"سید احمد خان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 553:
[[1891ء]] میں جبکہ سر سید کالج کی طرف سے ایک ڈپوٹیشن لے کر حیدرآباد گئے تھے اور حضور نظام (خلد اللہ ملکہ) کے ہاں بشیر باغ میں مہمان تھے ایک مولوی نے ہمارے سامنے سر سید سے ذکر کیا کہ کلکتہ میں ایک مسلمان تاجر نے آپ کے قتل کا مصمم ارادہ کر لیا تھا اور ایک شخص کو اس کام پر مامور کرنا چاہتا تھا۔ اس بات کی مجھ کو بھی خبر ہوئی چونکہ میں علی گڑھ کی طرف آنے والا تھا اس سے خود جا کر ملا اور اس سے کہا کہ میں علی گڑھ جانے والا ہوں اور میرا ارادہ سید احمد خاں سے ملنے کا ہے۔ جب تک میں ان کے عقائد اور مذہبی خیالات دریافت کر کے آپ کو اطلاع نہ دوں آپ اس ارادہ سے باز رہیں۔ چنانچہ میں علی گڑھ میں آیا اور آپ سے ملا اور بعد دریافتِ حالات کے اس کو لکھ بھیجا کہ سید احمد خاں میں کوئی بات میں نے اسلام کے خلاف نہیں پائی۔ تم کو چاہیے کہ اپنے منصوبے سے توبہ کرو اور اپنے خیال خام سے نادم ہو۔"
 
معلوم نہیں کہ اس مولوی کا یہ بیان صحیح تھا یا غلط (کیونکہ ایسی باتیں بعض اوقات لوگ خود سے تراش تراش کر بھی خوش کرنے کو سناتے ہیں) مگر سرسید نے جو یہ حال سن کر اس کو جواب دیا وہ یہ تھا:
 
افسوس ہے کہ آپ نے اس دیندار مسلمان کو اس ارادہ سے روک دیا اور ہم کو ہمارے بزرگوں کی میراث سے جو ہمیشہ اپنے بھائی مسلمانوں ہی کے ہاتھ سے قتل ہوتے رہے ہیں محروم رکھا <ref name="ReferenceB" />