کابل کے پرگنہ ’’ محمود کار ‘‘ میں رہتے تھے۔ جب آپ نے [[علوم متداولہ]] سے فارغ ہو گئے تو احادیث پڑھنے کے لیے [[لاہور]] تشریف لے گئے۔
== معرفت و سلوک ==
آپ دوران تعلیم ہی میں والد گرامی مرتبت کی خدمت میں عرض کیا کرتے تھے کہ سلوک و معرفت کے علو م سے بھی آپ کو حصہ عطا فرمایا جاوے مگر والد محترم ہمیشہ آپ کو ارشاد فرماتے کہ پہلے علوم ظاہر کی تکمیل کر لو، اس کے بعد دیکھا جائے گا۔ فرماتے ہیں۔
جب آپ تحصیل علم کر چکے تو اس وقت آپ کی [[عمر شریف]] اٹھارہ برس کی تھی۔ جناب قبلہ والد گرامی کی خدمت میں عرض کیا کہ اب حصول علم سے فارغ ہوچکا ہوں۔ راہ حقیقت کی طرف رہنمائی کیجئے۔ جناب ابو البرکات سید حسن صاحب قادری نے آپ کی اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے طریقہ عالیہ قادریہ میں بیعت فرماکہ ’’ ذکر الٰہی ‘‘ کی تلقین کی۔ خلوت میں بٹھا دیا اور چار چلے وا‚لد محترم کے حضور میں ہی ذکر الٰہی پورے کیے۔
اس کے بعد آپ چھ سال تک ایک علیحدا تنہائی کے مقام پر عبادت و زہد میں مصروف رہے اور سلوک و معرفت کے دشوار گزار منازل کو پورا کیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس عرصہ میں اپنے وردات اور اپنی کیفیات اپنے والد کی خدمت میں عرض کرتا رہتا۔
غرض کہ چھ برس تک آپ ذکر لسائی، جہر، خفیہ، [[ذکر قلب]] اور مراقبات میں مصروف رہے۔ چھ برس کے بعد جناب والد گرامی قدر نے اپنے فرزند ارجمند کو سلسلہ عالیہ قادریہ کا منشور خلافت تحریر فرما دیا۔
سطر 17:
آپ کے علم وفقر کی شہرت اتنی عام ہوئی کہ ہرایک کی زبان پر آپ کی دینی تبلیغ خدمت فقرا، درس اور لنگر کا تذکرہ تھا۔ لوگ جوق در جوق آتے اور حسب حال امداد حاصل کرکے جاتے۔ جو تحائف اور ہدایا آتے تو آپ فقرا ء مساکین، بیواؤں اور یتیموں پر صرف کردیتے، مسافر کو زادراہ مہیا کرتے، اتنے اخراجات کرنے کے باوجود آپ کے چہرۂ اقدس پر میل تک نہیں آئی اور نہ ہی آپ نے کبھی کسی حکمران وقت اور امیر سے کوئی امداد قبول کی، دربار [[دہلی]] کی طرف سے ایک بار آپ کی خدمت میں ایک ہزار اشرفیاں پیش کی گئیں۔ آپ ؒ نے یہ فرماتے ہوئے واپس کر دیں کہ ’’ مستحق افراد میں ان کو بانٹ دو مجھے ان کی ضرورت نہیں، یہ غریبوں اور مفلوک الحال لوگوں کا حق ہے‘‘
== توکل علی اللہ ==
جب وقت آپ کے والد محترم ابوالبرکات سید حسن کا انتقال [[1115ء]] میں ہوا تو اس کے فورا بعد بادشاہ ہندوستاں [[اورنگ زیب عالمگیر]] نے آپ کے نام ابوالبرکات کے [[مزار شریف]] کے گر د چالیس [[جریب]] زمین کی سند لکھ کر بھیج دی، مگر آپ نے قطعی جواب دے دیا کہ ’’ میں فقیر آدمی ہوں، اللہ کا دروازہ مجھ کافی ہے وہی میرا کارساز ہے، وہی میرا مولیٰ ہے اور وہ بہت اچھا آقا ہے ‘‘
== پشاور آمد ==
[[1120ھ]] میں پشاور شہر میں خانقا ہ قادریہ سید حسن صاحب پر باقاعدہ سلسلہ تدریس شروع کر دیا۔ درس قرآن، درس حدیث اور طریقہ مبارکہ کے ارشادات خود فرماتے، آپ کے درس مبارک میں اکابر علما کے لڑے اور مشائخ کرام کے صاحبزادگان آکر علوم سے بہرہ ور ہوتے۔ حدیث شریف کا درس اتنا وسیع تھا کہ علاوہ پنجاب و سرحد کے کابل، ہر ات اور غزنی کے طلبہ جوق در جوق آآکر شامل ہوتے نیز تمام طلبہ کی رہائش لباس اور طعام کا بندوبست بھی آپ خود فرماتے، دوسری طرف اپنے سلسلہ مبارک کی نشر و اشاعت میں انتھک کوشش کرتے۔ سینکڑوں مریدین اور متعقدمین آتے اور رشد و ہدایت سے بہر ہ یاب ہو کر واپس لوٹتے، غرض کہ آپ کی خا نقا ہ میں تزکیہ نفس اور تہذیت اخلاق کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی تھی۔ کوئی قرآن حکیم، احادیث شریف، فقہ شریف اور تصوف کی کتابیں پڑھ رہا ہے، تو کوئی نفی اثبات کے ذکر میں مشغول ہے، کوئی مراقبہ کر رہا ہے تو کوئی رابطہ قلب کے ساتھ درد و شوق بڑھا رہا ہے۔ اس پر طرفہ یہ کہ سب پر آپ کی نظر کرم موجود ہے۔
== تصنیفات ==
 
# شرح غوثیہ:- آپ نے بخاری شریف کی شرح شرح غوثیہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ شرح [[علم حدیث]] میں ایک بحر نا پیدا کنار ہے۔ حدیث شریف کے متعلق جتنے علوم ہیں وہ سب اس شرح میں آپ نے حل فرمائے ہیں۔ اس شرح میں علاوہ دیگر متعلقہ علوم کے بخاری شریف کے اسما ء الرجال کو مکمل بیان کیا ہے۔ فقہ حنفی کی تطبیق نہایت ہی احسن طریقہ پر کی ہے۔
# رسالہ اصول حدیث:- یہ حدیث کے اقسام پر عربی میں آپ نے لکھا ہے۔
# رسالہ دربیان کسب سلوک و بیان طریقت و حقیقت (فارسی قلمی)یہ تصوف پر لکھا ہے۔ یہ رسالہ مکمل و اکمل مرشد ہے۔ سالک و قدم قدم پر ہدایت کرتا اور سمجھاتا ہے۔ اس رسالہ میں ایک دیباچہ اور چھ فصلیں ہیں۔ دیباچہ میں ’’ذکر مدام ‘‘ اور ’’فکر تمام‘‘ ،’’ اکل حلال‘‘ ،’’ صدق مقال‘‘ وغیرہ پر بحث ہے۔
سطر 35:
اور آپ کے بہت سے اور خلفاءبھی تھے۔ ان میں حافظ محمد سعید، حافظ محمد صدیق، محمد غوث اور شیخ وجیہہ الدین المعروف پیر زہدی لاہوری، نیز آپ کے پوتے شاہ غلام بھی آپ کے مرید و خلیفہ تھے۔
== وفات ==
آپ کی وفات 17 [[ربیع الاول]] [[1152ھ]] میں ہوئی۔ بیرون [[دہلی دروازہ]] لاہور آپ کا مزار واقع ہے۔<ref>تذکرہ علما و مشائخ سرحد جلد اوّل، صفحہ 74 تا 91،محمد امیر شاہ قادری ،مکتبہ الحسن کوچہ آقہ پیر جان یکہ توت پشاور</ref>
 
==حوالہ جات==
سطر 41:
 
[[زمرہ:نقشبندی صوفیاء]]
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]