"بابری مسجد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:خودکار ویکائی
م خودکار: اضافہ زمرہ جات +ترتیب+صفائی (14.9 core): + زمرہ:1529ء میں مکمل ہونے والی مذہبی عمارات
سطر 55:
|materials=
}}
 
'''بابری مسجد''' (یا '''میر باقی مسجد''') جو مغل بادشاہ [[ظہیر الدین محمد بابر]] کے نام سے منسوب ہے، بھارتی ریاست اترپردیش کی بڑی مساجد میں سے ایک تھی۔ اسے مغل سالار [[میر باقی]] نے تعمیر کروایا تھا۔
 
== تعمیری پس منظر ==
{{بابری مسجد تنازع}}
بابری مسجد مغل بادشاہ [[ظہیر الدین محمد بابر]] ( 1483ء - 1531ء) کے حکم سے دربار بابری سے منسلک ایک نامور شخص '''میر باقی''' کے ذریعہ سن [[1527ء]] میں [[اتر پردیش]] کے مقام [[ایودھیا]] میں تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد اسلامی مغل فن تعمیر کے اعتبار سے ایک شاہکار تھی۔ بابری مسجد کے اوپر تین [[گنبد]] تعمیر کیے گئے جن میں درمیانی گنبد بڑا اور اس کے ساتھ دو چھوٹے گنبد تھے۔ گنبد کے علاوہ مسجد کو پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا جس میں صحن بھی شامل تھا۔ صحن میں ایک کنواں بھی کھودا گیا۔ گنبد چھوٹی اینٹوں سے بنا کر اس پر چونا کا پلستر کیا گیا تھا۔ مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کی غرض سے اس کی چھت کو بلند بنایا گیا روشنی اور ہوا کے لیے جالی دار کھڑکیاں نصب تھیں۔ اندرونی تعمیر میں ایک انتہائی خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی اندرونی حصے میں آسانی سے سنا جا سکتا تھا۔ الغرض یہ اسلامی فن تعمیر کا شاہکار تھا۔ بابری مسجد کو [[1992ء]] میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں شہید/مسمار کر دیا گیا۔ [[بھارتیہ جنتا پارٹی]] نے [[ایل کے اڈوانی]] کی قیادت میں سخت گیر تنظیموں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک تحریک چلائی تھی۔ تحریک کے دوران [[6 دسمبر]] [[1992ء]]کو ہزاروں ہندو کارسیوکوں نے [[بی جے پی]] اور وشو ہندو پریشد کے ا علیٰ رہنماؤں اور نیم فوجی دستوں کے سینکڑوں مسلح جوانوں کی موجودگی میں تاریخی مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ جس کے بعد [[دلی|دہلی]] اور [[ممبئی]] سمیت [[بھارت|ہندستان]] میں تقریباً دو ہزار مسلمانوں کو ہندو مسلم فسادات میں مار دیا گیا۔ بابری مسجد کے انہدام سے پہلے ہندو مظاہرے کے منتظمین نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ مسجد کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ اس مظاہرے میں ہندستان بھر سے تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی۔ بابری مسجد ہندووں کے نظریہ کے مطابق رام کی جنم بھومی پر یا رام مندر پر تعمیر کی گئی۔ جب کہ مسلمان اس نظریہ کو مسترد کرتے ہیں۔ بابری مسجد کا تنازع اس وقت بھی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان شدید نزاع کا باعث ہے اور اس کا مقدمہ بھارتی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
 
== انہدام ==
{{اصل|بابری مسجد کا انہدام}}
بعض شر انگیز افراد جن میں آگے چل کر [[وشو ہندو پریشد]] نامی تنظیم بھی شامل ہو گئی تھی، نے ایک پروپگنڈا پھیلایا تھا۔ اس کا حاصل یہ تھا کہ بابری مسجد [[رام]] کی جنم بھومی یعنی جائے پیدائش کو گرا کر تعمیر کی گئی ہے۔
 
[[1949ء]] میں مسجد کو بند کرا دیا گیا۔ اس طرح 40 سال سے زائد عرصے تک یہ مسجد متنازع رہی۔ [[6 دسمبر]] [[1992ء]] کو ان عناصر نے مسجد کو مسمار کر دیا۔<ref>
سطر 72 ⟵ 71:
== بابری مسجد تاریخ کے آئینے میں ==
 
[[فائل:Babri graphic.gif|framepx|تصغیر|بائیں|350px]]1528: ایک ایسے مقام پر مسجد کی تعمیر جو کچھ ہندو تنظیموں کے دعویٰ کے مطابق ’رام‘ کی جائے پیدائش تھی۔
 
1853ء: ایودھیا کے پہلے مذہبی فسادات۔
 
1859ء: برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی جانب سے عبادت کی جگہ کی تقسیم کر دی گئی۔
 
1949ء: مسجد کے اندر سے ’رام‘ کی مورتی کی دریافت۔ حکومت نے متنازع مقام قرار دے کر مسجد بند کروا دی۔
 
1984ء: وشوا ہندو پریشد کی جانب سے ’رام‘ کی جائے پیدائش کو آزاد کروانے کے لیے تحریک کا اعلان۔ بی جے پی کے رہنما [[لال کرشن اڈوانی|لعل کرشن ایڈوانی]] نے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی۔
 
1986ء: ضلعی عدالت کی جانب سے ہندوؤں کو متنازع مقام پر پوجا کی اجازت۔ مسلمانوں کا جانب سے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام۔
 
1989ء: وشوا ہندو پریشد نے مسجد سے ملحقہ زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھ دی۔
 
1990ء: وشوا ہندو پریشد کے حامیوں نے مسجد کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا۔ بھارتی وزیرِاعظم کی جانب سے مسئلے کے حل کی کوشش۔
 
1991ء: ریاست [[اتر پردیش]] میں بی جے پی حکومت کا قیام۔
 
1992ء: وشوا ہندو پریشد کے حامیوں کی جانب سے بابری مسجد کی شہادت۔ ہندو مسلم فسادات، تین ہزار افراد ہلاک۔
 
2001ء: انہدام کے 9 برس مکمل ہونے پر وشوا ہندو پریشد کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کا عزمِ نو۔
 
جنوری 2002ء: وزیرِاعظم [[واجپائی]] کے دفتر میں ’ایودھیا سیل‘ کا قیام۔
 
فروری 2002ء: بی جے پی کی جانب سے انتخابی منشور میں سے رام مندر کی تعمیر کی شق خارج۔ ایودھیا سے واپس آنیوالے ہندوؤں کی ٹرین پر حملہ 58 ہلاک۔ وشوا ہندو پریشد کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کے آغاز کے لیے پندرہ مارچ کی تاریخ کا اعلان۔
 
مارچ2002ء: گجرات مسلم کش فسادات میں دو ہزار افراد ہلاک۔
 
اپریل 2002ء: ایودھیا کے متنازع مقام کی ملکیت کے بارے میں مقدمے کی سماعت کا آغاز۔
 
جنوری 2003ء: ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی جانب سے عدالت کے حکم پر متنازع مقام کے جائزہ کا آغاز۔
 
اگست2003ء: ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی جانب سے مسجد کے نیچے مندر کی موجودگی کے شواہد کا اعلان۔ مسلمانوں کی جانب سے اعتراضات۔
 
ستمبر 2003ء:عدالت کی طرف سے بابری مسجد کے انہدام پر ا کسانے کے الزام میں سات ہندو رہنماؤں پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ۔
 
اکتوبر 2003ء: مسلم تنظیموں کی جانب سے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا مطالبہ۔
 
دسمبر 2003ء: انہدام کی گیارہویں برسی پر حیدرآباد دکن میں فسادات۔ پانچ افراد ہلاک۔
 
جولائی 2004ء: شیوسینا کے رہنما [[بال ٹھاکرے]] کی جانب سے مسئلے کے حل کے لیے متنازع مقام پر قومی یادگار کی تعمیر کی تجویز۔
 
اکتوبر2004ء: لال کرشن ایڈوانی کی جانب سے مندر کی تعمیر کی عزم کا اعادہ۔
 
نومبر 2004ء: الہٰ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے بابری مسجد معاملہ میں لعل کرشن ایڈوانی کو نوٹس۔
 
اکتوبر 2010ء: الٰہ آباد عدالت نے فیصلے میں بابری مسجد کی زیادہ تر زمین ہندوؤں کے دو فریقوں کو دے دی۔ تاہم سابقہ مسجد کی زمین کے ایک تہائی حصے پر مسجد کی بازتعمیر کی گنجائش رکھی۔<ref>
سطر 140 ⟵ 139:
{{حوالہ جات}}
{{بھارت کی مساجد}}
 
{{فیض آباد ڈویژن کے موضوعات}}
 
[[زمرہ:1529ء میں مکمل ہونے والی مذہبی عمارات]]
[[زمرہ:اتر پردیش میں مساجد]]
[[زمرہ:ایودھیا]]
سطر 148:
[[زمرہ:بیسویں صدی میں ہندو مت]]
[[زمرہ:بھارت کی مساجد]]
[[زمرہ:بھارت میں عبادت گاہوں پر حملے]]
[[زمرہ:تباہ شدہ مساجد]]
[[زمرہ:سابقہ مساجد]]
سطر 153 ⟵ 154:
[[زمرہ:مغلیہ طرز تعمیر]]
[[زمرہ:ہندومت کی تاریخ]]
[[زمرہ:بھارت میں عبادت گاہوں پر حملے]]