"مقبرہ نور جہاں" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
سطر 2:
 
'''مقبرہ نور جہاں''' (Tomb of Nur Jahan) [[شاہدره باغ]]، [[پنجاب، پاکستان]] میں واقع ایک مقبرہ ہے۔ اسے [[مغل شہنشاہ]] [[نورالدین جہانگیر]] کی ملکہ [[نورجہاں (ملکہ)|نورجہاں]] کے لیے تعمیر کروایا گیا تھا۔
 
مقبرے کی حالت انتہائی تکلیف دہ ہے۔ مقبرے کے گرد باغات کے ایک بڑے حصے پر سرکاری دفاعی ادارے نے ایک باڑ لگا کر اپنے استعمال میں رکھا ہوا ہے۔ تاہم تھوڑے عرصے سے مقبرے کی چاردیواری شروع کی گئی ہے جو مقبرے کی اصل حدود سے کافی اندر ہونے کی وجہ سے مقبرے کا رقبہ بہت کم ہو گیا ہے۔ مقبرے کی مغربی اور شمال سیدھ کی دیواروں پر ستر کی دہائی میں کچھ کام ہوا تھا جبکہ مشرقی اور جنوبی سیدھ کی دیواریں آج روز تک بغیر پتھر کے ہیں۔ عمارت کے وسط میں دونوں قبور کے تعویذ دکھائی دیتے ہیں جن پر سنگ مرمر لگا ہوا ہے۔
 
ان پر اسمائے ربی کندہ ہیں جبکہ لاڈلی بیگم اور نور جہاں کی اصل قبور نیچے تہہ خانے میں ہیں جن کے گرد فرش برابر کردیا گیا ہے اور اس کے اردگرد لوہے کی زنجیریں باندھ کر ان نشانوں کا احترام باقی رکھا گیا ہے جبکہ اوپر والی منزل پر [[حکیم اجمل خان|حکیم حافظ محمد اجمل خان دہلوی]] حاذق الملک بہادر مرحوم کی طرف سے سنگ مر مر کی ایک لوح نصب ہے جس پر یہ تحریر ملتی ہے:
 
۷۸۶
 
تاریخ وفات ملکہ نور جہاں
 
پس از فراق دہ و ھشت شد یک جا
 
رواں مہرالنسا بیگم و ملک بہ جناں
 
بہ یاد بانوئے ہندوستان سروشم گفت
 
سنین ہجرت و تاریخ عیسوی تواماں
 
ہزار و پنجرہ و پنج رفتہ از ہجرت
 
بلے بہ پیش جہانگیر رفتہ نور جہاں
 
حاذق الملک حکیم محمد اجمل خان در 1913ء بمطابق 1430 ہجری
 
ایں لوح دا نصب کرد نہ
 
شاید نور جہاں کو اپنے مقبرے سے ہونے والے سلوک کا علم پہلے سے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے تک نور جہاں کی خود تحریر کردہ لوح بھی نصب تھی جوکہ ہمیں پران نوئل کی یادداشتوں میں یوں ملتی ہے:
 
بر مزار ما غریباں نے چراغ نے گلے
 
نے پر پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے
 
مقبرے کی عمارت میں موجود تہہ خانوں کے باعث زمینی منزل کے چاروں جانب روشن دانوں کے لیے سفید جالیاں نصب کی گئیں تھیں جوکہ اب چونے کی ہیں ۔ مقبرے کی مشرقی جانب چبوترے کے ساتھ نیچے تہہ خانے کو جانے کا رستہ ہے جس پر ایک لوہے کا دروازہ ہے اور عوام الناس کے لیے بند ہے۔ اس دروازے سے نیچے اترنے کے لیے کچھ سیڑھیاں ہیں۔ دائیں جانب ایک سرنگ کا راستہ ہے جو بند کردیا گیا ہے۔ اس سے آگے ایک محرابی گزرگاہ ہے۔ جس سے انسان کو سر جھکا کر گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں پر کسی بھی قسم کی برقی آلات کی سہولت موجود نہیں ۔ خصوصی اجازت سے اندر جانے والے لوگ اپنے ساتھ موم بتیاں لے کر جاتے ہیں ۔ اندر لوہے کی زنجیر کے اندر دونوں قبور کے نشان ہیں۔ نہ کوئی آرائش، نہ کوئی زیبائش بس ایک خاموشی اور چاروں طرف تاریکی ہے۔ اندر جانے والے لوگ کئی لمحوں تک رنج و الم کی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں جب وہ تاریخ کی ایشیا کی طاقتور ملکہ کے مقبرے کی حالت کو دیکھتے ہیں۔ <ref>https://www.express.pk/story/387481/ مدثر بشیر، روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ 30 اگست 2015ء]</ref>
 
 
 
 
{{پنجاب، پاکستان کے ثقافتی ورثہ مقامات}}