"سید احمد خان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل ترمیم از موبائل ایپ اینڈرائیڈ ایپ ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 17:
| school_tradition =[[اسلامی فلسفہ|اسلامی]] اور [[فلسفہ نشاة ثانیہ]]
| main_interests =[[نتائجیت]]، [[ما بعد الطبیعیات]]، [[سادہ زبان کا فلسفہ|زبان]]، [[جمالیات]] اور [[اسلام اور مسیحیت]]
| books =''The Mohammadan Commentary on the Holy Bible''<br />''Reasons for the Indian Revolt of 1857''
| alma_mater =[[یونیورسٹی آف ایڈنبرا]]<br />[[ایسٹ انڈیا کمپنی کالج]]
| institutions =[[برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی]]<br />[[بھارت کی عدلیہ]]<br />[[علی گڑھ مسلم یونیورسٹی]]<br />[[جامعہ پنجاب]]<br />[[گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور]]
| notable_ideas = [[آزاد خیال اور ترقی پسند مسلم تحریکیں|مسلمانوں کا مغربی خیالات قبول کرنا]]
| influences =[[تھامس آرنلڈ]]، [[جان لوک]]، [[تھامس پین]]، [[گوٹ لیئیب ویل ہیلم لیئیٹنر]]
سطر 29:
| website = <!-- {{URL|example.com}} -->
}}
'''سید احمد بن متقی خان''' ([[17 اکتوبر]] [[1817ء]] – [[27 مارچ]] [[1898ء]]) المعروف '''سر سید''' [[انیسویں صدی]] کا ایک [[ہندوستان]]ی [[مسلم]] [[نظریۂ عملیت]] کا حامل <ref name="academia.edu">[http://www.academia.edu/2501127/Enlightenment_and_Islam_Sayyid_Ahmad_Khans_Plea_to_Indian_Muslims_for_Reason Enlightenment and Islam: Sayyid Ahmad Khan's Plea to Indian Muslims for Reason | Dietrich Reetz - Academia.edu<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref>، مصلح <ref name="Glasse, Cyril, (2001)">Glasse, Cyril, ''The New Encyclopedia of Islam''، Altamira Press, (2001)</ref><ref name="Muslim World 2004">''Encyclopedia of Islam and the Muslim World,'' Thompson Gale (2004)</ref> اور [[فلسفہ|فلسفی]] تھا۔ سر سید احمد خان ایک [[نبیل]] گھرانے میں پیدا ہوا جس کے [[مغلیہ سلطنت|مغل دربار]] کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے (اس کے باوجود انگریزوں کیطرف جھکاؤ سمجھ سے بالا ہے)۔ سر سید نے [[قرآن]] اور [[سائنس]] کی تعلیم دربار میں ہی حاصل کی، جس کے بعد [[یونیورسٹی آف ایڈنبرا]] نے انہیں قانون میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔<ref name="irfi.org">{{Cite web|url=http://www.irfi.org/articles/articles_401_450/sir_syed_ahmad_khanman_with_a_g.htm|title=Sir Syed Ahmad Khan-Man with a Great Vision|website=www.irfi.org|access-date=2016-09-13| archiveurl = http://web.archive.org/web/20181225153045/http://www.irfi.org/articles/articles_401_450/sir_syed_ahmad_khanman_with_a_g.htm | archivedate = 25 دسمبر 2018 }}</ref>
 
[[1838ء]] میں اس نے [[برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی|ایسٹ انڈیا کمپنی]] میں ملازمت اختیار کی اور [[1867ء]] وہ چھوٹے مقدمات کے لیے [[جج]] مقرر کیا گیا۔ [[1876ء]] میں وہ ملازمت سے ریٹائرمستعفی ہوا۔ہوئے۔ [[1857ء]] کی [[جنگ آزادی ہند 1857ء|جنگ آزادی]] کے دوران میں وہ [[ایسٹ انڈیا کمپنی]] کا وفادار رہارہے اور یورپیوں کی جانیں بچانے میں اس کے کردار کی [[سلطنت برطانیہ]] کیطرفکی طرف سے ستائش کی گئی۔<ref name="Glasse, Cyril, (2001)" />
[[جنگ آزادی ہند 1857ء|بغاوت]] ختم ہونے کے بعد اسانہوں نے '''اسباب بغاوت ہند''' پر ایک رسالہ لکھا جس میں رعایائے ہندوستان کی رعایا کو اور خاص کر مسلمانوں کو بغاوت کے الزام سے بری کیا۔ اس رسالہ کا فائدہ سلطنت برطانیہ کو ہوا جس نے اس کی بنیاد پر ایسٹ انڈیا کمپنی سے برصغیر کا تمام قبضہ لے لیا اور ہندوستان کے تمام معاملات براہ راست اپنے قبضہ میں لے لیے۔ مسلمانوں کے راسخ الاعتقاد طرز کو ان کے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے سرسید نے مغربی طرز کی سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جدید اسکولوں اور جرائد کا اجرا کیا اپنے کلامی مکتبِ فکر کی بنیاد ڈالی جو [[معتزلہ]] کے افکار کا چربہ تھا مگر اس کے کلامی نظریات مقبول نہ ہو سکے اس لیے صرف سائنسی علوم کی اشاعت تک محدود رہا۔
 
[[1859ء]] میں سر سید نے [[مرادآباد]] میں گلشن اسکول، [[1863ء]] میں [[غازی پور]] میں وکٹوریہ اسکول اور [[1864ء]] میں [[علی گڑھ کی سائنسی سوسائٹی|سائنسی سوسائٹی برائے مسلمانان]] قائم کی۔ [[1875ء]] میں [[محمدن اینگلو اورینٹل کالج]] جو [[جنوبی ایشیا]] میں پہلی مسلم یونیورسٹی بنا۔<ref>{{Cite web|url=http://storyofpakistan.com/sir-syed-ahmad-khan|title=Sir Syed Ahmad Khan {{!}} The greatest Muslim reformer and statesman of the 19th Century.|date=2003-06-01|language=en-US|access-date=2016-09-11| archiveurl = http://web.archive.org/web/20190106061315/https://storyofpakistan.com/sir-syed-ahmad-khan | archivedate = 6 جنوری 2019 }}</ref>
اپنے کردار کے دوران میں سر سید نے بار بار مسلمانوں کو [[سلطنت برطانیہ]] سے وفاداری پر زور دیا اور تمام ہندوستانی مسلمانوں کو [[اردو]] کو بطور [[زبانِ رابطۂ عامہ]] اپنانے کی کوشش کی۔ اس طرح برصغیر کے مسلمان معاشرہ میں فارسی اور عربی کے زوال کا قائد بن گیا اور مسلمانوں کے ہزار سالہ علمی مواد سے ان کا تعلق منقطع کرنے کا سبب بھی۔کی۔۔ وہ اپنی برطانوی وفاداریوں کے سبب [[انڈین نیشنل کانگریس]] کی طرف سے گہری تنقید کا نشانہ بنا۔<ref>{{Cite web|url=https://www.britannica.com/biography/Sayyid-Ahmad-Khan|title=Sir Sayyid Ahmad Khan {{!}} Muslim scholar|access-date=2016-09-11| archiveurl = http://web.archive.org/web/20181225153059/https://www.britannica.com/biography/Sayyid-Ahmad-Khan | archivedate = 25 دسمبر 2018 }}</ref>
 
سر سید کو پاکستان اور بھارتی مسلمانوں میں ایک موثر شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اکثر [[دو قومی نظریہ]] کا بانی تصور کیا جاتا ہے جو تاریخی بددیانتی پر مبنی ہے دوقومی نظریہ کے اصل بانی حضرت [[مجدد الف ثانی]] قدس سرہ ہیںہیں۔ اس کا سہرا سرسید کے سرمنڈھ دینا تاریخی بددیانتی ہے البتہ دوقومی نظریہ ہی وہ نظریہ ہے جو آگے چل کر [[تحریک پاکستان]] کی نظریاتی بنیاد بنا۔ اس نے دیگر مسلم رہنماؤں بشمول [[محمد اقبال]] اور [[محمد علی جناح]] کو بھی متاثر کیا جس کا کوئی ٹھوس علمی ثبوت موجود نہیں ہے بلکہ اثر اور متاثر کی اتنی نسبت ہے جتنی کہ سکندراعظم اور نپولین میں موجود ہوسکتی ہے۔ سر سید کی [[اسلام]] کو سائنس اور جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ بنانے کے لیے عقلیت پسند ([[معتزلہ]]) روایت کی وکالت نے عالمی طور پر اسلامی اصلاح پسندی کو متاثر کیا اور ناقابل تلافی نقصان دیا۔<ref>{{Cite web|url=http://tribune.com.pk/story/504576/why-sir-syed-loses-and-allama-iqbal-wins-in-pakistan/|title=Why Sir Syed loses and Allama Iqbal wins in Pakistan – دی ایکسپریس ٹریبیون|date=2013-02-08|language=en-US|access-date=2016-09-11| archiveurl = http://web.archive.org/web/20181225153046/https://tribune.com.pk/story/504576/why-sir-syed-loses-and-allama-iqbal-wins-in-pakistan/ | archivedate = 25 دسمبر 2018 }}</ref>
[[پاکستان]] میں کئی سرکاری عمارتوں اور جامعات اور تدریسی اداروں کے نام سر سید کے نام پر ہیں۔<ref>{{Cite web|url=http://tribune.com.pk/story/329971/commercialisation-of-sir-syeds-name-court-seeks-input-from-citys-top-managers/|title=‘Commercialisation of Sir Syed's name’: Court seeks input from city's top managers – دی ایکسپریس ٹریبیون|date=2012-02-01|language=en-US|access-date=2016-09-11| archiveurl = http://web.archive.org/web/20181225153050/https://tribune.com.pk/story/329971/commercialisation-of-sir-syeds-name-court-seeks-input-from-citys-top-managers/ | archivedate = 25 دسمبر 2018 }}</ref>
 
== ابتدائی زندگی ==
سطر 47:
[[1857ء]] میں آپ کو ترقی دے کر [[صدر الصدور]] بنا دیا گیا اور آپ کی تعیناتی [[مراد آباد]] کر دی گئی۔ [[1862ء]] میں آپ کا تبادلہ [[غازی پور]] ہو گیا اور [[1867ء]] میں آپ [[بنارس]] میں تعینات ہوئے۔
 
[[1877ء]] میں آپ کو امپریل کونسل کارکن نامزد کیا گیا۔ [[1888ء]] میں آپ کو سر کا خطاب دیا گیا اور [[1889ء]] میں [[انگلستان]] کی یونیورسٹی اڈنبرا نے آپ کو ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔<ref name="irfi.org" />
[[1864ء]] میں [[غازی پور]] میں [[علی گڑھ کی سائنسی سوسائٹی|سائنسی سوسائٹی]] قائم کی۔ [[علی گڑھ]] گئے تو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نکالا۔ [[انگلستان]] سے واپسی پر [[1870ء]] میں رسالہ [[تہذیب الاخلاق]] جاری کیا۔ اس میں [[مضامین سرسید]] نے مسلمانان ہند کے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا اورادب میں [[علی گڑھ تحریک]] کی بنیاد پڑی۔ سرسید کا کارنامہ علی گڑھ کالج ہے۔ [[1887ء]] میں ستر سال کی عمر میں پینش لے لی اوراپنے کالج کی ترقی اور ملکی مفاد کے لیے وقف کریا۔
 
1869ء میں وہ اپنے بیٹے [[سید محمود]] کے ساتھ [[انگلستان]] گئے تو وہاں انھیں دو مشہور رسالوں (Tatler) اور (Spectator) کے مطالعے کا موقع ملا۔ یہ دونوں رسالے اخلاق اور مزاح کے خوبصورت امتزاج سے اصلاح معاشرہ کے علم بردار تھے۔ آپ نے مسلمانوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ ظرافت اور خوش طبعی فطری طور پر شخصیت کا حصہ تھی۔<ref name="Story of Pakistan, Sir Syed">{{cite web|title=Sir Syed Ahmad Khan|url=http://storyofpakistan.com/sir-syed-ahmad-khan/|work=Nazaria-e-Pakistan|publisher=Story of Pakistan, Sir Syed|accessdate=27 Marchمارچ 2014|display-authors=etal| archiveurl = http://web.archive.org/web/20181225153057/https://storyofpakistan.com/sir-syed-ahmad-khan | archivedate = 25 دسمبر 2018 }}</ref>
 
'''سرسید احمد خاں''' [[برصغیر]] میں مسلم نشاتِ ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔<ref name="academia.edu" /><ref name="Muslim World 2004" /> انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انھیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی آپ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔ " سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اس وقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز اُن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ اُن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ اُنکی جائدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان " سائیس ،خانساماں، خدمتگار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے۔ … سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے۔۔۔۔ اور انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُنکو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جِدوجُہد کرتے رہے۔"<ref>نویدِ فکر، سبط حسن</ref>
 
{{اقتباس|جب کبھی عالموں اور مہذب آدمیوں کو دیکھا، جہاں کہیں عمدہ مکانات دیکھے، جب کبھی عمدہ پھول دیکھے ۔۔۔ مجھ کو ہمیشہ اپنا ملک اور اپنی قوم یاد آئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہائے ہماری قوم ایسی کیوں نہیں|سرسید احمد خان}}
سطر 65:
[[1855]] ء میں سرسید نے [[اکبر اعظم]] کے زمانے کی مشہور تصنیف "[[آئین اکبری]]" کی تصحیح کرکے اسے دوبارہ شائع کیا۔ [[مرزا غالب]] نے اس پر [[فارسی]] میں ایک منظوم تقریظ (تعارف) لکھا۔ اس میں انہو ں نے سر سید کو سمجھایا کہ ’’مردہ پرورن مبارک کارِنیست‘‘ یعنی مردہ پرستی اچھا شغل نہیں بلکہ انہیں انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کو مسخرکرکے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے اس پوری تقریظ میں انگریزوں کی ثقافت کی تعریف میں کچھ نہیں کہا بلکہ ان کی سائنسی دریافتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختلف مثالوں سے یہ بتایا ہے کہ یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ غالب نے ایک ایسے پہلو سے مسلمانوں کی رہنمائی کی تھی، جو اگر مسلمان اختیار کرلیتے تو آج دنیا کی عظیم ترین قوتوں میں ان کا شمار ہوتا۔ مگر بدقسمتی سے لوگوں نے شاعری میں ان کے کمالات اور نثر پر ان کے احسانات کو تو لیا ،مگر قومی معاملات میں ان کی رہنمائی کو نظر انداز کر دیا۔
 
[[دہلی]] کے جن نامور لوگوں کی تقریظیں آثارالصنادید کے آخر میں درج ہیں انہوں نے آئینِ اکبری پر بھی نظم یا نثر میں تقریظیں لکھی تھیں مگر آئین کے آخر میں صرف مولانا صہبائی کی تقریظ چھپی ہے۔ مرزا غالب کی تقریظ جو ایک چھوٹی سی فارسی مثنوی ہے وہ کلیاتِ غالب میں موجود ہے مگر آئینِ اکبری میں سرسید نے اس کو قصدا ً نہیں چھپوایا۔ اس تقریظ میں مرزا نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ابوالفضل کی کتاب اس قابل نہ تھی کہ اس کی تصحیح میں اس قدر کوشش کی جائے۔<ref>{{cite web|last1=Faruqi|first1=Shamsur Rahman|title=From Antiquary to Social Revolutionary: Syed Ahmad Khan and the Colonial Experience|url=http://www.columbia.edu/itc/mealac/pritchett/00fwp/srf/srf_sirsayyid.pdf|website=Shamsur Rahman Faruqi, work in English|publisher=Columbia University|accessdate=12 Decemberدسمبر 2015|ref=srf_ss_gh}}</ref>
 
سر سید کہتے تھے کہ :
 
سطر 80:
چوں بخلوت میروند آں کارِ دیگر میکنند
 
سرسید ہنس کے چُپ ہو رہے اور اس طرح وہ رکاوٹ جو کئی برس سے چلی آتی تھی، رفع ہو گئی، میرزا دو ایک دن وہاں ٹھہر کر دلی چلے آئے۔<ref name="hayatejaved" />
 
== تصانیف ==
سطر 107:
رائے شنکر داس نے جب سر سید کی آمادگی بدرجہ غایت دیکھی اور ان کے سمجھانے کا کچھ اثر نہ ہوا تو وہ آبدیدہ ہو کر خاموش ہو رہے۔
 
لارڈ کیننگ نے فرخ آباد میں دربار کیا اور سر سید بھی اس دربار میں بلائے گئے تو وہاں ایک موقع پر مسٹر سسل بیڈن فارن سیکرٹری گورنمنٹ انڈیا سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ سید احمد خان یہی شخص ہے اور اسی نے اسبابِ بغاوت پر وہ مضمون لکھا ہے تو سر سید سے دوسرے روز علیحدهعلیحدہ مل کر اپنی نہایت رنجش ظاہر کی اور بہت دیر تک تلخ گفتگو ہوتی رہی۔ انھوں نے کہا کہ اگر تم گورنمنٹ کی خیر خواہی کے لیے یہ مضمون لکھتے تو ہرگز اس کو چھپوا کر ملک میں شایع نہ کرتے بلکہ صرف گورنمنٹ پر اپنے یا رعایا کے خیالات ظاہر کرتے۔
 
سر سید نے کہا:
سطر 167:
مدرسہ کے لیے انہوں نے بڑے بڑے لمبے سفر کیے۔۔۔ ہزا رہا روپیہ ان سفروں میں ان کا صرف ہوا۔ اگرچہ ان کے دوست اور رفیق بھی، جو ان کے ہمراہ جاتے تھے، اپنا اپنا خرچ اپنی گرہ سے اُٹھاتے تھے لیکن وہ اکثر بدلتے رہتے تھے اور سر سید کا ہر سفر میں ہونا ضروری تھا۔ اس کے سوا ہمیشہ ریزروڈ گاڑیوں میں سفر ہوتا تھا اور جس قدر سواریاں کم ہوتی تھیں اُن کی کمی زیادہ تر سر سید کو پوری کرنی پڑتی تھی۔ ایک بار اُن کے ایک دوست نے اُن سے کہا کہ آپ راجپُوتانہ کا بھی ایک بار دورہ کیجئے۔“ سر سید نے کہا، "روپیہ نہیں ہے۔" اُن کے منہ سے نکلا کہ جب آپ کالج کے واسطے سفر کرتے ہیں تو آپ کا سفرِ خرچ کمیٹی کو دینا چاہیے۔“ سر سید نے کہا:
 
"میں اس بات کو ہرگز گوارا نہیں کر سکتا۔ مدرسہ چلے یا نہ چلے مگر میں اسی حالت میں مدرسہ کے لیے سفر کر سکتا ہوں جب سفر کے کل اخراجات اپنے پاس سے اُٹھا سکوں۔" <ref name="ReferenceA" />
 
=== کالج کا قیام، قومی احساسات کی ترجمانی ===
سطر 178:
انہوں نے صاف کہہ دیا کہ، "ہرگز نہیں۔“
 
اس سے صاف ظاہر ہے کہ سر سید اپنے کام کے شروع ہی میں اس قومی فیلنگ سے بخوبی واقف تھے۔<ref name="ReferenceA" />
 
=== کالج فاؤنڈرز ڈے کی بجائے فاؤنڈیشن ڈے ===
ایک دفعہ کالج کے بعض یورپین پروفیسروں نے یہ تحریک کی کہ یہاں بھی ولایت کے کالجوں کی طرح فاؤنڈرز ڈے (یعنی بانی مدرسہ کی سالگرہ کا دن) بطور ایک خوشی کے دن کے قرار دیا جائے جس میں ہر سال کالج کے ہوا خواہ اور دوست اور طالبعلم جمع ہو کر ایک جگہ کھانا کھایا کریں اور کچھ تماشے تفریح کے طور پر کیے جایا کریں۔ سر سید نے اس کو بھی منظور نہیں کیا اور یہ کہا کہ:
"ہمارے ملک کی حالت انگلستان کی حالت سے بالکل جداگانہ ہے۔ وہاں ایک ایک شخص لاکھوں کروڑوں روپیہ اپنے پاس سے دے کر کالج قائم کر دیتا ہے اور یہاں سِوا اس کے کہ ہزاروں لاکھوں آدمیوں سے کہ چندہ جمع کر کے کالج قائم کیا جائے اور کوئی صُورت ممکن نہیں۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ جو کالج قوم کے روپیہ سے قائم ہو اُس کے کسی خاص بانی کے نام پر ایسی رسم ادا کی جائے، اس لیے میرے نزدیک بجائے فاؤنڈرز ڈے کے فاؤنڈیشن ڈے (کالج کی سالگرہ کا دن) مقرر ہونا چاہیے۔“ چنانچہ اسی تجویز کے موافق کئی سال تک یہ رسم ادا کی گئی۔<ref name="ReferenceA" />
 
=== مدرسہ کے علاوہ دیگر رفاہی کاموں میں کوشش کرنے سے انکار ===
سر سید نے مدرسہ کی خاطر اس بات کو بھی اپنے اُوپر لازم کر لیا تھا کہ کوئی سعی اور کوشش کسی ایسے کام میں صرف نہ کی جائے جو مدرسۃ العلوم سے کچھ علاقہ نہ رکھتا ہو۔۔۔ سر سید کے ایک معزز ہم وطن نے ایک رفاہِ عام کے کام میں ان کو شریک کرنا اور اپنی کمیٹی کا رکن بنانا چاہا۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ:
"میں صلاح و مشورے سے مدد دینے کو آمادہ ہوں لیکن چندہ نہ خود دوں گا اور نہ اوروں سے دلوانے میں کوشش کروں گا، اگر اس شرط پر ممبر بنانا ہو تو مجھ کو ممبری سے کچھ انکار نہیں۔“ <ref name="ReferenceA" />
 
=== قومی بھلائی کے لیے لاٹری کا جواز ===
سطر 192:
 
لطیفہ: جن دنوں میں لاٹری کی تجویز درپیش تھی، دو رئیس سر سید کے پاس آئے اور لاٹری کے ناجائز ہونے کی گفتگو شروع کی۔ سر سید نے کہا:
"جہاں ہم اپنی ذات کے لیے ہزاروں ناجائز کام کرتے ہیں وہاں قوم کی بھلائی کے لیے بھی ایک ناجائز کام سہی۔" <ref name="ReferenceA" />
 
== سائنٹفک سوسائٹی (غازی پور) ==
سطر 206:
| زبان =
}}</ref>
اس سوسائٹی کے جلسوں میں جس میں نئے نئے سائنسی مضامین پر لیکچر ہوتے اور آلات کے ذریعہ تجربے بھی کیے جاتے، کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانیوں کو بتایا جا سکے کہ بنا جدید علوم خاص طور پرسائنس کے میدان میں ترقی نہیں کی جا سکتی اور اسی لیے سائنٹفک سوسائٹی نے جن دو درجن کتابوں کا ترجمہ کرایا ان میں چند کو چھوڑ کر زیادہ تر ریاضی اورسائنس سے متعلق تھیں۔ سر سید احمد خاں کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ یورپ جس راستے پر جا رہا ہے اور جو تعلیم حاصل کر رہا ہے وہی راستا اور تعلیم مستقبل کی ترقی کی گارنٹی ہے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ درسگاہیں کیسی ہیں اور ان کا نظام تعلیم کیا ہے؟ اس لیے وہ خود انگلستان گئے، وہاں کے تعلیمی نظام کو دیکھا، تعلیمی اداروں میں رہے، اساتذہ سے ملاقاتیں کیں اور اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا کہ انگلستان کی ہر چیز نے ان کو متاثر کیا۔<ref name="sirsyed" /> انہوں نے کہا:<ref>{{حوالہ کتاب/متروک
| نام = حیات جاوید
| مصنف = الطاف حسین حالی
سطر 270:
آپ [[انگلستان]] سے [[1870ء]] میں واپس آئے اور [[ہندوستان]] میں انجمن ترقی مسلمانان ہند کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ [[1870ء]] میں آپ نے [[تہذیب الاخلاق|رسالہ تہذیب الاخلاق]] لکھا جس میں آپ نے مسلمانوں کے ان معاشرتی پہلووٕں کی نشان دہی کی جن کی اصلاح کرنا مقصود تھی اور مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے ان پہلووٕں کی فوری اصلاح کریں۔
 
<ref>#
#
* [['''''']]</ref>=== علی گڑھ کالج کا قیام ===
{{اصل مضمون|محمدن اینگلو اورینٹل کالج}}
سطر 347 ⟵ 346:
=== جدید اردو نثر کے بانی ===
 
بقول [[شبلی نعمانی|مولانا شبلی نعمانی]]،<br />
”اردو انشاءپردازی کا جو آج انداز ہے اُس کے جد امجد اور امام سرسید تھے“<br />
سرسید احمد خان، ”اردو نثر “ کے بانی نہ سہی، البتہ ”جدید اُردو نثر“ کا بانی ضرور ہے۔ اس سے پہلے پائی جانی والی نثر میں [[فارسی زبان]] کی حد سے زیادہ آمیزش ہے۔ کسی نے فارسی تراکیب سے نثر کو مزین کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی نے قافیہ بندی کے زور پر نثر کو شاعری سے قریب ترلانے کی جدوجہد کی ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں اردو نثر تکلف اور تصنع کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ سرسید احمد خان پہلے ادیب ہے جس نے اردو نثر کی خوبصورتی پر توجہ دینے کی بجائے مطلب نویسی پر زور دیا ہے۔ اس کی نثر نویسی کا مقصد اپنی علمیت کا رعب جتانا نہیں۔ بلکہ اپنے خیالات و نظریات کو عوام تک پہنچانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا۔ نہایت آسان نثر میں لکھا، تاکہ اسے عوام لوگ سمجھ سکیں اور یوں غالب کی تتبع میں اس نے جدید نثر کی ابتداءکی۔
 
سطر 357 ⟵ 356:
=== مضمون نگاری ===
 
سرسید احمد خان کو اردو مضمون نگاری کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک مغربی نثری صنف Essayکی طر ز پر اردو میں مضمون نگاری شروع کی۔ وہ بیکن، ڈرائڈن، ایڈیشن اور سٹیل جیسے مغربی مضمون نگاروں سے کافی حد تک متاثر تھے۔ انہوں نے بعض انگریزی انشائے ہ نگاروں کے مضامین کو اردو میں منتقل کیا۔ انہوں نے اپنے رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ میں انگریز انشائیہ نگاروں کے اسلوب کو کافی حد تک اپنایا اور دوسروں کو بھی اس طر ز پر لکھنے کی ترغیب دی۔<br />
سید صاحب کے سارے مضامین Essayکی حد میں داخل نہیں ہو سکتے، مگر مضامین کی کافی تعداد ایسی ہے جن کو اس صنف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً تہذیب الاخلاق کے کچھ مضامین تعصب، تعلیم و تربیت، کاہلی، اخلاق، ریا، مخالفت، خوشامد، بحث و تکرار، اپنی مدد آپ، عورتوں کے حقوق، ان سب مضامین میں ان کا اختصار قدر مشترک ہے۔ جو ایک باقاعدہ مضمون کا بنیادی وصف ہے۔
 
=== سرسید کا اسلوب ===
 
اس سے پہلے کہ ہم سرسید کے تصور اسلوب کے بارے میں لکھیں۔ اپنے اسلوب کے بارے میں سرسید کے قول کو نقل کرتے ہیں،<br />
” ہم نے انشائیہ کا ایک ایسا طرز نکالا ہے جس میں ہر بات کو صاف صاف، جیسی کہ دل میں موجود ہو، منشیانہ تکلفات سے بچ کر، راست پیرایہ اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور لوگوں کو بھی تلقین کی ہے۔<br />
دراصل سرسید احمد خان ”ادب برائے ادب“ کے قائل نہیں، بلکہ وہ ادب کو مقصدیت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ وہ کسی خاص طبقہ کے لیے نہیں لکھتے۔ بلکہ اپنی قو م کے سب افراد کے لیے لکھتے ہیں۔ جن کی وہ اصلاح کے خواہاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام سے قریب تر ہونے کے لیے انہوں نے تکلف اور تصنع کا طریقہ اپنانے سے گریز کیا اور سہل نگاری کو اپنا شعار بنایاہے۔ کیونکہ وہ مضمون نگاری میں اپنے دل کی بات دوسروں کے دل تک پہنچانے کے خواہاں ہیں۔ ان کی تحریر کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔
 
=== سادگی ===
 
سرسید احمد کی نثر سادہ، سہل اور آسان ہوتی ہے اور اسے پڑھتے ہوئے قاری کو کوئی الجھن محسوس نہیں کرتا۔ ذیل میں ان کے ایک مضمون ”دنیا بہ امید قائم ہے“ سے ایک اقتباس دیا جار ہا ہے۔ جو سادگی کا خوبصورت نمونہ ہے۔ اس مضمون میں وہ خوشامد کے بارے میں کتنے آسان اور سادہ الفاظ میں بات کر رہے ہیں:<br />
”جبکہ خوشامد کے اچھا لگنے کی بیماری انسان کو لگ جاتی ہے تو اس کے دل میں ایک ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو ہمیشہ زہریلی باتوں کے زہر کو چوس لینے کی خواہش رکھتا ہے۔ جس طرح کہ خوش گلو گانے والے کی راگ اور خوش آئند با جے کی آواز انسان کے دل کو نرم کر دیتی ہے۔ اسی طرح خوشامد بھی انسان کو ایسا پگھلا دیتی ہے کہ ہر ایک کانٹے کے چبھنے کی جگہ اس میں ہو جاتی ہے۔“
 
=== بے تکلفی اور بے ساختگی ===
 
سرسید احمد خان نہایت بے تکلفی سے بات کرنے کے عادی ہیں۔ وہ عام مضمون نگاروں کی طرح بات کو گھما پھرا کر بیان کرنے کے قائل نہیں۔ ان کی تحریریں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان میں آمد ہے آورد نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ فی البدیہہ بات چیت کر رہے ہیں۔ یہ بات ان کی تحاریر میں بے ساختگی کا ثبوت ہے۔ لیکن بعض ناقدین کے خیال میں اس بے ساختگی کی وجہ سے ان کی تحریر کا ادبی حسن کم ہو گیا ہے۔ لیکن اگر یہ بھی تو سوچیے کہ جب آدمی بے ساختہ طور پر باتیں کرتا ہے، تو وہ فقرات اور تراکیب کو مدنظر نہیں رکھتا۔ آپس کی باتیں ادبی محاسن کی حامل ہوں، نہ ہوں ان میں بے ساختگی کا عنصر ضرور شامل ہوتا ہے۔ ویسے بھی سرسید احمد خان کا مقصد خود کو ایک ادیب منوانا نہیں تھا۔ بلکہ تحریروں کے ذریعے اپنی بات دوسروں تک پہنچانا تھا۔ سر سید کی بے ساختگی کا نمونہ دیکھیے، وہ اپنے مضمون” امید کی خوشی “ میں لکھتے ہیں۔<br />
”تیرے ہی سبب سے ہمارے خوابیدہ خیال جاگتے ہیں۔ تیری ہی برکت سے خوشی ،خوشی کے لیے۔ نام آوری، نام آوری کے لیے، بہادری ،بہادری کے لیے، فیاضی، فیاضی کے لیے، محبت، محبت کے لیے، نیکی، نیکی کے لیے تیار ہے۔ انسان کی تمام خوبیاں اور ساری نیکیاں تیری ہی تابع اور تیری ہی فرماں بردار ہیں۔“
 
سطر 382 ⟵ 381:
=== شگفتگی اور ظرافت ===
 
سرسید کی تحاریر میں کافی حد تک شگفتگی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے مضامین میں شگفتگی پیدا کرنے کے لیے کبھی کبھی ظرافت سے بھی کام لیتے ہیں۔ لیکن اس میں پھکڑ پن پیدا نہیں ہونے دیتے۔ اس کے متعلق ڈاکٹر سید عبد اللہ لکھتے ہیں،<br />
”سرسید کی تحریروں میں ظرافت اسی حد تک ہے، جس حد تک ان کی سنجیدگی، متانت اور مقصد کو گوارا ہے۔“<br />
ذیل میں اُن کی ظرافت کی ایک مثال مندرجہ ذیل ہے،<br />
” اس نے کہا کیا عجب ہے کہ میں بھی نہ مروں، کیونکہ خدا اس پر قادر ہے ایک ایسا شخص پیدا کرے، جس کو موت نہ ہو اور مجھ کو امید ہے کہ شاید وہ شخص میں ہوں۔ یہ قول تو ایک ظرافت(ظریف) کا تھا مگر سچ یہ ہے کہ زندگی کی امید ہی موت کا رنج مٹاتی ہے۔“
 
=== متانت اور سنجیدگی ===
 
سرسید کے زیادہ تر مضامین سنجیدہ ہوتے ہیں، وہ چونکہ ادب میں افادیت کے قائل ہیں، اس لیے ہر بات پر سنجیدگی سے غور کرتے اور اسے سنجیدہ انداز ہی سے بیان کرتے ہیں۔ اکثر مقامات پر ان کے مصلحانہ انداز فکر نے ان کی تحریروں میں اس حدتک سنجیدگی پیدا کر دی ہے۔ کہ شگفتگی کا عنصر غائب ہو گیا ہے۔ بقول سید عبد اللہ،<br />
”سرسید کے مقالا ت کی زبان عام فہم ضرور ہے۔ ان کا انداز بیان بھی گفتگو کا انداز بیان ہے مگر سنجیدگی او ر متانت شگفتگی پیدانہیں ہونے دی۔ البتہ ایسے مقامات جن میں ترغیبی عنصر کی کمی ہے۔“
 
=== اثر آفرینی ===
 
سرسید احمد خاں اپنی تحاریر میں اثر پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بات کرنے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے۔ کہ کسی نہ کسی ڈھب سے قاری کے ذہن پر اثر انداز ہوا جائے اور اسے اپنے نظریات کی لپیٹ میں لے لیا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ کئی حربے اختیار کرتے ہیں۔ مذہب اور اخلاقیات کا حربہ اثر آفرینی کے لیے ان کا سب سے بڑا حربہ ہے۔ اس ضمن میں وہ اشارات و کنایات، تشبیہات اور دیگر ادبی حربوں سے بھی کام لیتے ہیں۔ لیکن قدرے کم، بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ،<br />
”اثر و تاثیر کی وجہ تو یہ ہے کہ ان کے خیالات میں خلوص اور سچائی ہے۔ یعنی دل سے بات نکلتی ہے۔ کل پر اثر کرتی ہے۔“
 
=== روانی ===
 
سرسید کا قلم رواں ہے۔ وہ جس موضوع پر لکھتے ہیں، بے تکان لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی بعض تحریریں پڑھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی مشتاق کھلاڑی بلادم لیے بھاگتا ہی چلا جاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر سیدعبداللہ:<br />
”وہ ہر مضمون پر بے تکان اور بے تکلف لکھنے پر قادر تھے چنانچہ انہوں نے تاریخ، فن تعمیر، سیرت، فلسفہ، مذہب، قانون، سیاسیات، تعلیم، اخلاقیات مسائل ملکی، وعظ و تدکیر، سب مضامین میں ان کا رواں قلم یکساں پھرتی اور ہمواری کے ساتھ رواں دواں معلوم ہوتا ہے۔ یہ ان کی قدرت کا کرشمہ ہے۔“
 
=== متنوع اسلوب ===
 
سرسید کانظریہ تھا کہ ہر صنف نثر ایک خاص طرز نگارش کی متقاضی ہے۔ مثلاً تاریخ نگاری، فلسفہ، سوانح عمر ی الگ الگ اسلوب بیان کا تقاضا کرتی ہیں۔ چنانچہ ہر صنف نثر کوسب سے پہلے اپنے صنفی تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔ چنانچہ ہر لکھنے والے صنفی تقاضوں کے مطابق اسلوب اختیارکرنا چاہیے۔<br />
سرسید کے ہاں موضوعات کا تنوع اور رنگارنگی ہے اور سرسید کے اسلوب نگارش کی یہ خوبی اور کمال ہے کہ انہوں نے موضوع کی مناسبت سے اسلوب نگارش اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کو بیان پر اس حد تک قدرت حاصل تھی کہ وہ سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی، ادبی، اخلاقی، ہر قسم کے موضوعات پر لکھتے وقت موضوع جس قسم کے اسلوب بیان کا متقاضی ہوتا اس قسم کا اسلوب اختیار کرتے۔
 
سطر 413 ⟵ 412:
=== پھیکا پن ===
 
سرسید کی تحریریں یقین و اعتماد تو پیدا کرتی ہیں مگر قاری کو محظوظ اور مسرور بہت کم کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مقصد کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ وہ خیالات کے اظہار میں اتنے بے تکلف اور بے ساختہ ہو جاتے ہیں کہ الفاظ کی خوبصورتی، فقروں کی ہم آہنگی کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ وہ کسی پابندی، رکاوٹ اور احتیاط کا لحاظ نہیں کرتے۔ وہ اسلوب اور شوکت الفاظ پر مطلب اور مدعا کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح سرسید کی تحریروں میں حسن کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہی کمی اس کے اسلوب کا خاصہ بھی بن جاتی ہے۔ اور ان کی تحریر ہمہ رنگ خیالات ادا کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ مولانا حالی اُن کے بارے میں لکھتے ہیں،<br />
” کسی شخص کے گھر میں آگ لگی ہو تو وہ لوگوں کو پکارے کہ آؤ اس آگ کو بجھائو۔ اس میں الفاظ کی ترتیب اور فقروں کی ترکیب کا خیال نہیں ہوتا کیونکہ ان کے پاس ایک دعوت تھی، اس دعوت کو دینے کے لیے انہیں جو بھی الفاظ ملے، بیان کر دیے۔“
 
=== مجموعی جائزہ ===
 
جب ہم سرسید کی ادبی کاوشوں کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ خود اپنی ذات میں دبستان نظر آتے ہیں۔ سرسید نے اپنی تصانیف کے ذریعے اپنے زمانے کے مصنفوں اور ادیبوں کو بہت سے خیالات دیے۔ ان کے فکری اور تنقیدی خیالات سے ان کا دور خاصہ متاثر ہوا۔ ان سے ان کے رفقاءہی خاص متاثر نہیں ہوئے۔ بلکہ وہ لوگ بھی متاثر ہوئے جو ان کے دائرے سے باہر بلکہ مخالف تھے۔ خالص ادب اور عام تصانیف دونوں میں زمانے نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اور ادب میں ایک خاص قسم کی معقولیت، نیا پن، ہمہ گیری ایک مقصد اور سنجیدگی پیدا ہو گئی جس کے سبب ادب بیکاروں کا مشغلہ نہ رہا بلکہ ادب برائے زندگی بن گیا۔ اُن کے اپنے رفقاءنے اُن کے اس مشن کو اور بھی آگے بڑھایا۔ [[الطاف حسین حالی|مولانا الطاف حسین حالی]]، [[مولو ی ذکا اللہ]]، [[چراغ علی،]] [[محسن الملک]] اور [[ڈپٹی نذیر احمد|مولوی نذیر احمد]] جیسے لوگوں کی نظریات میں سرسید کی جھلک نمایا ں ہے۔ بقول [[ڈاکٹر سید عبداللہ]]<br />
”سرسید کا ہم عصر ہر ادیب ایک دیو ادب تھا اور کسی نہ کسی رنگ میں سرسید سے متاثر تھا۔“
 
سطر 546 ⟵ 545:
"جو چیز خاک میں مل کر خاک ہو جانے والی ہے، اس کے لیے اس زیادہ اور کیا عزت ہو سکتی ہے دانشمند لوگ اس کو روپیہ دے کر خریدیں اس کے ڈسکشن× سے کوئی علمی نتیجہ نکالیں اور اس کی قیمت کا روپیہ قوم کی تعلیم کے کام آئے دَس ہزار چھوڑ دس روپے بھی اگر اس کی قیمت میں ملیں تو میرے نزدیک مفت ہیں۔"
 
شاید اسی لیے سرسید کی فکر سے متاثر طبقات کو دیسی لوگوں کے سر بیچ کر رقم بٹورنے میں دلچسپی رہی۔<ref name="ReferenceB" />
 
=== قتل کی منصوبہ بندی ===
سطر 556 ⟵ 555:
معلوم نہیں کہ اس مولوی کا یہ بیان صحیح تھا یا غلط (کیونکہ ایسی باتیں بعض اوقات لوگ خود سے تراش تراش کر بھی خوش کرنے کو سناتے ہیں) مگر سرسید نے جو یہ حال سن کر اس کو جواب دیا وہ یہ تھا:
 
افسوس ہے کہ آپ نے اس دیندار مسلمان کو اس ارادہ سے روک دیا اور ہم کو ہمارے بزرگوں کی میراث سے جو ہمیشہ اپنے بھائی مسلمانوں ہی کے ہاتھ سے قتل ہوتے رہے ہیں محروم رکھا <ref name="ReferenceB" />
 
== وفات ==