"حجر اسود" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م 197.38.202.200 (تبادلۂ خیال) کی ترامیم BukhariSaeed کی گذشتہ ترمیم کی جانب واپس پھیر دی گئیں۔
(ٹیگ: استرجع)
حجر اسود نفع و نقصان دیتا ہے ایک روایت میں ہےکہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود سے یہ فرمایا: إني أعلم أنک حجر، لا تضر و لا تنفع. ”بلاشبہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے۔ تو نہ نفع دیتا ہے نہ نقصان۔“ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا: بلیٰ، یا أمیر المومنین ، إنه یضر و ینفع. ” کیوں نہیں ، امیر المومنین ! یہ تو نفع و نقصان دیتا ہے۔“ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ۴۵۷/۱، شعب الإیمان للبیهقي: ۳۷۴۹) موضوع (من گھڑت): یہ جھوٹی روایت ہے۔ ۱: اس کو گھڑنے کا کارنامہ ابو ہار...
(ٹیگ: ایموجی ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 1:
[[فائل:Black stone kaaba.jpg|framepx|تصغیر|بائیں|حجر اسود]]
'''حجر اسود''' [[عربی زبان]] کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ حجر عربی میں پتھر کو کہتے ہیں اور اسود سیاہ اور کالے رنگ کے لیے بولا جاتا ہے۔ حجر اسود وہ سیاہ پتھر ہے جو [[کعبہ]] کے جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے۔ اس وقت یہ تین بڑے اور مختلف شکلوں کے کئی چھوٹے ٹکڑوں پرمشتمل ہے۔ یہ ٹکڑے اندازہً ڈھائی فٹ قطر کے دائرے میں جڑے ہوئے ہیں جن کے گرد چاندی کا گول چکر بنا ہوا ہے۔ جو [[مسلمان]] [[حج]] یا[[عمرہ]] کرنے جاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ [[طواف]] کرتے ہوئے ہر بار حجراسود کو بوسہ دیں۔ اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے بھی بوسہ دیا جاسکتا ہے۔
حجر اسود کے متعلق حدیث🎁
حجر اسود نفع و نقصان دیتا ہے
 
ایک روایت میں ہےکہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود سے یہ فرمایا:
 
إني أعلم أنک حجر، لا تضر و لا تنفع.
”بلاشبہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے۔ تو نہ نفع دیتا ہے نہ نقصان۔“
 
تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا:
 
بلیٰ، یا أمیر المومنین ، إنه یضر و ینفع.
 
” کیوں نہیں ، امیر المومنین ! یہ تو نفع و نقصان دیتا ہے۔“
 
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ۴۵۷/۱، شعب الإیمان للبیهقي: ۳۷۴۹)
 
 
 
موضوع (من گھڑت): یہ جھوٹی روایت ہے۔
 
۱: اس کو گھڑنے کا کارنامہ ابو ہارون عبدی نامی "متروک" و "کذاب" راوی نے سر انجام دیا ہے۔ اس کے بارے میں:
 
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: والأکثر علیٰ تضعیفهٖ أو ترکهٖ.
 
”اکثر محدثین نے اسے ضعیف یا متروک قرار دیا ہے۔“ (میزان الاعتدال: ۱۷۳/۳)
 
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مضعف عند الأئمة.
 
”ائمہ محدثین کے ہاں یہ ضعیف قرار دیا گیا۔“(تفسیر ابن کثیر: ۲۱/۳)
 
== تاریخ ==
اسلامی روایات کے مطابق جب [[حضرت ابراہیم]] اور ان کے بیٹے [[حضرت اسماعیل]] [[خانہ کعبہ]] کی تعمیر کر رہے تھے۔ تو حضرت [[جبرائیل]] نے یہ پتھر [[جنت]] سے لا کر دیا جسے حضرت ابراہیم نے اپنے ہاتھوں سے دیوار کعبہ میں نصب کیا۔ 606ء میں جب رسول اللہ کی عمر35 سال تھی، سیلاب نے کعبے کی عمارت کو سخت نقصان پہنچایا اور قریش نے اس کی دوبارہ تعمیر کی لیکن جب حجر اسود رکھنے کا مسئلہ آیا تو قبائل میں جھگڑا ہو گیا۔ ہر قبیلے کی یہ خواہش تھی کہ یہ سعادت اسے ہی نصیب ہو۔ رسول اللہ نے اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور تمام سرداران قبائل سے کہا کہ وہ چادر کے کونے پکڑ کر اٹھائیں۔ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا اور جب چادر اس مقام پر پہنچی جہاں اس کو رکھا جانا تھا تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کو دیوار کعبہ میں نصب کر دیا۔ سب سے پہلے [[عبداللہ بن زبیر]] نے حجر اسود پر چاندی چڑھوائی۔ 1268ء میں سلطان عبد الحمید نے حجراسود کو سونے میں مڑھ دیا۔ 1281ء میں [[سلطان عبدالعزیز]] نے اسے چاندی سے مڑھوایا۔