"برصغیر میں شیعیت" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م خودکار: خودکار درستی املا ← جن ک\1، 8، 1، ان کی، 6، 3، ۔، 4، 9، کارروائی، چاہیے؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 10:
[[ابن خلدون]] کے بقول خلیفہ منصور کے زمانے میں سندھ کا عامل عمر بن حفص تشیع کی جانب میلان رکھتا تھا۔ محمد نفس ذکیہ کے فرزند عبد اللہ اشتر، جن کو عبد اللہ شاہ غازی<ref>[[عبداللہ شاہ غازی]]</ref> کے نام سے جانا جاتا ہے،400 افراد پر مشتمل زیدیوں کی ایک جماعت کے ساتھ اس کے پاس آئے تو اس نے انھیں خاصے احترام سے نوازا۔ حاکم عباسی منصور کو جب اس کی خبر پہنچی تو اس نے ہشام بن عمر ثعلبی کو ان کے قلع قمع کرنے کے لیے سندھ روانہ کیا جہاں ہشام کے بھائی اور ان کے درمیان قتال ہوا جس کے نتیجے میں [[عبد اللہ شاہ غازی]] شہید ہوئے اور ان کے ساتھی  اس علاقے میں بکھرگئے<ref>تاريخ ابن خلدون - ابن خلدون - ج 3 - صص 198، 199۔</ref> ذہبی اور [[ابو الفرج اصفہانی]] نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے<ref>ذہبی - تاريخ الإسلام - ج 9 ص 352 - - أبو الفرج الأصفہانی، مقاتل الطالبيين ص 207 - 208</ref> طبری نے یہ واقعات 768ء (151 ہجری) میں نقل کیے ہیں۔<ref>طبری ،تاريخ الطبری - ج 6 - ص 291</ref> ان واقعات کی روشنی میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ 768 ء میں یا اس کے آس پاس زیدیوں کی موجودگی شیعیت کے رواج کا باعث بنی۔
 
جب نویں اور دسویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں مبلغین اور صوفیوں کی آمد کا سلسلہ بڑھنا شروع ہوا تب تک سنیوں کے چار فقہی مکاتب ( [[حنفی]]، [[حنبلی]]، [[مالکی]]، [[شافعی]] ) تشکیل پا چکے تھے اور اہلِ تشیع تین شاخوں ( [[زیدی]]، [[اثنا عشری]]، [[اسماعیلی]] ) میں بٹ چکے تھے۔ شیعوں میں چھٹے [[امام جعفر صادق]] کی مرتب کردہ [[فقہ جعفریہ]] کے اثنا عشری پیروکار زیادہ تھے۔ نویں صدی عیسوی کے آخر(893ء )    میں یمن کے شمال میں زیدی شیعوں کی حکومت قائم ہوئی جو مختلف نشیب و فراز سے گذرتے ہوئے 1962ء  میں گیارہ سو سال   بعد ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں ختم ہوئی۔   اس حکومت کے ہوتے ہوئے زیدی شیعوں کی  وادئ سندھ کی طرف ہجرت رک گئی۔
[[فائل:بنی بویہ.png|تصغیر|دسویں صدی عیسوی کے اختتام پر مشرق وسطیٰ کا سیاسی جغرافیہ]]
[[فائل:IbnSinaCanon1.jpg|تصغیر|بو علی سینا ؒکی کتاب "'''القانون'''" کے آٹھ سو سال پرانے  نسخے کا عکس]]
سطر 30:
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بابر سے لے کر شاہ جہاں تک مغلوں کا طرزِ حکومت کم و بیش اسی حکمت عملی کے محور پر رہا۔  جب اورنگ زیب نے اس  حکمت عملی سے روگردانی کی تو نتیجہ شورش اور ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں نکلا۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد مغلیہ اقتدار تیزی سے مٹتا چلا گیا۔ شروع شروع میں اکبر کا مذہبی رویہ خاصا سخت گیر رہا۔ اس نے بااثر عالم شیخ عبدالنبی کے مشورے پر حضرت [[امیر خسرو]] کے پہلو میں دفن ایک شیعہ عالم میر مرتضی شیرازی کی قبر اکھڑوا دی۔ اکبر کے زمانے میں بعض سنی  علما کی سفارش پر متعدد شیعہ رہنما قتل بھی ہوئے، جن میں لاہور کےملا احمد ٹھٹھوی<ref>Rizvi, "A Socio۔Intellectual History of the Isna Ashari Shias in India", Vol. I, pp. 178–80, 212.</ref>  خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔بعد ازاں یہی اکبر مذہبی و فرقہ وارانہ لحاظ سے غیر جانبدار ہو گیا، چنانچہ اسی دور میں ہمیں شاہ حسین، [[گرو نانک]] اور بھگت کبیر ملتے ہیں۔ اکبر دور میں ایک شیعہ عالم قاضی نور الله شوستری <ref>[[نور اللہ شوشتری]]</ref> نے ہر فقہ کے ماننے والے کے لیے اس کی فقہ کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے سبب بادشاہ کا اعتماد حاصل کر لیا۔[[جلال الدین اکبر|اکبر]] نے نور الله شوستری صاحب کوقاضی القضاۃ   کا درجہ دیا۔  اس زمانے میں سنی علما میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی  نمایاں  علمی شخصیت تھے جن کو اکبر کے دربار میں عزت و احترام حاصل تھا۔   شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی کتاب '''"تکمیل الایمان"'''<ref>[http://www.mohrasharif.com/index.php/al-qasim-library/islam-corner/teachings/329-takmil-al-iman mohrasharif.com - Takmil al-Iman (تکمیل الایمان) Urdu<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref> اہل سنت کے بنیادی عقائد کے لیے دستاویز  کی حیثیت رکھتی ہے۔   دوسری طرف   شیخ احمد سرہندی جیسے متعصب علما اکبر کے  حکیمانہ طرز حکومت سے خوش نہیں تھے اور اپنی تسکین کے مواقع تلاش کرتے رہتے تھے۔ ان علما نے اکبر پر اپنی پرستش کروانے کا الزام عائد کیا اور کفر کے فتوے کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔اس کے بعد سے  اب تک کفر اور نکاح  ٹوٹنے کے فتوے ایسے لوگوں کے ہاتھوں اتنی مرتبہ جاری ہوئے ہیں کہ ایک مذاق بن چکے ہیں۔اکبر کے زمانے میں شیخ احمد سرہندی نے شیعوں کے خلاف  '''"رسالہ  ردِ روافض "'''نامی ایک کتاب لکھی جس کا جواب قاضی نور الله شوستری نے 1605ء میں '''"احقاق  الحق "'''<ref>https://books.shiatiger.com/2018/04/Ehqaq-ul-Haq.html</ref> لکھ  کر  دیا۔ اس سے شیخ احمد سرہندی کی دشمنی دو آتشہ ہو گئی۔ اسی زمانے میں ایک اور شیعہ عالم میر یوسف علی استر  آبادی  اخباری روش  کے پیروتھے۔اخباری  شیعہ  بدلتے زمانے کے تقاضوں کے مطابق آیات و احادیث  کی روشنی میں عقل کے استعمال سے اجتہاد  کرنے والی اصولی روش کے خلاف تھے۔قاضی نور الله شوستری ؒنے شیعوں میں تنگ نظری  اور جمود کی اس لہر کے خلاف بھی کام کیا اور میر یوسف علی استر آبادی   کی الجھنوں کا جواب '''"رسالہ اسئلۃ یوسفیہ" ''' کے عنوان سے  کتاب لکھ کر دیا۔ اخباری دراصل شیعہ سلفی تھے، مگر شیعہ کتب میں عقل کے حق میں ملنے والی احادیث اور زمانے کے بدلتے تقاضوں کی بدولت یہ گروہ ختم ہو گیا۔ اکبر کی وفات کے بعد شیخ احمد سرہندی<ref>[[مجدد الف ثانی]]</ref> کے مطالبے پر جہانگیر نے قاضی نور الله شوستری کو کوڑے لگانے کی سزا سنائی جس کے نتیجے میں ستر سال کی عمر میں انکا انتقال ہو گیا<ref>Rizvi, ""A Socio-Intellectual History of the Isna Ashari Shias in India"", Vol. I, pp. 377–83.</ref>۔ اپنے والد کے برعکس شاہجہاں نے شیعوں کے خلاف کوئی تعصب نہیں برتا البتہ اورنگزیب نے اپنے بھائی داراشکوہ اور دکن کی شیعہ ریاست کے خلاف لشکر کشی کے لیے شیعہ سنی نفرت کو کامیابی سے استعمال کیا۔ اسی زمانے میں  مرحوم شیخ احمد سرہندی  کے شاگردوں کو سرکاری سرپرستی میسر آئ اورشیخ احمدسرہندی کومجددالف ثانی کہاجانےلگا۔ اس خطرناک حکمت عملی نے معاشرے پر جو اثرات چھوڑے ان کا اندازہ اس واقعے سے ہو جاتا ہے کہ1707ء میں اورنگزیب کی وفات کی خبر سن کر لاہور میں مشتعل افراد نے شیعہ امام بارگاہوں اور مساجد کو آگ لگا دی<ref>Rizvi, "A Socio-Intellectual History of the Isna Ashari Shias in India", Vol. II, pp. 39–41.</ref> ۔ اورنگزیب کے زمانے میں  تینتیس جلدوں پر مشتمل جو مجموعہ بعنوان  '''"فتاویِ عالمگیری"''' مرتب کیا گیا اس میں شیعہ عقیدے کو گمراہانہ بتایا گیا ۔ اورنگ زیب ہی کے دور میں تعزیے اور ماتمی جلوس پر پابندی لگانے کی کوشش بھی  ہوئی۔  
[[فائل:Hussaini Dalan at Night.jpg|تصغیر|ڈھاکہ کی تاریخی امام بارگاہ، حسینی دالان]]
شمالی ہند پر [[اورنگزیب عالمگیر]] کی حکومت کے زمانے میں  وادئ کرم میں افغانستان سے  طوری شیعہ قبائل کی آمد ہوئی جنکیجن کی تبلیغ کی وجہ سے بہت سے مقامی  بنگش اور اورکزئی پختون شیعہ اسلام کی طرف مائل ہوئے۔ بہادری اور سوجھ بوجھ کے اعتبار سے پختون شیعہ  وادئ سندھ کے شیعوں میں سب سے آگے رہے ہیں۔  1717ء میں بنگال میں ایک نومسلم شیعہ نواب مرشدقلی خان کی حکومت قائم ہوئی جس نے حاجی شفیع اصفہانی نامی شیعہ تاجر کےہاتھ اسلام قبول کیا تھا۔ اس دوران دہلی کی مغل حکومت کمزور ہو چکی تھی لہٰذا بنگال کے نواب اگرچہ کہنے کو مغل سلطنت کے ماتحت تھے لیکن امور حکومت کو چلانے میں مکمل آزاد تھے۔ مرشد قلی خان کے خاندان کی حکومت 1740ء میں ایک اور شیعہ نواب [[علی وردی خان]] افشار کے ہاتھوں ختم ہوئی۔ افشار سلطنت کا خاتمہ 1757ء کی [[جنگ پلاسی]] میں انگریزوں کے ہاتھوں نواب [[سراج الدولہ]] کی شکست سے ہوا۔نواب سراج الدولہ ایک مذہبی شیعہ تھے اور انہوں نے اپنے دار الحکومت مرشد آباد میں ہندوستان کی سب سے بڑی امام بارگاہ "نظامت امام باڑہ" تعمیر کرائی جو اب بھی سیاحوں اور زائرین کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس دوران بنگال میں شیعہ اسلام متعارف ہوا اور قیام پاکستان کے وقت بنگال کی تقریبا پانچ فیصد آبادی ا س مسلک سے تعلق رکھتی تھی۔ آزادی کے وقت مرشد آباد ہندوستان کا حصہ قرار پایا، یہ شہر آج بھی بنگال میں شیعیت کا مرکز ہے۔ بنگال میں شیعہ سنی تعلقات مثالی رہے ہیں، البتہ 2015ء میں شیعوں پر بنگالی داعش نے دو حملے کیے<ref>[https://www.theguardian.com/world/2015/oct/24/bomb-attack-on-bangladesh-shia-community One killed and scores wounded in attack at Shia site in Bangladesh capital | World news | The Guardian<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref><ref>[https://www.aljazeera.com/news/2015/11/deadly-attack-shia-mosque-bangladesh-151126195219476.html Deadly attack on Shia mosque in Bangladesh | News | Al Jazeera<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref>-
 
شاہ ولی الله محدث دہلوی نے  شیعہ سنی نفرتوں کو کم کرنے کی کوشش کی تھی مگر ان کے بیٹے شاہ [[عبد العزیز]]  دہلوی نے 1790ء میں شیعہ اعتقادات کے خلاف '''"تحفۃ اثنا عشریۃ"  '''نامی کتاب لکھی ۔اسلکھی۔اس طرح  برصغیر میں شیعہ مخالف کتب لکھنے کے سلسلے کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ اس کے جواب میں شیعہ علما میں سے علامہ سید محمد قلی موسوی نے '''"الأجناد الإثنا عشريۃ المحمديۃ"'''،   آیت الله میر [[سید حامد]] حسین نے '''"عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار"'''<ref>[http://www.alabaqat.com/download/ Download – Abaqat al-Anwar – عبقات الأنوار في إمامة الأئمة الأطهار<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref> اور علامہ سید محمّد کمال دہلوی نے'''" نزھۃ اثنا عشریۃ"'''<ref>[https://archive.org/details/nuzha-isna-asharia-jild-1 نزھہ اثنا عشریہ جلد یکم : maablib : Free Download, Borrow, and Streaming : Internet Archive<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref> کے عنوان سے کتابیں لکھیں ۔ ریاست جھاجھڑ کے راجا نے علامہ سید  محمّد کمال دہلوی کو  بطور طبیب علاج کروانے کے بہانے سے  بلوایا اور دھوکے سے زہر پلا  کر قتل کر دیا۔
 
یہاں جنوبی ہندوستان میں شیعیت   کااجمالی تذکرہ بھی مناسب ہے۔1347ء   میں جنوبی ہندوستان کے علاقے دکن میں پہلی شیعہ سلطنت قائم ہوئی جس نے شیعہ علما کو  ہندوستان کی طرف دعوت دی۔  دکن  میں شیعہ اقتدار  کسی نہ کسی شکل میں 1687 ء   تک قائم رہا۔ مغل بادشاہ اورنگزیب  عالمگیر کے ہاتھوں  اس کے زوال کے 80 سال بعد  جنوبی ہندوستان میں  1765ء میں  میسور کے ہندو راجا کے شیعہ سپاہ سالار حیدر علی نے بغاوت کر کے  سلطنت خداداد   میسور قائم کی جو انگریزوں کےساتھ مسلسل جنگوں کے نتیجے میں  1799ء میں  فتح علی ٹیپو کی شکست کے ساتھ ختم ہو گئی۔انگریز دور میں  حیدرآباد میں نظام کی ریاست میں بھی شیعوں کو امن وآزادی کاماحول میسر رہا۔1947 ء   میں قیام پاکستان اوربعد میں ریاست حیدرآباد کے بھارت میں انضمام کے بعد   جنوبی ہندوستان کے بہت سے شیعہ وادئ سندھ کی طرف ہجرت کر  گئے۔جنوبی ہندوستان میں شیعہ سنی تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔
سطر 39:
1783ء  میں سندھ میں بلوچ شیعہ سردار میر فتح علی شاہ تالپور نے [[تالپور خاندان|تالپور سلطنت]] کوقائم کیا،  جس نے مرہٹوں اور سکھوں کے خلاف کامیابی سے سندھ کا دفاع کیا۔ میر خاندان نے  متعدد مساجد اور امام بارگاہیں قائم کیں۔  یہ سلطنت 1843 ء   میں انگریزوں کے  ساتھ پے در پے جنگوں  کے  نتیجے میں ختم ہو گئی ۔ البتہ خیرپور کے میر علی مراد انگریزوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کے نتیجے میں ایک چھوٹی سی ریاست بچانے میں کامیاب ہو گئے جس کو 1953ء  میں باقی ریاستوں کی طرح پاکستان میں ضم کر لیا گیا۔سندھ  میں پختہ صوفی روایات کی وجہ سے شیعہ سنی تعلقات مثالی رہے ہیں ۔ [[شاہ عبد اللطیف بھٹائی]] اور [[سچل سرمست]] نے  عزاداری کے لیے مرثیے بھی لکھے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں سندھ میں دیوبندی مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے مذہبی [[دہشت گردی]] میں اضافہ ہوا ہے اور پیپلز پارٹی جیسی مضبوط سیاسی جماعت بھی کالعدم گروہوں سے تعاون کرنے کو ترجیح دینے لگی۔
 
=== سلطنتِ اودھ ===
دہلی کی [[مغلیہ سلطنت]]  کی شکست و ریخت کے دوران  جو نیم آزاد اور خود مختار حکومتیں قائم ہوئیں ان میں سے ایک ریاست اودھ (1722ء تا 1857ء)بھی تھی۔ اودھ کی ریاست بھی [[سلطنت دہلی]] کی بالادستی تسلیم کرتی تھی اور اس کے کئی حکمران مغل بادشاہ  کے عہدیدار تھے۔ آصف الدولہ کے زمانے (1775ء تا 1797ء)  میں ایران  و عراق سے اصولی شیعہ علما کی آمد ہوئی جنہوں نے لکھنؤ میں علمی مرکز قائم کیا۔ آصف الدولہ کے وزیرِ اعظم [[حسن رضا خان]] نے نہ صرف شیعہ علما کی خصوصی سرپرستی کی بلکہ عراق میں نجف اور کربلا کی دیکھ بھال کے لیے بھی اودھی خزانے سے لگ بھگ دس لاکھ روپے سالانہ بجھوائے جانے لگے جبکہ پانچ لاکھ کے صرفے سے [[دریائے فرات]] سے نہرِ ہندی نکلوائی گئی جس نے نجف تا کربلا کا علاقہ سرسبز کر دیا۔ 1818ء سے 1821ء کے دوران سید احمد بریلوی نے شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کے عقائد کی تبدیلی کی مہم چلائی، وہ لکھنؤ  اور اودھ بھی گئے، وہ ان مہمات کے دوران مقامی صوفی مسلک کے اہلسنت اور [[اہل تشیع]] کے عقائد پر تندوتیز تنقید کیا کرتے تھے۔<ref>Rizvi, "Shah Abd al-Aziz", pp. 478–9.</ref><ref>Rizvi, ""A Socio-Intellectual History of the Isna Ashari Shias in India"", Vol. II, pp. 89، 305–7.</ref> جس پر [[سلطنت اودھ]] کی حکومت نے کوئی روک نہ لگائی۔ چنانچہ لکھنؤ میں شیعہ مجتہد علامہ سید دلدار علی نقوی <ref>[[دلدار علی نقوی]]</ref> نے ان سے   ایک مناظرہ بھی کیا۔  اس قسم کے بین المسالک مکالمے مسلمانوں کی تہذیبی زندگی کا خاصہ رہے ہیں۔ [[جنگ آزادی ہند 1857ء|اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی]] میں انگریزوں کے خلاف مزاحمت کاحصہ بننے کی وجہ سے اس سلطنت کا خاتمہ ہو گیا<ref>Cole, Roots of North Indian Shi’ism, p. 271.</ref>۔
 
=== سکھ دور ===
پنجاب میں سکھوں کے پچاس سالہ دور (1799 ء  – 1849 ء  )میں تمام مسلمانوں بشمول شیعوں کے خلاف انتقامی کاروائیوںکارروائیوں کی وجہ سے مجالس اور عزاداری کا سلسلہ بھی متاثر ہوا  تھا البتہ وقت کے ساتھ ساتھ اس انتقام کی شدت میں کمی آتی گئی تھی  جس کی ایک وجہ شیعوں کی جانب سے عزاداری پر پابندی کی کوشش کے خلاف مزاحمت تھی۔ اس زمانے میں پیر سید لال شاہ نے پنجاب بھر میں  عزاداری کی بقا کے لیے جدوجہد کی ۔  آگے چل کر لاہور کے شیعہ [[ فقیر خاندان اور  جھنگ کے شاہ جیونہ  خاندان نے سکھ حکومت میں اثر و رسوخ پیدا کر لیا۔
 
=== انگریز دور ===
سطر 67:
 
=== پختون علاقوں میں منظم شیعہ کشی ===
دیوبند مکتب کی اس سوچ کاپہلا نتیجہ افغانستان کے شاہ امیر عبد الرحمن کی طرف سے 1891ء سے 1893ء تک کی جانے والی ہزارہ قبائل کی نسل کشی اور انکیان کی جائداد کی پشتونوں میں تقسیم اورانکو غلام اورلونڈیاں بناکر فروخت کرنے کا عمل تھا جس  کے نتیجے میں افغانستان کے ہزارہ قبیلے کی آبادی میں 60فیصد تک کمی آ گئی ۔<ref>[https://www.aljazeera.com/indepth/features/2016/06/afghanistan-hazaras-160623093601127.html Afghanistan: Who are the Hazaras? | Taliban | Al Jazeera<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref> امیر عبد الرحمن خان نے اپنی  حکومت کا نظام چلانے کے لیے ہندوستان سے دیوبندی علما منگوائے تھے جنہوں نے شیعوں کے کافر ہونے اور ان کی جان و مال کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا۔  یہ جدید انسانی تاریخ کی پہلی نسل کشی تھی جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ انسان لقمۂ اجل بنے۔ اسی دوران میں کچھ ہزارہ خاندان ہجرت کر کے   کوئٹہ میں آ گئے جو انگریزوں کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے ان کے لیے پناہ گاہ ثابت ہوا۔  [[کرم ایجنسی]] کے شیعہ قبائل  افغان شاہ کی ایسی فرقہ وارانہ کاروائیوںکارروائیوں کے خوف سے ہندوستان کی انگریز حکومت سے ملحق ہو گئے اور یوں فاٹا کا بندوبست عمل میں آیا۔ ہندوستان میں انگریزوں کے قانون کی مساوات  اور بہتر انتظامی  اقدامات کی بدولت  اس سوچ کو قتل عام کا دائرہ وادی سندھ تک پھیلانے کا موقع نہ مل سکا۔ کرم ایجنسی کے بعد باقی قبائل نے بھی انگریز حکومت کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اس تاریخی عمل جس کاآغاز شیعہ دشمنی سے ہوا، نے مستقبل میں بننے والے ملک پاکستان کی شمال مغربی سرحد کو متعین کیا۔ اس تاریخ کا ہی نتیجہ ہے کہ ریاض بسرا سے لیکر ملک اسحاق اور داود بادینی تک جیسے تربیت یافتہ قاتلوں کو قندھار کے دیوبندی علاقوں میں پناہ ملتی رہی ہے۔
 
=== لکھنؤ میں اشتعال انگیزی ===
سطر 108:
=== افغانستان میں عدم استحکام اور ایران میں انقلاب ===
 
[[افغانستان]] نے 1973ء میں پشتونستان کے نام پر پاکستان  کے پختونون کو استعمال کر کے ملک توڑنے کی سازش بنائی  جس کے جواب میں پاکستان نے افغان حکومت کے مخالف اخوان کو مدد دینا شروع کی تھی۔ اس طرح "افغان  مجاہدین"  کے ساتھ پاکستانی حکومت کے تعلقات 1974 ء میں ہی استوار ہو گئے۔ پاکستان کے پختونوں نے انگریزوں کے دور میں ہی وادئ سندھ کو سنگلاخ افغانستان پر ترجیح دی تھی اور پنجاب ،سندھ اور بلوچستان  کے ساتھ اپنے معاشی اور تاریخی تعلق کی وجہ سے ہی قیام پاکستان کے بعد ہونے والے ریفرنڈم میں پاکستان سے الحاق کیا تھا۔اسی گہرے تعلق کی بدولت پاکستان کے پختون عوام میں افغانستان  کی حمایت سے چلنے والی اس تحریک کو خاطر خواہ حمایت نہ مل سکی ۔جمعہسکی۔جمعہ خان صوفی نے اپنی کتاب "'''فریب ناتمام'''" میں ان سب واقعات  اور افغانستان کی پسماندگی کی تفصیل لکھی ہے۔اسی دوران ایران میں مذہبی انقلاب کی تحریک آیت الله خمینی کی قیادت میں چل رہی تھی - پاکستان کے شیعہ علماءکی اکثریت اس تحریک کے خلاف تھی اورآیت الله شریعت مدار<ref>[http://www.oxfordislamicstudies.com/article/opr/t125/e2170 Shariat Madari, Ayatollah Muhammad Kazim - Oxford Islamic Studies Online<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref> نامی شاہ نواز مرجع تقلید کی حامی تھی - پاکستان میں شیعہ عوام یا تو نجف میں مقیم عراقی مرجع آیت الله [[محسن الحکیم]] کے پیرو تھے یاقم کے آیت الله شریعت مدار کی تقلید کرتے تھے - پاکستان میں سب سے پہلے جس نے ایران میں مذہبی انقلاب کی تحریک کی حمایت کی وہ مولانا مودودی تھے<ref>ترجمان القرآن اکتوبر ۱۹۶۳ء1963ء کے شمارہ میں ایک مضمون’’ایران میں دین اور لادینی کشمکش‘‘ شائع ہوا جس کے بعد رسالے پر چھ ماہ کے لیے پابندی لگا دی گئی۔</ref> جونومبر 1963ء میں حج کے سفر کے دوران آیت الله خمینی سے ملاقات کر چکے تھے <ref>افتخار احمدپروفیسر،عالمی تحریک اسلامی کے قائدین ( فیصل آبادالمیزان پبلیکیشنز،امین پورہ بازار، ۱۹۸۴1984)</ref>- آیت الله خمینی انکیان کی کتاب " اسلامی ریاست " سے متاثر تھے۔ پاکستان کے روایتی شیعہ علما آیت الله خمینی کی طرف سے فلسفے اور تصوف کی تعلیم اور شاہ ایران کی مخالفت کی وجہ سے ان کو گمراہ سمجھتے تھے<ref>بطور مثال ملاحظہ ہو کتاب "خمینیت اور شیعیت میں فرق" از علامہ محمد حسین برستی</ref>۔ البتہ لاہور کے مولانا [[صفدر حسین نجفی]] نے انکیان کی [[توضیح المسائل]] کا ترجمہ کر کے عوام میں انکیان کی تقلید کو رواج دینے کی محدود کوشش کی۔
 
پاکستان میں شیعہ کشی کے واقعات میں شدت اس وقت آئی جب27 اپریل 1978ء کو افغانستان میں [[انقلاب ثور]] آیا<ref>[https://en.wikipedia.org/wiki/Saur%20Revolution Saur Revolution – Wikipedia<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref> اور اس سے اگلے سال  کمیونسٹ حکومت نے روس کو مداخلت کی دعوت دی۔ اس اقدام کے نتیجے میں افغانستان غیر مستحکم ہو گیا۔ جب کوئی ریاست ٹوٹتی ہے تو وہ ڈاکووں اور دہشت گردوں کے لیے جنت بن جاتی ہے۔ پختون قبائل میں پہلے ہی امیر عبد الرحمن خان کے زمانے سے شیعہ اور بریلوی مخالف جذبات پائے جاتے تھے۔  اگلے سال فروری 1979ء میں ایران میں انقلاب آیا جس نے شیعہ مسلک کو ایک مسلمان مسلک کے طور پر متعارف کرایا۔ ایران کی مذہبی قیادت نےانقلاب کی کامیابی کے بعد سب سے پہلے ایران سے باہر جس شخصیت سے رابطہ کیا وہ جماعت اسلامی کے علیل رہنما مولانا مودودی تھے <ref>20جنوری 1979ء کو آیت الله خمینی کے دو نمائندوں نے مولانا مودودی سے ملاقات کی۔ وہ ان کا خصوصی خط لے کر آئے تھے۔ جناب رفیق ڈوگر (صحافی) نے ملاقات سے پہلے اور ملاقات کی تمام تر تفصیلات اپنی کتاب ’’مولانا مودودی سے ملاقاتیں" میں درج کی ہیں۔
سطر 122:
 
=== 90ء کی دہائی میں شیعہ کشی ===
90ء کی دہائی میں سپاہ صحابہ نے شیعوں پر کئی خونریز حملے کیے۔<ref>[http://www.satp.org/satporgtp/countries/pakistan/database/sect-killing.htm Sectarian Violence in Pakistan<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref> ادھر افغانستان میں روس کے جانے کے بعد  مجاہدین کے گروہ اقتدار کی خاطر آپس میں لڑتے رہے یہاں تک کہ پاکستانی حمایت یافتہ تحریک طالبان افغانستان نے  مجاہدین کے باقی گروہوں کو ملک کے   شمالی علاقوں تک محدود کر دیا۔ افغان طالبان نے پاکستان  میں دیوبندی انقلاب لانے کی غرض سے دیوبندی تنظیموں کے کارکنان  کو فراخدلی سے پناہ اور ٹریننگ  فراہم کی۔ پاکستان میں شیعہ قتل کر کے یہ لوگ افغانستان بھاگ جاتے۔ ملک کے کئی  نامور ڈاکٹر، انجنیئر اور قانون دان محض شیعہ ہونے کی وجہ سے قتل کر دیے گئے۔ انکیان کی عورتیں بیوہ، والدین بے سہارا اور بچے یتیم ہو گئے۔ افغانستان اور کشمیر میں نام نہاد  جہاد کی بدولت تکفیری  عفریت کے ہاتھوں میں پتھروں اور چاقوؤں کی جگہ دستی بم اور کلاشنکوف آ گئے تھے۔ 80ء کی دہائی میں  مولانا نور الحسن بخاری کی وفات کے بعد شیعہ کشی کی سرپرستی کا بیڑا اٹھانے  والے مولانا [[حق نواز جھنگوی]] اور ان کے پیشرو مولانا [[ایثار القاسمی]] کو جھنگ میں سیاسی خطرہ بننے کے باعث شیخ اقبال ایم این اے نے قتل کرا دیا، جو خود بعد میں سپاہ صحابہ کی انتقامی کارروائی میں قتل ہو گئے۔<ref>Hassan Abbas, "Pakistan's Drift Into Extremism: Allah, the Army, and America's War on Terror"، Routledge, (2015)۔</ref> 1993ء میں لاہور میں سپاہ محمد کے نام سے ایک شیعہ دہشت گرد تنظیم کا قیام ہوا جس نے سپاہ صحابہ کے حملوں کے جواب میں دیوبندی حضرات پر حملے کرنا شروع کیے۔ چنانچہ اگر کسی شیعہ مسجد پر حملہ ہوتا تو کچھ ہی دنوں میں کسی دیوبندی مسجد میں بے گناہ لوگ قتل کیے جاتے۔ حکومت نے صورت حال خطرناک ہوتے دیکھ کر دونوں تنظیموں کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہا تو مولانا ضیاء الرحمن فاروقی نے سپاہ صحابہ کے عسکری حصے کو [[لشکر جھنگوی]] کا نام دے کر لا تعلقی کا اعلان کر دیا، اگرچہ لشکر جھنگوی کے کارکنوں کی گرفتاری کی صورت میں سپاہ صحابہ ہی قانونی اور دیگر امداد مہیا کرتی۔ لشکر جھنگوی کے بانی مولانا ضیاء الرحمن فاروقی جنوری 1997 میں ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے۔<ref>[http://edition.cnn.com/WORLD/9701/18/pakistan.explosion/ CNN – Blast kills at least 26 outside Pakistani courtroom – Jan. 18, 1997<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref> ادھر لاہور پولیس نے آپریشن کر کے سپاہ محمد کا خاتمہ کر دیا<ref name="حوالہ 1" />۔ 90ء کی دہائی میں ہی کراچی میں  سپاہ صحابہ اور جماعت اسلامی کی طرف سے بریلوی مساجد پر قبضے کے خلاف سنی تحریک کے نام سے ایک اور مزاحمتی گروہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ چنانچہ تکفیری علما نے اب بریلویوں پر قاتلانہ حملے کرنے کا آغاز کر دیا۔   بریلویوں پر پہلا نمایاں حملہ 2001ء میں ہوا جب سنی تحریک کے بانی  جناب  سلیم قادری کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔<ref>[[محمد سلیم قادری]]</ref>
 
=== نائن الیون اور خودکش حملوں کا دور ===
سطر 128:
90ء  کی دہائی کے آخر میں افغان طالبان نے القاعدہ کے سربراہ [[اسامہ بن لادن]] کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا جس کی تنظیم نے 1998ء میں [[مشرقی افریقہ]] میں دو امریکی سفارت خانوں پر بم سے حملے کیے تھے اور ایک امریکی  بحری جہاز کو ڈبونے کی کوشش کی تھی<ref>جان آر شمٹ، "گرِہ کھلتی ہے: جہاد کے دور کا پاکستان" ترجمہ: اعزاز باقر
 
<nowiki>http://mashalbooks.org/product/the-unraveling-pakistan-in-the-age-of-jihad/</nowiki></ref>۔اسامہ بن لادن دراصل اپنے ملک [[سعودی عرب]] میں امریکی افواج کی موجودگی کے خلاف تھا مگر اپنے ملک میں سیاسی تحریک چلانے  کے بجا ئے اس قسم  کی  کاروائیوںکارروائیوں  میں ملوث ہو گیا تھا۔کراچی میں مقیم ایک بڑے نام والے دیوبندی عالم [[مفتی نظام الدین شامزئی]] سعودی عرب میں امریکی موجودگی کے خلاف پاکستان میں پورے اخلاص کے ساتھ سرگرم تھے<ref>[http://zahidrashdi.org/1037 مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ | مولانا زاہد الراشدی<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref> ۔11 ستمبر  2001 ء کو القاعدہ نے کچھ مسافر بردار طیارے اغوا کر کے امریکا کے شہر نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی  میں عمارتوں سے ٹکرا دیے۔7 اکتوبر 2001ءکو امریکا نے افغان طالبان پر حملہ کر دیا۔  پاکستان کی حکومت نے القاعدہ کی جنگ اپنے سر لینے کے بجا ئے  امریکا کو راستہ دینے کا فیصلہ کیا۔ مفتی نظام الدین شامزئی  نے  پاکستانی ریاست کے خلاف مسلح جہاد کا فتویٰ جاری کیا<ref>مفتی نظام الدین شامزئی  صاحب کا پاکستانی تاریخ کا رخ موڑنے والا فتویٰ حسب ذیل ہے:۔
أ‌.       تمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہو گیا ہے کیونکہ موجودہ صورت حال میں صرف افغانستان کے آس پاس کے مسلمان امارتِ اسلامی افغانستان کا دفاع نہیں کرسکتے ہیں اور یہودیوں اورامریکہ کا اصل ہدف امارتِ اسلامی افغانستان کو ختم کرنا ہے دارالاسلام کی حفاظت اس صورت میں تمام مسلمانوں کا شرعی فرض ہے۔
ب‌.     جو مسلمان چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو اور کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے وابستہ ہو وہ اگر اس صلیبی جنگ میں افغانستان کےمسلمانوں یا امارتِ اسلامی افغانستان کی اسلامی حکو مت کے خلاف استعمال ہوگا وہ مسلمان نہیں رہے گا۔
ت‌.     الله تعالی کے احکام کے خلاف کوئی بھی مسلمان حکمران اگر حکم دیں اور اپنے ماتحت لوگوں کو اسلامی حکومت ختم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہے ،تو ماتحت لوگوں کے لیے اس طرح کے غیر شرعی احکام مانناجائز نہیں ہے، بلکہ ان احکام کی خلاف ورزی ضروری ہوگی ۔
ث‌.    اسلامی ممالک کے جتنے حکمران اس صلیبی جنگ میں امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں اور اپنی زمین ،وسائل اور معلومات ان کو فراہم کر رہے ہیں، وہ مسلمانوں پر حکمرانی کے حق سے محروم ہو چکے ہیں، تمام مسلمانوں کو چاہئےچاہیے کہ ان حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کر دیں، چاہےاسکے لیے جو بھی طریقہ استعمال کیاجائے ۔
ج‌.      افغانستان کے مسلمان مجاہدین کے ساتھ جانی ومالی اور ہر قسم کی ممکن مدد مسلمانوں پر فرض ہے، لہذا جو مسلمان وہاں جا کر ان کےشانہ بشانہ لڑ سکتے ہیں وہ وہاں جا کر شرکت کر لیں اور جو مسلمان مالی تعاون کرسکتے ہیں وہ مالی تعاون فرمائیں الله تعالی مصیبت کی اس گھڑی میں مسلمانوں کاحامی و ناصر ہو۔
اس فتویٰ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کرکے دوسرے مسلمانوں تک پہنچائیں
سطر 138:
مفتی نظام الدین شامزئی
 
https://sadaehaqq.wordpress.com/2013/11/14/%D9%85%D9%81%D8%AA%DB%8C-%D8%B4%D8%A7%D9%85%D8%B2%D8%A6%DB%8C-%D8%B1%D8%AD%D9%85%DB%81-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D9%81%D8%AA%D9%88%DB%8C%D9%B0-%D8%AC%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D9%86%D8%A7/</ref>۔ مفتی شامزئی دیوبندی مسلمانوں میں بہت بڑا مقام رکھتے تھے اور ان کے فتوے کو پاکستان بھر میں خصوصا [[قبائلی علاقہ جات]] میں جہاں حکومتی رٹ کمزور تھی، بہت پزیرائی ملی۔ افغان طالبان چند دنوں میں امریکا کے  ہاتھوں شکست کھا گئے اور بہت سے طالبان اور القاعدہ کے جنگجو پاکستانی  علاقوں میں آ گئے۔ اس طرح ریاست اور طالبان کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ ادھر 2002ء کے الیکشن میں خیبر پختون خواہ کی صوبائی حکومت اور کراچی کی شہری حکومت [[متحدہ مجلس عمل]] کے ہاتھ میں آ گئی تھی۔ ان حکومتوں نے سرکاری نوکریاں ایسے مذہبی مہم جو افراد کو دیں جو دہشت گردی کی کاروائیوںکارروائیوں میں  طالبان کے سہولت کار بنے۔ اس جنگ کے ماحول میں شیعہ مخالف تنظیموں نے شیعہ کشی میں خودکش دھماکے کا استعمال شروع کیا جس کے نتیجے میں اعداد و شمار کے مطابق 2000ء سے 2017ء  تک تقریباً تین ہزار شیعہ قتل ہوئے جبکہ ہزاروں زخمی اور معذور ہو کر زندہ لاش بن چکے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ کوئٹہ<ref>[https://www.bbc.com/news/world-asia-22248500 'Hell on Earth': Inside Quetta's Hazara community - BBC News<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref> ،کراچی اور ڈیرہ اسماعیل خان<ref>[http://urdu.unnnews.net/columns/%D9%84%DB%81%D9%88%D9%84%DB%81%D9%88-%D8%AF%DB%8C%D8%B1%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%81%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%82%D8%B3%D8%B7/ ’’لہولہو‘‘ دیرہ کی ایک اور کہانی (قسط نمبر4) – UNN News<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref> کے شیعہ ہیں۔ متاثرین کو  مدد کی بجائے شیعہ علما اور مذہبی تنظیموں کی طرف سے  استحصال کی کوششوں  کا سامنا ہے۔
 
مفتی شامزئی صاحب کے فتوے کے بعد پنجاب اور سندھ میں متشدد مدارس نے مسلح ہونے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ کئی مرتبہ [[تبلیغی جماعت]] کے سامان میں چھپایا گیا بارود پھٹ چکا ہے<ref>دھماکے کے بعد امیر صاحب نے میڈیا کو بتایا کہ گیس کا سلنڈر پھٹا ہے۔بعد میں جب زخمی ہسپتال گئے تو ان کے جسم میں بم کے ٹکڑے ملے۔نیز مرنے والوں کی تعداد بھی امیر صاحب کے جھوٹ کی چغلی کھا رہی تھی۔ امیر صاحب کی اسی بات کو لے کر پولیس نے بھی میڈیا کو یہی بتایا تھا کہ سلنڈر پھٹا ہے۔
سطر 144:
https://tribune.com.pk/story/492458/blast-at-swat-tableeghi-markaz-kills-22/</ref><ref>یہ بہت عجیب واقعہ ہے کیوں کہ اس دھماکے کے بعد جب پولیس مرکز میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے تومرکز کی  انتظامیہ اس کو کچھ گھنٹے کے لیے داخل نہیں ہونے دیتی۔بعد کی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ وہ <span title="دھماکا" class="spellError" style="background-color: rgb(255, 145, 145);">دھماکا</span> کسی تبلیغی کے سامان میں موجود بارود کے حادثاتی طور پر پھٹنے کی وجہ سے ہوا تھا۔  کمرے میں سردی کی وجہ سے جب کسی لا علم تبلیغی نے ہیٹر  جلایا تو پاس پڑے سامان میں موجود بارود چل گیا۔تفتیشی اداروں کو آلات کی مدد سے تبلیغی مرکز کی لیٹرین میں بارود بہا دینے کے شواہد بھی ملے۔بارود چھپانے کا کام اس وقت کے دوران کیا گیا جب دھماکے کے بعد پولیس کو مرکز میں داخلے سے روک دیا گیا تھا۔کئی گھنٹوں کی تاخیر کے باوجود تفتیشی اداروں کو اس مرکز سے بارود کے تین کنستر ملے۔ کیا  اس بات میں کوئی شک ہے کہ یہ بارود کسی بازار یا کسی دوسرے فرقے کی مساجد یا سرکاری دفاتر پر حملے کے لیے لے جایا جا رہا تھا؟
 
https://www.dawn.com/news/1080731</ref> جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ قبائلی [[علاقہ جات]] سے پنجاب اور سندھ کے قصبوں میں  بارود اور اسلحے کی منتقلی کا عمل کس تیزی سے جاری ہے؟  عراق اور شام میں شکست کے بعد داعش کی نظریں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر ہیں۔ داعش اگر ایٹمی قوت بن گئی تو کوئی ملک اس پر حملے کی جرات نہیں کرے گا۔
 
== حوالہ جات ==
سطر 150:
{{پاکستان میں مذہب}}
 
[[زمرہ:پاکستان میں شیعیت| ]]