"افسانہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار درستی+صفائی (9.7)
(ٹیگ: تکرار حروف ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 9:
 
=== وحدتِ تاثر ===
افسانہ دوسری طرح کی کہانیوں سے اسی لحاظ سے منفرد اور ممتاز ہے کہ اس میں واضح طور پر کسی ایک چیز کی ترجمانی اور مصوری ہوتی ہے۔ ایک کردار، ایک واقعہ، ایک ذہنی کیفیت، ایک جذبہ، ایک مقصد، مختصر یہ کہ افسانے میں جو کچھ بھی ہو، ایک ہو۔ <sup>[2]</sup> افسانے کی یہ خاصیت کہ یہ اپنے اختتام پر قاری کے ذہن پر واحد تاثر قائم کرتا ہے، وحدتِ تاثر کہلاتی ہے۔
بہ طور مثال ایک افسانہ درج ذیل ہے،
ہـاں!!!میـں لــوٹ آوں گـا
تحریر :عرفان عزیز
03045797014
 
 
صبا اور وقار ایک ہی کالج میں پڑھتے ہیں ۔دونوں دور کے رشتہ دار تھے۔ایک گلی میں رہتے ۔اس لیے دونوں اکھٹے کالج جاتے ۔اور ایک ساتھ رہنا ان کا پیار میں بدل گیا۔ایک دوسرے کو چاہتے۔ان کا پیار بڑھتا بڑھتا ایک چٹان کی مانند ہو گیا جس کا ٹوٹ جانا ممکن نہیں تھا۔اور وہ جب دن وقار نے صبا سے کہاتھاکہ اب ہمارا پیار شادی میں بدلنا چاہیے۔تو صبا نے کہا تھاکہ میری بھی خواہش یہی ہے کہ تیرا میرا جینامرنا ایک ساتھ ہو۔دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کےلیے بے پناہ بے انتہامحبت تھی، پیار تھا۔دونوں تنہا رہنا گوارا نہ کرتے ۔ہمیشہ ہمیشہ ایک ساتھ نبھا نے کا عہد کرتے۔
پھر ایک دن انکے پیار کے اونچے اور سخت ترین پہاڑ پرکاری ضرب لگی۔صبا کالج جانے کو تیار بیٹھی تھی ۔مگر ان کا انتظار لمبا ایسا ہوا کہ عرصہ بیت گیا مگر وقار کی آمد نہ ہوئی۔اس نے فون ملایا مگرآف تھا۔وقار کے گھر والے بھی بےخبری کا شکار تھے۔وقار کی جتنی بھی خبر پھیلی اتنا ہی اس کا رددعمل آیا۔کوئی کہتا اسے اغوا کرکےقتل کر دیا گیا ۔کوئی کہتا اسے دور کہیں لے جاکر زندہ دفن کر دیا گیا۔ محکمہ تفتیش بھی بےخبر تھے۔ صبا وقار کی جدائی میں پرشان رہنے لگی۔ کھانا پینا چھوڑ دیا۔کسی شئے سے دل نہ لگاتی۔ دن بدن وہ کمزور ہونے لگی۔یہاں پڑھی ہو وہی پڑھی رہتی نہ سورج کی تپش سے بے چین ہوتی نہ رات کے اندھیرے سے ڈرتی ۔چلتے چلتے گرجاتی ۔ بےہوش ہوجاتی ۔اور صبا اب سوکھ کو کانٹا بن گئی ۔کئی کئی ماہ ہسپتال کے بیڈ تک محدود رہتی ۔صحت کےلیے خون کی خوراک اس کے جسم میں ڈالی گئی ۔پھر نہ مٹنے والا اور نہ رکنے والا طوفان اب اژدها بن گیا تھا یہ طوفان 2سال تک جاری رہا ۔صبا کے گھر اس خیال سے کہ اسکی منگنی اس کے ماموں زاد انوار سے کر دی تاکہ وقار کا خیال رفو ہوجائے مگر انوار اس کے پاس آتا مگر وہ اس سے باتیں کرنا اچھا نہ جانتی اور کئی بار اسے غصے سے جڑک دیتی اور انوار خاموشی سے دورہٹ جاتا۔صبا کے نرم و ملائم سینے کے اندر جو دل وقار کا گن گاتا وہ کسی اور کا کیسے گیت گاتا۔دل اس کی جدائی میں غمناک تھا ۔دل سے سینے تک کا راستہ رنج و الم سے لبريز تھا۔وہ صبا نے ہر مشکل کو مطیع کرنا سیکھا تھا آج مجبور ہوگئی ۔
اور انوار سے شادی کے دن قریب آگئے مگر صبا میں کوئی فرق نہ پڑا۔
وقارکے گھر تو اسی دن صف ماتم بچھ گیا تھا جب وقار کے اغوا کی بری خبر سنی تھی۔وقار کی ماں کیسے سکون سے جیتی۔ ایک لخت جگر کا پیار ایک سیکنڈ کے سوویں حصے میں بیٹے کی جدائی برداشت نہ ہوتا ۔اور وہ بھی دوسال کا لمبا عرصہ کیسے ۔۔۔۔۔۔۔ آرام ملتا ماں کو
صبا کی شادی کا وہ بھی دن آ گیا ۔جب اسکی رخصتی وقار سے نہیں بلکہ اسکے ماموں زاد انوار سے ہورہی تھی ۔ دلہن صبا کا گھر برقی قمقموں سے روشن تھا ۔صبا کا دل کالی اور اندھیری شب گھٹاتوپ کی طرح بجھا ہوا تھا۔ بارات آگئی مگر اس کا اصل سہاگ وقار نہ آیا ۔سب لوگ ہنس رہے تھے ۔صبا کا دل مغموم تھا۔جب صبا کی رخصتی کے چند لمحے راہ گئے۔دلہن کی سجی کار کی طرف بڑھتے قدم بے سہارا تھے وقار کے بے غیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔صبا کے
متزلزل قدم پلٹ کر اپنی ماں سے لگ کر بے قابو جسم سے ڈھلک گئی جیسے بڑھ کر ایک خاتون نے سنبھالا دیا۔وگرنہ صبا گر کر زخمی ہوجاتی۔ماں ماں ہی ہوتی ہے۔وہ کیسے اپنی بیٹی کے دکھ سہہ سکتی ہے۔وقت کی رفتار بڑھی جارہی تھی اور صبا کے خرگوش کی چال جیسے بڑھتے قدم پرائے گھر کے طرف ۔۔۔۔
کار کا دروازہ کھولا گیا صبا کی ساڑھی ایک نوجوان لڑکی نے درست انداز میں اٹھایا اورایک پیر ابھی اٹھا ہی تھا کہ ایک زار دار آواز نے سب کو اپنی طوف متوجہ کر لیا تھا
.................”””صبا “““......آواز میں اتنی جان ضرور تھی کہ لوگوں دل دھک دھک اٹھے ہونگے۔
صبا نے آواز کو پہچان لیا۔ اس نے گھونگھٹ اٹھایا لوگوں کے بیچوں بیچ آواز کی سمت دیکھا سامنے۔ برسوں کا بچھڑا ساتھی ۔۔۔۔۔۔نامکمل پیار دل کا سہاگ وقار اس حالت میں کھڑا تھا کہ بدن پر کپڑے اس بات کا مطلب سمجھا رہے تھے کہ اسے اچھی طرح پیٹا گیا تھاوہ لڑکھڑاتا ہوا صبا کی جانب بڑھا
اور زبان سے جو لفظ ترتیب پائے ایسے تھے۔وہ کچھ یوں تھے
”صبا تم ۔۔۔۔۔ میرے پیار کو بھولا کر جارہی ہو۔۔۔۔۔۔۔“اس کی زبان لکنت سے دوچار تھی انوار اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا”کیا تم بھول گئی ہو مجھے ۔۔۔۔بولو ۔۔۔ صبا ۔۔۔۔۔۔بتاو ۔۔۔ تم نے کہا ایک ساتھ جینا ھوگا مرنا ھوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاں گیا وہ وعدہ ۔۔۔۔ صبا بتاو۔۔۔۔۔“ صبا خاموشی کا مجسمہ بنی آنسو بہا رہی تھی۔۔۔۔۔کہنے کے لیے کوئی لفظ دستیاب نہیں تھا۔
” صبا ۔۔۔۔۔۔۔بولو ۔ صبا تم میرے ہر حرف ہر لفظ کا جواب دیتی تھی۔۔۔۔۔کیا ہوگیا تمہیں ۔۔۔۔ صبا کوئی لفظ بول دو۔۔۔۔“ اور وقار لڑکھڑا کر صبا گلے لگ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” میں نے کہا تھا کہ میں لوٹ آوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھو صبا۔۔۔۔۔۔
 
== مزید دیکھیے ==