"حنبلی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 38:
 
امام ابو حنیفہ کا جہاں تک تعلق ہے، وہ قربِ سلطان اور جاہ و منصب سے بیزار تھے۔ انہیں منصب پیش کیا گیا لیکن انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا، لیکن ان کے تلامذہ نے ان کی زندگی اور وفات کے بعد بھی منصبِ قضا (سرکاری طور پر) قبول کیا۔ امام زفر نے امام ابو حنیفہ کی حیات میں ہی بصرہ کا منصبِ قضا قبول کر لیا۔ امام ابو یوسف اور امام محمد [[ہارون الرشید]] کے دور میں قضا کے منصب پر فائز رہے۔ امام ابو یوسف دولت عباسیہ کے قاضی اول تھے۔ لیکن امام احمد نے کوئی منصب قبول نہیں کیا۔ اس طرح ان کے شاگردوں نے اس وضعداری کو پابندی کے ساتھ نبھایا اور کوئی سرکاری منصب ایک عرصہ تک قبول نہیں کیا۔
=== ابن عقیل کا تبصرہ ===
 
شیخ الاسلام ابو الوفاء علی بن عقیل بغدادی (م 513ھ) سے حنابلہ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ دوسرے فقہی مذاہب والوں کے مقابلہ میں حنبلی علما اپنے مسلک کی ترویج و اشاعت میں کیوں پیچھے رہے۔
شیخ الاسلام ابن عقیل نے جواب میں لکھا کہ:
سطر 45:
 
اس کے بعد ابن عقیل لکھتے ہیں کہ حنبلی مذہب نے خود حنابلہ پر ظلم کیا ہے۔ ابو حنیفہ اور شافعی کے تلامذہ نے قضا وغیرہ کا عہدہ سنبھالا۔ جس کی وجہ سے ان کو علمی مشغلہ اور درس و تدریس کے مواقع ہاتھ نہ آئے، مگر امام احمد کے تلامذہ میں شاید ہی کوئی ایسا ہے، جس نے علم حاصل کر کے عوام اور حکومت کے کاموں میں دلچسپی لی ہو۔ اس لیے ان کا علمی سلسلہ بہت کم جاری رہ سکا۔ اور اس کے علاوہ امام احمد کے تلامذہ کے جوان کے طبقہ پر فقہ کا غلبہ رہا اور مشائخ پر زہد و تقویٰ غالب رہا۔
===متشدد===
 
عوام کے درمیان مذہبِ حنبلی کے عدمِ فروغ و اشاعت کا ایک بہت بڑا سبب یہ بھی ہے کہ امام احمد کو اپنی زندگی میں ان کے اور متبعین کو ان کی وفات کے بعد جس قسم کے حوادث و مصائب سے دو چار ہونا پڑا، اس کے ردِ عمل کے طور پر تعصب پیدا ہو گیا اور انہوں نے نہایت سخت قسم کے تعصب کا مظاہرہ شروع کر دیا۔ تعصب کی یہ فضا امام احمد کے آخری دورِ حیات میں شروع ہو گئی تھی، لیکن ان کی وفات کے بعد تو یہ بہت بڑھ گئی۔
 
بغداد اور عراق میں حضراتِ حنابلہ کے اس تعصب نے بڑی نازک صورت پیدا کر دی۔ مناقشہ اور تنازع کا موضوع ”خلقِ قرآن“ کا مسئلہ تھا۔ حنبلی عوام اس موضوع پر واقفیت کے بغیر جھگڑنا شروع کر دیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جو شخص قرآن کے غیر مخلوق ہونے کا قائل ہو، اس کی بات قبول کر لی، اگر کوئی شخص اس مسئلہ پر تردد کا اظہار کرے، گو تحقیق کی غرض سے کیوں نہ ہو، تو اس کی بات رد اور ناقابلِ قبول۔
=== ابن اثیر کا تبصرہ ===
 
علامہ [[ابن اثیر]] نے بھی مذہبِ حنبلی کے عدم ذیوع و اشاعت کا سبب عوام پر ان کی سختی کو قرار دیا۔ وہ اپنی تاریخ ”الکامل“ میں لکھتے ہیں کہ