"حنبلی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 10:
# اقوال صحابہ کا چناؤ
# حدیث مرسل
# ضرورۃًضرورتاً قیاس
=== نصوص ===
''نُصُوص'' نُص کی جمع ہے جس سے مراد قرآن و حدیث سے کوئی دلیل جو نص کی صورت میں ہو۔ نص جب انہیں مل جاتی تو اسی کے مطابق فتویٰ دے دیا کرتے خواہ کسی نے بھی اس کے خلاف کہا ہو۔ حدیث صحیح پر کسی کے قول، عمل، رائے اور قیاس کو مقدم نہیں کیا کرتے تھے۔ نہ ہی اجماع کو وہ حدیث صحیح پر مقدم کرتے تھے۔ امام احمد نے ایسے اجماع کو تسلیم ہی نہیں کیا جو صحیح حدیث کی موجودگی میں اس کے برعکس کیا گیا ہو۔ کسی مسئلے پر اجماع کے دعوے کو بھی تسلیم نہیں کیا کرتے تھے۔ اس لیے کہ جو یہ دعویٰ کر رہا ہے اسے کیا علم کہ علما نے اس سے اختلاف کیا ہو۔ اور یا اس اختلاف کا علم اسے نہ ہوا ہو۔<ref>ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 172</ref>
سطر 21:
 
=== حدیث مرسل ===
کسی مسئلے میں اگر صحیح حدیث نہ ہوتی تو امام احمد [[مرسل (اصطلاح حدیث)|حدیث مرسل]] اور [[ضعیف (اصطلاح حدیث)|حدیث ضعیف]] سے بھی استدلال لیتے۔ ایسی حدیث کو تو وہ قیاس پر بھی ترجیح دے دیا کرتے۔ ضعیف حدیث سے مراد ان کے ہاں کوئی باطل حدیث، یا منکر حدیث، یا اس راوی کی حدیث نہیں جو متہم ہو کہ ایسی حدیث پر عمل ناگزیر ہو بلکہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث، صحیح کی ایک قسم ہی ہے جو حسن کے درجے کی ہے۔ کیونکہ ان کے زمانہ میں حدیث کی دو ہی اقسام ہوا کرتی تھیں صحیح اور ضعیف۔ ضعیف حدیث کے کچھ مراتب تھے۔ جن کی ادنی قسم یہ ضعیف ہوا کرتی تھی جو بعد میں حسن کہلائی۔ جب کسی مسئلہ میں کوئی ایسا اثر نہ پاتے یا کسی صحابی کا کوئی قول نہ ملتا یا کوئی اجماع اس کے خلاف نہ ملتا جو اس ضعیف حدیث کو رد کر سکے تو قیاس کو ترجیح دینے کی بجائے اس پر عمل فرماتے۔ تمام ائمہ کی طرح ان کا بھی یہی اصول تھا کہ ضعیف حدیث کو قیاس پر مقدم رکھا جائے۔<ref>اعلام الموقعین از [[ابن قیم الجوزیہ]] 1/ 32</ref><ref>ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 172</ref>
 
=== ضرورتاً قیاس ===
جب کسی مسئلہ میں ان کے پاس کوئی نُص نہ ہوتی اور نہ ہی قول صحابہ یا صحابی، نہ کوئی اثر مرسل یا ضعیف، پھر آپ پانچویں اصول کی طرف توجہ فرماتے جسے قیاس کہتے ہیں۔ اسے بھی امام احمد نے بوقت ضرورت استعمال کیا ہے۔ [[ابو بکر الخلال]] کی کتاب میں ہے: امام احمد فرماتے ہیں: میں نے [[امام شافعی]] سے قیاس کے بارے میں دریافت کیا: تو انہوں نے فرمایا: ضرورت کے وقت اس کی طرف بھی رخ کیا جا سکتا ہے۔<ref>اعلام الموقعین از [[ابن قیم الجوزیہ]] 1/ 32</ref><ref>ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 172 – 173</ref>
 
== حوالہ جات ==