"حسین احمد مدنی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ زمرہ جات +ترتیب+صفائی (14.9 core): + زمرہ:احناف
م خودکار: خودکار درستی املا ← ان کی، \1س میں، اس وقت
سطر 94:
علوم کی تکمیل کے بعد آپ نے مدینہ منورہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔
 
[[شوال]] [[1318ھ]] تک آپکا درس امتیازی مگر ابتدائی پیمانے پر رہا۔ 1318ھ میں ہندوستان آئے۔ ماہ [[محرم (مہینہ)|محرم]] [[1320ھ]] واپس دوبارہ مدینہ حاضری ہو گئے۔ اس کے بعد آپکا حلقہ درس بہت وسیع ہو گیا۔ آپکے گرد طلبہ کا جم غفیر جمع ہو گیا۔ اسوقتاس وقت آپکی عمر 24 سال تھی آپکے حلقہ درس میں اس قدر توسیع ہوئی کہ [[مشرق وسطی|مشرق وسطیٰ]]، [[افریقا]]، [[چین]]، [[الجزائر]]، [[مشرقی ہند|مشرق الہند]] تک کے تشنگان علم آپکی طرف کھینچے کھینچے چلے آنے لگے اور آپکے زیر درس و درسیات [[ہندوستان|ہند]] کے علاوہ [[مدینہ منورہ]]، [[مصر]]، [[استنبول]] کی کتابیں رہیں۔
 
=== عرب کے چند ممتاز شاگرد ===
سطر 104:
 
=== درس حدیث کے لیے تکالیف کا تحمل ===
شدید گرمیں دوپہر 12 بجے کا زمانہ ہو چھتری پیش کی جائے تو لینے سے انکار کر دیتے۔ بارش کے زمانہ میں راستہ کیچڑ آلود ہوتا لیکن دارالحدیث کی جانب محو سفر ہوتے۔ ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں چھتری ہوتی۔ کپڑے کیچڑ آلود ہوتے تو سواری پیش کی جاتی تو انکار کردیتے۔ شاگرد تانگے والے کو لے آتے بار بار اصرار کرنے پر ایک دفعہ کہنے لگے کہ کیچڑ سے ہم پیدا ہوئے، اگر اسمیںاس میں جا ملیں تو کیا ڈر ہے۔ ایک مرتبہ طلبہ کے اصرار پر تیار ہو گئے۔ دوسرے دن کہیں دور جانا تھا تو تانگہ والا حاضر ہوا تو اس کے تانگہ پر اسوقتاس وقت سوار ہو گئے جبکہ یہ شرط تسلیم کرالی کہ وہ درس گاہ تک لے جانے کے لیے آئندہ کبھی نہ آئے گا۔<ref name=":0"/>
 
== اہلیہ کی تدفین سے فراغت کے بعد درس بخاری ==
سطر 114:
شیخ الہند [[محمود حسن دیوبندی]] کو [[شریف مکہ]] حسین بن علی نے گرفتار کر کے انگریز کے حوالہ کیا تو ان کے ہمراہ چار [[طالب علم|شاگرد]] و ان کے قابل رشک تحریک کے سرگرم اراکین مولانا حسین احمد مدنی ؒ ، مولانا وحید احمد مدنیؒ ، مولانا عزیزگل پیشاوری ؒ اور سید [[حکیم نصرت حسین مالٹا]] بھی تھے۔ شیخ الہند [[محمود حسن دیوبندی]] نے کہا انگریزی گرنمنٹ نے مجھ کو تو مجرم سمجھا ہے، تم تو بے قصور ہو اپنی رہائی کی کوششیں کرو تو چاروں نے جواب دیا جان تو چلی جائے گی مگر آپکی خدمت سے جدا نہیں ہوں گے۔
 
حسین احمد مدنی جب مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے تو پورا خاندان اور بسا بسایا گھر چھوڑ کر گئے نکلے تھے۔ سفر صرف دو چار دنوں کا تھا مگر تقدیر میں طویل لکھا تھا۔ گرفتار ہوئے مصر کیجانب روانگی ہوئی، سزا ہوئی۔ پھانسی کی خبریں گرم ہوئیں۔ مالٹا کی قید پیش آئی۔ استاد کی قربت اور انکیان کی پدرانہ شفقت نے ہر مشکل آسان اور قابل برداشت بنادی تھی۔ قیدو بند کی سختیاں صبر و شکر کیساتھ جھیل رہے تھے۔
 
ایک دن کئی ہفتوں کی رکی ہوئی ڈاک پہنچی تو ہر خط مین کسی نہ کسی فرد خاندان کی موت کی خبر ملتی۔ اس طرح ایک ہی وقت میں باپ، جواں سال بچی، ہونہار بیٹے، جانثار بیوی، بیمار والدہ اور دو بھائیوں سمیت سات افراد خاندان کی جانکاہ خبر ملی۔ موت بر حق ہے مگر جن حالات میں حسین احمد مدنی کو یہ اطلاعات موصول ہوئیں انہیں برداشت کرنا پہاڑ کے برابر کلیجا چاہیے تھا۔<ref>شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیایک تاریخی و سوانحی مطالعہ، از فرید الوحید</ref>
سطر 127:
 
=== یتیموں کی سرپرستی اور صلہ رحمی ===
مولانا فرید الوحیدی خود راوی ہیں کہ مدنیؒ یتیموں اور بیواؤن کی عموما امداد فرماتے تھے۔ ایسے افراد میری نظر میں ہیں جنہیں بے روزگاری کے دور میں مستقل امداد دیتے رہے۔ ان میں مسلم اور غیر مسلم کی قید نہ تھی۔ جو لوگ مفلوک الحال ہوتے انکیان کی امداد باضابطہ طور پر فرماتے۔ عید کے مواقع پر اگر آبائی وطن ہوتے تو خود رشتہ داروں کے ہاں عید سے پہلے جاتے اور عیدی تقسیم فرماتے۔
 
مولانا مدنیؒ اپنے یتیم بھتیجے کی شادی کے لیے 25،000 پچیس ہزار روپے جیب کی مالیت سے عالی شن گھر تعمیر کروایا۔ بھتیجے کی وفات کے بعد انکیان کی اولاد کا کہنا ہے کہ گرفتاری و قید تک ہمیں احساس بھی نہ ہونے دیا کہ ہم یتیم ہیں۔ غرض یہ کہ اس دور نفسا نفسی میں حقیقی پوتوں کے ساتھ پرخلوص مہرو محبت عنقا ہے۔ بھتیجے اور اس کی اولاد کے ساتھ غیر معمولی مہرو محبت کے برتاؤ کی مثال بھی شاید مشکل سے نظر آئے۔<ref name=":0">شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ، از مولانا عبد القیوم حقانی</ref>
 
=== مستحقین کی خبر گیری ===