"جہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← اس وقت؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 1:
{ڈاکٹر سید بادشاہ میڈیکل سپیشلسٹ سابق امیر جماعت اسلامی [[ضلع مردان]] {نقل چسپاں|date=جون 2017}}
{{مشکوک|date=جون 2017}}
'''جہاد''' سے مراد کسی نیک کام میں انتہائی طاقت و کوشش صرف کرنا اور ہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کرنا ہے۔
 
== جہاد کا لفظی معنی ==
امام [[راغب اصفہانی]] جہاد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 
{{عربی متن | اَلْجِهَادُ والْمُجَاهَدَةُ : اِسْتِرَاغُ الْوُسْعِ فِيْ مُدَافَعَةِ العُدُوِّ. (راغب الصفهانی، المفردات : 101)}}
سطر 48:
=== جرات، شجاعت اور جوش جہاد ===
کوئی فوج خواہ کتنی ہی تربیت یافتہ اور بہترین ہتھیاروں سے لیس کیوں نہ ہو اور اعداد و شمار میں ریت کے ذروں سے بھی بڑھ کر کیوں نہ ہو۔ جب تک اس کے سپاہی جرات اور شجاعت کے وصف سے متصف نہ ہوں گے کامیابی کی بہت کم امید ہے۔ اس کے مقابلے میں گنتی میں کم اور ادنیٰ ہتھیاروں سے لیس فوج کے سپاہی اگر جری اور شجاع ہوں گے تو ان سے کامیابی اور کامرانی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بہادر قومیں عموما بہت ساری خوبیوں کی مالک ہوتی ہیں۔ انہیں اپنے وعدے کا پاس ہوتا ہے۔ وہ مہمان کی قدرومنزلت کو سمجھتی ہیں۔ وہ شرافت اور نجابت کے تقاضوں کو جانتی ہیں۔ وہ بے عزتی، بے ؔ آبروئی اور بے غیرتی کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتی ہیں۔ وہ اگرچہ کینہ توز ہوتی ہیں مگر دشمنی میں بھی شرف کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں اور دشمن کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی قائل نہیں ہوتیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شجاعت اور سخاوت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ بہادر آدمی لازما سخی ہوتا ہے کیونکہ میدان جنگ میں اپنی جان پیش کر دینا بھی سخاوت ہے۔
اگر دو فوجیں برابر کی ہوں اور جنگ کا فیصلہ نہ ہوتا ہو تو اس تعطل کو ختم کرکے فیصلہ کن بات کرنے والی بات جوش کی زبان سے ادا ہوتی ہے۔ اسی طرح جب ایک فوج مسلسل لڑائی کرتے کرتے تھکن سے چور ہو جاتی ہے۔ سپاہیوں کے بازو شل اور حوصلے پست ہو جاتے ہیں تو جوش ہی ایک ایسی چیز ہے جو تھکے ہوئے بازووں کو نئے سرے سے طاقت عطا کرتا ہے۔ افسردہ دلوں میں زندگی کی نئی لہر دوڑا دیتا ہے۔ تھکی ہاری فوج آن کی آن میں سرگرم پیکار ہو جاتی ہے اور ایسا ایک بھر پور حملہ عام طور پر فیصلہ کن ہو تا ہے کیونکہ مخالف فوج بھی اسی طرح تھک کر چور ہو چکی ہوتی ہے۔ بعض اوقات ایسی حالت میں ایک شخص کے جوش و خروش نے جنگ کی کایا پلٹ کر رکھ دی ہے۔ [[جنگ یرموک]] میں ایک بار جب مسیحی مسلمانوں کو دھکیل کر خیموں تک لے آئے تو خیمہ میں بیٹھی ہوئی مسلمان عورتوں نے خیموں کی چوبیں اکھاڑ کر دشمن پر حملہ کر دیا۔ اس واقعہ نے مسلمانوں کو اتنا متاثر کیا کہ وہ جوش و غضب میں دشمن پر ٹوٹ پڑے اور پھر کبھی ان کو اپنے خیموں کے قریب پھٹکنے نہ دیا ۔
تاریخ اسلامی جوش جہاد کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ حضرت [[ابوعبیدہ ابن الجراح]] کے سامنے ایک جنگ میں آپ کا باپ آیا مگر آپ نے پروا نہ کی اور جوش ایمانی میں اپنے باپ کو قتل کر دیا۔ [[جنگ موتہ]] میں جب تین ہزار مسلمانوں نے اپنے آپ کو دشمن کے علاقے میں ایک لاکھ فوج کے مقابل میں دیکھا تو مجلس مشاورت قائم کی کہ آنحضور کو حالات سے آگاہ کیا جائے مگر عبد اللہ ابن رواحہؓ جو ایک آّتش بیان خطیب تھے۔ ایسی تقریر کی کہ سب مقابلے پر آمادہ ہو گئے۔ جنگ بدر کے لیے جب آنحضرت ﷺ مجاہدوں کا انتخاب فرما رہے تھے تو ایک بچے کو دیکھا جو اپنی ایڑیاں اٹھا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ اونچا ہے۔ آپ ﷺنے اسے چھوٹا سمجھ کر نظر انداز کرنا چاہا مگر وہ بضد تھا۔ لہذا آپ ﷺنے اجازت فرما دی۔ اس کے ساتھ ایک اور لڑکا کھڑا تھا۔ آپ ﷺنے اسے اجازت نہ دی تو وہ رونے لگا اور عرض کیا کہ مجھے اس دوسرے لڑکے سے کشتی لڑوایئے۔ جب کشتی ہوئی تو اس نے پہلے لڑکے کو پچھاڑ ڈالا اور اس طرح جہاد میں جانے کی اجازت حاصل کی۔ یہ ہی وہ دونوں لڑکے تھے جنہوں نے ابوجہل کو قتل کیا اور خود شہید ہو گئے ۔
جنگی جوش اگر لڑائی کے وقت اگر شجاعت کی حدوں سے متجاوز ہو جائے تو اسے تہور کا نام دیا جاتا ہے۔ اس حالت میں مجاہد کو قطعا نہ تو اپنے بچاؤ کا خیال ہوتا ہے نہ ہی زخم یا موت کا سوال۔ وہ شدت جوش میں ؔ آگے بڑھتا ہے اور دشمن پر ہر چیز سے بے پروا ہو کر غضبناک شیرنی کی طرح ٹوٹ پڑتا ہے۔ تہور ایک ایسی کیفیت ہے کہ بعض اوقات ان ہونی باتیں بھی ہو جاتی ہیں اور ناممکنات کا دائرہ بھی سمٹ کر ممکنات میں آ جاتا ہے۔ صاحب تہور پر اس وقت ایک وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے اور وہ اس حالت میں وہ کچھ کر گزرتا ہے کہ عام حالت میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خیبر کے جس سنگین دروازے کو تن تنہا ہاتھ ڈال کر اکھاڑا اور اپنے سر کے اوپر سے پیچھے پھینک دیااس کا وزن ایک سو بتیس من تھا اور جسے ؔ آٹھ مضبوط آدمی مل کر بھی اٹھانا تو درکنار زمین سے اچک تک نہ سکے۔ کیپٹن سرور شہید، یونس شہید اور میجر طفیل شہید کے کارنامے تہور کے تحت آتے ہیں۔ میجر عزیز بھٹی شہید کا کارنامہ تہور کے ساتھ استقلال اور استقامت کا ایک نادر الوجود مرقع ہے۔ جواں سال شہید [[راشد منہاس]] کی تہور میں ڈوبی ہوئی بے مثال قربانی اس کی معصومیت کے ساتھ دلوں میں محبت کی کسک پیدا کرتی ہے ۔
تہور کے معنے سخت جوش کے ہیں حتیٰ کہ آدمی ایسی کیفیت میں ہر انجام سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ تاریخ اسلامی ایسی مثالوں سے پر ہے لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا تہور خیبر کے روز مشہور ہے۔ جب حضرت علیؓ قلعے کی طرف بڑھے تو آپؓ نے قلعہ کے دروازے کو ہاتھ ڈالے اور اسے اکھاڑ کر اپنے سر کے اوپر سے پیچھے اچھال دیا۔ اس دروازے کا وزن ایک سو بتیس من تھا۔ آٹھ قوی آدمی اسے زمین سے اچک نہ سکتے تھے۔ پھر خیبر کا مشہور پہلوان مرحب یہ رجز پڑھتا ہوا آپؓ کے مقابل ہوا:۔
قد علمت خیبرانی مرحب
سطر 85:
جہاد اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عوام الناس کو فردا فردا، جتھوں یا تنظیمیوں کی صورت میں جہاد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔
== جہاد کی تلقین ==
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کی سخت تلقین فرمائی ہے۔ کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کرنے کے لیے فرمایا۔ ’’ اے نبی ﷺ! آپﷺ جہاد کیجئے کافروں سے اور منافقوں سے اور ان پر سختی کیجئے، ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہہ ہے ‘‘۔ ( التحریم 9) اور [[اہل کتاب]] کے خلاف جہاد کے لیے فرمایا۔ ’’ اہل کتاب میں سے جو لوگ نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ روز آخرت پر نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام ٹھہرائی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں، اس حال میں کہ وہ زیردست ہو کر رہیں ‘‘۔ ( التوبہ 29) اور عامتہ المسلمین سے فرمایا ہے۔ ’’ اے ایمان والو! اپناتحفظ کرواور پھر دستہ دستہ کوچ کرو یا اکٹھے ہو کر‘‘۔ ( النساء 71 ) اور نبی کریم ﷺ سے فرمایا۔ ’’ اے نبی ﷺ! آپ مسلمانوں کو جہاد کے لیے آمادہ کرتے رہیں، عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے اور اللہ بڑے ہی زور والا ہے اور بڑی سزا دینے والا ہے۔ ( النساء 84 )۔ فرمایا۔ ’’ اے مسلمانو! اگر تم دنیاوی زندگی کی محبت میں محو ہو کر جہاد کے لیے نہ نکلو گے تو اللہ تمہیں ایک دردناک سزا دے گا اور تمہارے بدلے کوئی اور قوم پیدا کر دے گا اور تم اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گے ۔
جہاد اس لیے کیا جاتا ہے کہ کفار کا زور ٹوٹ جائے اور وہ اسلامی ممالک پر چڑھ دوڑنے کی ہمت نہ پائیں۔ کفار خدانخواستہ اگر اسلامی ممالک پرحملہ کرکے غالب آ جائیں توجہاں مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے خاک میں مل جانے کا خدشہ ہے وہاں خود اسلام کو خطرہ لاحق ہے لیکن انسانی طبیعت بالعموم آرام اور عیش کوشی کی طرف راغب رہتی ہے اور جنگ و جدل کی صعوبتوں سے کنارہ کش رہنا چاہتی ہے۔ موت کا خوف بھی دلوں میں جاگزین ہوتا ہے اور اپنی پیاری چیزیں چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا مگر دفاع سے غفلت جہاں ایک طرف آزادی کی نعمت سے محروم کر دیتی ہے وہاں اخلاقی پاکیزگی اور علو ہمتی جیسی صفات سے بھی معرا کر دیتی ہے، اس لیے ہر کمانڈر اور ہر حاکم کایہ فرض ہے کہ وہ عامتہ المسلمین کو جہاد کی ترغیب دیتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو فرمایا ’’ مسلمانوں کو قتال فی سبیل اللہ پر آمادہ کرتے رہی ئے۔ عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے‘‘۔ (النساء 84)
جہاں دوسرے مذاہب نے رہبانیت اور ترکِ دنیا پر زور دیا ہے وہاں اسلام کی ساری تعلیم ایک پاکباز، سپاہیانہ معاشرے میں زندگی گزارنے کے متعلق ہے۔ اسلام کے تمام عقائید اسی روش کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ خود مسلمان قوم کو ایک سرسری نظر سے دیکھنے سے ہی سپاہیانہ صفات اور سپاہیانہ اخلاق مثلا جرات، شجاعت، سخاوت، اولوالعزمی، صبر و رضا، ہمت و برداشت نظرآتے ہیں حتیٰ کہ مسلمان اپنے اس روبہ زوال دور میں بھی جہاں تک کہ ان مندرجہ بالاصفات کاتعلق ہے ،روئے زمین کی ساری قوموں کے درمیان ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ جہاں تک جنگی تربیت کا تعلق ہے، مسلمان کی زندگی کا ہر پہلو ایک تربیت یافتہ سپاہی کی زندگی کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے۔ اسلام کے سارے ارکان اسی فوجی تربیت کے اصول پر جاری و ساری ہیں۔ مسلمان کی روز مرہ کی زندگی اور زمانہ جنگ کی زندگی میں سرمو فرق نہیں۔ مسلمان ایک پیدائشی سپاہی ہے اور تھوڑی سی تربیت اسے دنیا کا بہترین سپاہی بنا دیتی ہے ۔
برائی کو روکنا ہر فرد مومن کا فرض ہے کیونکہ جس قسم میں برائی کو روکنے کا جذبہ مفقود ہوجاتا ہے وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے اور وہ لوگ بھی جو نیک اس قوم میں ہوتے ہیں بدوں کے ساتھ محض اس لیے تباہی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے برائی کے کام اپنی آنکھوں سے دیکھے مگر منع نہ کیا۔ [[بنی اسرائیل]] پر جن وجوہات کی بنا پر لعنت کی گئی، ان میں سے اللہ تعالیٰ نے ایک وجہ قران حکیم میں یہ بھی بتائی ہے کہ وہ برائی کوروکتے نہ تھے۔ بدی کو روکنے کے تین طریقے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے بتائے یعنی ہاتھ سے روکنا، زبان سے روکنا، دل میں برا سمجھنا مگر یہ آخری درجہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ قرار دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ اللہ عام لوگوں پر خاص لوگوں کے عمل کے باعث اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک کہ ان میں یہ عیب پیدا نہ ہو جائے کہ اپنے سامنے برے اعمال ہوتے دیکھیں اور انہیں روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر نہ روکیں۔ جب وہ ایسا کرنے لگتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ عام او ر خاص سب پر عذاب نازل کرتا ہے‘‘۔ ( مسند آحمد) اسی طرح آپ ﷺ نے جابر سلطان کے سامنے حق بات کہنے کو جہاد اکبر فرمایا۔ مسلمانوں کی جنگ نظریاتی جنگ ہوتی ہے وہ نہ تو ہوس ملک گیری کے جذبے سے مغلوب ہو کر جنگ برپا کرتے ہیں نہ ہی اس میں ان کی کسی ذاتی انتقامی جذبے کو دخل ہوتا ہے۔ مسلمان کی جنگ اللہ کی جنگ ہے۔ شیطان کے خلاف رحمان کی جنگ ہے۔ کفر و بے دینی کے خلاف دین و حق کی جنگ ہے۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی جنگ ہے غرض کہ خدا کی زمین پر خدا کی حکومت کے قیام کی جنگ ہے۔ جب کوئی قوم خدا کی زمین پر اس قدر فساد میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ اس کو سبق پڑھانا ضروری ہو جاتا ہے تو ایسی قوم پر اللہ تعالیٰ مسلمان قوم کو مسلط کر دیتا ہے تاکہ مسلمان قوم ظلم کے ان اثرات کوخدا کے نور سے مٹا دے جو اس ظالم قوم نے اپنے فتنہ و فساد سے پھیلا رکھے ہوتے ہیں۔ یہودیوں، مسیحیوں ہندووں وغیرہ پر اللہ نے مسلمانوں کو اسی نظریے کی بنا پر مسلط کیا تھا مگر فرما دیا کہ اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا اوروہ ایسے لوگ ہیں جن کو اگر اللہ زمین پر حکومت دے تو نماز قائم کریں، زکوۃ دیں ،نیک کام کا حکم دیں اور بدی سے روکیں ۔
 
== جہاد کے دوران احتیاطیں ==
جہاد میں مقابلے کے وقت مجاہدین کو قرانی ہدایات کے بارے میں اللہ تعالیٰ قران حکیم میں فرماتے ہیں ۔
’’ اے ایمان والو! جب تمہارا مقابلہ کسی جماعت سے ہو جائے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ فلاح پاؤ اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرتے رہو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ کم ہمت ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرتے رہو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور ان لوگوں کی مثل نہ ہو جاؤ جواپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور دکھلاوے کے لیے نکلے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے تھے حالانکہ ان کے اعمال اللہ کی دسترس سے باہر نہ تھے اور جب شیطان نے ان کے اعمال انہیں خوشنما کرکے دکھائے اور کہا کہ آج کوئی بھی تم پر غالب آنے والا نہیں اور میں تمہارا حامی ہوں، پھر جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو شیطان الٹے پاؤں بھاگا اور کہنے لگا۔ میں تم سے بری الذمہ ہوں۔ میں وہ دیکھ رہا ہوں جوتم نہیں دیکھ سکتے۔ میں تو خدا سے ڈرتا ہوں اور اللہ شدید سزا دیتے ہیں ۔( الانفال 45 تا 48 )۔
’’ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانھم بنیان مرصوص‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ اللہ تو ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں اسی طرح مل کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔( الصف 3 )۔ اللہ تعالیٰ نے اس تشبیہ میں بہت سی باتوں کو یکجا کر دیا ہے۔ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح لڑنے والے سپاہی جن باتوں کا مظاہرہ کر رہے ہوں گے وہ فقط بہادری نہیں بلکہ ڈسپلن، باہمی محبت و موافقت، ایمان اور کئی ایک اور اچھی باتوں کا مظاہرہ بھی کر رہے ہوں گے۔ ترکوں کے متعلق مشہور ہے کہ جب 1914 ء کی [[جنگ عظیم]] میں انہوں نے انگریزی فوج کو [[کوت العمارہ]] کے میدان میں گھیرے میں لیا تو انہوں نے لمبی لمبی زنجیروں سے قطار در قطار اپنے آپ کو جکڑ لیا۔ چھ ماہ کے مسلسل محاصرے کے بعد انگریز جرنیل نے ہتھیار ڈال دیے۔ روداد اس محاصرے کی بڑی خوفناک ہے۔
’’ہاتھ تلوار پربھروسہ اللہ پر‘‘۔ یہ ایک باریک بات ہے مگر اللہ جسے چاہے سمجھا دے ،ہاتھ تلوار پراور بھروسا اللہ پر کے معنی یہ ہیں کہ اللہ پر بھروسا کرنے کے لیے ذرائع سے کلی طور پر قطع نظر کرکے اللہ کو آزمائش میں نہ ڈالنا۔ یعنی جہاں انسان کے لیے ذرائع کا حصول ممکن ہووہاں بھی ان ذرائع کواللہ پر بھروسا کرکے نظر اندار کر دینا۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی آنحضور ﷺکے پاس آیا۔ تو آپ ﷺنے پوچھا۔ اونٹنی کہاں چھوڑی۔ تواس نے کہا۔ اللہ کے بھروسے پر باہر چھوڑ آیا ہوں۔ تو آپ ﷺنے فرمایا۔ پہلے اونٹنی کا گھٹنا باندھ پھر اللہ پر بھروسا کر۔ اس کے مقابلے میں دوسری مثال یہ ہے کہ انسان ذرائع سے بے بس و مجبور ہو اور اللہ پر بھروسا رکھے۔ جس طرح ایک بار آنحضرت ﷺصحرا میں کسی درخت کے سائے میں آرام فرما رہے تھے اور تلوار آپ ﷺنے درخت سے لٹکا رکھی تھی۔ دفعتہ ایک کافر آیا اور آپﷺ کی تلوار قبضے میں کرکے تلوار سونت کرکھڑا ہو گیا۔ آپ ﷺکی آنکھ کھلی تو کافر نے کہا۔ محمدﷺ! اب آپ کو میرے ہاتھ سے بچانے والا کون ہے؟تو آپ ﷺنے بے دریغ فرمایا۔ ’’میرا اللہ ‘‘۔ یہ سن کر کافر پر ایسی دہشت طاری ہوئی۔ کہ تلوار ہاتھ سے گر گئی۔ آپ ﷺنے تلوار اٹھالی اور فرمایا۔ اب تو بتا۔ تجھے میرے ہاتھ سے بچانے والا کون ہے؟۔ کافر فورا ایمان لے آیا۔
رسول اللہ ﷺکے زمانے میں خندق کھودتے تھے۔ آج کل مورچے کھودتے ہیں۔ اصولا خندق اور مورچے میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں حفاظت کے لیے کھودی جاتی ہیں۔ مورچہ کھودتے وقت عموما سپاہیوں میں ایک خاص قسم کا جذبہ نمودار ہوتا ہے۔ جنگ خندق میں جب مدینہ کے گرد خندق کھودی جا رہی تھی تو مہاجرین و انصار خندق کھودتے۔ اپنی پیٹھ پر مٹی لادتے اوریہ کہتے جاتے۔ کہ ’’ ہم وہ ہیں جنہوں نے محمد صلعم سے جہاد اسلامی کی بیعت کی ہے۔ جب تک زندہ ہیں مسلمان رہیں گے ‘‘۔ اور رسول اللہ ﷺان کو جواب دیے جاتے۔ ’’ اے میرے اللہ آخرت کی بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں۔ پس تو مہاجرین اور انصار میں برکت عطا فرما‘‘۔ رسول اللہ ﷺپتھر اٹھاتے جاتے اور فرماتے جاتے۔ لو لا ما اہتدیتنا۔’’ ہدائت اگر نہ کرتا۔ تونہ ملتی ہم کو راہ حق ‘‘۔ جنگ احزاب کے روز رسول اللہ ﷺمٹی اٹھاتے۔ مٹی سے آپ ﷺکے پیٹ کارنگ چھپ گیا تھا اور آپ ﷺ فرماتے جاتے تھے۔ ’’ اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ ہم صدقہ دیتے اورنہ نماز پڑھتے۔ پس تو ہم پر اطمینان نازل فرما اور جب ہم دشمن سے مقابلہ کریں تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ بے شک ان لوگوں نے ہم پر ظلم کیا ہے۔ جب یہ کوئی فساد کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کی بات میں نہیں آتے ‘‘۔
سطر 115:
حتی الوسع اور بغیر شدید جنگی ضرورت کے دشمن کی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ تعمیر بہر حال تخریب سے اچھی ہے۔ ہاں البتہ اگر وہ املاک دشمن کے لیے فخر و غرور یا کفر و ظلم کا باعث ہو رہی ہوں اور یہ فخر و غروراور یہ کفر و ظلم اس شدت کا ہو کہ بغیر ان املاک کے ضائع کیے اس کاٹوٹنا محال ہو تو پھر ان املاک کو ضائع کر دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن ایسا تو فقط نہایت سنگین حالات اور شدید جذبہء دینی ہی کی صورت میں ہو سکتا ہے اور چونکہ اس کا معیار مقرر کرنا مشکل ہے اس لیے آنحضورﷺ نے اور آپ ﷺ کے بعدحضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی مسلمان لشکروں کو دشمن کی املاک کوضائع کرنے سے منع فرمایا اوریہی طریق کار بعد میں آنے والے خلفائے راشدہؓ کے دور میں رہا البتہ ایسی چیزیں جن کو مسلمان خود استعمال نہ کر سکتے ہوں اور یہ ڈر ہو کہ وہ دشمن کے لیے جنگی تقویت کا باعث ہوں گی تو ان کے ضائع کر دینے میں ہرج نہیں۔
جنگ خیبر میں صلح ہو جانے کے بعد جب اسلامی فوج کے بعض نئے رنگروٹ بے قابو ہو گئے اور انہوں نے غارت گری شروع کر دی تو یہودیوں کا سردار رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کرخت لہجہ میں آپ ﷺ کو مخاطب کرکے بولا۔ اے محمد ؑ! کیا تم کو زیبا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کرو ہمارے پھل کھا جاؤ اور ہماری عورتوں کو مارو؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فورا ابن عوفؓ کوحکم دیا کہ لشکر میں اجتمعو اللصلوۃ کی منادی کریں۔ جب تمام اہل لشکر جمع ہو گئے تو حضور ﷺ کھڑ ے ہوئے اور فرمایا۔ ’’ کیا تم میں سے کوئی شخص تخت غرور پر بیٹھا یہ سمجھ رہا ہے کہ اللہ نے سوائے ان چیزوں کے جو قران حکیم میں حرام کی گئی ہیں کوئی اور چیز حرام نہیں کی۔ خدا کی قسم!میں جو کچھ تم کو نصیحت کرتا ہوں اور جو امر و نہی کے احکا م دیتا ہوں وہ بھی قران کی طرح یا اس سے زیادہ ہیں۔ اللہ نے تمہارے لیے یہ جائز نہیں کیا ہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں بلا اجازت گھس جاؤ۔ ان کی عورتوں کو مارو پیٹو اور ان کے پھل کھا جاؤ حالانکہ ان پر جو کچھ واجب تھا وہ تمہیں دے چکے ‘‘۔ ایک دفعہ سفر جہاد میں کچھ لوگوں نے کچھ بکریاں لوٹ لیں اور ان کا گوشت پکا کر کھانا چاہا۔ آپ ﷺکو خبر ہوئی تو دیگچیاں الٹ دیں اور فرمایا۔ ’’لوٹ کھسوٹ کا مال مردار سے بہتر نہیں ‘‘۔
فوجوں کی پیش قدمی کے وقت فصلوں کو خراب کرنا، کھیتوں کو تباہ کرنا، بستیوں میں قتل عام کرنا اور [[آتش زنی]] کرنا، جنگ کے معمولات میں سے ہے مگر اسلام کی رو سے یہ سب کچھ فساد میں شامل ہے اور سختی کے ساتھ اسے ناجائز قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ جب وہ حاکم بنتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور فصلوں اور نسلوں کو تباہ کرے مگراللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ‘‘ ( البقرۃ 25 ) بلکہ اللہ کے رسول ﷺ نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ’’ راستے میں دودھ دینے والے جانور مل جائیں تو ان کا دودھ دوہ کر پینا بھی جائز نہیں تاوقتیکہ ان کے مالکوں سے اجازت نہ لی جائے ‘‘۔ البتہ ضرورت کے وقت اس قدر اجازت دی گئی ہے کہ با آواز بلند تین مرتبہ پکارو تاکہ اگر کوئی مالک ہو تو آ جائے اور جب کوئی نہ آئے تو پی لو۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے شام و عراق کی جانب فوجیں بھیجتے ہوئے جو ہدایات دی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ بستیوں کو ویران نہ کرنا اور فصلوں کو خراب نہ کرنا ۔
اسلام دنیا میں آسودگی، آسانی اور فارغ البالی دیکھنا چاہتا ہے۔ دنیا کوتباہی اور بربادی کی حالت میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ دنیا کی تعمیر بہر حال دنیا کی زبوں حالی سے بہتر ہے۔ اسی اصول کے ماتحت جنگ میں بھی مال و منال اور فصل و نسل کی تباہی سے حتی الوسع گریز و اجتناب کا سبق دیاگیا ہے۔ کوئی بھی مفید چیز اس وقت تک تباہ نہ کی جائے جب تک کہ کسی دینی، اخلاقی، سماجی یا جنگی مصلحت کا تقاضا نہ ہو۔ بنو نضیر کے محاصرے کے دوران بعض مسلمانوں نے کھجور کی ایک ادنی قسم کے درختوں کو اکھیڑنا شروع کیا تو بنو نضیر ( جو ایک یہودی قبیلہ تھا ) نے آنحضور ﷺ کو کہلا بھیجاکہ آپ ﷺ کا مذہب یہ اجازت دیتا ہے کہ درختوں کو کاٹا جائے تو اس پر آنحضور ﷺ اور مسلمان متفکر ہوئے مگر اللہ نے وحی کے ذریعے فرمادیا کہ جو لینہ (معمولی کھجور) کے درخت تم نے کاٹے وہ اللہ کے اذن سے تھا یعنی کاٹنے والوں کے سامنے جنگی مصلحت تھی لیکن اس کے بعد اس عمل کو ممنوع قرار دے دیا گیا ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ اور جن اہل کتاب نے ان (کافروں) کی مدد کی تھی۔ (اللہ نے ) انہیں ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں تمہارا رعب بٹھا دیا پھر بعض کو تم قتل کرنے لگے اور بعض کو قید کر لیا اور تمہیں مالک بنا دیا۔ ان کی زمین کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے مال کا اور اس زمین کا بھی جس پر تم نے اب تک قدم نہیں رکھا ہے اور اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ ( الاحزاب 26۔ 27 ) اہل کتاب سے مراد یہاں یہود بنی قریظہ ہیں جو حوالیء مدینہ میں اپنے بڑے بڑے اور مضبوط قلعوں اور گڑھیوں میں قلعہ بند رہا کرتے تھے اور اس وقت تک مسلمانوں سے معاہدہ کیے ہوئے ان کے حلیف تھے بعد کو عہد شکنی کرکے قتل و اسارت دونوں کے مستحق پائے۔ اللہ تعالی نے یہ جو فرمایا ہے کہ اس زمین کا بھی جس پر تم نے اب تک قدم نہیں رکھا ہے یہ ایک پیشینگوئی ہے جواللہ تعالیٰ نے فرما دی۔ یہ اشارہ ہے قبائل یہود کی ساری زمینوں اور جائیدادوں کی طرف جو بالآخر مسلمانوں کے قبضہ میں آئے اور ان لفظوں کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ قیامت تک جو علاقہ بھی مسلمانوں کے قبضہ میں آئے۔ سب اس میں داخل ہے ۔
سطر 128:
[[زمرہ:مذہبی اصطلاحات]]
[[زمرہ:شریعت اسلامی میں عربی الفاظ اور جملے]]
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]